’’وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا‘‘ – حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی بیعت

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اہلیہ اوّل کے صاحبزادے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا تفصیلی ذکر خیر قبل ازیں 18؍اگست و 3؍نومبر 1995ء کے شماروں میں اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔ تاہم آپ کے بیعت کرنے کا تفصیلی احوال روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍دسمبر 1998ء میں مکرم یوسف سہیل شوق صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

25؍دسمبر 1930ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی مصلح موعود کا وہ حصہ ’’وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا‘‘ بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا جب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی اور اس طرح حضورؑ کا چوتھا صاحبزادہ بھی آپؑ کی غلامی میں داخل ہوگیا۔
اگرچہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ہمیشہ ہی حضورؑ کو سچا مسیح و مہدی سمجھتے تھے۔ چنانچہ باضابطہ بیعت سے قریباً دو سال قبل اکتوبر 1928ء میں آپ نے یہ بیان اخبار ’’الفضل‘‘ میں شائع کروایا کہ ’’میں حضرت مرزا صاحب … کے سب دعووں پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے اور راستباز تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے۔… میں دل سے احمدی ہوں‘‘۔
اس کے علاوہ آپ نے ایک ٹریکٹ ’’المصلح الخیر‘‘ نامی شائع کیا جس میں تحریر فرمایا کہ میری عقیدت حضورؑ کے ساتھ اس وقت سے ہے جبکہ میری عمر بارہ تیرہ برس تھی۔ میں تصدیق کرتا ہوں اور صدق دل سے مانتا ہوں کہ میرے والد صاحب مرحوم کی ہستی ایسی عظیم الشان تھی جو اسلام کے واسطے ایک قدرتی انعام تھا۔ میں اپنے والد صاحب کو ایک سچا انسان اور مسیح موعود سمجھتا ہوں اور اپنے آپ کو اس رنگ میں احمدی سمجھتا ہوں۔ میرے والد صاحب مرحوم میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے مجھ پر ناراض تھے اور میں صدق دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ اُن کی ناراضگی واجبی اور حق تھی اور باوجود اُن کی ناراضگی کے میں نے کبھی اخیر تک اُن کے دعاوی اور اُن کی صداقت کی نسبت کبھی کوئی مخالفانہ حصہ نہیں لیا۔
دسمبر 1930ء میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اپنی آخری بیماری میں صاحب فراش تھے اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحب آپ کے پاس جاتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی سلسلہ احمدیہ کا ذکر بھی آجاتا تھا۔ آخر ایک روز آپ نے حضرت ڈاکٹر صاحب کو بلایا اور خواہش ظاہر کی کہ وہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں عرض کرکے انہیں یہاں لے آئیں تاکہ حضورؓ آپ کی بیعت لے لیں۔ حضرت ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ پیغام سنتے ہی حضرت مصلح موعودؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور جاکر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی چارپائی کے قریب کرسی پر تشریف فرما ہوئے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ دونوں بھائیوں پر خاموشی طاری تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں کے دل شرم و حیا سے لبریز ہیں۔ آخر کچھ توقّف کے بعد خاکسار نے مرزا صاحب موصوف کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ جب آپ بیعت کی خواہش ظاہر فرما چکے ہیں تو اپنا ہاتھ بڑھائیں۔ چنانچہ انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور بیعت شروع ہوگئی۔ حضورؓ نے دھیمی آواز میں بیعت کے الفاظ دہرائے۔ پھر دعا ہوئی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی بیعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق ایک اہم اعتراض یہ بھی تھا کہ آپؑ کے رشتہ دار اور خصوصاً بیٹا آپ کا انکار کرتا ہے۔ میں نے متواتر اور اس کثرت سے اس امر میں خدا تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ بیسیوں دفعہ میری سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اس وجہ سے نہیں کہ جس کے متعلق یہ اعتراض کیا جاتا تھا وہ میرا بھائی تھا بلکہ اس وجہ سے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کا بیٹا تھا اور یہ اعتراض حضرت مسیح موعودؑ پر پڑتا تھا۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جس شخص نے اپنے باپ کے زمانہ میں بیعت نہ کی ہو اور پھر ایسے شخص کے زمانہ میں بھی بیعت نہ کی ہو جس کا ادب اور احترام اُس کے دل میں موجود ہو اُس کے متعلق یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی وقت اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرلے گا۔ لیکن کتنا زبردست اور کتنی عظیم الشان طاقتوں اور قدرتوں والا خدا ہے جس نے حضرت مسیح موعودؑ کو مدتوں پہلے فرمادیا تھا کہ ہم تیرے اوپر کئے جانے والے اعتراضات کا نشان بھی نہیں رہنے دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں