محترم مولانا جلال الدین قمر صاحب

جماعت احمدیہ کے عربی رسالہ ’’التقویٰ‘‘ لندن دسمبر 2006ء میں محترم مولانا جلال الدین قمر صاحب کے بارہ میں مکرم موسیٰ اسعد عودہ صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے۔ جس کا اردو ترجمہ مکرم پروفیسر سلطان اکبر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍جون 2007ء کی زینت ہے۔
ہمارے محبوب و معزز استاد مولانا جلال الدین قمر صاحب نے ہمارے درمیان اپنی زندگی کا کچھ عرصہ بسر کیا اور ہمیں نورانی راستوں پر چلانے اور ہمارے دلوں میں عقائد و اصول اور جماعت احمدیہ کے ساتھ وابستگی پر فخر کرنے کے بیج بونے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ایسا ہی آپ نے ہمیں ’’مطالبہ تحریک جدید‘‘ کے مطابق سادہ زندگی اختیار کرنے کا شوق بھی دلایا۔ آپ ان سب امور میں حضرت مصلح موعودؓ کو روشنی کا مینار تصور کرتے ہوئے حضورؓ کی ہدایات کی روشنی میں اپنے سب فرائض بجالاتے تھے۔ کیونکہ آپ کا دل، حضور کی محبت سے سرشار تھا۔
آپ 1955ء میں محترم مولانا محمد شریف صاحب کے جانشین کے طور پر یہاں تشریف لائے۔ آپ بھرپور نوجوان اور جرأتمندی کے جذبہ سے سرشار تھے۔ آپ نے سب سے پہلے ذیلی تنظیموں کو ازسرنو زندہ کیا۔ پھر بطور نگران خدام کی ادبی اور اجتماعی سب سرگرمیوں میں شامل ہوتے رہے اور ’احمدیہ دارالتبلیغ‘ کی عمارت خدام کے خرچ اور ان کے وقار عمل کے ساتھ تعمیر کی۔ تعمیراتی شوق کے ساتھ ساتھ آپ علمی امور کے بھی دلدادہ تھے۔ چنانچہ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ جو کہ 1948ء سے تعطل کا شکار تھا، اسے دوبارہ قائم کیا اور مسجد کے اردگرد نیز مسجد کے اندر بھی لڑکوں اور لڑکیوں کے پڑھانے کے لئے مختلف جگہوں کو ترتیب دیا۔ حتیٰ کہ حالات کے سازگار ہونے پر اس مدرسہ کے لئے ایک مستقل عمارت تعمیر کرنے کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی۔اور ایک بہت بڑے مجمع عوام اور علاقے کی عظیم شخصیات کے ساتھ اس مدرسہ کا افتتاح کیا گیا۔ عرصہ دراز تک، آپ کی زیر نگرانی یہ مدرسہ اپنے حجم میں چھوٹا ہونے کے باوجود علاقے کے عربی مدارس میں بہترین مدرسہ شمار ہوتا رہا۔
احمدیہ مشن ہاؤس اور مدرسہ احمدیہ کی عمارات کی تکمیل کے بعد آپ نے کبابیر میں نئی مسجد کی تعمیر پر کام شروع کروایا۔ کئی خوبصورت ڈیزائن تیار کروائے اور اس شاندار مقصد کے حصول کے لئے فنڈز جمع کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ اسی دوران حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو واپس ربوہ آنے کا ارشاد فرمایا کیونکہ آپ کی بوڑھی والدہ بارہ سال سے اپنے اس بیٹے کی ملاقات کے لئے بیقرار تھیں۔
آپ کبابیر سے روانہ ہونے لگے تو مَیں نے ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کی سنگ مرمر کی اس تختی کی طرف اشارہ کیا جس پر ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کا نام کندہ تھا۔ وہ ’’مدرسہ‘‘ جس کا وجود آپ کی مساعی جمیلہ، مستقل مزاجی اور انتہائی دانشمندی کا مرہون منت تھا۔ اس لئے میں نے فرمائش کی کہ ہم آپ کا نام اس تختی پر کندہ کرا دیتے ہیں۔ آپ نے جواباً مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: پیارے دوست! میں اس لئے کام نہیں کرتا کہ کسی جگہ میرے نام کو دوام ہو … یہ تمہاری سوچ ہے تم جانو تمہارا کام!۔ پس ہمارے استاد جلال الدین قمر کا نام اس تختی پر تو موجود نہیں۔ لیکن ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں وہ کندہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں