محترم چوہدری منصور احمد صاحب بی ٹی

محترم چوہدری منصوراحمد صاحب بی ٹی (ابن حضرت چوہدری علی محمدصاحبؓ بی اے بی ٹی) 8؍جنوری 2009ء کو بعمر77سال لندن میں وفات پاگئے۔ نماز جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل لندن کے احاطہ میں پڑھائی جس کے بعد احمدیہ قبرستان Brook Wood میں تدفین عمل میں آئی۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍مئی 2009ء میں مرحوم کا ذکرخیر اُن کے بھائی مکرم منور احمد صاحب کے قلم سے اور ماہنامہ ’’اخبار احمدیہ‘‘ یوکے کی 2009ء کی ایک اشاعت میں مرحوم کے فرزند مکرم طارق احمد بی ٹی صاحب ( جو برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں پہلے احمدی لارڈ ہیں) کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ ذیل میں ان دونوں مضامین کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے۔
محترم منصور احمد صاحب 1931ء میں پیدا ہوئے۔ صرف دس ماہ کے تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ میمونہ بیگم بنت حضرت مولوی فیض الدین صاحبؓ آف سیالکوٹ (متولّی مسجد کبوتراں والی) 12؍اپریل 1932ء کو وفات پاگئیں۔ اڑہائی سال کی عمر میں آپ کنویں میں گر گئے ۔ بظاہر زندگی کی امید نہیں تھی مگر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے والد محترم نے دوسری شادی کرلی۔ اُن سے بھی اولاد ہوئی۔ والدین کی تربیت سے ساری اولاد کا باہمی محبت والا سلوک قائم رہا۔
پاکستان بننے کے بعد محترم منصور احمد بی ٹی صاحب کے والد حضرت چودھری علی محمد صاحبؓ کراچی میں رہائش پذیر ہوئے اور شاہنواز میں عمدہ مشاہرہ پر ملازمت کرلی۔ جب ربوہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مصلح موعودؓ کا ایک پیغام آپؓ کو ملا جس میں حضورؓ نے فرمایاکہ مَیں یہاں (ربوہ میں) ہوں اور آپ وہاں (کراچی میں) ہیں۔ یہ پیغام پڑھتے ہی آپؓ اپنی فیملی کے ہمراہ ربوہ منتقل ہوگئے اور بقیہ زندگی واقف زندگی کی حیثیت سے وہیں بسر کرنے کی توفیق پائی۔
محترم منصور احمد بی ٹی صاحب 1947ء میں حفاظت مرکز قادیان کی خدمت بجالائے۔ پھر پاکستان میں 1949ء میں میٹرک کیا اور کراچی جاکر پلاننگ کمیشن میں ملازم ہوگئے۔ کراچی میں جماعتی خدمات کی بھی نمایاں توفیق پائی۔ 1954ء میں آپ سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگوآگئے اوربرٹش ریلوے میں بطور گارڈ ملازم ہوگئے۔ یہاں سیکرٹری مال کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے اور انگریزی اور اکاؤنٹینسی میں اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ 1962ء میں لندن شفٹ ہوگئے جہاں سول سروس کے تحت بورڈ آف ٹریڈ میں کام کرتے رہے۔ 1970ء میں PIA لندن میں بطوراکاؤنٹنٹ ملازمت کرلی اور 26سال تک نہایت محنت اور دیانتداری سے خدمات سرانجام دینے کے بعد 1996ء میں ریٹائر ہوئے۔ بعدازاں آپ نے اپنی خدمات کلیتاًجماعت کے لئے وقف کردیں اور ضیافت اورجلسہ سالانہ کے شعبوں میں نمایاں کام کرنے کی توفیق پائی اور اپنی علالت کو کبھی خدمت کی راہ میں روک نہیں بننے دیا۔ مقامی جماعت ومبلڈن کے صدر بھی رہے۔ مجلس انصاراللہ برطانیہ میں بھی اشاعت اور تربیت کے منتظم کے طور پر خدمت کی۔ برطانیہ میں جماعت کی تاریخ کو مرتب کرنے کے لئے کئی سال کام کیا۔ ایشین عمررسیدہ لوگوں کے لئے قائم ایک ایسوسی ایشن کے بھی سرگرم رکن رہے۔
علماء کرام اوربزرگان سلسلہ کی خدمت کرنے میں بہت خوشی محسوس کرتے اوران کی عزت اوراحترام حد درجہ ملحوظ رکھتے۔ حضرت چوہدری محمدظفراللہ خان صاحبؓ نے جب مستقل طور پر پاکستان واپس چلے جانے کا فیصلہ فرمایا تو آپ کو بھی خدمت کے لئے ساتھ جانے کی سعادت ملی۔ آپ کی تعزیت کرنے والے بے ساختہ یہ اظہار کرتے تھے کہ مرحوم نے جماعتی عہدیداروں کی اطاعت اور عام لوگوں کی (بلاتخصیص) خدمت کی نہایت عمدگی سے توفیق پائی۔
محترم منصور صاحب کا اپنے والد محترم سے پیار اورمحبت کا ایک خاص تعلق تھا۔ ہمیشہ ان کی خدمت میں کوشاں رہے اور اسی حوالہ سے اپنے بچوں کے نام کے ساتھ لفظ ’’بی ٹی ‘‘لگاتے رہے ۔
محترم منصور صاحب کو شعروشاعری سے بھی لگاؤ تھا۔ کئی بہت اچھی نظمیں اورپختہ غزلیں کہیں۔ طبیعت میں طنزومزاح کا عنصر بھی خوب تھا۔ حاضر دماغی اور برجستہ جواب دینے میں یدِطولیٰ حاصل تھا۔
مرحوم کی ایک نظم کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

آئینہ بن کے رہا ہوں پتھروں کے درمیاں
شمع اک جلتی رہی ہے آندھیوں کے درمیاں
راستے مخدوش تھے اور تھی مخالف بھی ہوا
زندگی کٹتی رہی ہے حادثوں کے درمیاں
ہیں اندھیرے چار سُو اور منزل بھی ہے دُور
منصورؔ قدم بڑھائے جا حوصلوں کے درمیاں

مرحوم کو خلافت احمدیہ سے بڑی محبت تھی۔ آپ کی ہی ایک نظم کے دو اشعار یوں ہیں:

جو رہتے ہیں اس سائباں کے تلے
وہی جانتے ہیں مقام خلافت
کبھی آ کے تم سنو دنیا دارو!
زباں آسماں کی کلام خلافت

اپنا تبصرہ بھیجیں