افغان بادشاہ امان اللہ خان کا آخری سفر

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین ستمبرواکتوبر 2023ء)

عبدالرحمان شاکر صاحب

سابق شاہِ افغانستان امان اللہ خان کی موت بھی بحیثیت ایک انسانی حادثے کے بڑی سبق آموز تھی۔ ان کی زندگی سے لوگ بہت عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ اولوالعزم شخص بگولے کی طرح اٹھا اور آندھی کی طرح چھایا اور بادِ صرصر کی طرح غائب غُلّا ہو گیا۔ دس برس کے اندر اندر قصّہ ہی ختم ہوگیا۔
مَیں بھی اس واقعہ کا عینی شاہد ہوں جب 22جون 1929ء کوامان اللہ خان نے ممبئی سے ڈاک کے جہاز ’’ملتان‘‘ پر ایک بجے دوپہر سوار ہو کر اٹلی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ وہ کئی ماہ سے، ممبئی کے مشہور و معروف ہوٹل تاج محل میں رہائش رکھتے تھے۔ عین اِسی مقام سے تقریباًایک سال قبل اُس وقت کے وائسرائے لارڈ ارون نے ان کو تمام برطانوی جاہ وحشم کے ساتھ یورپین دَورے پر الوداع کہی تھی۔ وہ چند ماہ قبل افغانستان سے بھاگ کر ہندوستان میں انگریزوں کی پناہ میں آگئے ہوئے تھے کیونکہ اُن کی رعایا نے اُن کو تخت سے محروم کر دیا تھا۔ رعایا بادشاہ کی جدید قسم کی اصلاحات سے اعلانیہ طور پر ناراض تھی۔ اُدھر بادشاہ ان اصلاحات کو اپنے دُورافتادہ اور پسماندہ ملک کے لیے نہایت ضروری خیال کرتا تھا۔ رعایا کے لوگ پرانی ڈگر پر چلنے کو ہی عین اسلام خیال کرتے تھے۔ مٹھی بھر ڈاکوؤں نے کابل کے اردگرد کے علاقے میں سخت دہشت پھیلا رکھی تھی۔ سرکاری فوج اور پولیس ان کا مقابلہ کرنے سے عاجز تھی اور ان کے مقابلہ میں بالکل مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ یہ بات شاہ امان اللہ کے ستارۂ واژگوں کی کُھلی علامت تھی۔ افغانستان کے مدّبر اور زیرک لوگ بدحواس ہوچکے تھے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی اس قدر سمجھ نہ آئی کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے ؟رفتہ رفتہ وہ دن بھی آیا کہ شہرِ کابل پر ڈاکوؤں نے قبضہ کرلیا اور خود حکومت کرنے لگے۔

افغانستان کا پرچم

وہ تو کہیے کہ قسمت کا ستارہ ابھی بالکل غروب نہ ہوا تھا۔ امان اللہ خان چُپکے سے موٹر میں کابل سے نکل کر قندھار پہنچ گئے۔ راستے میں اُن کی موٹر کا پٹرول ختم ہوگیا اور ویرانے میں کھڑے تھے کہ قسمت ایک دفعہ پھر مسکرائی۔ قندھار سے پٹرول لے کر سرکاری لاریاں وہاں پہنچ گئیں۔ اُن سے پٹرول مل گیا اور سفر جاری رہا۔ قندھار پہنچ کر انگریز افسرانِ اعلیٰ سے رابطہ قائم کیا گیا اور درخواست کی گئی کہ ہندوستان میں پناہ گزین ہونے کی اجازت دی جائے جو بہت جلد مِل گئی۔ ایک سپیشل ٹرین مہیّا کردی گئی جو ان کو لے کر سکھر، فاضلکا، بٹھنڈا،دہلی، جےپور اور بڑودہ سے ہوتی ہوئی قلابہ سٹیشن ممبئی پر جا ٹھہری۔ وہاں پر تاج محل ہوٹل کی دو رولزرائس سیاہ رنگ کی کاریں جن میں گہرے پردے لگے ہوئے تھے معزول بادشاہ کو لینے کے لیے موجود تھیں۔ ممبئی میں قدرے لمبے عرصہ قیام میں امان اللہ خان شاذ ہی باہر نکلے۔ وہ تشہیر سے بچتے تھے۔ شام کو جب گیٹ وے آف انڈیا کے سامنے سیر کرنے والے بیٹھے ہوتے تو کبھی کبھار اُوپر سے جھانک لیا کرتے تھے۔ اُن کے مصائب میں ایزادی کے لیے ممبئی میں ان کے گھر لڑکی بھی پیدا ہوئی جس کا نام انہوں نے اپنے قیامِ ہندوستان کی نسبت سے ’’ہندیہ خانم‘‘ رکھا۔

افغان بادشاہ امان اللہ

امان اللہ خان نے اپنے آباء کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایک بے گناہ احمدی حضرت نعمت اللہ خان کو بمقام کابل 31؍اگست 1924ء کو سنگسار کرادیا تھا۔ چونکہ امان اللہ اپنے گردوپیش کے ملّاؤں سے خائف تھا اس لیے اُن کے کہنے پر اس معصوم شخص کو مروا دیا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو اپنے قلم کی ایک جنبش سے اُسے بچا سکتا تھا۔ مگر اس نے اپنی سلطنت کا استحکام اِسی بات میں سمجھا کہ ایک کلمہ گو کو ضرور قتل کرادیا جائے تاکہ رعایا خوش ہو جائے۔ چونکہ سرزمینِ کابل پر ایسے واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے تھے مگر خداوند تعالیٰ ان کو ڈھیل دے رہا تھا۔ اب اس کی غیرت جوش میں آگئی اور ساری کسر ایک دفعہ ہی نکل گئی۔ اس سے قبل 14؍ جولائی 1903ء کو امان اللہ کے والد امیر حبیب اللہ خان نے سلطنت ِکابل کے بہترین عالم حضرت سیّد عبداللطیف صاحبؓ کو صرف اور محض اِس وجہ سے سنگسار کرادیا تھا کہ وہ حضرت امام الزماںعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے مرید ہوگئے تھے۔ یہ وہ بزرگ ہستی تھی جو امیرانِ کابل کے سروں پر تاج پہنایا کرتے تھے۔ لیکن آپؓ کی تمام املاک وغیرہ بحق سرکار ضبط کرلی گئیں اور بیوی بچوں کو زنجیریں پہنا کر ہرات کی طرف ایک قلعہ میں قید کر دیا گیا۔ بڑ ی اذیّتیں دی گئیں۔ حالانکہ جب کُھلے دربار میں حضرت سیّد صاحبؓ کا ملّاؤں کے ساتھ مباحثہ کروایا گیا تھا تو عُلمائے کابل لاجواب ہو گئے تھے۔ مگر انہوں نے متفقہ طور پر امیر کی خدمت میں رپورٹ پیش کی کہ اس کے عقائد سخت ملحدانہ ہیں اور یہ شخص واجب القتل ہے۔ اِس محضر نامہ پر امیر نے مُہرِ تصدیق لگادی۔ آخر جب سیّد صاحب کو زمین میں گاڑ دیا گیا تو اس وقت امیر نے خود جا کر اُن سے کہا کہ اب بھی اگر احمدیت کا انکار کر دو تو مَیں بچا لیتا ہوں۔ مگر سیّد صاحب نے نہایت جوانمردی سے جواب دیا کہ میں جس چیز کو حق خیال کرتا ہوں اب اس کی تکذیب کیونکر کردوں؟

حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید

حضرت سیّد عبداللطیف صاحبؓ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں قادیان میں اقامت رکھتے تھے ان کو پے درپے متواتر الہامات ہوتے رہے کہ سرزمینِ کابل اُن کے خون کا مطالبہ کرتی ہے جو اُنہوں نے وقت آنے پر پیش کردیا۔ اِس واقعہ سے بھی کچھ عرصہ قبل سیّد صاحب موصوف کے ایک شاگرد عبدالرحمن خان کو اُس وقت کے امیر کابل عبدالرحمٰن نے بوجہ احمدی ہونے کے تکیہ مُنہ پر رکھ کر سانس بند کرکے مروادیا تھا۔
اب خدا تعالیٰ کی قہری تجلّی کا وقت قریب آرہا تھا اور کابل پر خدا تعالیٰ کا قہر نازل ہونے والا تھا۔ امیر حبیب اللہ خان کو یہ سزا ملی کہ 1919ء میں جلال آباد کے قریب جبکہ وہ اپنی شکارگاہ کے اندر سویا ہوا تھا، پہرے لگے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے اسے پستول سے ہلاک کردیا اور قاتل بھی گرفتار نہ ہوا۔ اب امان اللہ خان کو اپنے ظلم کے پودے کا تلخ پھل ملنا تھا جو اُن کے تخت سے اُتارے جانے کی صورت میں ملا۔
ڈاک کے جہاز نے پہلی سیٹی دی تو سنٹرل ہال سے دو اشخاص بر آمد ہوئے جو تمام نگاہوں کا مرکز بن گئے۔ دونوں کے چہرے اُترے ہوئے تھے اور وہ مایوسی کے مجسمے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ دونوں سابق شاہانِ افغانستان امان اللہ خان اور عنایت اللہ خان تھے۔ امان اللہ خان نے بوقت ِفرار اپنے برادرِکلاں عنایت اللہ خان کے حق میں تختِ کابل سے دست برداری لکھ دی تھی مگر بدقسمتی نے نئے بادشاہ کو بھی نہ چھوڑا اور وہ صرف تین دن تک (وہ بھی محض برائے نام طور پر سخت افراتفری کے ایّام میں) حکمران رہ سکا۔ چاروں طرف سے حالات سے مجبور ہوکر آخر عنایت اللہ خان نے برٹش سفیر سر فرانسس ہمفریز سے التجا کی کہ ان کی اور ان کے اہل وعیال کی جان بچائی جائے۔ انہوں نے پشاور سے فوراً دو ہوائی جہاز منگوا کر ان کو امن سے پشاور پہنچادیا جہاں سے وہ بھی ممبئی چلے گئے۔ یہاں اُن کے ہاں بھی لڑکی توّلد ہوئی۔ کچھ دنوں بعد وہ ایران چلے گئے۔
دونوں بھائی باہر پلیٹ فارم پر کھڑے تھے کہ ڈاک یارڈ کے کسی افسر نے لوہے کے جنگلے میں ایک دروازہ کھول دیا۔ جو ہجوم دُور سے نظارہ کر رہا تھا وہ اندر آگیا۔ دونوں بھائیوں کی حالت سخت قابلِ رحم تھی۔ اُن کی سُوجی ہوئی آنکھوں سے یہ صاف عیاں تھا کہ وہ دونوں سخت روتے رہے ہیں۔ آخری مصافحہ کرنے کے بعد امان اللہ خان آہستہ آہستہ جہاز کی سیڑھی پر چڑھنے لگے اور پریس کے کیمروں نے ان کے فوٹو اتارنے شروع کیے جو شام کو اخبارات میں شائع ہوگئے۔ اُوپر جاکر وہ بھی دوسرے مسافروں کی طرح جہاز کے جنگلے پر ٹیک لگا کر حسرت سے نیچے دیکھنے لگے۔ ان کا بڑا بیٹا ہدایت اللہ خان بھی ان کے ہمراہ تھا۔ ملکہ ثریّا چونکہ حالتِ زچگی میں تھی ان کو صبح سویرے ہی جہاز پر پہنچادیا گیا تھا۔
اُس وقت کا منظر عجیب تھا۔ قدرت کی نیرنگی تھی کہ کبھی پورے شاہانہ وقار سے فیلڈ مارشل کی وردی میں ملبوس امان اللہ خان وزیروں سمیت نائب السلطنتِ ہند اور بڑے بڑے عمائدین حکومت ِہند کے جھرمٹ میں یورپ کو روانہ ہوئے تھے اورآج اسی انگریزی سلطنت کا ایک ادنیٰ کارکن بھی مشایعت کے لیے موجود نہ تھا۔ میرے والد مولوی نعمت اللہ خان صاحب گوہر ؔبی۔ اے نے 1924ء میں نعمت اللہ خان شہید کے متعلق چند اشعار فارسی میں لکھے تھے ان میں ایک تو پیشگوئی بن کر ظاہر ہو رہا تھا ؎

کے اماں یا بد ستمگر بد شعار
تا بہ کے ایں فرّو ایں زور آوری

جب جہاز چلنے کے قریب تھا تو کسی نے چند خلاصیوں کو اکٹھا کرکے نعرہ لگا دیا: ’’امان اللہ خان۔ زندہ باد ‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی محل نہ تھا، سابق شاہ تو پریشان ہوگئے۔ دوسرے مسافر زیرِلب مسکرادیے۔ جہاز کی سیڑھی علیحدہ کر دی گئی اور جہاز نے تیسری سیٹی دی اور آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کردیا۔ انہی دنوں دہلی کے اخبار ’’تیج ‘‘میں امان اللہ خان کے متعلق یہ دو شعر شائع ہوئے تھے؎

یہ حال ہے جہاں کے نشیب و فراز کا
حاصل ہے تخت کی جگہ تختہ جہاز کا
اٹلی میں جاکے ہوں گے امان اللہ خاں مقیم
در پیش ہے سفر رہِ دُور و دراز کا

فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں