محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍فروری 2009ء میں محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کا ذکرخیر مکرم احسان علی سندھی صاحب (معلّم وقف جدید) کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید

مضمون نگار لکھتے ہیں کہ میری ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات 1998ء میں ہوئی۔ مَیں احمدی نہیں تھا اور محترم ڈاکٹر صاحب ہمارے علاقہ کی غریب آبادی کی خاطر مفت طبّی کیمپ لگانے وہاں آئے تھے۔ وہ دن وہاں کے لوگوں کے لئے عید کا دن تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بے شمار مریضوں کو دیکھا اور زیادہ بیمار مریضوں کے گھر بھی گئے اور مفت دواؤں کے علاوہ نقد رقم سے بھی امداد کی۔ آپ نے ایک MBBS ڈاکٹر کو وہاں مستقل بھجواکر کلینک جاری کرنے کا وعدہ بھی کیا جو جلد ہی پورا بھی کردیا۔ آپ کی ہمدردیٔ خلق پر ہزاروں غیرازجماعت گواہ ہیں جو آپ کی شہادت پر بے ساختہ کہتے کہ اب ہم یتیم ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے میری دوسری ملاقات 2000ء میں ہوئی جب مَیں احمدی ہوچکا تھا اور اپنی والدہ کے علاج کے لئے آپ کے پاس گیا تھا۔ آپ نے میری والدہ سے پوچھا کہ اُن کے کتنے بیٹے ہیں؟ اُن کا جواب تھا: آٹھ۔ آپ کہنے لگے: مَیں آپ کا نواں بیٹا ہوں۔ آپ کے اس فقرہ نے ہمیں اپنا گرویدہ بنالیا۔ خاندان کا کوئی بھی فرد کسی بھی وقت آپ سے ملنے چلا جاتا۔ میری والدہ کو آپ بھی امّاں کہا کرتے۔ ایک بار میری والدہ کا اپنے ہسپتال میں علاج کیا۔ اُن کے فارغ ہونے پر مَیں نے کاؤنٹر پر سارے بِل ادا کردیئے۔ جب ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوا تو آپ نے ساری رقم مجھے واپس کروائی۔
میرا رشتہ طے کروانے میں آپ نے بہت مدد کی۔ مَیں ولیمہ کی دعوت دینے گیا تو کہا کہ ساری مجلس عاملہ کے لئے رات کے کھانے کا انتظام کروں۔ آپ سب کے ہمراہ وہاں تشریف لائے۔ پہلے نماز پڑھائی پھر مجلس عاملہ کی میٹنگ کی اور کھانے کے بعد مجھے ایک طرف لے جاکر آپ نے بیس ہزار روپے حضور انور کی طرف سے اور کچھ ہزار اپنی طرف سے تحفۃً دیئے۔
شہادت سے چند دن پہلے خود کہہ کر امّاں کوبلوایا اور اُن سے کہنے لگے کہ اب آپ نے میرے لئے بہت ہی زیادہ دعا کرنی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں