امّاں اور اچھی امّاں (حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی بیگمات)

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 30؍اکتوبر 2023ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ ڈاکٹرامۃالرقیب ناصرہ صاحبہ اور مکرمہ دُرّثمین احمد صاحبہ کے قلم سے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی دونوں بیگمات المعروف ’’امّاں اور اچھی امّاں‘‘ کا ذکر خیرشامل اشاعت ہے۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ

حضرت شوکت سلطان صاحبہؓ

(1887ء تا 1967ء)

آپؓ حضرت سید بشیرالدین احمد صاحبؓ اور حضرت رفعت النساء بیگم صاحبہؓ کی بیٹی تھیں جو حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی بہن تھیں یعنی آپؓ حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی پھوپھی زاد تھیں۔ یہ رشتہ حضرت اُمّ المومنینؓ کی خواہش پر ہوا تھا۔ حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی بیٹی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) بیان فر ماتی ہیں کہ رواج کے مطابق بچپن میں اباجان کی نسبت آپؓ کی پھوپھی زاد سے کردی گئی۔جب ابا جانؓ کی تعلیم مکمل ہوئی توآ پؓ شادی کے لیے رضامند نہ ہوئے اور عذر صرف یہی تھا کہ دینی طور پر ان کی تربیت اس ماحول میں نہیں ہوئی۔آخر حضرت مسیح موعودؑ سے اس کا تذکرہ ہوا توحضورؑ نے میر صاحبؓ کے نام کچھ لکھا اور میر صاحبؓ نے ہتھیار ڈال دیے۔جب دیر تک ان کے بطن سے کوئی اولاد نہ ہوئی تو حضرت مرزا شفیع احمد صاحبؓ محاسب صدر انجمن احمدیہ کی صاحبزادی سے اباجان کی دوسری شادی ہوئی جس سے خدا تعالیٰ نے کثیر اولاد عطا فرمائی۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ جب میری پہلی شادی کی تیاری ہوئی تو میں دہلی کے شفاخانہ میں ملازم تھا۔مَیں پہلے اس جگہ راضی نہ تھا۔اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے ایک خط لکھا کہ اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ لڑکی کے اخلاق اچھے نہیں ہیں توپھر بھی اس جگہ کو منظور کرلو۔ اگر اس کے اخلاق پسندیدہ نہ ہوئے تو مَیں دعا کروں گا جس سے اس کے اخلاق درست ہو جائیں گے۔ حضورؑ نے اپنے مکتوب میں یہ بھی تحریر فرمایا:

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام

’’مَیں نے تمہارا خط پڑھا۔ چونکہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ بات ضروری ہے کہ جو امر اپنے نزدیک بہتر معلوم ہو وہ پیش کیا جائے۔… یہ بات کہ سید بشیرالدین نے بڑی بداخلاقی دکھلائی ہے۔اس کا یہ جواب ہے کہ جو لوگ لڑکی دیتے ہیں، ان کی بداخلاقی قابلِ افسوس نہیں۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ہمیشہ سے یہی دستور چلا آتا ہے کہ لڑکی والوں کی طرف سے اوائل میں کچھ بداخلاقی اور کشیدگی ہوتی ہے اور وہ اس بات میں سچے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جگر گوشہ لڑکی کو، جو نازو نعمت میں پرورش پائی ہوتی ہے، ایک ایسے آدمی کو دیتے ہیں جس کے اخلاق معلوم نہیں۔ اور وہ اس بات میں بھی سچے ہوتے ہیں کہ وہ لڑکی کو بہت سوچ اور سمجھ کے بعد دیں کیونکہ وہ ان کی پیاری اولاد ہے اور اولاد کے بارے میں ہر ایک کو ایسا ہی کرنا پڑتا ہے۔ اور جب تم نے شادی کی اور کوئی لڑ کی پیدا ہوئی تو تم بھی ایسا ہی کروگے۔ لڑکی والوں کی ایسی باتیں افسوس کے لائق نہیں ہوا کرتیں۔ ہاں جب تمہارا نکاح ہوجائے گا اور لڑکی والے تمہارے نیک اخلاق سے واقف ہوجائیں گے تو وہ تم پرقربان ہوجائیں گے۔ پہلی باتوں پر افسوس کرنا دانائی نہیں۔ غرض میرے نزدیک اور میری رائے میں اس رشتہ کو مبارک سمجھو اور اس کو قبول کرلو۔ اور اگر تم نے ایسا کیا تو مَیں بھی تمہارے لیے دعا کروں گا۔…‘‘
خاندان کے تمام بزرگوں خصوصیت سے حضرت اماں جانؓ نے بھی ایک بہن ہونے کے حق کو نہایت عمدگی سے استعمال کرتے ہوئے حضرت میر صاحبؓ کو نہایت اخلاص اور محبت سے مشورے دیے اور شادی کے لیے حامی بھرنے کی پُرزور الفاظ میں بار بار تحریک کی۔ چنانچہ حضرت میر صاحبؓ نے کمال اطاعت سے کام لیتے ہوئے اپنی رضامندی دے دی۔ چنانچہ جولائی 1906ء میں شادی ہوگئی۔

حضرت امۃاللطیف بیگم صاحبہ

حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی دوسری اہلیہ حضرت امۃاللطیف بیگم صاحبہ حضرت مرزا شفیع احمد صاحب دہلویؓ محاسب صدر انجمن احمدیہ اور حضرت خورشید بیگم صاحبہؓ کے ہاں 1906ءمیں پیدا ہوئیں۔ان کی شادی 1917ء میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ حضرت میر صاحبؓ کو سات بیٹیاں اور تین بیٹے عطا فرمائے۔ 1964ء میں آپؓ کی وفات ہوئی۔
اگرچہ کہ حضرت میر صاحبؓ کی تمام اولاد دوسری بیگم سے تھی لیکن دونوں بیویوں میں کبھی ناچاقی نہیں ہوئی۔بلکہ دونوں کے درمیان حقیقی بہنوں سے بڑھ کر محبت اور تعاون کا تعلق تھا۔ بچے اپنی بڑی والدہ کو اچھی اماں اوراپنی حقیقی والدہ کو امّاں کہتے۔اُن کو بڑے ہونے کے بعد پتہ چلا کہ ان کو جنم دینے والی والدہ کون سی ہیں۔ حضرت میر صاحبؓ کی وفات کے بعد بھی دونوں بیگمات اپنی وفات تک اکٹھی رہیں اوربچے بھی دونوں ماؤ ں سے آخر تک برابر وابستہ رہے۔ حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ خداتعالیٰ کی نعمتوں کا شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عزیز رشتہ دار ایسے ملے کہ یا جنت میں ہیں یا جنت میں جائیں گے۔ہمسائے وہ ملے جو فرشتہ سیرت ہیں۔بیویاں ہیں کہ تیس سال سے ایک نے دوسری کو تُو کہہ کر خطاب نہیں کیا۔
حضرت اماں جانؓ کی اپنی تو کوئی بہن نہ تھی لیکن وہ اپنی تینوں بھابیوں سے سگی بہنوں کی طرح محبت کرتی تھیں اور وہ بھی آپؓ کی بے حد عزت و قدر کرتی تھیں۔ حضرت امّاں جانؓ اکثر سفر اور سیر کو جاتیں تو اپنی بڑی بھاوج یعنی محترمہ شوکت سلطان صاحبہؓ کو ساتھ لے لیتی تھیں۔
حضرت چھوٹی آپا کی صاحبزادی محترمہ امۃالمتین صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ امّی کی پڑھائی کی وجہ سے چند سال مَیں نے ننھیال میں گزارے۔ وہاں سکول میں داخل ہوئی تو میرے جوئیں پڑ گئیں۔ ایک روز میری بڑی نانی (اچھی اماں)کنگھی سے میری جوئیں نکال رہی تھیں کہ اتنے میں حضرت اماں جانؓ آگئیں۔آپؓ نے مجھ سے بڑی نانی کی جانب اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ مَیں نے کہا: اچھی امّاں۔ پھر آپؓ نے چھوٹی نانی کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ یہ کون ہیں؟ مَیں نے کہاکہ امّاں ۔کہنے لگیں اگر یہ اچھی اماں ہیں تو وہ بُری امّاں ہیں۔ بعد میں اکثر مذاقاً مجھ سے پوچھتیں کہ کون کون ہے؟ مَیں جوا ب دیتی کہ اچھی امّاں اور بری امّاں۔چونکہ ان سب کا تعلق بہت گہرا تھا اس لیے کبھی کسی نے برا نہیں منایا۔ میرے ناناڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی وفات 18؍ جولائی 1947ء کو ہوئی تھی۔جلد ہی قادیان سے ہجرت ہوگئی۔اچھی امّاں اور امّاں عدت میں ہی تھیں جب لاہور آئیں۔ جس دن عدّت ختم ہوئی حضرت اماں جانؓ آئیں اور خاموشی سے دونوں کے کپڑوں کو عطر لگاکر چلی گئیں۔
بھاوجوں سے حضرت امّاں جانؓ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کی بیماری میں وہ سب آپؓ کی پٹی سے لگی بیٹھی رہیں۔ آپؓ نے اپنی چھوٹی بھاوج صالحہ بیگم صاحبہؓ کو وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد وہ آپؓ کو غسل دیں۔چنانچہ انہوں نے اور ساتھ دونوں بڑی بھاوجوں نے آپؓ کو غسل دیا۔
محترمہ امۃالقدوس صاحبہ (اہلیہ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب) بیان کرتی ہیں کہ ہماری بڑی والدہ، (اچھی اماں) کا نام شوکت سلطان تھا۔ دونوں والدہ بہت پیاری سیرت کی مالک تھیں۔ دونوں آپس میں بہت پیار،محبت،اتفاق اور اتحاد سے رہا کرتی تھیں۔ہر کام آپس میں مشاورت سے کرتی تھیں۔اچھی امّاں نے ان کے سارے بہن بھائیوں کو بہت پیار،محبت اور شفقت سے پالا اوروہ انہیں ہی اپنی والدہ سمجھتے تھے۔ جب کسی شرارت پر ڈانٹ پڑتی تو روتے ہوئے اچھی امّاں کے پاس ہی جاتے۔اچھی امّاں ہر روز حضرت امّاں جانؓ سے ملنے جاتی تھیں اور ہر جمعہ کی شام سارے بچوں کو لے کے حضرت امّاں جانؓ کو ملوانے جاتیں۔ہم بچے جھجک کی وجہ سے بڑوں سے خود بات نہیں کرسکتے تھے اس لیے اچھی امّاں کے ذریعہ ہی میں نے حضرت اماں جانؓ سے قرآن مجید تبرکاً حاصل کیاجو ابھی تک میرے پاس ہے اور جس سے اب تک اڑھائی صد بچوں کو قرآن مجید پڑھا چکی ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں