محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب درویش صفت درویش
مکرم مولانا محمد انعام غوری صاحب (ناظر اعلیٰ قادیان) اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں کہ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم و مغفور ایک درویش صفت انسان تھے۔ کسی مجلس میں نمایاں جگہ بیٹھنے کی بجائے دوسروں کے ساتھ مل جُل کر بیٹھنا پسند کرتے۔ نو عمر خدام بھی سفر یا پکنک وغیرہ کے دوران آپ کی شخصیت سے مرعوب ہو کر چھپتے پھرتے تھے اور نہ دُور جاکر بیٹھتے تھے بلکہ آپ کی نرم خُو طبیعت اور مزاح سے محظوظ ہونے کے لئے قریب رہنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
خاکسار 1962ء میں حیدر آباد سے مدرسہ احمدیہ میں حصول تعلیم کی غرض سے قادیان آیا جبکہ اُس وقت حضرت میاں صاحب ناظر تعلیم تھے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ مسجد مبارک کی چھت پر مغرب کی نماز کے انتظار میں حضرت میاں صاحب تشریف فرما تھے۔ خاکسار پنکھا جھل رہا تھا۔ ان دنوں میری صحت کچھ زیادہ ہی کمزور ہو گئی تھی۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ کیا بات ہے کچھ زیادہ ہی کمزور لگ رہے ہو۔ پھر گھر بلایا تفصیل پوچھی، احتیاطی تدابیر بتائیں ، گھر سے ادویات لاکر دیں ۔ کچھ عرصہ بعد ایک اَور دوائی دے کر فرمایا یہ انتڑیوں کی تکلیف کے لئے مفید ہے، مَیں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے۔ … حالانکہ اس وقت مَیں ایک ادنیٰ طالب علم تھا۔ پھر آپ ناظر دعوت و تبلیغ مقرر ہوئے تو بھی اور پھر جب آپ ناظراعلیٰ مقرر ہوئے تو بطور ناظر دعوت و تبلیغ وغیرہ مختلف حیثیتوں سے 45 سال مَیں آپ کے رابطہ میں رہا اور آپ کے اخلاق کریمانہ، وسعت حوصلہ، عالی ظرفی اور ستاری و چشم پوشی سے فیضیاب ہو نے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا۔
کسی سفر میں آپ قادیان کی حدود سے باہر نکلتے ہی کسی نہ کسی بہانے تکلّف اور حجاب کو بڑی حکمت سے دُور فرما دیتے۔ ستّاری اورچشم پوشی کا وصف تو بہت ہی غیرمعمولی تھا۔ کسی کمزوری کی طرف توجہ بھی دلاتے تو بڑی نرمی اور آہستگی کے ساتھ۔ نہایت حوصلہ کے ساتھ عہدیداروں کو کام کرنے کا موقع دیا کرتے اور بار بار ٹوکنے کی عادت نہ تھی۔
خلافت سے وابستگی اور اطاعت کا مثالی رنگ تھا۔ حضورانور آپ کے بھانجے ہیں اور حضورانور بھی ذاتی خطوط میں اُن کو ’پیارے ماموں ‘ سے یاد فرماتے۔ لیکن کیا مجال کہ دربار خلافت میں ،حاضری میں یا غائبانہ، بے ادبی تو دُور کی بات ہے بے تکلّفی کا بھی رنگ پا یا جاتا ہو۔
1991ء کی بات ہے جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ قادیان تشریف لائے تو اس وقت اطاعت اور خلافت کے رعب سے آپ کی کمر دہری ہو ئی جا رہی تھی۔ آپ اس وقت ناظر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ ناظر دعوۃ و تبلیغ بھی تھے۔ پھر 2005ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ قادیان تشریف لائے تب بھی آپ کی حالت قابل دید تھی۔ 1991ء میں تو آپ کی صحت اچھی تھی لیکن 2005ء میں عمر کے لحاظ سے ضعف آچکا تھا۔چلنے پھرنے میں دقّت تھی لیکن حضور انور جہاں بھی تشریف لے جاتے پیچھے پیچھے آپ بھی اپنے آپ کو گھسیٹے ہوئے لئے چلے جاتے اور جہاں کوئی استفسار حضور انور فرماتے تو فوراً وضاحت کے لئے آگے تشریف لے آتے۔ حضور انور جب خطاب کے لئے جلسہ گاہ میں تشریف لائے تو آپ کو بخار تھا اس کے باوجود استقبال کے لئے صف بستہ کھڑے رہے۔ حضور انور کے دست مبارک کو جھک کر بوسہ دیا تو حضور انور نے خلافت کی مشفقانہ شان اور محبت سے آپ کے کوٹ کے بٹن کو بند کرتے ہوئے فرمایا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ کو نہیں آنا چاہیے تھا ۔ پھر اس جلسہ میں آپ باوجود بخار کے تقریر کے لئے آمادہ و تیار تھے کہ حضور انور نے حکماً روک کر تقریر دوسرے کے سپرد فرمائی۔ گویا خلافت کے ہاتھوں میں آپ مٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ غرض کہ بہت خوبیوں کے جامع وجود تھے ۔