حضرت مصلح موعودؓ اور علوم ظاہری

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ فروری 2001ء میں پیشگوئی مصلح موعود کے اس فقرہ کہ ’’وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ کے حوالہ سے مکرم چودھری محمد صدیق صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ اپنی صحت اور تعلیم کے بارہ میں فرماتے ہیں: ’’آنکھوں میں ککرے، جگر کی خرابی، عظم طحال کی شکایت اور پھر اس کے ساتھ بخار کا شروع ہوجانا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترنا اور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کو یہ فیصلہ کردینا کہ یہ جتنا چاہے پڑھ لے اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے۔ ان حالات سے ہر شخص اندازہ لگاسکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہوگا۔‘‘ (الموعود)
پھر فرمایا: ’’دنیوی لحاظ سے مَیں پرائمری فیل ہوں مگر چونکہ گھر کا مدرسہ تھا اس لئے اوپر کی کلاسوں میں مجھے ترقی دیدی جاتی تھی، پھر مڈل میں فیل ہوا مگر گھر کا مدرسہ ہونے کی وجہ سے پھر مجھے ترقی دیدی گئی۔ آخر میٹرک کے امتحان کا وقت آیا تو میری ساری پڑھائی کی حقیقت کھل گئی اور مَیں صرف عربی اور اردو میں پاس ہوا اور اس کے بعد پڑھائی چھوڑ دی گویا میری تعلیم کچھ بھی نہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر)
لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضورؓ کو دنیا کے تمام علوم سکھائے اور ان میں ملکہ تامہ عطا فرمایا۔ آپؓ کے زیرمطالعہ رہنے والی کتابیں ہزاروںکی تعداد میں ہیں، مختلف موضوعات سے متعلق ہیں اور عربی، اردو، فارسی، انگریزی، جرمن اور فرنچ میں ہیں۔ اکثر کتب پر حضورؓ کے تنقیدی نوٹس تحریر ہیں۔ چند علوم کی کتب کی تعداد ملاحظہ کیجئے: علم تفسیر=177، حدیث=142، فقہ=101، عقائد وکلام=136، تصوف=206، تقابل ادیان= 62، احمدیت=1620 ، اہل سنۃوالجماعت = 150،
علماء شیعہ=35، بہائیت=35، عیسائیت= 180، ہندوسکھ=107، بدھ مت=50، کمیونزم=75، تاریخ و سوانح=680، جغرافیہ و علوم عامہ=135، سوشل سائنس، اقتصادیات، سیاست و قانون= 490، ہیئت و حساب=50، طب یونانی=80، ایلوپیتھی=36، ہومیوپیتھی=95، نفسیات=180، علوم مافوق العادت=50، صنعت و حرفت= 74، حوالہ جات، انسائیکلوپیڈیا و لغات وغیرہ=122،
عربی ادب=302، اردو ادب=816 اور انگریزی ادب= 1335۔
حضرت مصلح موعودؓ کی وہ تصانیف جو کتب و رسائل کی صورت میں موجود ہیں، اُن کی تعداد دو سو سے زائد ہے جو مختلف علوم پر سند ہیں۔ علم تفسیر میں آپؓ کو غیروں نے بھی دل کھول کر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ سیرت و سوانح کے موضوع پر نہایت اختصار سے مگر جامع طور پر روشنی ڈالی ہے۔ علم الاخلاق کا فلسفہ بیان کرنا نہایت مشکل امر ہے لیکن حضورؓ نے جو آسان فہم لیکچر ارشاد فرمایا وہ ’’منہاج الطالبین‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔
اقتصادیات کے موضوع پر حضورؓ نے بہت سے لیکچرز دیئے اور کتب تصنیف فرمائیں۔ صحافت میں اگرچہ حضورؓ نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن عنفوان شباب میں رسالہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ جاری فرمایا اور نہایت اہم قومی اور دینی مسائل پر ادارئیے رقم فرمائے۔ 1913ء میں اخبار الفضل بھی جاری فرمایا اور کچھ عرصہ اس کی ادارت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ سیاست و قانون پر بھی حضورؓ کو مکمل دسترس حاصل تھی۔ جماعت احمدیہ اگرچہ ایک مذہبی جماعت ہے اور سیاست میں الجھنے سے بچتی رہی ہے لیکن پھر بھی میدان سیاست میں جو بھی حضورؓ کے سامنے آیا اُسے منہ کی کھانی پڑی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے آپؓ کے اقدامات آپؓ کی دُوراندیشی کا ثبوت ہیں۔ آپؓ کی تصنیف ’’ہندوستان کے موجودہ مسئلہ کا حل‘‘ کے بارہ میں مختلف اخبارات اور شخصیات نے بے ساختہ تعریفی کلمات لکھے۔ قیام پاکستان کے بعد کشمیر میں حکومت کے قیام کیلئے بھی حضورؓ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ تاریخ کے موضوع پر ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ سمیت حضورؓ کے بہت سے ایسے لیکچرز محفوظ ہیں جو تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح حضورؓ نے علم طب کے حوالہ سے متعدد دوائیں اپنی نگرانی میں تیار کروائیں، دواخانہ خدمت خلق بھی قائم فرمایا۔ نیز ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھی قائم فرمایا جس میں اپنی نگرانی میں کئی قسم کی تحقیق کروائی۔ مختلف قسم کے کئی عطر آپؓ نے خود تیار کئے۔ علم زراعت میں بھی حضورؓ سند کا درجہ رکھتے تھے۔ آپ اپنے علاقہ کے سب سے بڑے زمیندار تھے، آپؓ کی نگرانی میں بنجر زمینوں نے سونا اگلنا شروع کردیا۔ قیام پاکستان پر ایک لیکچر میں آپؓ نے حکومت کو نہایت قیمتی مشورے دیئے۔ علم الٰہیات میں حضورؓ نے ہستی باری تعالیٰ، ملائکۃاللہ، تقدیر، حقیقۃالرؤیا، نجات، اور جنت و دوزخ وغیرہ کے نہایت دقیق مسائل کو آسان فہم طریق پر بیان فرمایا۔ الغرض حضرت مصلح موعودؓ علوم ظاہری و باطنی سے پُر تھے جس کا اقرار کرتے ہوئے غیروں نے بھی آپؓ کو بے ساختہ خراج تحسین پیش کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں