’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ … ایک تعارف

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ اپریل2024ء)
(قیادت تعلیم برطانیہ)

سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 17؍دسمبر 2023ء کو اراکین مجلس عاملہ انصار اللہ امریکہ کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران قائدتعلیم کو ارشاد فرمایا:

’’جو بہت پڑھے لکھے ہیں یا سمجھدار ہیں ان کو کہیں کہ وہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پڑھیں۔‘‘

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس ارشاد کی تعمیل میں قیادت تعلیم مجلس انصاراللہ برطانیہ نے سال 2024ء میں ممبران مجلس انصاراللہ برطانیہ کے مطالعہ کے لیے کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘ مقرر کی تاکہ تمام ممبران اس کتاب کا مطالعہ کریں اور اس کے مضامین کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین

…٭…٭…٭…٭…

 


اس کتاب کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ایک ہندو سوامی سادھو شوگن چندر صاحب نے 1896ء میں لاہور میں ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی اور مسلمانوں، عیسائیوں اور آریہ صاحبان کے علماء کو پانچ سوالات کے تحت اپنے اپنےمذہب کی خوبیاں بیان کرنے کی دعوت دی ۔
اس مضمون کی خاص بات یہ ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے مضمون پڑھے جانے سے قبل ہی خداتعالیٰ سے خبر پا کر مضمون بالا رہنے کی خوشخبری بذریعہ اشتہار، جو 21 دسمبر 1896ء کو شائع فرمایا، دے دی تھی ۔
آپؑ نے فرمایا کہ ’’میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ … ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز میں بولا۔ اَللّٰہُ اَکْبَر خَرِبَتْ خَیْبَر… سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا ۔
(روحانی خزائن جلد 10 تعارف اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ XXI )

حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے یہ مضمون پڑھا مگر مقررہ وقت میں ختم نہ ہوا تو لوگوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کو اس مضمون کو پڑھنے کے لیےمزید وقت دیا گیا اور جلسہ کے لیے ایک دن کا اضافہ بھی کیا گیا اور کُل چھ گھنٹے میں یہ مضمون ختم ہوا۔ جولائی 1907ء میں اس مضمون کو کتابی صورت میں چھاپا گیا اور یہ کتاب روحانی خزائن کی جلد نمبر 10 میں موجود ہے۔
اس مضمون کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس میں کسی دوسرے مذہب پر حملہ نہیں کیا گیا بلکہ محض اسلام کی خوبیا ں بیان کی گئیں اور سوالات کے جوابات قرآن کریم سے ایسے طور پر دیے گئے ہیں کہ جن سے اسلام کا تمام مذاہب سے اکمل اور احسن او راتم ہونا ثابت ہوتا ہے۔

جلسہ کے لیے تجویز کردہ پانچ سوالات کے جوابات

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں ان پانچ سوالات کے مدلّل جوابات تحریر فرمائے جو جلسہ اعظم مذاہب کے لیے تجویز کیے گئے تھے۔
پہلا سوال انسان کی طبعی ،اخلاقی اور روحانی حالتوں کے بارے میں ہے۔
قرآن کریم نے ان تینوں حالتوں کو بیان فرمایا ہے۔
پہلانفس امارہ
یہ انسان کو بدی کی طرف اور ناپسندیدہ اور بد راہوں پر چلانا چاہتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ پاک کلام میں فرماتا ہے اِنَّ النَّفسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ۔
دوسرانفس لوامہ
یہ انسان کو بدی پرملامت کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ۔
تیسرانفس مطمئنہ
یہ وہ مقام ہے جس میں انسان کا نفس تمام کمزوریوں سے دو ر ہو جاتا ہے اور روحانی قوتوں کو حاصل کر لیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ۔ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً۔
پھر اصلاح کے تین درجےبیان فرمائے اول یہ کہ ادنیٰ خُلق پر قائم ہوں، کھانے پینے اور تمدنی امور کے طریق پر چلنا یعنی وحشیانہ طریقوں سے کھینچ کر انسانیت کے لوازم اور تہذیب کی طرف متوجہ کرنا۔ دوسرا یہ کہ پھر بڑے اخلاقِ انسانیت سکھائے جائیں یعنی خدا تعالیٰ کے حقوق اور انسانیت کے حقوق کے متعلق توجہ کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کی طرف توجہ اور اصلاح کا دارومدار سچے اور حقیقی خدا کو پانا ہے۔ تیسرا یہ کہ انسان کو اخلاق فاضلہ کی طرف متوجہ کیا جائے۔
دوسرا سوال : موت کے بعد انسان کی کیا حالت ہو گی ؟
اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں قرآن پاک کی رو سے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عالم آخرت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ انسان کی جو حالت دنیا میں ہوتی ہے وہی کھل کر صفائی کے ساتھ پیش آتی ہے۔جیسے کہ ہم خواب میں دیکھتے ہیں کہ اگر کسی کو تیز بخار ہو تو خواب میں اسے آگ اور شعلے نظر آتے ہیں ۔یعنی جو جو اعمال اور کردار ہم مخفی طور پر دنیا سے لے کر جائیں وہ آخرت میں کھل کر ہمارے سامنے نظر آئیں گے۔
تیسرا سوال: دنیا میں زندگی کےمدعا کیا ہیں اور ان کا حصول کس طرح ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن حکیم کی آیت سے ثابت فرمایا کہ انسان کی زندگی کا اصل مدعا اور مقصد خدا تعالیٰ کی عبادت ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّالِيَعْبُدُونِ ۔
اور اس مقصد کو پانے کا بڑا وسیلہ آپ نے خدا کی ذات کو پہچاننا قرار دیا ہے۔ دوسرا ذریعہ خدا کی وحدانیت یعنی ذات اور صفات میں کسی اور کو شریک نہ کر کے اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔تیسرا ذریعہ خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرنا ہے۔ چوتھا ذریعہ دعا کو ٹھہرایا ہے یعنی خدا کو پانے کے لیے اس سے دعا کی جائے کہ اس کی محبت دل میں قائم ہو ۔اور پانچواں ذریعہ مجاہدہ ہے یعنی خدا کی راہ میں مال کی قربانی کی جائے ۔ چھٹا استقامت ہے یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے۔ ساتواں ذریعہ راستبازوں کی صحبت اور کامل نمونہ ہے۔ اور آٹھواں ذریعہ خداتعالیٰ سے کشف اور الہام اور سچی خوابیں پانا ہے۔
چوتھا سوال: زندگی میں اور زندگی کے بعد عملی شریعت کا فعل کیا ہے؟
اس کے جواب میں آپ علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ خدا کی سچی اور کامل شریعت کا فعل جو انسان کی زندگی میں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ شریعت انسان کو اس کی وحشیانہ حالت سے انسان بنا دے اور پھر انسان سے بااخلاق انسان بنا دے اور پھر بااخلاق انسان سے با خدا انسان بنا دے اور انسان شریعت حقہ پر قائم ہوجائے اور ایسا شخص دوسروں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے۔ گویا وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا مکمل پیکر ہو جاتا ہے۔
پانچواں سوال: علم اور معرفت الٰہی کے ذریعے کیا کیا ہیں ؟
اس سوال کے جواب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ قرآن شریف میں علم کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں ۔
پہلی علم الیقین
یعنی کسی چیز کا کسی واسطے کے ذریعہ پتہ لگایا جائے جیسے دھوئیں کو دیکھ کر آگ کا پتا لگانا۔ ایسے ہی زمین کی بناوٹ اور آسمان کے اجرام کی بناوٹ کو دیکھ کر ہم پتہ لگاسکتے ہیں کہ اس کو بنانے اور نظام چلانے والی کوئی ذات ہے۔
دوسرا عین الیقین
یعنی آگ ہی کو انسان دیکھ لے۔ یعنی جب انسان سچی خوابوں اور کشف اور الہام اور خدائی نشانات کو دیکھ لے تو عین الیقین ہو جاتا ہے کہ ایک ذات ہے جو دیکھتی اورسنتی ہےاور
تیسرا حق الیقین
یعنی آگ میں داخل ہو کر انسان پتہ کرے کہ آیا یہ آگ ہی ہے۔یعنی انسان جب خدا کی راہ میں تمام تکالیف اور دکھ اور درد کو محسوس کر کے خدا کی راہ میں عمل کرکے کمال کو پہنچ جاتا ہے یعنی علمِ کامل کو پاتا اور یہی حق الیقین ہے کہ انسان عملی طور پر بھی خدا کی راہ میں مشکلات کو برداشت کر کے اس مقام پر پہنچا ہے۔ جیسے کہ رسول اللہﷺ کی زندگی کا ایک حصہ انتہائی دکھوں اور مصیبتوں کا زمانہ تھا ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں