بین الاقوامی کسرِ صلیب کانفرنس، لندن

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ اپریل2024ء)

تحریر: بشیر احمد رفیق خان

مئی 1977ء کی بات ہے کہ خاکسار نے برطانیہ کے اخبارات میں یہ خبر پڑھی کہ 1978ء کے آغاز میں برطانیہ کی بعض عیسائی تنظیمیں ’’ مقدس کفن‘‘ کے موضوع پر ایک کانفرنس کاانعقاد کریں گی جس میں اس بات کا تعین کیاجائے گا کہ آیا یہ ’’ مقدس کفن‘‘، جسے The Shroudبھی کہا جاتا ہے،حقیقی ہے یاجعلی۔

شبیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

یہ ’’ مقدس کفن‘‘ سالہا سال سے اٹلی کے شہر ٹورین Turinکے مرکزی کلیسا میں محفوظ ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب پہلی مرتبہ اس کی تصاویر اتاری گئیں تو حیرت انگیز طور پر ان تصاویر میں ایک شبیہ نظر آئی جس کے ہاتھوں اور پیروں پر زخموں کے نشانات تھے اور پسلیوں سے خون رسنے کے دھبے بھی نمایاں نظر آرہے تھے جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ جس شخص کو اس کپڑے میں لپیٹا گیا تھا، اس کی حرکتِ قلب برقرارتھی اور اسی لیے کپڑے میں لپیٹے جانے کے بعد بھی زخموں سے خون رِس رہا تھا۔

کفن مسیح علیہ السلام کی شبیہ

عیسائی عقیدہ اور تحقیق کے مطابق یہ وہ کپڑا تھا جسے بطور کفن استعمال کیا گیا تھااور حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب سے اتارنے کے بعد پہنایا گیاتھا۔ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ یہی وہ ’’ مقدس کفن‘‘ ہے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کو لپیٹا گیا تھا تو پھر پورے یقین سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ صلیب سے اتارے جانے اور قبر میں رکھے جانے کے بعد بھی ان کے دل کی حرکت جاری تھی اوروہ زندہ تھے۔
خاکسارنے جب یہ اخباری رپورٹیں پڑھیں تو انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ بھجوا دیا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں بھی 1978ء کے وسط میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے جس میں ہم یہ ثابت کریں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صلیب کی لعنتی موت سے نجات عطا فرمائی تھی اوررومن حکومت یہودیوں کے ساتھ مل کر اُن کو صلیب کی لعنتی موت سے ہمکنار کرنے میں ناکام ہوگئی تھی۔ خاکسار نے اس درخواست میں حضور ؒ سے یہ بھی استدعا کی کہ حضورؒ خود اس کانفرنس میں شرکت فرمائیں اور اسے خطاب فرمائیں۔

حضورؒ نے خاکسار کی اس درخواست کو منظور فرماتے ہوئے خاکسار کو ایک ہفتہ کے لیے ربوہ حاضر ہونے کی ہدایت فرمائی تا تمام امور پر غور ہوسکے۔ خاکسار نے مجلس عاملہ کے اجلاس میں حضورؒ کی منظوری اور کانفرنس میں بہ نفسِ نفیس شرکت کرنے کی خوشخبری سنائی۔ مجلس عاملہ نے تفصیلی طور پر سب امور کاجائزہ لیا۔ خاکساران کے مشوروں کے ساتھ عازم ربوہ ہوگیا اور مجلس عاملہ کے مشوروں اور تجاویز کو حضورؒ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضورؒ نے اگلے دن مکرم وکیل التبشیر صاحب کو بھی مشاورت کے لیے طلب فرمایا اور کانفرنس کے انعقاد کے سلسلہ میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ حضورؒ نے کانفرنس کے انعقاد کی منظوری عطافرماتے ہوئے اس سلسلہ میں کیے جانے والے اخراجات کے بجٹ کی منظوری بھی عطا فرمائی۔ واپسی پر خاکسارنے مجلس عاملہ کو ربوہ میں کیے جانے والے فیصلوں سے آگاہ کیا اور کانفرنس کے انتظامات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ کانفرنس کا انعقاد 4,3,2جون 1978ء کو کیا جائے۔
اس کانفرنس کی تشہیر کے سلسلہ میں اخبارات ٹی وی اور ریڈیو کو سلسلہ احمدیہ کے تعارف اور کاموں پر مبنی نیوز لیٹر بھی کثرت سے بھجوائے جانے کا اہتمام کیاگیا۔ لندن کے اخبار ٹائمز The Times میں ہم نے ایک اشتہار چند مرتبہ شائع کرایا جس میں کانفرنس کے اغراض و مقاصد اور سلسلہ احمدیہ کے تعارف کے ساتھ ساتھ قارئین کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔ برمنگھم ٹیلی ویژن پر بھی خاکسار کو کانفرنس کے بارہ میں بات چیت کے لیے بلایاگیا۔ درجنوں اخبارات و رسائل نے ہمارے انٹرویوز شائع کیے۔ ریڈیو پر بھی متعد د مرتبہ کانفرنس کاتذکرہ ہوا اور ہمارے انٹرویوز ہوئے۔
٭ اخبار ’’ جنگ ‘‘ لندن نے 7دسمبر 1977ءکی اشاعت میں محلہ خانیار میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر کی تصویر دے کر یہ خبر شائع کی :

حضرت عیسیٰؑ سرینگر میں دفن ہیں

( برطانیہ کی احمدیہ جماعت کادعویٰ)

مقبرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

لندن (نمائندہ جنگ) برطانیہ کی احمدیہ جماعت اگلے سال 2تا4جون لندن کے کامن ویلتھ انسٹی ٹیوٹ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقدکررہی ہے۔ جس میں اس مسئلہ پر ماہرین، مفکرین اورمؤرخین احمدی جماعت کے اس عقیدہ کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ حضرت عیسی مسیح کو صلیب پرتو ضرور چڑھایاگیا تھا مگر ان کاانتقال صلیب پرنہیں ہوا بلکہ وہ لمبی عمر پانے کے بعدسرینگر (کشمیر،انڈیا) میں وفات پاگئے جہاں آج بھی ان کامقبرہ ہے۔ یہ حیرت انگیز انکشاف لندن میں احمدی مسجد کے امام مسٹر بشیر احمد رفیق نے ایک پریس کانفرنس میں جمعہ کو کیا، جووالڈ وورف ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی۔ اس پریس کانفرنس میں حضرت عیسیٰ کے اس مبینہ مقبرہ کی تصویربھی تقسیم کی گئی جس کی کھوج قادیانی فرقہ کے بانی مرزاغلام احمد نے سرینگر (کشمیر) میں لگائی تھی اور جس کا تفصیلی ذکر مرزا صاحب نے اپنی کتاب ’’ مسیح ہندوستان میں‘‘ میں کیا ہے۔ امام صاحب نے کہا کہ اس بین الاقوامی کانفرنس کے ساتھ ہی احمدی جماعت کی تبلیغ کا کام بھی عالمگیر پیمانہ پر شروع ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں اس فرقہ کے ماننے والوں کی مجموعی تعدادایک کروڑ ہے جس میں سے کوئی دس ہزار برطانیہ میں ہیں۔‘‘
٭ برطانیہ کے ایک کثیر الاشاعت اخبارCatholic Heraldنے اپنی اشاعت مورخہ9دسمبر1977ء میں لکھا:

Muslim Sect with doubts about Christ.
Britain is a field ripe for conversion to Islam, according to Imam Rafiq, the leader of the Ahmadiyya Muslim sect in this country.
A nation wide crusade to be launched next year culminating in an International Conference in London which will take as its theme, “The Deliverance of Jesus from the Cross,”
Speaking at the launch of the crusade, Mr. Rafiq explained that the Ahmadiyya felt it was time to bring Europe and America back to a living communion with God. He felt Christianity had failed to do this.
The Ahmadiyyas claim that their beliefs are synonymous with Islam, but many would disagree with that view. Of the 2,000,000 Muslims in Britain only 11,000 are Ahmadiyyas . In Pakistan the sect has been declared “non Muslim”.
The belief which will be promulgated throughout Britain next year by sermons from doorstep missionaries and the distribution of Ahmadiyya literature, differ from main-line Islam as well as Christianity.
They believe that our Lord and Muhammad were just human prophets who have now been outshone by the 18th century Hazrat Mirza Ghulam Ahmad, whom they revere as the promised Messiah. Since main line Muslims admit the humanity of Muhammad, the Ahmadiyya concentrate on disproving the divinity of Christ.
They have taken great interest in the Turin Shroud, which they hope will prove conclusively that Jesus was alive when he was taken down from the Cross. They allege that after Jesus had been cared for by his apostles, he went to India in search of the Lost Tribes of Israel.
Their most tangible evidence is an ancient tomb in Kashmir which they say has been “Confirmed” by archaeological excavation although they refuse to allow the tomb to be opened on the grounds that such action would be contrary to Muslim law.
They identify the tomb as the resting place of Yus Asaph which they claim is the Arabic form of “Jesus the Gatherer” although the Koranic form of our Lord, name is Aisa.
The Ahmadiyyas are as optimistic as they are evangelical. Missionaries have been sent to places as unlikely as Rome and Israel. They believe they will succeed in effecting their founder’s prophecy of international acceptance of Ahmadiyya Islam.
Each convert undertakes to give 16 percent of his income to a central fund to finance schools, printing presses and scholarships.”

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام

انگلستان اور یورپ کے بےشمار اخبارات نے ہماری اس کانفرنس کی خبریں شائع کیں۔ ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور اخباری انٹرویوز کے ذریعہ بھی کثرت سے اس کانفرنس کی تشہیر ہوئی۔ برمنگھم ٹی وی اورجلنگھم T.V کے نمائندگان نے خاکسار کے انٹرویوز دکھائے۔ لندن کے ریڈیو L.B.CاورB.B.Cنے خاکسار کے انٹرویو نشر کیے اور اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے کانفرنس کے انعقاد سے قبل ہی جماعت احمدیہ اور حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات پانے کے عقیدہ کی خوب تشہیر ہوئی۔ انگلستان کے مشہور ریڈیو4 پر بھی خاکسارکا ایک مفصل انٹرویو، جو سوالات وجوابات پرمشتمل تھا، نشر ہوا اور اس طرح کروڑوں لوگوں تک پیغام حق پہنچ گیا۔ الحمدللہ
دسمبر1977ء میں لندن سے شائع ہونے والے مشہور اخبار’’ ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ نے، جس کی روزانہ اشاعت 10لاکھ سے اوپر ہے، اس خواہش کااظہار کیا کہ وہ کانفرنس والے دن شائع ہونے والے سنڈے میگزین میں ایک خصوصی مضمون شائع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خاکسار کے لیے بہت بڑی خبر تھی۔ چنانچہ دسمبر 1977ء میں جب خاکسار نے جلسہ سالانہ ربوہ کی تیاری کی تو کسر صلیب کانفرنس کی تشہیر کے لیے بعض اخبارات کے نمائندگان کو بھی ہمراہ لانے کے لیے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں درخواست کی تاکہ اۡن کی تحقیق کو کانفرنس کے دوران پیش کیا جاسکے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں متعدد بڑے بڑے اخبارات کو دعوت دی گئی۔ بالآخر انگلستان کے مشہور اور کثیرالاشاعت اخبار Sunday Telegraphنے اپنا ایک نمائندہ اور ایک فوٹو گرافر میرے ساتھ اس سفر پر بھجوانے کے لیے آمادگی ظاہر کردی لیکن یہ شرط لگائی کہ یہ دونوں نمائندے اخبار کی طرف سے ان کے خرچ پرجائیں گے اور ہم سے اس سلسلہ میں سوائے مہمان نوازی کے اَورکچھ قبول نہ کریں گے۔ حضورؒ نے اس کی منظوری دے دی۔ چنانچہMr. Phillipنامی اخبارنویس اور ایک اعلیٰ فوٹوگرافر نے میرے ساتھ رابطہ کیا۔ ہم مقررہ تاریخ پرربوہ پہنچے۔

ربوہ میں حضورؒ نے ازراہِ شفقت مسٹر فلپ کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے بچ جانے اور سفر کشمیر اوروہاں وفات اورتدفین کے بارہ میں تفصیلی معلومات پیش کیں اور فرمایاکہ آپ لوگ ایک آزاد ملک کے ایک آزاد اخبار کے نمائندہ ہیں۔ بشیر احمد رفیق تمہاری مہمان نوازی اور مدد کے لیے تمہارے ساتھ ہوں گے۔ آپ لوگ آزادی کے ساتھ جو بھی تحقیقات کرنا چاہیں ، کریں۔
ان نمائندگان نے جلسہ سالانہ میں شرکت کی۔ بزرگان اورعلماء سلسلہ سے ملاقاتیں کیں۔ بے شمار تصاویر تیار کیں اور جلسہ سالانہ کے اعلیٰ انتظامات سے بےحد متاثر ہوئے۔ جلسہ کے اختتام پرہم تینوں براستہ لاہور قادیان کے لیے روانہ ہوئے۔ قادیان میں حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو ہمارے پہنچنے کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ چنانچہ قادیان کے ایک وفد نے بارڈرپرہمارا استقبال کیا۔ قادیان میں ہماراقیام تین چارروز رہا۔ اس دوران مسٹر فلپ کو تمام تاریخی مقامات دکھائے گئے۔ان کے سوالات کے جوابات دیے گئے۔ قادیان سے ہم امرتسرگئے اوروہاں سے Air Indiaکی فلائیٹ پر سرینگر کے لیے روانہ ہوئے۔ سرینگر ایئرپورٹ پرجناب غلام نبی صاحب ،جو وہاں جماعت کی طرف سے بطور مبلغ تھے، نے ہمارا استقبال کیا۔ ان کے ساتھ پریس کے بعض نمائندگان بھی تھے جنہیں میں نے مختصراً انٹرویو کے دوران اپنے دورہ کے مقاصد سے آگاہ کیا اور وعدہ کیا کہ دورہ کے اختتام پرہم ایک پریس کانفرنس کریں گے۔
ہمارے سرینگر میں قیام کاانتظام Oberoiہوٹل میں کیا گیا تھا۔ یہ پارٹیشن سے پہلے مہاراجہ کا محل ہوا کرتا تھا۔ جھیل ڈل کے کنارے یہ ایک وسیع و عریض بلڈنگ ہے۔ ہوٹل سے جھیل ڈل کا نظارہ نہایت دلکش اور خوبصورت ہے۔ اگلے دن ہم جناب غلام نبی صاحب کی معیت میں محلہ خانیار میں حضرت مسیح علیہ السلام کے مزارِ مبارک کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ مزار وہاں انیس سو سال سے مرجعِ خلائق ہے۔ عام طور پر اسے یوزآصف نبی کی قبرکہا جاتا ہے۔ قبر یہودیوں کے مزارات کے طرز پر بنائی گئی ہے۔ اس میں ایک زمین دوز کمرہ ہے جس میں ایک چھوٹی سی کھڑکی رکھی گئی ہے۔ اصل قبر نیچے زمین دوز کمرہ میں ہے۔ قبر کا رُخ مسلمانوں کی قبروں سے بالکل مختلف شرقاً غرباً ہے، جویہودیوں کا طریقہ ہے۔ اس کے قبرِ مسیح ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ ہے کہ اس قبر کے ساتھ ایک پتھر پرزمانۂ قدیم سے موم بتی روشن کی جاتی ہے اوراس پر موم پگھلتا چلاگیا ہے۔ چند سال قبل جب اس قبرکے بارہ میں تحقیق کی جارہی تھی توموم کی تہوں کو کھرچ کھرچ کر ہٹایا گیا۔ جب پتھر صاف ہوگیا تو دیکھا گیا کہ اس پرحضرت مسیحؑ کے قدموں کے نشانات کندہ ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ نشان کندہ کرانے والوں نے پیروں پر زخموں کے نشانات بھی کندہ کرا دیے تھے جو اس بات کاحتمی ثبوت ہے کہ زمانۂ قدیم سے لوگوں کایہ عقیدہ تھا کہ اس قبر میں جو شخصیت محو خواب ہے، اسے صلیب دی گئی تھی ورنہ اس کے پیروں پر زخموں کے نشان کیوں دیے جاتے؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قدموںکے نشان

ہم جب مقبرہ پرپہنچے تووہاں کوئی موجود نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص آیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اس مقبرہ کا مجاور ہے۔ اس نے دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ہوگئے۔ مقبرہ کے ماحول اورہمارے وہاں جانے کے متعلق مسٹر فلپ نے 4؍جولائی 1978ء کے ’’سنڈے ٹیلی گراف میگزین‘‘ میں لکھا :

“It was an experience to make even a casual Church of England back slider feel deeply uneasy . A taxi had taken me from the most extravagant hotel in Kashmir to a crossroads in one of the poorest areas in Srinagar, the capital. Cows, goates and children struggled through the mud and worse. On one corner was a small booth which served as a butchar’s shop. On another was a two storey house which turned out to be a factory serving the trinket trade.
Opposite them, in the corner of a disused cemetary occupied by fierce stray dogs, was a small white building with a corrugated iron roof. ”There you are,” said my guide ”The Tomb of The Jesus Christ”.

ہم مقبرہ کے اندر داخل ہوئے۔عمارت کے اندر ایک چوبی جنگلہ بنا ہوا ہے جس کے اندر دو قبریں ہیں۔ ایک قبر حضرت مسیح علیہ السلام کی اور دوسری قبر ایک مسلمان بزرگ سید نصیرالدین صاحب کی ہے جو پندرھویں صدی عیسوی میں گذرے ہیں۔ آپ حضرت یوز آصف نبی کی تعلیمات سے بےحد متاثر تھے اس لیے آپ نے وفات کے وقت اس خواہش کااظہار کیا تھا کہ انہیں حضرت یوزآصف نبی یعنی حضرت مسیح کے مقبرہ میں ان کے نزدیک دفن کیا جائے۔

قبر مسیح علیہ السلام

ہماری درخواست پر اورکچھ نذرانہ پیش کرنے پرمجاور صاحب نے ہمیں اس جنگلہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ کمرہ میں اندھیرا تھا چنانچہ مجاور صاحب نے موم بتیاں جلاکر قبر کا ماحول روشن کردیا۔ میں نے قبر کے سرھانے کھڑے ہوکر تضرّع سے دعا کی کہ مولیٰ کریم یہ تیرے اس بزرگ نبی کی قبر ہے جو وحدانیت کو دنیا میں پھیلانے کے لیے مبعوث ہوا تھا اور جس نے بنی اسرائیل سے شرک کو مٹانے کے لیے ساری زندگی جدوجہد کی تھی۔ آج اس کے نام پراس کے متبعین ایک عظیم شرک میں مبتلا ہیں اور تیرے اس پاک بندے کو خدائی کے تخت پر بٹھاتے ہیں۔ تُو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ یہ روزِ روشن کی طرح ثابت ہو جائے کہ وہ صلیب سے زندہ اتر آئے اور اس مقبرہ میں مدفون ہوئے۔ تاکہ شرک ملیامیٹ ہو جائے اور دۡنیا میں ،بالخصوص ان کے متبعین میں، وحدانیت کی طرف رجوع ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تیرا وعدہ، کہ ان کے ذریعہ کسر صلیب ہوگی ، شان کے ساتھ پورا ہو۔آمین
دعا سے فارغ ہوا تو مسٹر فلپ کی درخواست پر مجاور صاحب نے تصاویر کھینچنے کی بخوشی اجازت دے دی۔ چنانچہ ہم نے قبر مسیحؑ کی اور ان پتھروں کی جن پر ان کے زخمی قدم مبارک کے نقوش ہیں، تصاویر اُتاریں جو خلافت لائبریری میں محفوظ ہیں۔ قبر پرجو کتبہ ہے وہ محکمہ آثارِ قدیمہ کشمیر کا لگایا ہوا ہے۔ اس پر درج ہے کہ یہ یوز آصف نبی کی قبر ہے جو صدیوں قبل دور دراز ملکوں سے ہوتے ہوئے یہاں آئے اور ساری عمر عبادت و تبلیغ میں بسر کی۔ اس بات کے ثبوت میں، کہ یوزآصف اور مسیح ناصری ایک ہی وجود کے دو نام ہیں، بے شمار شہادتیں موجود ہیں۔ میں صرف ایک شہادت یہاں پیش کرتاہوں۔
Sir Francis Younghusbandجو لمبے عرصہ تک کشمیرمیں برطانوی ریزیڈنٹ کے طور پرقیام پذیرتھے، لکھتے ہیں:

“There resided in Kashmir some 1900 year ago a saint of the name of Yaz Asaf, who preached in parables and used many of the same parables as Christ uses, as for instance, the parable of the sower. His tomb is in Srinagar…. and the theory is that Yuz Asaf and Jesus are one and the same person. When the people are in appearance of such a decided Jewish Cast, it is curious that such a theory should exit.”
(Sir Francis Younghusband, page 112)

حضرت مسیح علیہ السلام کی کشمیر آمد اور ان کی قبر کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معرکہ آرا کتاب ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
مقبرہ سے باہر نکلے تومسٹرفلپ نے ایک بوڑھے کشمیری کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ مَیں اس سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہوں، تم صرف ترجمانی کرو، اپنے پاس سے کوئی بات شامل نہ کرنا۔مَیں نے کہا کہ جو گفتگو ہوگی اس کی گواہی مجاور صاحب دے سکتے ہیں جو تھوڑی بہت انگریزی جانتے تھے۔ چنانچہ اس کشمیری بزرگ کو بلایا گیا اورجو مکالمہ ہوا وہ کچھ اس طرح تھا:
مسٹر فلپ: آپ کی عمرکیا ہوگی اور آپ کب سے سرینگر میں آباد ہیں؟
بزرگ کشمیری: میری عمر80سال سے اوپر ہے اور میں سرینگر میں ہی پیداہوا۔ اور ساری عمر یہیں گزاردی ہے۔
مسٹر فلپ: اس مقبرہ کے بارہ میں آپ کیاجانتے ہیں؟
بزرگ کشمیری: یہ یوز آصف نبی کامقبرہ ہے جو سنا ہے 1900سال قبل کشمیر میںکسی دور دراز ملک سے آئے تھے اور یہاں اپناوقت زیادہ تر عبادات اور اس وقت کے کشمیری لوگوں کو نصیحت کرنے میں گزارتے تھے۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ آپ کی وفات سو سال سے اوپر کی عمر میں ہوئی۔
مسٹر فلپ: اس قبر کے بارہ میں آپ کو جو بھی معلومات ہیں بتائیں۔
بزرگ کشمیری: قبر نیچے Basementمیں ہے۔ باہر گلی کی طرف اس میں ایک کھڑکی ہوا کرتی تھی جو اب بند کردی گئی ہے۔ اس کھڑکی سے ہمیشہ نہایت اعلیٰ قسم کی خوشبو نکلاکرتی تھی۔ لوگ کھڑکی کے اندر ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تو سارا دن ان کے ہاتھوں سے خوشبو آتی تھی۔یہ بھی ہمیشہ سے مشہور چلا آتا ہے کہ قبر پر کھڑے ہوکر دعائیں کی جائیں تو قبول ہوتی ہیں۔
قبر مسیح کی زیارت سے فارغ ہوکر ہم واپس ہوٹل چلے آئے۔ شام کو مَیں نے فدا حسنین صاحب کو فون کیا۔ آپ یونیورسٹی آف کشمیر میں پروفیسر ہیں، آرکیالوجی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور قبر مسیح پر بہت کچھ تحقیق کرچکے ہیں اور اس موضوع پر چند کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے نہیں ہے۔ فداحسنین صاحب نے فون پر بتایا کہ انہیں اخبارات کے ذریعہ ہماری آمد کا علم ہوچکا ہے اور وہ خود ہم سے ملنے کے خواہش مند ہیں۔ چنانچہ اسی شام کو ایک ریسٹورینٹ میں ان سے ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔
شام کو ہم تینوں یعنی مسٹر فلپ، فوٹو گرافر صاحب اور خاکسار ریسٹورنٹ پہنچے تو فدا صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ نہایت خوش اخلاق انسان ہیں۔ چہرہ پر سدابہار مسکراہٹ رہتی ہے۔ انہوں نے تفصیل سے قبرِ مسیح ؒ کے بارہ میں ہمیں بتایا اور فرمایاکہ انہوں نے اپنی تحریرات میں حتمی طور پر ثابت کیا ہے کہ یہ قبر حضرت مسیح علیہ السلام کی ہے۔ فدا صاحب نے اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہایت اعلیٰ انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا اور فرمایا کہ اصل تحقیق تو اُن کی ہے، باقی سب ان کے خوشہ چین ہیں۔ یہ ملاقات بہت معلوماتی اور روح پرور اور دلچسپ رہی۔ مسٹر فلپ بھی ان سے بہت متاثر ہوئے۔
فدا حسنین صاحب سے بعدمیں لندن میں بھی میری کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک مرتبہ وہ تین دن ہمارے پاس لندن میں مقیم رہے۔ اس دوران خاکسار نے اُن کی ملاقات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒسے بھی کرائی۔ انہوں نے حضورؒ کی خدمت میں اپنی تازہ کتاب The Fifth Gospelپیش کی۔ آپ نے اس کتاب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نامDedicateکرکے صفحہ اول پرحضور علیہ السلام کی تصویر کے ساتھ حضور علیہ السلام کی قبرِ مسیح کے بارہ میں تحقیقات کوخراجِ تحسین پیش کیاہے۔
اگلے تین چار دن مسٹر فلپ اور فوٹوگرافر صاحب تو اپنی تحقیق کے سلسلہ میں مختلف لوگوں سے ملتے رہے اور مَیں نے جماعت کی دعوت پر سرینگر سے باہر کی دو تین احمدی جماعتوں کا دورہ کیا۔ یہ بےحد روح پرور دورہ تھا۔ احباب جماعت کاخلوص، احمدیت کے لیے جوش و جذبہ اور خلافت احمدیہ سے دلی وابستگی دیکھ کر بارہامیری آنکھیں اشکبارہوتی رہیں۔ بظاہر یہ لوگ غریب تھے اور سردی میں مناسب لباس نہ پہننے کی وجہ سے ٹھٹھرتے جاتے تھے لیکن ان کے قلوب ایمان کی گرمی سے مالامال تھے۔ غرض سرینگر اور اس کے گرد ونواح میں ایک ہفتہ قیام کے بعد ہم براستہ قادیان واپس پاکستان آگئے۔ سرینگر میں ہم نے قابلِ دید مقامات بھی دیکھے۔ ڈل جھیل میں کشتیوں کے نظارے بھی دیکھے اور دل یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ یہ نظارے دنیا کے دلکش ترین نظارے ہیں۔
اگلے سال جون میں کانفرنس کاانعقاد ہوا تومسٹر فلپ نے 6جون1978ء کے سنڈے ایڈیشن میں ایک تفصیلی مضمون تصاویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ ایک ملین کی تعداد میں شائع ہوا اور پھر دنیا کے مختلف اخبارات نے بھی اس کے چیدہ چیدہ حصے شائع کیے۔ مسٹر فلپ نے اس مضمون میں یہ بھی لکھا:

“There has been an Ahmadi mosque in Britain, the imperial homeland, since 1924. It is situated in Gressenhall Roal, south west London, and has small branches throughout Britain, with a strength of about 10,000. The Imam, Mr. B.A. Rafiq is a charming and cultivated man whose landowning family used to fight the British in the North west frontier area”.

کانفرنس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ کی شمولیت

ایم پی ٹام کاکس، حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ اور محترم ایم ایم احمد صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ہمراہ

مئی1978ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کانفرنس میں شمولیت کے لیے تشریف لائے۔ نیز دنیا بھر سے کثرت سے احمدی احباب کی آمد کاسلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ انتظامات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے احباب جماعت برطانیہ ،مجلس عاملہ انگلستان اور کانفرنس کمیٹی نے دن رات ایک کرکے کام کیا اور ٹیم ورک کااعلیٰ نمونہ دکھایا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین
ہیتھرو ایئر پورٹ پرحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ نے ایک پُرہجوم پریس کانفرنس کو خطاب فرمایا اور سوالات کے جوابات دیے۔یہ گو یاکانفرنس کاایک رنگ میں آغاز تھا۔ کانفرنس میں عیسائی مقررین بھی شامل تھے۔ کشمیر کے مشہور آرکیالوجسٹ اور محقق فدا حسنین صاحب نے بھی کانفرنس میں اپنا مقالہ پڑھنا تھا لیکن انہیں بروقت ویزا نہ مل سکا اس لیے ان کامقالہ پڑھوایا گیا۔
4؍جون1978ء کو کانفرنس کاآخری دن اور اتوار تھا۔ اُس روز ’’سنڈے ٹیلی گراف‘‘ کے میگزین میں 6صفحات اور متعدد تصاویر پر مشتمل قبر مسیح اور ہماری کانفرنس پر مضمون شائع ہوا۔ مضمون میں جلسہ سالانہ ربوہ کے مناظر کے علاوہ حضرت خلیفہ ثالثؓ اور حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ کی تصاویر تھیں۔ نیز مسیح علیہ السلام کے مقبرہ کی بھی متعدد تصاویر تھیں۔یہ میگزین10لاکھ سے زائد کی تعداد میں شائع ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں