قبول احمدیت کی داستان
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ 4؍نومبر 1999ء میں مکرم مولانا عبدالرحیم صاحب اپنی قبول احمدیت کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مَیں نے 1980ء میں الہ آباد بورڈ سے عربی ادب میں فضیلت کی سند حاصل کی۔ 1981ء میں دارالعلوم مئو سے حدیث کا دَور مکمل کیا اور دوبارہ دارالعلوم دیوبند سے حدیث کا دَور مکمل کیا۔ پھر بنگال کے مختلف مدارس میں درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیا اور 1990ء سے 1995ء تک صدر مدرس و شیخ الحدیث کے عہدہ پر رہے۔ پھر پنجاب آئے تو پہلے پنجاب میں احمدیت کی مخالفت میں کمربستہ ہوئے اور پھر ہماچل پردیش و ہریانہ میں بھی احمدی مبلغین کا تعاقب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اُس وقت حسد و عناد میں مخالفین احمدیت کی کتب کا مطالعہ کیا کرتے تھے کہ اچانک نفس لوّامہ نے ابھرنا شروع کیا اور پھر عقل سلیم کے تقاضے پر احمدی کتب کا مطالعہ کرنے کی خواہش بھی پیدا ہوئی۔
بہت تلاش کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دو تصانیف ’’براہین احمدیہ‘‘ اور ’’حقیقۃالوحی‘‘ دستیاب ہوئیں تو ان کے مطالعہ سے حق کی حقانیت روشن ہوگئی اور مخالفین احمدیت کا کذب بھی واضح ہوگیا۔ چنانچہ 1997ء میں پورے انشراح کے ساتھ قبول احمدیت کی توفیق مل گئی۔