تعارف کتاب ’’سیرت المہدی‘‘

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 18؍مارچ 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ بشریٰ مالک صاحبہ کے قلم سے حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ کی 1260 صفحات پر مشتمل تصنیف ’’سیرت المہدی‘‘ کا تعارف شامل اشاعت ہے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

دو جلدوں پر مشتمل اس کتاب حضرت مسیحِ موعودعلیہ السلام کی سیرت کے حوالے سے کُل2571 روایات ہیں۔ اس انمول کتاب میں قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بڑی احتیاط ، محنت اور لگن سے کئی رجسٹروں اور مختلف احباب سے روایات لے کر جمع کی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے حالاتِ زندگی اور آپؑ کے روح پرور ارشادات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپؑ آنحضرت ﷺ کی سیرت کا کامل نمونہ تھے۔ آپؑ کے گھر دارالمسیح کا ماحول بےحد شفقت و محبت بھرا ہوا اور ہر قسم کے تصنّع اور بناوٹ سے پاک تھا۔ چند روایات پیش ہیں۔


حضرت بھائی عبد الرحمٰن قادیانیؓ بیان کرتے ہیں کہ قیامِ لاہور کے زمانہ میں حضرت اقدسؑ قریباً روزانہ سیر کے واسطے خاندان کی بیگمات اور بچوں سمیت تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضورؑ رتھ یا فٹن میں بیٹھ کر تشریف لے جاتے تھے۔ کھلی سڑکوں پر بھی اور شہر کے بازاروں مثلاً مال روڈ اور انارکلی میں بھی۔ بازار میں سے گزرتے ہوئے کبھی سواری ٹھہرا کر ہندو حلوائیوں کے ہاں سے کھانے کی چیزیں بھی خرید فرما لیا کرتے تھے جن میں بیگمات اور بچوں کے علاوہ ہمرکاب خدام کو بھی شریک فرمایا کرتے تھے۔ انارکلی میں سے گزرتے ہوئے کیسری کی دکان پر اکثر ٹھہرا کرتے تھے اور سب کو سوڈا پلوایا کرتے تھے۔ عام اجازت ہوا کرتی تھی، جو جس کا جی چاہتا پیتا یعنی لیمن، روز اور آئس کریم یا مائینیل وغیرہ۔ مگر حضرت اقدسؑ خود کھاری بوتل بتاشہ ڈال کرپیا کرتے تھے۔
حضورؑ بیمار عورتوں، خادماؤں اور بے سہارا عورتوں پر خاص مہربانی و شفقت فرماتے۔ فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب آف پٹی نے بیان کیا کہ آپؑ بچوں سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔ ہر وقت اپنے پاس کوئی چیز رکھتے تھے۔ میری بڑی لڑکی چار سال کی تھی اور اس کو کالی کھانسی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ اگر حضرت صاحب مجھے کچھ دیں گے تو مجھے آرام ہوجائے گا۔ اُس وقت حضورؑ کچھ لکھ رہے تھے۔ حضورؑ نے بکس کھولا اور دونوں ہاتھ بھر کے منقّہ دیا اورایک سفید رومال میں باندھ دیا اور فرمایا کہ سارا نہ کھا جائے ۔تھوڑا تھوڑا کھائے گرم ہوتا ہے۔ وہ کھانے لگی تو اس کے کھاتے ہی اس کو کھانسی سے آرام ہوگیا ورنہ ہم تو بہت علاج کر چکے تھے۔
اہلیہ صاحبہ مولوی فضل دین صاحب کھاریاں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ آپؑ نے ایک لڑکی کو اخروٹ توڑنے کے لیے دیے اور فرمایا کہ جتنے اخروٹ ہیں اتنی ہی گریاں واپس لیں گے۔ ایک عورت نے کہا کہ حضور! اخروٹوں میں سے بہت گریاں نکلتی ہیں تو حضورؑ مسکرائے۔
مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ نے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت اماں جان صاحبہؓ سے سنا کہ ایک دفعہ شام کے وقت حضرت اُمّ المومنینؓ اور مولویانی نے صلاح کی کہ حسن بی بیؓ اہلیہ ملک غلام حسین صاحبؓ کو ڈرائیں۔ جب حضرت مسیح موعودؑ عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے تو حضرت اُمّ المومنینؓ نے حسن بی بی سے کہا کہ پانی پلاؤ۔ جب وہ پانی لینے گئی تو مولویانی صاحبہ چارپائی کے نیچے چھپ گئی۔ وہ پانی لے کر آئی اور چارپائی کے پاس کھڑی ہو کر پانی دینے لگی تو مولویانی صاحبہ نے نیچے سے اس کے پائوں کی چٹکی لی ۔ اس نے دو تین چیخیں ماریں اور زمین پر گر پڑی۔ حضورؑ مسجد سے گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور استفسار فرمایا تو سب چپ ہو گئیں۔ اس پر فرمایا کہ میں نے کئی بار کہا ہے کہ نماز کے وقت ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ آپؑ ہنستے بھی جاتے تھے کیونکہ معلوم ہو گیا تھا کہ مذاق کیا گیا ہے۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام

مراد خاتون صاحبہؓ مزید بیان کرتی ہیں کہ حضورؑ گھر کے کسی کام میں عار نہ سمجھتے تھے۔ایک دفعہ سب نے مل کر آم کھائے تو صحن میں چھلکوں اور گٹھلیوں کے دو تین ڈھیر لگ گئے جن پر بہت مکھیاں آگئیں۔ کچھ خادمات بھی وہاں موجود تھیں۔ مگر حضر ت اقدسؑ نے خود ایک لوٹے میں فینائل ڈال کر سب صحن میں چھلکوں کے ڈھیروں پر اپنے ہاتھ سے ڈالی۔
حضورؑ اپنے مہمانوں کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیتے تھے اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے تھے۔ اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایسااتفاق ہوا کہ دونوں وقت دال پک کر آئی ۔ حضورؑ کو علم ہوا تو آپؑ نے فرمایا: مَیں نہیں چاہتا کہ میرے مہمانوں کو دونوں وقت دال دی جائے۔ مَیں تو بدل بدل کر کھانا کھلاؤں گا۔ یہ میرے مہمان ہیں۔
حضرت منشی عبدالعزیز صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ کرم دین جہلمی کے مقدمہ میں حضور علیہ السلام گورداسپور تشریف لائے ہوئے تھے اور احاطۂ کچہری میں ایک جامن کے درخت کے نیچے کپڑا بچھا کر مع خدّام تشریف فرما تھے۔ حضورؑ کے لیے دودھ کا گلاس لایا گیا۔ چونکہ حضورؑ کا پس خوردہ پینے کے لیے سب دوست جدوجہد کیا کرتے تھے۔ میرے دل میں اس وقت خیال آیا کہ مَیں ایک غریب اور کمزور آدمی ہوں ۔ اتنے بڑے بڑے آدمیوں میں مجھے کس طرح حضورؑ کا پس خوردہ مل سکتا ہے؟ اس لیے میں ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ حضورؑ نے جب نصف گلاس نوش فرما لیا تو بقیہ میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا: میاں عبدالعزیز بیٹھ کر اچھی طرح سے پی لو۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدسؑ عام آدمی سے بھی بےحد شفقت ومحبت کا برتائو کرتے تھے ۔ آپؑ بےحد سادہ اور دِل کے حلیم تھے اور آنحضرت ﷺ کا کامل نمونہ تھے ۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو گھر کا کوئی کام کرنے سے کبھی عار نہ تھی۔چارپائیاں خود بچھا لیتے،فرش کر لیتے، بستر کرلیا کرتے۔ کبھی یک دم بارش آجاتی تو چھوٹے بچے تو چارپائیوں پر سوتے رہتے۔ حضورؑ ایک طرف سے خود ان کی چارپائیاں پکڑتے ۔دوسری طرف سے کوئی اَور پکڑتا اور اندر برآمدہ میں کروا لیتے۔ اگر کوئی شخص ایسے موقع پر یا صبح کے وقت بچوں کو جھنجوڑ کر جگانا چاہتا تو حضورؑ منع کرتے اور فرماتے کہ اس طرح یک دم ہلانے اور چیخنے سے بچہ ڈر جاتا ہے۔ آہستہ سے آواز دے کر اٹھاؤ۔
آپؑ مہمانوں کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ جب مولوی محمد علی صاحب ایم اے حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کے ایک حصّہ میں بالاخانہ میں رہا کرتے تھے اور اُن کی شادی نہیں ہوئی تھی تو حضر ت صاحبؑ خود ان کے لیے صبح کے وقت گلاس میں دودھ ڈال کر اور پھر اس میں مصری حل کرکے خاص اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے۔ آپؑ کو مہمانوں کی بہت خاطر منظورہوتی تھی اور پھر جو لوگ دینی مشاغل میں مصروف ہوں ان کو تو آپؑ بڑی قدر اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ

حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحبؓ نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ فلاں کام میں میرے کامیاب ہونے کی کوئی صورت نظرنہیں آتی۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا: ’’میاں! تم اللہ تعالیٰ کے نام مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب کو لے کر اس سے دعا کیا کرو۔‘‘
ملک مولا بخش صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیحِ موعودؑ بمعہ اہل بیت و خدام امر تسر تشریف لائے۔ امر تسر کی جماعت نے ایک بڑے مکان کا انتظام کیا مگر اس خیال سے کہ مرد زیادہ ہوں گے، مکان کا بڑا حصہ مردانہ کے لیے اور چھوٹا حصہ زنانہ کے لیے تجویز کیا۔ حضورؑ نے آتے ہی مکان کو دیکھا تو بڑے حصے کو زنانہ کے لیے مخصوص فرمالیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور کو عورتوں کے آرام کا بہت خیال تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں