مکرم چودھری عبدالقدیر صاحب نمبردار

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 24؍ستمبر 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍مئی 2013ء میں مکرم چودھری عبدالقدیر صاحب نمبر دار چک نمبر 38جنوبی ضلع سرگودھا کا ذکرخیر مکرم چودھری محمد ابراہیم صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

چودھری محمد ابراہیم صاحب

مکرم چودھری عبدالقدیر صاحب نے قریباً95سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ غوث گڑھ ریاست پٹیالہ کے حضرت چودھری نور محمد صاحب نمبردارؓ کے بیٹے اور مکرم چودھری بشیراحمد صاحب سفید پوش کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ بہت بہادر اور دلیر انسان تھے۔ 1938ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے غوث گڑھ تشریف لے جاکر تین نوجوانوں کو فرقان فورس میں بھرتی کے لیے منتخب کیا تھا جن میں بیس سالہ عبدالقدیر صاحب بھی شامل تھے۔
غوث گڑھ کی جماعت حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحبؓ کے ذریعے قائم ہوئی تھی اور یہاں اکثریت احمدیوں کی تھی۔ قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو وہاں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ہندوستان کی ریاستوں کا بٹوارہ نہیں ہوگا۔ غوث گڑھ چونکہ ریاست پٹیالہ میں واقع تھا اس لیے افواہ سُن کر قریبی علاقوں کے لوگ بھی غوث گڑھ میں جمع ہونے لگے۔ تاہم صورتحال واضح نہیں تھی چنانچہ مکرم چودھری عبدالقدیر صاحب حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر غوث گڑھ کے قریبی گاؤں سیریاں چلے گئے۔ وہاں علم ہوا کہ پٹیالہ کے سکھ اہلکار اگلے ہی روز غوث گڑھ پر حملہ کرنے والے تھے اور اُن کا ارادہ تھا کہ وہاں پر کسی مسلمان کو بھی زندہ نہ چھوڑا جائے۔ سیریاں میں آپ کو سکھوں نے پکڑ کر مارنا شروع کیا۔ کسی نے ان کے پیٹ میں برچھا مارا تو خون کا ایک فوارہ نکلا مگر آپ نے اپنے اوسان خطا نہیں کیے۔اپنا کپڑا کَس کے زخم پر باندھا اور اپنے گاؤں کی طرف دوڑ لگا دی۔تقریباً2میل کا فاصلہ طے کرکے آپ غوث گڑھ کے چوک میں پہنچ کر گرگئے لیکن وہاں موجود لوگوں کو اطلاع کردی کہ گاؤں خالی کرکے بیس میل کے فاصلے پر قائم لودھیانہ کیمپ میں چلے جائیں۔ آپ کا زخم بہت گہرا تھا اور علاج کی صورت نہ تھی لیکن اس دوران حضرت حکیم عبدالرحمان شاہ صاحبؓ نے غوث گڑھ میں واقع اپنے مطب سے 2جوانوں کو بھیج کر مطلوبہ دوائیں منگوائیں اور دعا کے ساتھ علاج شروع کردیا۔ سفر کے تکلیف دہ حالات اور دواؤں کی عدم دستیابی کے باوجود خدا کا فضل ہوا اور چند دنوں میں عبدالقدیر صاحب کو مکمل شفا ہوگئی۔
پھر معجزہ یہ ظاہر ہوا کہ اسی رات کو گاؤں میں موجود سارے مسلمان کیمپ کی طرف روانہ تو ہوگئے لیکن برسات کا موسم، کچے راستے اور رات کے اندھیرے میں گاؤں سے صرف 2میل کے فاصلے پر پڑاؤ ڈالنے پر مجبور ہوگئے تاکہ دن کی روشنی میں آگے روانہ ہوجائیں۔ لیکن سورج نکلتے ہی سکھوں کی گارد اسلحہ سے لیس ہو کر غوث گڑھ پہنچ گئی اور گاؤں کو خالی دیکھ کر وہاں کے چماروں سے پوچھا کہ یہ لوگ کس طرف گئے ہیں؟ مگر کسی نے ان کو نہیں بتایا۔ اس پر انہوں نے ایک چمار بنام آتمارام پر دباؤ ڈالا تو اُس نے کہا کہ ہم نے ساری عمر اُن کے گھروں کا نمک کھایا ہے ہم بےوفائی نہیں کرسکتے۔ اس پر اُسے بہت زدوکوب کیا گیا۔ اس پر ایک اَور چمار نے کمال ہوشیاری سے اُن کو مخالف سمت میں ڈال دیا۔ چنانچہ کافی وقت ضائع کرنے کے بعد جب ان کو صحیح صورت حال کا علم ہواتو قافلہ ان کی دست بُرد سے باہر ہوگیا تھا۔ خداتعالیٰ نے تمام احمدیوں کی غیرمعمولی حفاظت کی۔
مجھے غوث گڑھ میں اپنا بچپن یاد ہے جب حضرت حکیم عبدالرحمان شاہ صاحب کی اقتدا میں مسجد میں نہایت گریہ و زاری سے نمازیں ادا کی جاتیں اور دعائیں ہوتیں۔ ان دعاؤں کی قبولیت ہی کا نتیجہ تھا جو دشمن کے نہایت خطرناک عزائم کے باوجود وہاں کے کسی فرد کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ ہجرت کے بعد سیدنا حضرت مصلح موعودؓکی شفقت تھی کہ ہماری جماعت کے لاہور پہنچنے پر حضورؓ نے ہمیں احمدنگر ضلع جھنگ میں آباد ہونے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ ہم اکتوبر 1947ء کو احمدنگر میں آباد ہوئے جبکہ ربوہ کی بنیاد 20ستمبر 1948ء کو رکھی گئی۔ اس طرح محض حضور کی شفقت کی وجہ سے ہمیں خلافت اور مرکز احمدیت کا قرب نصیب ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں