مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب 1911ء میں سیالکوٹ کے گاؤں دولت پور میں حضرت قریشی غلام محی الدین صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ تعلیمی زندگی کا آغاز پسرور سے کیا اور انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد 1932ء میں ریلوے ہائی سکول سکھر میں ایک معلم کی حیثیت سے متعین ہوئے اور یہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ پنجاب آنا چاہتے تھے لیکن حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ کے ارشاد پر سکھر میں ہی قیام کیا۔ اڑتالیس سال تک مختلف دینی خدمات پر مامور رہے۔ شہادت کے وقت آپ سکھر اور شکارپور کے اضلاع کی جماعتوں کے امیر تھے۔ آپ نہایت مخلص، ہمدرد، عبادت گزار اور فنا فی اللہ احمدی تھے۔ آپ کا اکثر وقت مسجد میں ہی گزرتا تھا۔
یکم مئی 1984ء کو آپ مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد اپنے گھر واپس آ رہے تھے کہ راستے میں چُھپے ہوئے چھ حملہ آوروں نے آپ پر برچھیوں اور خنجروں سے حملہ کردیا۔ ایک حملہ آور نے بائیں طرف سے آپ پر تین وار کیے جن میں سے ایک آپ کے پیٹ پر لگا اور انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ زخمی حالت میں آپ گھر کی طرف چلے تو دوسرے حملہ آور نے بلّم نما ہتھیار سے پیٹھ پر آٹھ اور بائیں کنپٹی پر ایک وار کیا۔ شور سن کر گھر کی مستورات باہر نکلیں توابھی آپ زندہ تھے۔آپ نے سختی سے ان کوواپس جانے کی ہدایت کی۔ قاتلوں کے بھاگ جانے کے بعد آپ کے اہل خانہ آپ کو گھر لے آئے۔ آپ کی بہو نے پانی پلایا لیکن پانی ابھی حلق سے نیچے نہیں اترا تھا کہ آپ زخموں کی تاب نہ لاکر اپنے حقیقی مولا سے جاملے۔ قریشی صاحب شہید کے قتل کا مقدمہ تو درج ہوا مگر پولیس نے کسی قاتل کو گرفتار نہیں کیا۔
شہید مرحوم کے پسماندگان میں چھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ آپ کے دو بیٹوں مکرم قریشی ناصر احمد صاحب .M.A پروفیسر گورنمنٹ کالج سکھر اور مکرم قریشی رفیع احمد صاحب کو اسیر راہ مولا رہنے کی سعادت ملی۔ ایک بیٹے مکرم قریشی مبارک احمد صاحب مربی سلسلہ تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں