میجر جنرل اختر حسین ملک کو کمانڈ سے ہٹانے کی وجوہات

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 17دسمبر 2021ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 5؍اپریل 2013ء میں مکرم رفیع رضا قریشی صاحب کا مرسلہ ایک اقتباس شائع ہوا ہے جو معروف محقّق و ادیب جناب قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامہ‘‘ سے منقول ہے۔ شہاب صاحب رقمطراز ہیں:
’’کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ (1965ء کی) یہ جنگ قادیانیوں کی سازش کا نتیجہ ہے اسی لیے فوج کے ایک نہایت قابل قادیانی افسر میجر جنرل اختر حسین ملک نے مقبوضہ کشمیر پر تسلّط قائم کرنے کے لیے ایک پلان تیار کیا جس کا کوڈ ’’جبرالٹر‘‘ تھا۔ صاحبانِ اقتدار کے کئی افراد نے ان کی مدد کی جن میں مسٹر ایم۔ ایم۔ احمد سرفہرست بتائے جاتے ہیں جو خود بھی قادیانی تھے اور عہدے میں بھی پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ہونے کی حیثیت سے صدر ایوب کے نہایت قریب تھے۔ جنرل اختر ملک نے اپنے پلان کے مطابق کارروائی شروع کی اور اکھنور کو فتح کرنے کے قریب ہی تھے کہ فوج میں جنرل موسیٰ سمیت کئی اَور جرنیل بھی تشویش میں پڑگئے کہ اگر اختر ملک کی مہم کامیاب ہوگئی تو وہ ایک فوجی ہیرو کی حیثیت سے ابھریں گے۔ صدر ایوب سمیت غالباً باقی بہت سے فوجی اور غیرفوجی صاحبانِ اقتدار یہ نہیں چاہتے تھے کہ میجر جنرل اختر ملک اس جنگ کے ہیرو بن کر ابھریں اور فوج کے اگلے کمانڈر انچیف کے عہدے کے حقدار بن سکیں۔ کیونکہ یہ عہدہ صدر ایوب نے ذہنی طور پر پہلے ہی سے جنرل یحییٰ خاں کے لیے محفوظ کررکھا تھا۔ چنانچہ عین اس وقت جب میجر جنرل اختر حسین ملک انتہائی کامیابی سے چھمب اکھنور سیکٹر پر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، انہیں معاً اُن کی کمانڈ سے ہٹادیا گیا اور ان کی جگہ جنرل یحییٰ خاں کو یہ کمانڈ سونپ دی گئی۔ غالباً اس لیے کہ وہ پاکستانی فوج کو اکھنور فتح کرنے کی کوشش سے باز رکھ سکیں۔ یہ فریضہ انہوں نے نہایت کامیابی سے سرانجام دیا۔‘‘ (صفحہ930)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں