حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحبؓ کڑک
جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ جولائی 2011ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑکؓ کی سیرت و سوانح پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحب ککّے زئی قوم کے ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ مارچ 1888ء میں قادیان سے چھ میل کے فاصلہ پر واقع گاؤں بازیدچک میں پیدا ہوئے۔ بٹالہ سے مڈل تک تعلیم حاصل کرکے آپ لاہور چلے گئے اور بطور ڈسپنسر کام شروع کیا۔ وہاں وٹرنری کالج کے چند احمدی طلباء کے زیرتبلیغ رہے۔ جن میں ایک محمد امین صاحب تھے جو اکثر آکر آپ کو تبلیغ کیا کرتے۔ آپ بہت تنگ ہوتے لیکن اُن کو منع کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی اس لئے بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے۔ وہ آپ کو کتب بھی دیتے اور آپ چند روز بعد بغیر پڑھے یہ کہہ کرواپس کردیتے کہ پڑھ لی ہے۔ ایک بار وہ ’’انجام آتھم‘‘ دے گئے۔ آپ نے اُسے بھی دراز میں رکھ لیا۔ لیکن ایک دن فرصت کے وقت سوچا کہ دیکھوں تو سہی کہ اس میں ہے کیا؟ اس میں حضرت مسیح موعودؑ نے علماء کے نام لکھ کر انہیں چیلنج کیا تھا اور تحدّی کے ساتھ لکھا تھا کہ پیشگوئی کو جھوٹا ثابت کردیں ۔ اس عبارت میں ایسا اثر تھا کہ آپ نے ساری کتاب پڑھ لی۔ پھر جب محمد امین صاحب آئے تو آپ نے سچ بتادیا کہ یہ پہلی کتاب پڑھی ہے اور درخواست کی کہ انہوں نے جو پہلے کتابیں دی تھیں اب وہ دوبارہ پڑھنے کے لئے دے دیں ۔
حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب مَیں نے حضور علیہ السلام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں تو نماز بھی پڑھنی شروع کردی جس کی اس سے قبل مجھے عادت نہ تھی۔ اسی اثناء میں ایک رؤیا دیکھی تو محمد امین صاحب سے بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ اب بیعت کرلیں ۔ مَیں نے کہا قادیان جاکر بیعت کروں گا۔ وہ بولے کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ پھر انہوں نے جیب سے ایک کارڈ نکالا اور مجھ سے بیعت کا خط لکھواکر اُسے پوسٹ کرآئے۔ دو تین دن بعد بیعت کی منظوری کا خط مل گیا۔ حضورؑ نے نصیحت فرمائی تھی کہ نماز بالالتزام پڑھا کرو اور درود شریف بھی پڑھا کرو۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ پہلی بار دو احمدی طلباء کے ساتھ قادیان گیا۔ میرا کرایہ بھی انہوں نے ادا کیا۔ مسجد مبارک میں جمعہ کی نماز ہونے والی تھی۔ محمد احسن امروہی صاحب دریچہ کے پاس بیٹھے تھے۔ مَیں نے خیال کیا کہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں ۔ مجھے خیال آرہا تھا کہ میرے ساتھی مجھے آگے حضورؑ کے پاس کیوں نہیں لے جاتے۔ اسی دوران حضور علیہ السلام تشریف لائے تو ان طلباء نے مجھے آگے بڑھ کر مصافحہ کرنے کے لئے پیش کیا۔ پھر جمعہ شروع ہوگیا۔ جمعہ کے بعد ہم مہمان خانہ میں چلے گئے اور اگلے روز واپس لاہور آگئے۔
1907ء میں آپ نے احمدیت قبول کی تھی۔ اس پر آپ کے والد میاں اللہ بخش صاحب نے ناراض ہوکر آپ کا کھانا وغیرہ علیحدہ کردیا اور آپؓ کی والدہ افسوس سے کہنے لگیں کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے وہ بھی مرزا نے چھین لیا ہے۔ آپؓ نے یہ صورتحال حضور علیہ السلام کی خدمت میں تحریر کی تو حضورؑ نے ارشاد فرمایا کہ آپ واپس اپنے والد کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کہ مجھے امام وقت کی بیعت کی توفیق ملی ہے۔
1907ء میں ہی افریقہ میں ملازمت کے لئے ایک جگہ نکلی تو آپؓ نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا کہ میری آمدنی قلیل ہے اور عیالدار ہوں ۔ اگر حضورؑ اجازت عطا فرمائیں تومَیں افریقہ چلا جاؤں ۔ جواباً حضورؑ نے استخارہ مسنونہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ آپؓ نے استخارہ کیا تو ایک رؤیا دیکھی اور دل کی تسلّی پاکر نومبر 1907ء میں افریقہ (نیروبی) چلے گئے۔ اس بات کا آپؓ کو ہمیشہ غم رہا کہ روانہ ہونے سے قبل حضورؑ سے ملاقات کے لئے حاضر نہ ہوسکے۔ نیروبی میں آپؓ نے احمدی افراد سے مسلسل رابطہ رکھا۔ حضورؑ کی وفات کی اطلاع ملی تو دھاڑیں مار کر روتے تھے۔ دوسرے احمدی دوستوں کے صبر کرنے کی نصیحت پر آپؓ کہتے کہ مَیں تو اُس بچے کی طرح ہوں جس کی ماں اُس کو بالکل چھوٹی عمر میں چھوڑ کر فوت ہوجائے۔
دیگر احمدی دوستوں کے ساتھ مل کر آپؓ نے خلافتِ اولیٰ کی بیعت کرلی لیکن پھر ایک وقت ایسا جمود کا آیا کہ آپ نماز تو پڑھا کرتے تھے لیکن ایک سوسائٹی کے ممبر بن گئے جس کا کام ہی رنگ رلیاں منانا تھا۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1910ء میں پہلی بار چھٹی لے کر ہندوستان آیا تو قادیان میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضورؓ میری طرف دیکھ کر حیران ہوئے کیونکہ مَیں نے Hat وغیرہ پہنا ہوا تھا۔ پھر ظریفانہ لہجے میں فرمایا کہ اوہو آپ ککّے زئی ہیں ۔ بہرحال پھر حضورؓ نے فرمایا کہ مجھے مہمان خانہ میں لے جاکر کھانا کھلایا جائے۔ اس کے بعد مَیں حضورؓ کے درس حدیث اور قرآن کریم کے درس میں شامل ہوتا رہا۔ رخصت ختم ہونے پر حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ مجھے کوئی نصیحت فرمادیں ۔ حضورؓ نے ازراہ کرم ایک کاغذ پر اپنے ہاتھ سے لکھا:
اوّل: تمہاری خوراک پوشاک اور دنیاوی ضروریات میں حرام کی ملونی نہ ہو۔ اس سے دعا قبول نہیں ہوتی۔
دوم: استغفار اور لاحول بہت پڑھا کرو اور درودشریف پڑھنے میں مداومت کرو۔
اس کے علاوہ مسائی قبیلہ سے ایک دوائی ’صحاوی‘ اور زنجبار سے ایک کتاب لے کر بھجوانے کا ارشاد بھی فرمایا تھا۔ مگر افسوس کہ نہ تو وہ دوائی مل سکی اور نہ ہی وہ کتاب دستیاب ہوئی۔بہرحال مَیں نیروبی آکر پھر سے اُسی سوسائٹی کا حصہ بن گیا۔ باوجود احمدی دوستوں کے سمجھانے کے اُس سے الگ نہ ہوتا تھا۔ اگرچہ مَیں نے نماز کبھی نہیں چھوڑی لیکن روحانی حالت کمزور ہی تھی۔
خلافت ثانیہ کا آغاز ہو اتو مَیں بھی اُن چند دوستوں میں شامل تھا جنہوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ پھر مَیں ہندوستان آیا تو جنگ شروع ہوگئی اور مَیں میڈیکل کالج لاہور میں لیبارٹری میں ملازم ہوگیا۔ مَیں نمازیں وغیرہ اہل پیغام کے ساتھ پڑھتا تھا لیکن اختلافی مسائل کی بحثیں بڑے شوق سے سنتا۔ ایک روز ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے مَیں نے پوچھا کہ اس اختلاف میں کون حق بجانب ہے؟ وہ کہنے لگے کہ سمجھدار لوگ تو سب ہمارے ساتھ ہیں ۔
ایک روز منشی محبوب عالم صاحب مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم پیغامی بلڈنگ کیا کرنے جاتے ہو؟ مَیں نے کہا قرآن کریم کا درس سننے جاتا ہوں ۔ کہنے لگے کہ آج ہمارے ساتھ چلو اور درس سنو۔ مَیں چلا گیا۔ وہاں حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیٹھے تھے۔ مَیں نے دل میں کہا کہ اس جاٹ نے کیا درس دینا ہے۔ مگر میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب مولوی صاحبؓ نے نکات و معارف کا دریا بہادیا۔ منشی صاحب نے مجھے بتایا کہ تمہارے مولوی محمد علی صاحب نے بھی اِن سے قرآن کا علم حاصل کیا ہے۔
اُن دنوں مَیں تذبذب کی حالت میں تھاکہ ایک رؤیا دیکھ کر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بیعت کی توفیق پائی۔اور پھر اخلاص و وفا میں ترقی کرتا چلا گیا۔
اس کے بعد آپؓ ملازمت کے سلسلہ میں زنجبار آگئے جہاں تبلیغ بھی کرتے اور حضرت مسیح موعودؑ کی عربی اور انگریزی کتب بھی کافی تقسیم کرتے لیکن زمین سنگلاخ تھی۔ آپؓ کی بعض رپورٹس الفضل میں بھی شائع ہوئیں ۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ رخصت ملتی تو قادیان چلا جاتا اور اپنی استطاعت کے مطابق علم دین حاصل کرتا۔ ایک دفعہ قادیان میں ہی تھا کہ مجھے مرض ذات الجنب ہوگئی اور مَیں قریب المرگ ہوگیا۔ اُس وقت مجھے وصیت کرنے کا خیال آیا لیکن نظارت بہشتی مقبرہ نے اس حالت میں وصیت منظور کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ صحتیاب ہونے پر دیکھا جاوے گا۔ الحمدللہ کے اللہ تعالیٰ نے صحت عطا فرمائی اور مَیں نے اور میری اہلیہ نے وصیت کردی۔
حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحبؓ بہت جوشیلے، رعب اور دبدبے والے شخص تھے۔ حق کے بیان سے نہیں ڈرتے تھے۔ اس طبیعت کی وجہ سے لوگوں نے آپ کا نام ’کڑک‘ رکھ دیا۔ اُس وقت سے اس فیملی کا نام کڑک چلا آرہا ہے۔
تقسیم ملک کے بعد آپؓ پاکستان چلے آئے۔ آپؓ کو گوجرانوالہ میں ایک ہندو کا گھر الاٹ ہوا جس میں ایک مندر بھی تھا۔ آپؓ نے سب سے پہلے مندر میں موجود مورتیاں توڑیں ۔ آپؓ گوجرانوالہ کے امیر جماعت بھی رہے۔ وہاں کلینک بھی کرتے اور خوب تبلیغ کیا کرتے تھے۔ قریباً 1956ء میں لاہور منتقل ہوگئے اور چھاؤنی میں ایک گھر لیا۔ پہلے وہاں اذان دی اور باہر صحن میں دعا کرائی کہ یہ گھر جماعت کا مرکز رہے گا۔ آپؓ نے اپنی اولاد کو نصیحت فرمائی کہ اپنے اس گھر کو جماعت کا مرکز بناؤ اور برکات کو خود اس میں نازل ہوتے ہوئے دیکھو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ عرصہ تک یہ گھر نماز وغیرہ کا مرکز رہا۔ 1974ء میں فسادات کے زمانہ میں کئی احمدیوں نے اس گھر میں قیام کیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے خلافت سے قبل لاہور میں آخری مجلس سوال و جواب اسی گھر میں کی۔ بعدازاں آپؓ کی اولاد نے گھر سے ملحقہ ایک خوبصورت قطعہ زمین مسجد کے لئے وقف کردیا جو آج تک مقامی جماعت کا مرکز ہے۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کی شادی شیخوپورہ کے ایک گاؤں کی محترمہ برکت بی بی صاحبہ سے ہوئی۔ وہ اَن پڑھ تھیں لیکن اپنے خاندان سے اکیلی احمدی ہوئی تھیں۔ بہت عرصہ بعد اُن کے ایک بھائی نے بھی بیعت کرلی۔ وہ یکم دسمبر 1962ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں ۔ مرحومہ بہت نیک، صابر وشاکر اور عبادت گزار خاتون تھیں ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں ۔ ایک بیٹی حضرت مولانا عبدالرحیم نیّر صاحبؓ کے عقد میں آئیں ۔ آپؓ کے ایک پوتے عبدالمحسن خالد کڑک (ابن ڈاکٹر عبدالغفور کڑک صاحب) نے 1971ء کی جنگ میں شہادت پائی۔ انہیں ستارۂ جرأت سے نوازا گیا اور اُن کے نام پر ’کڑک بٹالین‘ قائم کی گئی۔ اسی طرح لاہور کینٹ میں ایک ’کڑک سٹریٹ‘ بھی ہے۔
حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحبؓ نے لاہور میں 10؍جولائی 1965ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی۔