انصاراللہ اور دعوت الی اللہ

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین نومبرودسمبر 2023ء)

ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب

جماعت احمدیہ میں ذیلی تنظیموں کا قیام سیدنا حضرت مصلح موعود ؓکی خداداد ذہانت و فطانت اور علمی و انتظامی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے۔آپؓ نے افراد جماعت کے مروں، عورتوں اور بچوں کو عمر کے لحاظ سے ذیلی تنظیموں میں تقسیم کر کے ان کی روحانی، اخلاقی، معاشرتی اور جسمانی ترقی کے سامان منظم صورت میں پیدا فرما دیے۔ مجلس انصاراللہ کے قیام کے اغراض و مقاصد میں دعوت الی اللہ ایک اہم ذمہ داری ہے۔ بانی تنظیم حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:


’’یاد رکھو تمہارا نام انصاراللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار۔ گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے۔ اس لیے تم کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ابدیت کے مظہر ہوجاؤ۔ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لیے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسلٍ چلتا چلا جاوے اوراس کے دو ذریعے ہوسکتے ہیں۔ ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے۔ اسی لیے مَیں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں۔ اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی۔ تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی تو اگلی نسل انصاراللہ کی اعلیٰ ہوگی۔ مَیں نے سیڑھیاں بنادی ہیں۔آگے کام کرنا تمہارا کام ہے۔پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے۔ دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے۔ تیسری سیڑھی انصارﷲ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے۔ تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خداتعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیڑھیاں مکمل ہوجائیں گی۔ اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہوجائیں اور پھر تم بھی دعائیں کرواور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو تو پھر تمہارے لیے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں اور جو عرش پر چلاجائے وہ بالکل محفوظ ہوجاتا ہے۔ دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو دوسو فٹ پر حملہ کرسکتی ہے۔ وہ عرش پر حملہ نہیں کرسکتی۔ پس اگر تم اپنی اصلاح کرلوگے اور خداتعالیٰ سے دعائیں کروگے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجائے گا اور اگر تم حقیقی انصاراللہ بن جاؤ اور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو تو تمہارے اند ر خلافت بھی دائمی طور پررہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی۔‘‘
(الفضل21؍مارچ 1957 ءاور 24 ؍مارچ 1957ء)

دعوت الی اللہ کی اہمیت

انبیاء علیہم السلام کی منزل مقصود خدائے واحد کا فہم، ادراک اور محبت لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا ہے۔ اس امر کی تکمیل میں وہ ایک جماعت تیار کرتے ہیں جو ان کی معاون و مددگار ہوتی ہے۔ یہ ایک نہایت مبارک شیوہ ہے جس کی توفیق اس زمانہ میں صرف اور صرف ایک جماعت کو حضرت مسیح موعودؑ کے فیض کی بدولت حاصل ہے یعنی جماعت احمدیہ۔
اس مبارک امر کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (آل عمران 105:) ترجمہ: اور چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بُری باتوں سے روکیں۔ اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
نیز فرمایا: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ۔ (آل عمران111:) ترجمہ:تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لیے نکالی گئی ہو تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو۔
آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ بخدا تیرے ذریعے ایک آدمی کا ہدایت پاجانا تیرے لیے اعلیٰ درجہ کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر ہے۔ (مسلم کتاب الفضائل الصحابہ باب فضائل علی بن طالب)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: نیک باتوں کا بتانے والا ان پر عمل کر نے والے کی طرح ہو تا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل کتاب الادب)

ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام


حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ چاہتاہے کہ ان تمام رُوحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحِد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اَخلاق اور دُعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ306-307)

آپ علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

پھر فرمایا:
’’یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ ابتدا میں اہل دنیا اُن کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اُنہیں قسم قسم کی تکلیفیں دیتے اور ا ن کی راہ میں روڑ ے اَٹکاتے ہیں۔ کوئی پیغمبر اور مُرْسَل نہیں آیا جس نے دکھ نہ اُٹھایا ہو، مکار، فریبی، دکاندار اس کا نام نہ رکھا ہو۔ مگر باوجود اس کے کہ کروڑہا بندوں نے اس پر ہر قسم کے تیر چلانے چاہے، پتھر مارے، گالیاں دیں۔ انہوں نے کسی بات کی پروا نہیں کی۔ کوئی امر اُن کی راہ میں روک نہیں ہوسکا۔ وہ دنیا کو خداتعالیٰ کا کلام سناتے رہے اور وہ پیغام جو لے کر آئے تھے۔ اس کے پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ان تکلیفوں اور ایذارسانیوں نے جو نادان دنیاداروں کی طرف سے پہنچیں نےان کو سست نہیں کیا بلکہ وہ اور تیز قدم ہوتے یہاں تک کہ وہ زمانہ آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ مشکلات ان پر آسان کر دیں اور مخالفوں کو سمجھ آنے لگی اور پھر وہی مخالف دنیا ان کے قدموں پر آگری اور اُن کی راستبازی اور سچائی کا اعتراف ہونے لگا۔ دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب چاہتا ہے بدل دیتا ہے یقینًا یاد رکھو تمام انبیاء کو اپنی تبلیغ میں مشکلات آئی ہیں۔ آنحضرتﷺ جو سب انبیاء علیہم السلام سے افضل اور بہتر تھے۔ یہاں تک کہ آپ پر سلسلۂ نبوت اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا یعنی تمام کمالات نبوت آپ پر طبعی طور پر ختم ہوگئے۔ باوجود ایسے جلیل الشان نبی ہونے کے کون نہیں جانتا کہ آپ ﷺ کو تبلیغ رسالت میں کس قدر مشکلات اور تکالیف پیش آئیں اور کفار نے کس حدتک آپؐ کو ستایا اور دُکھ دیا۔‘‘
(ملفوظات جلد 4صفحہ152)
’’ہم اپنی طرف سے بات پہنچا دینا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم پو چھے جاویں کہ کیوں اچھی طرح سے نہیں بتایا۔ اسی واسطے ہم نے زبانی بھی لوگوں کو سنایا ہے تحریری بھی اس کام کو پورا کر دیا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 5صفحہ 590)
’’عوام الناس کے کانوں تک ایک دفعہ خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچا دیا جاوے کیونکہ عوام الناس میں ایک بڑا حصّہ ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جو کہ تعصّب اور تکبر وغیرہ سے خالی ہوتے ہیں اور محض مولویوں کے کہنے سننے سے وہ حق سے محروم رہتے ہیں،جو کچھ یہ مولوی کہہ دیتے ہیں اُسے اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہہ کر مان لیتے ہیں۔ ہماری طرف کی باتوں اور دعووں اور دلیلوں سے محض نا آشنا ہوتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ 551)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ

’’تبلیغ کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ ایک سخت مشکل کام ہے۔ ایک محل تیار کرلینا آسان ہے لیکن ایک شخص کا دل پھیر دینا آسان نہیں۔ کیونکہ بغیر مناسب تدابیر اور دلائل کے کسی شخص کا دل پھیرا نہیں جا سکتا۔‘‘
(خطبات محمود جلد 9صفحہ125)

’’ہمار ا کام کیا ہے؟ یہ کہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہم اس تعلیم کو پہنچا دیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں حاصل ہوئی ہے اور جس کی اس زمانہ کا تمدن اور عَام رَو مخالفت کر رہا ہے۔ اس تعلیم کو پہنچانے میں ہماری مخالفتیں ہوئیں اور ہورہی ہیں، ہمیں تکلیفیں دی گئیں اور دی جارہی ہیں، ہم سے تعلقات منقطع کئے گئے اور کیے جارہے ہیں، ہم سے رشتہ داریاں چھوڑی گئیں اور چھوڑی جارہی ہیں …پس ہم کو اس کام سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ بلکہ ہمارا قدم آگے ہی آگے پڑنا چاہیے۔‘‘‘
(خطبات محمود جلد9 صفحہ208)
’’تبلیغ کے کام میں ہم سے پہلے لوگوں نے تلواروں کے سایہ میں بھی سستی نہیں کی۔حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ وہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھر ے ہوئے تھے۔ قسطنطنیہ میں عیسائیوں کی حکومت تھی اور یہ آدھی دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔ اور ادھر ایران میں جو حکومت تھی اس کا بھی آدھی دنیا پر اثر تھا۔اس وقت مسلمانوں پر ہر طرف سے حملے ہو رہے تھے لیکن مسلمان تلواروں کے مقابلہ میں نہیں ڈرتے تھے تو کیا آج ہم دشمن کی زبان اور اس کے روپیہ سے ڈر سکتے ہیں۔ پس ہمیں اس کے لیے تیار ہونا چاہیے اور ہر ایک قربانی جس کی ضرورت ہو اس کے لیے آمادہ ہونا چاہیے۔‘‘
(خطبات محمود جلد8 صفحہ47،48)
’’پس تبلیغ کے متعلق بھی ہر ایک شخص کو حکم عام سمجھنا چاہیے اور اپنے ہی نفس کو اس حکم کا مخاطب جاننا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ یہ حکم مجھے ہی بجا لانا ہے اور اگر تم سب کے سب اس پر عمل بھی شروع کردو گے تو تم کامیاب ہو جاؤگےاور اگر صرف ارادہ ہی کروگے تو پھر کامیابی محال ہے کیونکہ بہت ارادے بھول جاتے ہیں۔‘‘
(خطبات محمود جلد7 صفحہ10)
’’ایک انگریز نے ایک رسالہ لکھا ہے اور کہتا ہے کہ یہ جماعت تو اسلامی سمندر میں ایک کیڑے کے برابر ہے۔ واقعہ میں اس کی یہ بات صحیح ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہم ایک قطرے کی طرح ہیں مگر بعض وقت ایک قطرہ اپنا اثر تمام پانی پر ڈال دیتا ہے۔ مثلاً سنکھیا ہی ہے۔ کتنی تھوڑی سی چیز ہے مگر اس کا تھوڑا سا کھا لینا بھی انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔اور کثرت سے اس قسم کی زہریلی دوائیں ہیں کہ تنکے کے اوپر جس قدر حصہ آتا ہے وہی کھاتے ہیں۔ اگر اس سے زیادہ کھایا جائے تو بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ پھر ایک دیاسلائی کتنی چھوٹی سی چیز ہے مگر تمام جنگل کو جلا دیتی ہے اور شہروں کو خاک و سیاہ کر سکتی ہے۔ پھر ہمارے لیے تو خدا تعالیٰ کی پیش گوئیاں اور بڑے بڑے وعدے بھی ہیں۔‘‘
(خطبات محمود جلد 5صفحہ21)
’’ہماری جماعت نے خداتعالیٰ کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کا ذمہ لیا ہے۔ لیکن ہماری جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ لوگ ہماری بات کو نہیں سنتے….. اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اس راہ میں کوشش کرتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں….. یعنی ان کی کوششیں کامیاب ہوتی اور ان کو ان کی کوششوں کا بدلہ دیا جاتا ہے خواہ کوئی مسلمان ہو یا نہ ہو مانے یا نہ مانے ….. یہ الفاظ نہیں کہ اگر کوئی مسلمان ہی ہو تو تب تمہیں بدلہ دیا جائے گا بلکہ یہ فرمایا کہ جو کوشش کرے گا اسے بدلہ دیا جائے گا۔ خواہ کوئی اس کی بات کو مانے یا نہ مانے۔‘‘
(خطبات محمود جلد5 صفحہ20)
’’اس وقت ہماری جماعت نے خدا تعالیٰ کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کا ذِمَّہ لیا ہے …… یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۔ یعنی ان کی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں اور ان کو ان کی کوششوں کا بدلہ دیا جاتا ہے خواہ کوئی مسلمان ہو یا نہ ہو، مانے یا نہ مانے۔ اس آیت میں یہ الفاظ نہیں کہ اگر کوئی مسلمان ہی ہو تو تب تمہیں بدلہ دیا جائے گا بلکہ یہ فرمایا کہ جو کوشش کرے گا اسے بدلہ دیا جائے گا۔‘‘
(خطبات محمود جلدپنجم صفحہ20)
’’جو خدا کی تعلیم سے بھاگنے والوں کو واپس خدا کی طرف لائیں گے خداتعالیٰ یقینا ً ان کو کامیاب اور مظفر و منصور کرے گا۔ وہ کبھی ناکام و نامراد نہیں ہوں گے۔ اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لیے یہ ایک عمدہ ذریعہ ہے۔‘‘
(خطبات محمود جلد پنجم صفحہ 19)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

’’جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے …… فریضہ ہے اور ایسی شدّت کے ساتھ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تُو نے رسالت کو ہی ضائع کر دیا اگر تبلیغ نہ کی تو۔آپ کی امت بھی جوابدہ ہے، ہم میں سے ہر ایک جوابدہ ہے پیغام رسانی لازماً ایک ایسا فریضہ ہے جس سے کسی وقت انسان غافل ہو نہیں سکتا۔ اجازت نہیں ہے کہ غافل رہے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد چہارم صفحہ 631،632)

’’تبلیغ کی جو جوت میرے مولیٰ نے میرے دل میں جگائی ہے اور آج ہزار ہا احمدی سینوں میں یہ لَو جل رہی ہے اس کو بجھنے نہیں دینا۔ اس مقدس امانت کی حفاظت کرو۔ میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر تم اس شمع کے امین بنے رہو گے تو خدا اسے کبھی بجھنے نہیں دے گا۔ یہ لَو بلندتر ہو گی اور پھیلے گی اور سینہ بہ سینہ روشن تر ہوتی چلی جائے گی اور تمام روئے زمین کو گھیرلے گی اور تمام تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دے گی۔‘‘
(خطبات طاہر جلد2 صفحہ422)

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ

٭ ’’یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں تجھے غلبہ عطا کروں گا۔ یہ غلبہ یورپ میں بھی ہے اور ایشیا میں بھی ہے، افریقہ میں بھی ہے اور امریکہ میں بھی ان شاء اللہ ہوگا اور جزائر کے رہنے والے بھی اس فیض سے خالی نہیں ہوں گے ان شاءاللہ۔ پس آپ کا کام ہے کہ خالص اللہ کے ہو کر کامل فرمانبرداری دکھاتے ہوئے اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہوئے اس کے پیغام کو پہنچاتے چلے جائیں تاکہ ان برکتوں سے فیضیاب ہوسکیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ منسلک رہنے والے کے لیے خدا تعالیٰ نے رکھ دی ہیں…پس یہ کام تو ہونا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام سعید روحوں کو اسلام کی آغوش میں لانا ہے۔ یہ مخالفین اور یہ مذہب سے ہنسی ٹھٹھا کے جو موقعے پیدا ہورہے ہیں یا ہوتے ہیں یہ ہمیں اپنے کام کی طرف توجہ دلانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں کہ آخری فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے کیا ہواہے… اللہ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لیے اللہ کی نظر میں بہترین بات کہنے والے بن کراسلام کا حقیقی نجات کا پیغام اپنے ملک کے ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا دو کہ یہ آج سب سے بڑی خدمتِ انسانیت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد 4صفحہ642-641)


٭ ’’ان دلائل سے اور علمی اور رُوحانی خزانے سے کام لیتے ہوئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دیے ہیں، اپنی تبلیغی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے … اس کے لیے عملی نمونے اورعلمی اور رُوحانی ترقی کی طرف قدم بڑھانا ضروری ہے۔ تقویٰ میں ترقی ضروری ہے کیونکہ جب تک ہماری روحانی ترقی نہیں ہوتی ہماری تبلیغ میں بھی برکت نہیں پڑسکتی۔‘‘
(خطبات مسرور جلدہشتم صفحہ169)
٭ ’’ایک داعی الی اللہ کے لیے یہ ضروری ہے اور صرف یہ داعی الی اللہ کو یاد رکھنا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ ہر احمدی چاہے وہ فَعَّال ہوکر تبلیغ کرتا ہے یا نہیں اگر دنیا کے علم میں ہے کہ فُلاں شخص احمدی ہے، اگر ماحول اور معاشرہ جانتا ہے کہ فُلاں شخص احمدی ہے تو وہ احمدی یاد رکھے کہ اس کے ساتھ احمدی کا لفظ لگتا ہے۔ اگر وہ تبلیغ نہیں بھی کر رہا تو تب بھی اس کا احمدی ہونا اسے خاموش داعی الی اللہ بنا دیتا ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد ہشتم صفحہ 172)
٭ ’’ہر احمدی جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال اس لیے درست رکھے کہ اس پر ہر ایک کی نظر ہے۔ اگر کسی قسم کا ایسا دینی علم نہیں بھی ہے جو اسے فعال داعی الی اللہ بنا سکے تب بھی اس کا ہر فِعْل اور عَمَل اور قَوْل دوسروں کی توجہ کھینچنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر نیک اعمال ہیں تو لوگ نیکی سے متأثر ہو کر قریب آئیں گے…… دلوں کو مائل کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے اور تبلیغ کرنا انبیاء کے ساتھ الہٰی جماعتوں کے افراد کا کام ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد ہشتم صفحہ 174-173)
٭ ’’ایم ٹی اے کا تبلیغ کے میدان میں بہت بڑا کردار ہے۔ دنیا میں اس کی وجہ سے نہ صرف احمدیت کا تعارف ہو رہا ہے بلکہ اکثر ممالک کی اکثر جگہوں پر احمدیت اور اسلام کا پیغام اس کے ذریعہ سے پہنچ چکا ہے۔ اب صرف ملکوں یا چند شہروں میں پیغام پہنچا دینا ہی کافی نہیں۔ ہم نے دنیا کے ہر شہر، ہر گاؤں، ہر قصبے اور ہر گلی میں اس کا پیغام پہنچانا ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد ششم صفحہ 467)
٭ ’’دعوت الی اللہ کریں۔حکمت سے کریں، ایک تسلسل سے کریں، مستقل مزاجی سے کریں اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ، مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے چلے جائیں۔ دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھیں اور دلیل کے لیے ہمیشہ قرآن کریم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں سے حوالے نکالیں۔ پھر ہر علم، عقل اور طبقے کے آدمی کے لیے اس کے مطابق بات کریں۔ خدا کے نام پر جب آپ نیک نیتی سے بات کر رہے ہوں گے تو اگلے کے بھی جذبات اَور ہوتے ہیں۔ نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی گئی بات اثر کرتی ہے۔ ایک تکلیف سے ایک درد سے جب بات کی جاتی ہے تو وہ اثر کرتی ہے۔ تمام انبیاء بھی اسی اصول کے تحت اپنے پیغام پہنچاتے رہے۔ اور ہر ایک نے اپنی قوم کو یہی کہا ہے کہ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، نیک باتوں کی طرف بلاتا ہوں اور اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا۔ یہی ہمیں قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد2 صفحہ724و725)
٭ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم انتہائی محنت، انتہائی ہمت اور تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے یہ کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو تمہارے ساتھ ملاتا چلا جائے گا۔ ان شاءاللہ‘‘
(خطبات مسرور جلد2 صفحہ725)

قارئینِ کرام! خداتعالیٰ کی طرف بلانے اور اعمال صالحہ کی نصیحت کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ہم خود عبادت کرنے والے اور اچھے اخلاق کے مالک ہوں۔ اگر ہمارے قول و فعل میں مطابقت ہوگی تو یقیناً اس کا اثر کئی گنا زیادہ بہتر ہوگا اور آپ کے ماحول میں بسنے والے ساتھی خود بخود آپ کے عقائد اور آپ کی نیک سیرت میں دلچسپی لینا شروع کردیں گے۔ حضرت مسیح موعودؑ جن کی بعثت کا مشن ہی دین اسلام کی تجدید اور سیرت طیبہﷺ کو عملی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، فرماتے ہیں کہ

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

’’ہمارے اختیار میں ہوتو ہم فقیروں کی طرح گھربہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس کو ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچائیں اور اس تبلیغ میں زندگی ختم کردیں خواہ مارے ہی جائیں۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ۳۹۱)
دعوتِ الی اللہ کے میدان میں ایک کامیاب داعی الی اللہ بننے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات پر پورا اُترنے کے لیے ہمیں بھی ابھی سے تیار ہونا پڑے گا۔ سب سے پہلے اپنے نفسانی خیالات کو پاکیزہ کرنا ہوگا اور پھر اپنے گھر کے ماحول میں موجود برائیوں کا سدباب کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح نیک اور صاف ستھرے ساتھیوں کی صحبت حاصل کرنا ہوگی۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب ہمیں اپنے اخلاق اور ماحول کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
’’ہر احمدی بلا استثناء مبلغ بنے۔ وہ وقت گزر گیا کہ جب چند مبلغین پر انحصار کیا جاتا تھا۔ اب تو بچوں کو بھی مبلغ بننا پڑے گا۔ بوڑھوں کو بھی داعی الی اللہ بننا پڑے گا، یہاں تک کہ بستر میں لیٹے ہوئے بیماروں کو بھی داعی الی الی اللہ بننا پڑے گا اور کچھ نہیں تو وہ دعاؤں کے ذریعے ہی دعوت الی اللہ کے جہاد میں شامل ہوسکتے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ ۴مارچ ۱۹۸۳ء)

تبلیغِ احمدیت دنیا میں کام اپنا
دارُالعمل ہے گویا عالم تمام اپنا

انصاراللہ کی اس سلسلہ میں بہت ہی اہم ذمہ داری ہے۔ دراصل انصاراللہ کی زندگی کا مقصد ہی دعوت الی اللہ ہے۔ اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔نہ صرف یہ کہ ہم خود دعوت الی اللہ کے کامیاب مجاہد ہوں بلکہ ہم نے آئندہ کے لیے اپنی اولادوں اور افراد جماعت کو اس اہم کام کے لیے تیار کرنا ہے تاکہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد پُورا کرنے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہم تمام انصار کو بہترین داعی الی اللہ بننے کی توفیق عطا فرمائے اور اُس کے حضور اچھے پھل پیش کرنے کی ہمیں سعادت حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں