حضرت چودھری اللہ داد خان صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13 ؍اکتوبر 2005ء میں حضرت چودھری اللہ داد خان صاحبؓ کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت چودھری اللہ داد خان صاحبؓ ضلع شاہ پور (نزد بھیرہ) کے باشندے تھے۔ آپ تقریباً 1873ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد شاہ پور چھاؤنی میں دفتر رجسٹرار میں کلرک کے طور پر پچاس روپے ماہوار پر ملازمت اختیار کی۔ سترہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی میں آگئے۔ حضورؑ نے اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں آپؓ کو بھی اپنے 313 صحابہ میں 260ویں نمبر پر شامل فرمایا ہے۔
حضورؑ کے نام اپنے ایک مکتوب میں رقمطراز ہیں: ’’خاکسار کے دل میں عرصہ دراز سے شعلۂ محبت بھڑکا ہوا تھا۔ 1890ء یعنی ایام طالب علمی سے جبکہ خاکسار انٹرنس تعلیم پاتا تھا محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضور کے ساتھ تعلق اخلاص مندی نصیب ہوا جس کو اب چودھواں سال جا رہا ہے۔ بفضلہ تعالیٰ اس تعلق میں روز افزوں ترقی ہی ہوتی چلی آئی اور یہ رشتہ دن بدن مستحکم ہی ہوتا گیا اور بتدریج محسوس ہوتا گیا کہ اس پیوند کی مضبوط رسی کے ذریعے عالم تاریکی سے ایک بیّن روشنی کی طرف کھینچا جا رہا ہوں اور الفت و محبت نے تو ایسی ترقی کی کہ چھ سات سال سے بڑے جوش کے ساتھ یہی دلی خواہش رہی کہ کوئی صورت ایسی پیدا ہو کہ بقیہ ایام زندگی حضور کے بابرکت اور سراپا نورخیز قدموں میں گزاروں جس سے دین و دنیا کی اصلاح ہوکر حسنات دارین سے مستفیض و بہرہ مند ہوں‘‘۔
شاہ پور میں ملازمت کے دوران بوجہ احمدی ہونے کے آپؓ کو بار بار ابتلاء میں ڈالا گیا۔ حضورؑ آپؓ کے خطوط کے جواب میں صبر اور استقلال کی تلقین فرماتے اور ہمت نہ ہارنے کی تاکید فرماتے۔ چنانچہ ایک مکتوب میں فرمایا: ’’ہر ایک مومن کے لئے کسی حد تک تکالیف اور ابتلاء کا ہونا ضروری ہے اس کو صدق دل سے برداشت کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کا انتظار کرنا چاہئے … جس مومن سے خدا پیار کرتا ہے اس کو کسی قدر ابتلاء کا مزہ چکھاتا ہے تا اس کی آنکھ کھلے اور وہ سمجھے کہ دنیا کیا چیز ہے اور کس قدر تلخیوں کی جگہ ہے امتحان کے وقت اس بات میں خوبی نہیں کہ بہت جزع فزع کرکے مخلصی چاہیں بلکہ اس میں خوبی ہے کہ ایسے موقعہ پر استقلال دکھانا چاہئے‘‘۔
حضرت چودھری صاحبؓ کو حضور علیہ السلام کے قدموں میں رہنا اس قدر محبوب تھا کہ بار بار اس کا اظہار حضورؑ سے فرماتے۔ آخر آپؓ کی دعا قبول ہوئی اور جب رسالہ ریویو آف ریلیجنز کا آغاز ہوا تو دفتر میگزین میں کلرک کی ضرورت تھی۔ مولوی محمد علی صاحب نے اس آسامی کے لئے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ اس جگہ آجائیں، 15 روپے ماہوار ملا کریں گے۔ آگے جیسے جیسے رسالہ میں ترقی ہوگی، الاؤنس بھی بڑھنے کا امکان ہوگا۔ چنانچہ آپؓ نے یہ پیشکش حضورؑ کی خدمت میں عرض کی تو حضورؑ نے جواباً تحریر فرمایا: ’’اگرچہ سرکاری نوکری پچاس روپیہ آپ کو ملتے ہیں ایک ظاہربین شخص کی نظر میں اس کو چھوڑنا اور … روپیہ (15روپیہ۔ناقل) پر جو وہ بھی ابھی ایک ظنی بات ہے، قناعت کرنا دنیوی مصلحت کے برخلاف ہے لیکن آپ جیسا آدمی جو استقامت اور اخلاص اور توکّل علی اللہ کا ہنر اپنے اندر رکھتا ہو اس کے لئے درحقیقت ان خیالات سفلیہ کی پیروی کرنا ضروری نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ عمر ناپائدار اور اس جگہ کی محبت از بس غنیمت ہے اور بہرحال خدا تعالیٰ رازق ہے۔ زیادہ سے زیادہ اگر یہ فرض کر لیں کہ کسی دن میگزین کا سلسلہ بند ہوجائے مگر خدا تعالیٰ کے فضل کا سلسلہ بند نہیں ہوسکتا۔‘‘
1904ء کی ابتداء میں حضرت چودھری صاحبؓ ہجرت کرکے قادیان آگئے اور دفتر میگزین میں ہیڈ کلرک متعین ہوئے۔ چنانچہ یہ ہجرت آپؓ کی مالی قربانی کی بھی شاندار مثال ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی آپؓ نے جماعت کی ہر مالی تحریک میں حصہ ڈالنے کی سعی کی۔ رسالہ ریویو کے خریدار دہندگان، مدرسہ تعلیم الاسلام اور امداد داخلہ امتحان طلباء کالج کی مدّات میں بھی آپؓ شامل ہوتے۔ حضرت اقدسؑ نے جب قادیان میں مدرسہ کے قیام کی تجویز پیش کی اور دوستوں کو مالی تحریک فرمائی تو آپ بھی اوّل طور پر لبیک کہنے والوں میں سے تھے۔ حضور نے اپنے اشتہار میں آپؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ داد صاحب کلرک شاہ پور نے 8ماہواری چندہ دینا قبول کیا ہے‘‘۔
رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے علاوہ اخبار البدر کی اشاعت میں بھی آپ بھر پور حصہ لیتے اور اس کے لئے نئے سے نئے خریدار مہیا کرتے۔ بعض اوقات اپنے خرچ سے بھی دوسروں کے لئے اخبار لگوادیتے۔ اخبار بدر ایک جگہ لکھتا ہے: ’’بابوالٰہ داد خان صاحب کلرک شاہ پور جو کہ ان دنوں میں قادیان میں مقیم ہیں البدر کو مطالعہ فرما کر اس کی سالم فائل بابت 03 خریدلی ہے اور آئندہ کے لئے مستقل خریدار ہوگئے ہیں اور چار خریدار نئے البدر کو دئیے ہیں…‘‘۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ’’انصار بدر‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب سے اخبار بدر کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے مخدومی اخویم منشی اللہ داد صاحب اس کے اول درجہ کے انصار میں شامل ہیں۔ سال گزشتہ میں بھی آپ نے کئی آدمیوں کے نام اخبار اپنی گرہ سے جاری کرایا تھا اور اب بھی اول درجہ کی قیمت پیشگی عطا کی ہے اور دو اور دوستوں کے نام اخبار جاری رکھا ہے۔
حضرت چودھری صاحبؓ دفتری امور کے علاوہ مدرسہ احمدیہ کی اعانت اور اعزازی ٹیچر کا کام بھی کرتے رہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں: ’’ فضل درزی نے ایک اور بات سنائی کہ ایک دفعہ میں منشی اللہ داد صاحب مرحوم کے پاس رات کو نو بجے گیا تو دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے میں نے کہا کیا دن کام کے واسطے تھوڑا ہے جو آپ رات بھی دفتر میں لگے رہتے ہیں۔ فرمایا کہ دن کو تنخواہ کے لئے کام کرتا ہوں رات کو خدا کے لئے۔…‘‘
1904ء میں اللہ تعالیٰ نے مقدمات گورداسپور میں حضرت مسیح موعودؑ کی بریت کے سامان پیدا فرمائے تو حضرت چودھری اللہ داد خان صاحبؓ نے ایک فارسی نظم لکھی۔ آپؓ کوئی شاعر نہ تھے مگر جوش نے ان سے پاکیزہ اشعار لکھوائے جو بدر میں شائع ہوئے۔
آپؓ جولائی 1905ء میں اسہال کی وجہ سے شدید بیمار ہوگئے اور نہایت سخت کمزوری تھی۔ دس دن تک حالت نازک رہی۔ دسویں دن حضور علیہ السلام کو خبر ہوئی۔ آپؑ نے بعد عذر دوائی ارسال کی اور پندرہ پندرہ منٹ کے بعد تین دفعہ ارسال فرمائی۔ تیسری دفعہ دوائی پیتے ہی فوراً اسہال اور قے بند ہوگئی اور تمام کرب اور تکلیف رفع ہوگئی اور چودھری صاحبؓ صحت کے ساتھ اٹھ بیٹھے۔
آپؓ کو حضرت اقدسؑ سے عشق تھا جس کا اظہار آپؓ کے کئی خطوط جو دوسروں کو لکھے گئے، اُن سے ہوتا ہے۔ گو آپؓ کی وفات حضورؑ کی زندگی میں ہی ہوگئی تھی لیکن حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ کے متعلق آپؓ کا ایمان آپؓ کے اِن الفاظ سے ظاہر ہے کہ: ’’بلحاظ جامعیت کمالات کے جناب حضرت مخدوم الملّۃ و حکیم الامّۃ جناب مولوی نور الدین صاحب کو حضرت اقدس کے بعد خاکسار کامل مرد خدا یقین کرتا ہے اور اس لحاظ سے ان کے ساتھ دلی کمال محبت ہے۔ ہر وقت خواہش رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ان کے کامل اتباع وان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے ‘‘۔
مئی 1906ء میں حضرت چودھری صاحبؓ تپ محرقہ سے علیل ہوگئے اور سترہ دن تک بخار میں مبتلا رہ کر 27مئی 1906ء کی صبح بعمر 32سال وفات پاگئے۔ اگرچہ آپؓ نے ابھی تک وصیت نہ کی تھی لیکن حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ’’چودھری اللہ داد صاحب بڑے مخلص تھے۔ ایسا آدمی پیدا ہونا مشکل ہوتا ہے‘‘ اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ان کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جائے چنانچہ حسب الحکم ایسا ہی کیا گیا۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہونے والے آپ تیسرے شخص تھے۔ آپ سے پہلے اس میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور حضرت میاں الٰہی بخش صاحب مالیر کوٹلوی مدفون تھے۔
ایک بار حضور علیہ السلام کی پاکیزہ مجلس میں آپؓ کا ذکر ہوا تو حضورؑ نے فرمایا: ’’بڑے مخلص آدمی تھے ایسا آدمی پیدا ہونا مشکل ہے۔ جو الہام الٰہی نازل ہوا تھا کہ ’’دو شہتیر ٹوٹ گئے‘‘ ان میں سے ایک شہتیر تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے، دوسرے چودھری صاحب معلوم ہوتے ہیں‘‘۔
نیز فرمایا کہ: ’’یہ جو رؤیا دیکھا تھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی قبر کے پاس دو اور قبریں ہیں وہ بھی پورا ہوا۔ ایک قبر الٰہی بخش صاحب ساکن مالیر کوٹلہ کی بنی اور دوسری چودھری صاحب مرحوم کی بنی‘‘۔
ایک اور موقع پر آپؓ کے متعلق فرمایا:’’قبرستان کے متعلق جو الہام الٰہی تھا کہ انزل فیھا رحمۃ اس کے مستحق چودھری صاحب موصوف بھی ہوئے‘‘۔
حضرت چودھری صاحبؓ ایک اعلیٰ درجہ کے مہمان نواز تھے۔ بہت ہر دلعزیز، خوش اخلاق اور جماعت کے نوجوانوں کی تربیت کا خاص جوش رکھتے تھے۔ لوگ ان کو امین سمجھ کر اپنی امانتیں بھی ان کے پاس رکھتے تھے۔