حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند روایات
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں بعض یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍اکتوبر 1996ء کی زینت ہیں۔
آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں اور مبارک احمد پلنگ پر بیٹھے کھیل کھیل میں ایک دوسرے کو ٹانگیں مار رہے تھے لڑائی نہیں تھی کیونکہ ہم دونوں کا آپس میں پیار بہت تھا۔ حضورؑ نے فرمایا: کشتی کرو بے شک، مگر یہ خیال رکھو کسی نازک جگہ کسی کو چوٹ نہ آئے۔ اس بات سے بھی آپ نے روکا ہوا تھا کہ کبھی ڈھیلا پتھر کسی کی جانب نہ پھینکو کسی کے بے جگہ لگ جائے۔
ایک دفعہ صوفی غلام محمد صاحب کسی امتحان میں فیل ہوئے۔ خبر آئی تو آپؑ نے افسوس کا اظہار کیا میں پاس بیٹھی تھی، سن کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپؑ نے فرمایا: تم عائشہ(صوفی صاحب کی منکوحہ) کو بتانے جا رہی تھیں۔ یہ بُری خبر ہے تم کیوں بُری خبر بتاؤ، کوئی اَور بتا دے گا۔
وہ دن اور آج کا دن میں نے ہمیشہ بُری خبر کسی کو پہنچانے سے اجتناب کیا ہے۔
اکثر میری آنکھ رات کو کھلتی اور دیکھتی کہ حضور علیہ السلام کی آنکھیں بظاہر بند ہیں مگر لبوں پر درود اور ذکر الٰہی جاری ہے۔
ایک دوپہر آپؑ آرام فرما رہے تھے میں جا کر پاس بیٹھ گئی۔ یکایک آپؑ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی جو بیان میں نہیں آسکتی۔ پنڈلیاں تھر تھر کانپنے لگیں چہرہ پر ایک بہت خاص چمک اور سرخی پیشانی پر پسینے کے قطرے ، ہونٹ حرکت کرنے لگے جیسے کوئی غیرمرئی طاقت ان کو جنبش میں لارہی ہے۔ نہ کوئی تکلیف کی نہ کرب کی علامت تھی۔ معلوم ہو رہا تھا کہ کسی طاقت کا اس وقت آپؑ پر تصرف ہے۔ اس کیفیت کے بعد آپؑ نے آنکھیں کھولیں اور کاغذ پر کچھ لکھا اور مجھے کہا: جاؤ اپنے ناناجان کو بلا لاؤ اور اپنی اماّں کو۔ مَیں بلالائی۔ آپؑ نے خاموشی سے وہ کاغذ ناناجان کی جانب بڑھایا۔ انہوں نے بلند آواز سے پڑھا: ’’زبردست نشانوں سے ترقی ہوگی‘‘۔
یہ خدائی خبر میں نے پوری کیفیت کے ساتھ دیکھی۔ جب نانا جان پڑھ چکے اور دہرایا گیا پھر آپؑ نے خود دہرایا ورنہ چند منٹ اس کے بعد آپؑ خاموش ہی رہے تھے۔