چند ابتدائی نقوشِ زندگی

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری و فروری 2024ء)

اقبال احمد نجم صاحب

میری پیدائش 29؍ اپریل 1944ء کو قادیان میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری والدہ سلیمہ بانو صاحبہ کو اُوپر تلے تین بچے عطا فرمادیے۔ مَیں سب سے بڑا تھا۔جب مَیں پیدا ہوا تو میری خالہ جان مجھے لپیٹ کر حضرت مصلح موعودؓ کے ہاں لے گئیں۔ حضورؓ نماز ظہر پڑھانے کے لیے گھر سے باہر آئے تو مجھے پیش کردیا کہ اس کا نام رکھ دیں۔ حضور پُرنورؓ نے میرا نام امینہ بیگم رکھ دیا۔ خالہ گھر آئیں تو سب نے کہا کہ واپس جاؤ یہ تو لڑکا ہے۔ وہ مجھے لے کر واپس آئیں تو حضورؓ نماز پڑھاکر واپس آرہے تھے۔ جب حقیقت حال بتاکر درخواست کی گئی تو آپؓ مسرور ہوئے اور میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا، دُعا دی اور نام اقبال احمد رکھ دیا۔ بعد میں بہن ہوئی تو اس کا نام امینہ رکھ دیا گیا۔ ہماری والدہ نے بہت ایثار کرتے ہوئے مجھے اپنی بہن کی گودمیں یہ کہتے ہوئے ڈال دیا کہ اسے اپنا بیٹا بنالو، اللہ تعالیٰ نے اس طرح سے میر ے لیے ایسی بہترین تربیت گاہ کا انتظام فرما دیا جہاں دو صاحب ِ رؤیاو کشوف بزرگ تھے۔


خالو جان محکمہ ریونیو کے تحت پٹواری بھرتی ہوگئے اور خالہ نے لالہ موسیٰ میں ہوسٹل میں رہ کر جے وی کا کورس کرنا شروع کردیا۔ نانی جان گھر کے کام کاج کی انچارج تھیں۔ ایک بھینس رکھ لی گئی۔ صبح کو چھاچھ بلوئی جاتی اور ڈیوڑھی میں ایک لمبی لائن لسّی لینے والیوں کی لگ جاتی۔ آپ فراخ دلی سے ان میں ایک چاٹی لسی کی روزانہ تقسیم کرتیں اور بعض مستحقین کو مکھن بھی دیتیں۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ اس مشکل وقت میں یہ ان کے لیے بڑا سہاراہے۔ پہلی بقر عید آئی تو خالو جان نے پانچ روپے کا بکرا خریدا۔ صبح شام خاکسار اور نانا جان اسے ساتھ لے کرنکلتے، سیر بھی ہوجاتی، وہ چر بھی لیتا اور نانا جان ادویہ کے لیے جڑی بوٹیاں بھی توڑ لیتے۔ سیر کا معمول عید کے بعد بھی جاری رہا۔ پھر نانا جان نے مچھلی پکڑنے کے لیے سوٹیوں پر کانٹے باندھ کر انہیں تیار کیا اور اکثر مچھلی پکڑنے کا پروگرام بھی بننے لگا۔ موسم گرما کی رخصتوں میں والد صاحب اور والدہ صاحبہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ آتیں تو پھر ابا جان کے ساتھ شکار کا پروگرام بن جاتا، روزانہ ہی کسی طرف کو نکل جاتے تھے۔ بھیرہ میں بکثرت صحابہ اور صحابیات اس وقت موجود تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے گھر میں جو آپ نے مسجد کے لیے دے دیا تھا بوجہ غیراحمدیوں کے اپنی مسجد میں نماز نہ پڑھنے دینے کے وہاں ہم جمعہ اور دیگر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔
بڑا روحانی ماحول تھا۔ نانی جان کو سب ’وڈیّ آپا جی‘ کہتے تھے۔ وہ صبح شام قرآن کریم بچوں کو پڑھایا کرتی تھیں اور بچوں بچیوں کا ہر وقت ایک جمگھٹا سا لگا رہتا تھا۔ میرا زیادہ وقت اپنے نانا اور نانی کے ساتھ ہی گزرا کرتا تھا۔ مجھے وہ نماز یاد کراتی تھیں اور سونے سے قبل ایک کہانی ضرور سنایا کرتی تھیں جو آنحضرتﷺ، دیگر انبیاء علیہم السلام یا حضرت مسیح موعودؑ یا خلفاء کرام کے واقعات پر مبنی ہوتی تھی۔ سیرکے دوران نانا جان حضرت مسیح موعودؑ کی باتیں اور ایمان افروز واقعات سنایا کرتے تھے۔ ہر ماہ ایک آدھ بار خالو جان کے ساتھ خالہ جان کو ملنے کے لیے لالہ موسیٰ بھی جایا کرتا تھا۔
اس زمانے میں ہندوؤں کے مکان اور زمینوں کی الاٹمنٹ کے لیے رشوتیں عام لی جاتی تھیں۔ محکمہ ریونیو کے کام میں بھی تحصیلدار صاحب چاہتے تھے کہ یہ کام ہو۔ میرے خالو جان نے صاف کہہ دیا تھا کہ مَیں مسلمان ہوں یہ کام میں نہیں کروں گا۔ وہ کہتا تھا کہ ہمارا حصہ ہمیں دو اور اپنا حصہ ہم سے لو۔ آپ یہ Give and Takeحرام سمجھتے تھے بلکہ انہیں سمجھاتے تھے کہ یہ غریب مہاجرین لٹے پٹے ہیں اُن سے کچھ لینا تو ظلم ہے مگر آخر خالو جان کو اپنے کام سے ہاتھ دھونے پڑے۔ احمدیت کی وجہ سے آپ کو کافر قرار دے کر فارغ کردیا گیا۔ ان دنوں پٹواریوں کی پنشن بھی نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور یہ خبر سنائی کہ مجھے تحصیلدار نے فارغ کردیا ہے۔ خالہ جان فکرمند ہوئیں لیکن آپ نے تسلی دی اور اللہ تعالیٰ پر اپنے توکّل کا اظہار کیا اور کہا کہ رازق اللہ تعالیٰ ہے۔ اُس نے آگے کب چھوڑا ہے جو اب چھوڑ دے گا۔ اسی دن کی ڈاک میں خالہ جان کے نام سرگودھا کے انسپکٹر آف سکول کا ایک خط تھا۔ جس میں اُن کی تقرری تھی اور لکھا تھا کہ قصبہ میانی میں لڑکیوں کا سکول بند پڑا ہے، وہ جاکر کھول دو۔ چنانچہ خدا تعالیٰ پر توکّل کا ایک عظیم واقعہ میرے دیکھنے میں اس وقت آیا جب میں ابھی بچہ ہی تھا۔ ایک در دنیا والوں نے بند کیا تو اللہ نے دوسرا در کھول دیا۔ پھر ہم بھیرہ چلے آئے اور میانی کا سکول بھی جاری ہوگیا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھیرہ میں آمد

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ بھیرہ میں ایک مطب اورمکان بنوارہے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے احترام میں آپؓ قادیان کے ہوکر رہ گئے۔ تب مطب کی عمارت میونسپلٹی کا پرائمری سکول بن گیا جس میں مَیں پہلی جماعت میں داخل ہوگیا۔ ایک دن اساتذہ نے باہر کھیتوں سے لمبے لمبے سرکنڈے توڑ کر لانے کو کہا جن سے اُونچے اُونچے کمروں میں لگے ہوئے جالے صاف کرنے تھے۔ یہ کام تو ہم نے کیا مگر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کون آرہا ہے۔ گھرآکر معلوم ہوا کہ حضرت مصلح موعود ؓ تشریف لارہے ہیں۔ ایک مسّرت کی لہر تھی جو سب کے چہروں پر نظرآرہی تھی لیکن میں نے یہ بھی سنا کہ ہمارے مخالفین خصوصاً احرار اس جدوجہد میں ہیں کہ حضورؓ کسی طرح بھیرہ میں نہ آسکیں او رفساد اور خون خرابہ ہوجائے۔ چنانچہ احرار نے روکیں پیدا کیں اور جلسے جلوس نکالنے شروع کردیے۔ جماعت کے بزرگ حضورؓ کی حفاظت کے لیے سخت انتظامات کرنے پر مجبور ہوگئے۔ حضورؓ راستہ بدل کر شہر میں تلواروں کے سایہ میں داخل ہوئے اور پہلے چھوٹی مسجد میں آپ نے اُس کمرہ میں نوافل ادا کیے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی پیدائش ہوئی تھی۔ پھر آپ نے یادگاری پتھر نصب کیا۔ پھر آپ بڑی مسجد میں تشریف لے گئے جو کہ محلہ پراچہ میں واقع ہے۔ آپؓ نے وہاں جمعہ کاخطبہ دیا اور نماز پڑھائی۔ خطبہ میں آپؓ نے یہ بھی فرمایا کہ مَیں اس شہر کا داماد ہوں۔ جب داماد گھر آتا ہے تو کیا گھر والے ایسا سلوک کرتے ہیں جیسا کہ بھیرہ والوں نے کیا ہے۔ کئی سال بعد اس مسجد میں مجھے بھی بطور مربّی کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت یہاں مربی ہائوس نہیں ہوتا تھا اور مربی کو مسجد میں ہی قیام کرنا ہوتا تھا۔

ہماری بھیرہ سے میانی میں منتقلی

میرے خالو جان کو تحصیلدار نے معطل کردیا تھااور خالہ جان کو میانی میں گرلز سکول کھولنے کاحکم مل چکا تھا۔ جہاں تک مکان اور زرعی زمین کا تعلق تھا وہ خالو جان نے مستقل الاٹ نہ کرائے اور چھوڑ دیے اور یہ کہہ کرچلے آئے کہ میرے باپ نے تو مجھے عاق کردیا تھا لہٰذا ہندوستان میں میرا کچھ نہیں تھا جس کے بدلہ میں مَیں انہیں مستقل الاٹ کراؤں۔ میانی کو لُون میانی کہا جاتا ہے۔ یعنی نمک میانی کھیوڑا کی نمک کی کان سے کشتیوں کے ذریعہ یہاں نمک لایاجاتا تھا اور یہاں نیلام ہوکر تمام برصغیر میں پھیل جایا کرتا تھا۔ یہاں اونچی ماڑیاں ہندو سیٹھوں کی ہیں جو نمک کا کاروبار کرتے تھے۔ یہاں کی جماعت میانی گھوگھیاٹ کی جماعت کہلاتی تھی۔ میانی میں چھ گھر احمدیوں کے تھے اور گھوگھیاٹ کا نصف سے زائد گاؤں احمدی تھا اور دریائے جہلم کے کنارے پر یہ گاؤں واقع ہے۔ بھیرہ کی طرح اور یہاں ہم جمعہ کی نماز کے لیے جایا کرتے تھے۔
اوّل اوّل ہم گرلز سکول کے ایک بڑے سے کمرے میں مقیم ہوئے۔ خالو جان جماعت کے سیکرٹری مال ہوگئے اور تادم آخر یہی خدمت بجا لاتے رہے۔ نانا جان نے ایک دکان کرایہ پر لی اور حکمت کی دکان کھول لی۔ ہماری احمدیت کی وجہ سے شدید مخالفت ہوئی۔ بعض لوگوں نے جو مخالف تھے یہ پراپیگنڈہ کیا کہ یہ استانی ہماری بچیوں کے دین کوخراب کرتی ہے اور یہ میر محمد خلیل الرحمن ہزاروں روپیہ ہر ماہ ربوہ بھیج کر احمدیت کو مضبوط کرتا ہے۔ ہم لوگ 1951ء میں میانی آئے تھے۔ 1953ء کی احرار موومنٹ میں ہماری شدید مخالفت ہوئی تھی۔ اس دور میں سکول کے سامنے ایک منشی جی بڑے مکان میں رہتے تھے۔ یہ اکیلے تھے اور بعد میں پوسٹ ماسٹر ہوگئے تھے۔ انہیں سانس کی تکلیف تھی اور نانا جان کی دوائی سے انہیں فائدہ ہوتا تھا۔ انہوں نے ہمیں کہا کہ شہر میں بہت مخالفت ہے آپ لوگ میرے مکان میں دوسری منزل میں آجائیں، یہاں پر آپ سکول کی رہائش کی نسبت کسی قدر محفوظ ہوں گے۔ چنانچہ وہ اور نانا جان نیچے کی منزل میں اور باقی اوپر کی منزل میں سکونت پذیر ہوگئے اور سکول کی رہائش چھوڑ دی۔ اس مکان کے دوسری طرف غلہ منڈی تھی جس میں تمام اطراف کے گاؤں سے سبزی لاکر نیلام کی جاتی تھی اور پھر یہ سبزی دوکانوں میں پہنچ کر فروخت ہوتی تھی۔
میں بھی خالہ کے سکول میں داخل ہوگیا اور ایک سال میں دو جماعتیں بھی پاس کیں اور پانچ جماعتیں میں نے وہاں ہی پڑھیں اور اس کے بعد ہائی سکول میں داخلہ کروایا گیا جہاں میں نے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی۔
احرار کے طرف سے جماعت احمدیہ کی مخالفت زوروں پر تھی اور میری حفاظت کے پیش نظر خالو جان سکول جو شہر سے کافی باہر تھا مجھے چھوڑ کر آتے اور لے کر آتے تھے۔ ایک دن غلہ منڈی میں احرار نے ایک بہت بڑا جلسہ کیا اور اس میں اعلان کیا کہ سب سے پہلے خلیل الرحمن کو ختم کرنا ہے لاؤڈ سپیکر پر یہ اعلان ہوا۔ خالوجان چھت سے ان کا جلسہ سن رہے تھے آکر کہا کہ مرنے کے لیے تیار ہوجاؤ اور کفن باندھ لو۔پھر میری طرف دیکھا اور کہا ٹھہرو اور وضؤ کرکے مصلیٰ پر کھڑے ہوگئے۔ دو نفل ادا کرنے کے بعد اٹھے۔آپ کا چہرہ شدت جذبات سے سُرخ تھا۔ کہنے لگے گھبرائو نہیں اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے گا۔ جلوس شہر میں داخل ہوا تو ہمارا گھر پہلی ہی گلی میں تھا اور ہم بالکل نزدیک تھے۔ مگر جلوس گزرتا چلا گیا ہم سب حیران ہوئے کہ یہ کیا ہوا ان شریروں کا ارادہ کیسے تبدیل ہوگیا۔ خالو جان نے اوپر سے نیچے دیکھا تو تھڑے پر ایک مسلح سپاہی کو کھڑے پایا۔ آپ حیران ہوئے کہ تھانیدار تو احرار کے ساتھ ملا ہوا ہے اور ہمارا مخالف ہے۔ ابھی چند دن پہلے اس نے بلاکر وارننگ بھی دی تھی کہ اگر آپ لوگوں کا نقصان ہوگیا تو ہم ذمہ دار نہ ہوں گے۔ اور کہا تھا کہ احمدیت سے باز آجاؤ۔ اور خالو جان کہہ اُٹھے تھے کہ ہمارا محافظ اللہ تعالیٰ ہے احمدیت کو چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مخالف جو چاہے کریں۔
آپ پریہ کھلا کہ یہ خدا تعالیٰ کا فرشتہ تھا جو سپاہی کے لباس میں متمکن تھا۔ جونہی جلوس ہمارے گھر کو چھوڑ کر آگے نکل گیا معاً وہ فرشتہ غائب ہوگیا۔ نانا جان اور خالو جان سر پر پگڑ باندھ کر ہاتھوں میں لاٹھیاں لے کر شہر میں نڈر پھرتے تھے اور نانی جان انہیں احتیاط کے لیے کہتی رہتی تھیں۔ یہ وہ جذبہ تھا جو سچائی کے پرستاروں میں پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی جان کو ہتھیلی پر لے کر پھرتے ہیں اور صرف خداتعالیٰ کا خوف ان کے دل میں ہوتا ہے۔ غیراللہ کا کوئی خوف اُن کو مرعوب نہیں کرسکتا۔ ان بزرگوں کی تہجد کی ادائیگی کا بھی عجیب رنگ تھا۔ نانا جان کو نیچے کمرہ رہنے کے لیے ملا ہوا تھا۔ آدھی رات کے بعد ان کی مناجات دعاؤں، تڑپ اور گریہ وزاری کی آواز اُوپر تک آرہی ہوتی تھی۔ اور آپ کا کمرہ گونج رہا ہوتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فرمودہ حمد و مناجات پر مشتمل درثمین کے سبھی اشعار دعائیہ رنگ میں پڑھ جاتے تھے۔ ہر بزرگ اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے رنگ میں راز و نیاز ، عجز و مناجات اور دعائوں میں لگا ہوتا تھا۔ جہاں پر عبادات کا یہ رنگ تھا جہاں پر راتوں کے تیر چلتے تھے اور عشق کی تانیں عرش تک پہنچ جایا کرتی تھیں جہاں فرشتے بھی حفاظت پر مامور کردیے جایا کرتے تھے۔بھلا دشمن ان لوگوں کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔ کاش دنیا اس حقیقت کو جان لے اور اس انقلاب کو پہچان لے جو حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے پرستاروں میں پیدا کردیا تھا۔

میر خلیل الرحمن صاحب

جب میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا تو ابا جان نے چاہا کہ میں ان کے پاس رہ کر شہر میں تعلیم حاصل کروں۔ چنانچہ وہ مجھے راولپنڈی لے آئے جہاں وہ ملٹری اکاؤنٹنٹ تھے۔ اور میں ہائی سکول میں داخل ہوگیا۔ سائیکل کے پیچھے بٹھاکر ابا جان مجھے سکول چھوڑتے ہوئے اپنے دفتر کی طرف نکل جایا کرتے تھے اور واپسی میں میں خود آیا کرتا تھا۔ تقریباً دو سال میں وہاں رہا۔ احمدیہ مسجد گھر کے قریب ہی تھی۔ پھر ابا جان کو ربوہ مرکز سلسلہ بھیج کر ہمیں سب بہن بھائیوں کو تعلیم دلانے کی تحریک ہوئی تو ہم سب ربوہ آگئے۔


ابا جان کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ اکثر اپنے دوستوں کو کھانے پر بلایا کرتے تھے اور مربیان سلسلہ کو بھی بلایا کرتے تھے۔ اور اچھی علمی اور تبلیغی مجالس جمتی تھیں۔ ہمارے گھر کے صحن میں چند سایہ دار اور ایک پھلدار انجیر کا درخت تھا۔ ان درختوں کے سایہ میں ہم سب بہن بھائیوں کی دوپہر گزرا کرتی تھی اور ہم سب مل کر کھیلا کرتے تھے۔ امی جان نے چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں سبزیاں لگائی ہوئی تھیں اور بیلوں والی سبزیاں درختوں پر چڑھ جایا کرتی تھیں۔
مسجد احمدیہ نور راولپنڈی شروع میں ایک گھر تھا اور مری روڈ پتلی سی سڑک ہوتی تھی۔ جمعہ کے لیے سڑک کے کنارے پر شامیانے قناتیں لگائی جاتی تھیں اور جب مرکز سلسلہ سے علماء سلسلہ آتے تھے تو تب بھی اس طرح جلسے ہوتے تھے۔ پھر باقاعدہ یہاں مسجد تعمیر ہوگئی اور ایک عیدگاہ سیٹیلائیٹ ٹائون میں بھی لی گئی تھی جہاں بعد میں بطور مربّی مَیں متعیّن رہا اور جمعہ کی نماز شروع کرائی۔ پھر وہاں غیراحمدیوں نے مسجد نہ بننے دی تو نئی جگہ خریدی گئی اور مرکز جماعت بنایا گیا۔

حصول ِ تعلیم کے لیے خاکسار کی مرکز سلسلہ میں آمد

خاکسار دسویں جماعت میں آکر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہوا۔ اور میر ی امی جان اور بہن بھائیوں نے بھی ربوہ میں خالہ جان کے مکان واقع دارالرحمت وسطی قیام کیا، ابا جان ایک سال ہمارے بغیر رہے تو ہوٹل میں کھانا کھاتے رہے جو انہیں موافق نہ آیا اور ایک سال بعد امی جان اور بہن بھائی تو واپس چلے گئے مگر میں ربوہ میں رہا۔ کیونکہ مجھے یہاں رہ کر تعلیم حاصل کرنا بہت اچھا لگا۔ خالہ کے مکان کا ایک کمرہ میرے پاس تھا اور میں حضرت بابا چراغ دین صاحبؓ کے ہوٹل پر کھانا کھاتا تھا۔ بابا جی میرے نانا جان کے قادیان کے جاننے والے تھے اور میرے لیے گھر کی طرح کا کھاناپکا دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے آمین۔ میں نمازیں دارالرحمت غربی کی مسجد میں ادا کرتا تھا۔ یہ مجھے قریب پڑتی تھی۔ اس میں حضرت غلام رسول صاحب راجیکی ؓ نماز پڑھا کرتے تھے اور مجھے آپ کی پاک صحبت میں بیٹھنے کا اکثر موقع ملا کرتا تھا اور آپ سے اپنے لیے میں نے دعا کرانے کے اکثر مواقع پائے۔

حضرت مولوی غلام رسول راجیکیؓ

میرے دادا جان بھی اسی محلہ میں اس مسجد کے قریب رہتے تھے اور نماز دارالرحمت غربی کی مسجد میں ہی ادا فرماتے تھے۔ اور مجھے ان سے بھی صبح و شام ملنے کا موقع مل جاتا تھا اور وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ دادا جان الشرکۃ الاسلامیہ میں تھے جہاں سے مجھے روحانی خزائن اور ملفوظات اور تاریخ احمدیت کی جلدیں قسطوں پر مل گئی تھیں۔ اور آپ نے میری ذاتی لائبریری بنوا دی تھی۔ ربوہ میں بزرگ صحابہ موجود تھے اور اُنکی نیک صحبت سے فائدہ اٹھانے کے مواقع ملتے رہتے تھے۔ جس بزرگ سے بھی میں اپنے بڑے نانا جان کا حوالہ دے کر ملتا مجھے سینہ سے لگا لیتا تھا۔

میرا تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ

حضرت مصلح موعودؓ تعلیم الاسلام کالج میں

کالج میں داخلے کا مرحلہ آیا تو اباّ جان نے میڈیکل کے مضامین داخلہ فارم میں لکھے۔ ہمارے پرنسپل حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ بڑی ہی پیار کرنے والی عظیم شخصیت کے حامل تھے۔ میرے بزرگ مجھے لے کر آپؒ کے دفتر کالج میں حاضر ہوئے ،آ پؒ نے ہمیں خوش آمدید کہا اور آپؒ نے مجھے معاشیات کا مضمون رکھوایا۔ نیز رہائش کے خانے میں ہوسٹل لکھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر آپؒ مسکرائے اور دادا جان سے کہا کہ آپ نہیں رکھیں گے انہیں؟ تو انہوں نے عرض کی کہ ان کے والد کی مرضی ہے کہ آپؒ کی صحبت میں رہے اور آپ کی نظرِ شفقت اس پر رہے۔ آپؒ بہت خوش ہوئے اور آپؒ نے بڑے ہی پیار کے انداز میں فرمایا: ’’ٹھیک ہے ہم ہی رکھ لیتے ہیں۔‘‘ آپؒ کایہ فقرہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔گویا آپؒ نے مجھے رکھ ہی لیا۔ کیا پیار تھا اس ایک فقرہ میں جو میری بعد کی ساری زندگی میں میرے لیے شمع ہدایت بنا رہا اور میں ہمیشہ ہی آپ کی توجہ اور دعائیں پاتا رہا۔ جس کا ذکر آئندہ اوراق میں آپ دیکھیں گے۔
مجھے ربوہ میں بہت اچھے دوست ملے۔ سب کاذکر تو باعث طوالت ہوگا۔ البتہ کالج کے زمانہ میں ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب ، مکرم عطاءالمجیب راشد صاحب (امام مسجد لنڈن) تھے اور مکرم لئیق احمد طاہر صاحب (مبلغ سلسلہ انگلستان) ابن حضرت شیخ فضل احمد صاحب پٹیالویؓ تھے۔ آتے جاتے ان کی ایمان افروز گفتگو بھی میرے لیے بہت ازدیاد ایمان کا باعث ہوتی تھی۔

مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب
مولانا لئیق احمد طاہر صاحب

1962ء میں خاکسار کو وصیت کرنے کی بھی توفیق مل گئی تھی۔
جلسہ سالانہ پر سب کی ڈیوٹیاں لگتی تھیں۔ میری پہلی ڈیوٹی شعبہ پرالی و مکانات میں مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب (وکیل اعلیٰ تحریک جدید) کے ساتھ لگی تھی۔ اس وقت آپ کالج میں پڑھاتے تھے۔ نیز مجھے ذیلی تنظیموں میں بھی سائق سے لے کر نائب مہتمم تک مختلف شعبوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کاموں سے انسان کی عملی تربیت ہوتی ہے اور اس کے کردار میں رنگ بھرے جاتے ہیں اور بچپن کے زمانہ سے ہی آئندہ عملی زندگی کا تجربہ ہوجاتا ہے۔

محترم چودھری حمیداللہ صاحب

میری ایک دُعا اور اس کی قبولیت

میرے والد صاحب کا تبادلہ راولپنڈی سے کوئٹہ تین سال کے لیے ہوگیا اور میں کالج میں پڑھتا تھا۔ ویسے تو میں رخصتوں میں اپنے خالو خالہ کے پاس میانی ضلع سرگودھا چلا جایا کرتا تھا مگر کبھی امی جان کے پاس بھی راولپنڈی چلا جایا کرتا تھا۔ اب کوئٹہ بہت دور ہوگیا تھا اور اُوپر سے ایک بُری خبر یہ پہنچی کہ امی جان بیمار ہوگئی ہیں۔ دراصل ولادت متوقع تھی مگر بچہ قبل از ولادت فوت ہوگیا تھا اور مریضہ کا تمام خون زہر آلود ہوگیا تھا۔ اور ڈاکٹروں کے خیال میں اگر آپ تین دن تک بچ گئیں تو بچ گئیں ورنہ کوئی اُمید جان بر ہونے کی انہیں نہیں تھی۔ اُن کے خیال میں ایسا مریض مشکل ہی بچا کرتا ہے۔ یہ اطلاع ابا جان نے مجھے دی اور دُعا کرنے کے لیے کہا۔ دُعا کے سوا اب کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ اور اس وقت میری حالت یہ سن کر تو پاگلوں جیسی ہوگئی تھی۔ میں نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور نوافل کی ادائیگی کے لیے کھڑا ہوگیا۔ عشاء کے بعد سے تقریباً نصف شب تک میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں گریہ وزاری کرتارہا۔ نامعلوم کسی وقت میری گھڑی دو گھڑی کے لیے آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں بیمار پڑا ہوں اور میرے دوست عطاء المجیب صاحب راشد کرسی پر میری چارپائی کے ساتھ بیٹھے ہیں اور باہر کی طرف کا کمرے کا دروازہ کھلا ہے اور ہمارے استاد مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم اے آئے ہیں اور کہتے ہیں۔ ’’ مبارک ہو حضرت عیسیٰ زندہ ہوگئے ‘‘ میری آنکھ کھل گئی تو یہ بشارت میری والدہ کے زندہ ہونے کی تھی اور میری دعا خدائے مجیب نے سن لی تھی۔ میرے دل کی حالت ہی کچھ اور ہوگئی ساری بے چینی جاتی رہی اور مجھے والدہ کی صحت کا یقین ہوگیا اور میں نے والد صاحب کو اطلاع دے دی کہ گھبرائیں نہیں امی جان ٹھیک ہوجائیں گی۔ اور سچ مچ میری والدہ اس جان لیوا مرض سے نجات پاکر صحت مند ہوگئیں۔ میڈیکل ہسپتال کے سب ڈاکٹر حیران تھے کہ اس نازک حالت تک پہنچے ہوئے مریض کابچ جانا تو ایک معجزہ سے کم نہیں۔ الحمدللّٰہ
میری اپنی طویل بیماری اور میرا عہدِ وقف زندگی
میں بی اے کے آخری سال میں تھا کہ بیمار ہوگیا اور پھر ڈبل ٹائیفائیڈ ہوگیا۔ میری والدہ میرے پاس تھیں۔ ایک دن بےانتہا کمزوری ہوگئی کہ مجھ پر فالج کا حملہ ہوگیا اور میری زبان بھی بند ہوگئی۔ مجھے ایسا لگا کہ میں اب کچھ دیر میں ہی وفات پاجائوں گا۔ مجھے اپنی زندگی کے متعلق حیرت ہوئی کہ کچھ کر بھی نہ سکا اور اختتام ہونے کو ہے۔ تب میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خیال ڈالا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی زندگی وقف کردوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ ’’ جو لوگ دین کے لیے سچا جوش رکھتے ہیں ان کی عمر بڑھائی جاوے گی اور حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عمریں بڑھادی جاویں گی اس کے معنی یہی مجھے سمجھائے گئے ہیں کہ جو لوگ خادمِ دین ہوں گے ان کی عمریں بڑھادی جاویں گی۔‘‘ (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱ اگست۱۹۰۲ء)
میں نے زور لگایا تو میری زبان چل پڑی میں نے بآواز بلند اپنی والدہ اور چند دوستوں کے سامنے یہ اقرار کیا کہ میں اپنی زندگی آج سے وقف کرتا ہوں۔
رفتہ رفتہ میں دو ہفتے میں بالکل ٹھیک ہوگیا اور کالج گیا تو معلوم ہوا کہ غیرحاضریوں کی وجہ سے میرا داخلہ روک لیا گیا ہے۔ مجھے بہت افسوس ہوا میں تو بیماری کے دوران بھی پڑھتا رہا تھا تاکہ امتحان میں کامیاب ہو جاؤں اور میرا سال ضائع نہ ہو۔ خیر میں نے دُعا شروع کردی کہ مولا کریم میرا سال ضائع نہ ہو اور تا امتحان میں پاس ہوکر جلد از جلد اپنے عہد کو پورا کرسکوں، چنانچہ میں نے دیکھا کہ ’’میں پاس ہوگیا ہوں۔‘‘ مَیں پرنسپل صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مَیں نے دُعا کی تھی اور مجھے بتایا گیا ہے کہ میں پاس ہوگیا ہوں۔ مگر آپ نے میرا داخلہ روک لیا ہے۔ آپ فرمانے لگے ہم داخلہ آپ کا بھجوا دیتے ہیں چنانچہ ازراہِ شفقت میرا داخلہ بھجوادیا گیا۔ مَیں امتحان میں بیٹھا اور الحمدللہ میں پاس ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی مجھ پر بڑی عنایت ہوئی۔ اور جب کانووکیشن ہوئی تو پرنسپل حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کے ہاتھ سے بی اے کی ڈگری وصول کی۔


کالج میں ایک پراکٹورئیل سسٹم بھی تھا۔ مکرم چودھری حمیداللہ صاحب ہمارے پراکٹر ہوتے تھے۔ اس وقت بہت سے طلباء طالبات تمام ملک سے ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے اور ربوہ میں مختلف جگہوں پر رہتے تھے۔ میں پہلے اپنے محلے کا پراکٹورئیل مانیٹر ہوا پھر چیف پراکٹورئیل مانیٹر ہوگیا۔ ہم نے دیکھنا ہوتا تھا کہ انہیں کوئی پرابلم تو نہیں ہو رہی۔ اس بناء پر مجھے کالج سے کامیاب ہونے پر بی اے کی ڈگری کے ساتھ کریکٹر سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا تھا۔ بی اے کا امتحان دے کر رزلٹ نکلنے تک کی رخصتوں میں میں کوئٹہ گیا تھا جہاں پر اباجان اپنی ملازمت کے سلسلہ میں مقیم تھے۔ وہاں میں نے اپنا پہلا پاسپورٹ بنوایا اور نیت میری قادیان دارالامان کی زیارت کی تھی اور خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر پہنچ کر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانا چاہتا تھا اور وہ گھر دیکھنا چاہتا تھا جہاں میں پیدا ہوا تھا۔
مجھے ابا جان ایک دن کہنے لگے کہ تمہاری صحت اچھی ہوگئی ہے تم پاس بھی ہوگئے ہو۔ تم فوج میں چلے جاؤ جلد ہی کمیشن مل جائے گا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں تو وقف کرنا چاہتا ہوں میں نے تو اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہوا ہے وقف کرنے کا۔ کہنے لگے سوچ لو یہ کام آسان نہیں ہے۔ فوج میں تمہیں اچھی تنخواہ مل جایا کرے گی نصف تنخواہ چندہ میں دے دیا کرنا، میں نے کہا اس طرح سے تو میرا عہد پورا نہیں ہوتا۔ امی جان کو میرے عہد کا علم تھا وہ کہنے لگیں: اسے وقف ہی کرنے دیں یہ انشاءاللہ نبھائے گا۔ اس پر ابا جان نے کہا کہ دیکھ لو ایک دفعہ وقف کرکے اسے نبھانا اور اگر جان بھی چلی جائے اس راہ میں تو پیچھے نہیں ہٹنا۔ میں نے ان سے بھی وعدہ کیا کہ ایسا ہی ہوگا۔ پھر میں نے ربوہ آکر فارم وقف زندگی پر کردیا۔ اور مجھے جلد ہی انٹرویو کے لیے بلالیا گیا۔ میں ابھی اپنے آپ کو مبلغ بننے کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔ میرے خیال میں تھا کہ ایم اے اکنامکس کی اجازت مل جائے گی اور مَیں ٹیچر مبلغ بن جاؤں گا۔ لیکن مجھے جامعہ احمدیہ کے انٹرویو کے لیے دفتر نے بھجوادیا۔ جہاں میں داخلے کے لیے چن لیا گیا جامعہ احمدیہ میں داخلے کے بعد مجھے عربی بڑی مشکل لگتی تھی کیونکہ میں نے پڑھی نہ تھی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی اور اولیٰ میں میں اوّل آیا اور سائیکل ریس میں بھی جو پچاس کلومیٹر کی تھی ،میں اوّل رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تقسیم انعامات کے لیے تشریف لائے۔ آپؒ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔ اور ہمارے پرنسپل مکرم سید میر داؤود احمد صاحب مرحوم نے بھی اپنے عمدہ ریمارکس سے میری بڑی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اور’’ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ‘‘کے ریمارکس پاس فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں