جماعت احمدیہ جرمنی … مختصر تاریخ

جماعت احمدیہ جرمنی کے خلافت سووینئر میں جماعت احمدیہ جرمنی کی تاریخ بھی شامل اشاعت ہے۔ اس بارہ میں قبل ازیں ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 6؍ستمبر 2002ء کے اسی کالم میں اختصار سے ذکر کیا جاچکا ہے۔
یورپ میں پہلا احمدیہ مشن لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دَور میں قائم ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی شدید خواہش تھی کہ یورپ میں عموماً اور جرمنی میں خصوصاً اسلامی مشن قائم کئے جائیں تا جس طرح جرمنی کو مادی لحاظ سے یورپ میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے، (اسلام قبول کر کے) مذہبی لحاظ سے بھی یہ قوم یورپ کی لیڈر بن جائے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے حضورؓ برلن شہر میں تعمیر مسجد کے لیے جدو جہد فرمارہے تھے۔ نیز حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ذہن میں دو بنیادی وجوہات اَور بھی تھیں۔ اوّل یہ کہ جنگ عظیم اوّل کے بعد جرمنی کی حالت گری ہوئی تھی اور مشن کے قیام سے لوگوں کی توجہ مذہب کی طرف مبذول کر سکنے کی امید تھی۔ دوم یہ کہ جرمنی میںمشن کے قیام سے روس میں بھی تبلیغ ممکن ہو سکنے کے امکانات تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر حضورؓنے فرمایا کہ روس کا دروازہ برلن ہے اس دروازہ کے ذریعے سے روس فتح ہو سکتا ہے۔
1922ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جرمنی میں مشن کے قیام کا فیصلہ فرمایا اور مکرم مولوی مبارک علی صاحب بنگالی بی اے کو لندن سے برلن بھجوایا۔ مکرم مولوی صاحب جو 1920ء سے لندن میں تبلیغ اسلام میں مصروف تھے، حضورؓ کے ارشاد پر ستمبر 1922ء میں برلن آگئے۔ آپ کی معاونت کے لئے حضورؓ نے حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اے کو 26 نومبر 1923ء کو قادیان سے جرمنی کے لئے روانہ فرمایا جو 18 دسمبر 1923 ء کو برلن پہنچے۔
محترم مولوی مبارک علی صاحب کی ابتدائی کوششیں بہت امید افزا تھیں جن کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 2 فروری 1923 کے خطبہ جمعہ میں بھی فرمایا۔ انہوں نے جلد ہی Teachings of Islam اور تحفہ شہزادہ ویلز کتابوں کا جرمن زبان میں ترجمہ شروع کروایا اور وسطی یورپ کے رؤساء اور شہزادوں اور سابق قیصر ولیم کو اسلام کی دعوت دی۔ آپ کی تبلیغ کے نتیجہ میں سب سے پہلے پروفیسر فرینزی LLD اور ڈاکٹر ریو سکا جیسے قابل مصنفوں کو احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور پھر جلد ہی برلن کے کالجوں کے پروفیسرز اور طلباء میں بھی احمدیت کے بارے میں جستجو پیدا ہونے لگی۔ ’’پروفیسر ریو سکا ‘‘ ہنگری کے باشندہ تھے۔ یہ خود حضرت مولوی صاحب کو ملنے آئے۔ دل سے مسلمان ہوگئے اور ارادہ ظاہر کیا کہ قادیان جاکر حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کریں گے۔
حضرت مولوی مبارک علی صاحب برلن سے حضور کی خدمت مبارک میں بار بار دو تجاویز لکھ رہے تھے۔ اوّل یہ کہ حضور خود برلن تشریف لائیں دوم یہ کہ وہاں فوراً ایک مسجد اور مکان بنا دیا جائے۔ حضور کو خود جرمنی جانے میں فوری انشراح نہ تھا لیکن دوسری تجویز کے بارہ میں حضورؓ نے فرمایا کہ فوراً زمین خرید لیں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے برلن شہر میں دو ایکڑ زمین خرید لی۔ اس پر حضورؓ نے 2 فروری 1923ء کو یہ تحریک فرمائی کہ مسجد برلن کی تعمیر احمدی خواتین کے چندہ سے ہو۔ اس کے لیے حضور نے پچاس ہزار روپیہ تین ماہ میں اکھٹا کرنے کا اعلان فرمایا۔ لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بعدیہ سب سے پہلی مالی تحریک تھی جس کا خالصتاً تعلق مستورات سے تھا۔ احمدی مستورات نے نقد رقمیں اور اپنے طلائی و نقرئی زیورات اپنے امام کے قدموں میں لا ڈھیر کئے ۔ دو ماہ کے قلیل عرصہ کے اندر اندر 45 ہزار روپے کے وعدے ہوچکے تھے جن میں سے 20 ہزار روپے کی رقم وصول بھی ہو چکی تھی۔ حضور رضی اللہ عنہ نے اس مدت میں توسیع کا اعلان فرمایا اور 31 اگست آخری تاریخ مقرر فرمائی نیز ہدف کو بھی بڑھا کر ستر ہزار کر دیا ۔ احمدی مستورات نے اس ٹارگٹ سے بھی آگے قدم بڑھایا اور مجموعی طور پر 72761 روپے کی خطیر رقم جمع کرنے کی سعادت حاصل کی۔
تمام انتظامات مکمل ہونے پر 5 اگست 1923ء کو 5 بجے شام مسجد برلن کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اُسی روز اور اُسی وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مسجد اقصیٰ قادیان کی توسیع کی بنیاد بھی نصب فرمائی اور اس موقع پر ایک لمبی اور پُر سوز دعا کروائی۔
مسجد برلن کی سنگ بنیاد کی اس تاریخی تقریب میں چار صد احباب حاضر تھے جن میں جرمنی کے وزیر داخلہ، وزیر برائے اموررفاہ عامہ، ترکی اور افغانستان کے سفراء ،متعدد اخبار نویس اور بعض دیگر معززین شامل تھے جبکہ احمدیوں کی تعداد صرف چار تھی۔
مسجد کا سنگ بنیاد تو رکھ دیا گیا لیکن جب مسجد کی تعمیر کا وقت آیا تو جرمنی کے معاشی حالات یکسر بدل گئے۔ کرنسی بدل دی گئی اور کاغذی روپیہ منسوخ کر کے سونے کا سکہ جاری کیا گیا۔ لیکن کرنسی کی قیمت اس قدر گر گئی کہ جو رقم مسجد کی تعمیر کے لیے جمع ہوئی تھی وہ ناکافی نظر آنے لگی۔ مسجد برلن کی تعمیر کے لیے ابتدائی تخمینہ تیس ہزار روپے لگایا گیا تھا لیکن حالات بدلنے پر اس کے اخراجات پندرہ لاکھ روپے بتائے جانے لگے۔ 1923ء میں جرمنی شدید معاشی، سیاسی اور معاشرتی بحران میں مبتلا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے نقصانات اس قدر تھے کہ بظاہر ان کی تلافی محال نظر آتی تھی۔ انہی حالات نے ہٹلر کی نازی پارٹی کو جنم دیا جس کے نظریات نے بالآخر جرمنی کو ایک اور عالمی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔
ان حالات میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے مارچ 1924ء کو فیصلہ فرمایا کہ یورپ میں دو مراکز رکھ کر طاقت تقسیم کرنے کی بجائے دارالتبلیغ لندن ہی کو مضبوط کیا جائے۔ چنانچہ مئی 1924ء میں برلن مشن کو بند کر دیا گیا۔پھر احمدی مستورات کی جمع شدہ رقم سے مسجد فضل لندن کی تعمیر ہوئی۔
1938ء میں ایک جرمن مسلم ’’عمر schubert‘‘ کی زیر نگرانی ایک مسلم تنظیم بنائی گئی تھی جو جنگ عظیم کے بعد جماعت احمدیہ سے ملحق ہو گئی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جرمن قوم کا رجحان ایک بار پھر اسلام کی طرف ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی دوراندیش نگاہ نے 1934ء میں تحریک جدید کا قیام فرمادیا ہوا تھا جس کا کام ہی یورپ میں تبلیغ اسلام تھا۔ چنانچہ یکم فروری 1945ء کو حضور ؓ نے 22 واقفین زندگی کو منتخب فرما کر انہیں بیرون ملک تبلیغ کے لیے بھجوانے کا ارادہ فرمایا۔ ان میں سے مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب، مکرم شیخ ناصر احمد صاحب اور مکرم غلام احمدبشیر صاحب جرمنی کے لیے منتخب ہوئے۔
پہلے مکرم شیخ ناصر احمد صاحب اگست 1945ء میں لندن روانہ ہوئے۔ ان کے بعد مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صا حب اور مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب اکتوبر 1945ء میں لندن پہنچے۔ اور 18 دسمبر 1945ء کو9 مجاہدین کا قافلہ یورپ روانہ ہوا جس میں مکرم مولوی غلام احمدبشیر صاحب بھی شامل تھے۔ یہ قافلہ جنوری 1946ء میں لندن پہنچا۔ چونکہ جنگ عظیم کے بعد کچھ سالوں تک جرمنی میں داخلہ پر پابندی تھی اس لیے فوری طور پر جرمنی میں کوئی مبلغ نہ بھجوایا جاسکا تاہم حضور ؓ نے ان مبلغین کو سوئٹزر لینڈ بھجوا دیا تا جرمنی میں بھی تبلیغ اسلام کی کوئی راہ نکال سکیں۔ یہ مجاہدین اکتوبر 1946ء میں لندن سے سوئٹزرلینڈ پہنچے اور جرمنی میں مشن کے قیام کی کوشش کرنے لگے لیکن عیسائی مشنریوں کی وجہ سے کوئی کامیابی نہیں ہوپارہی تھی۔ حتّٰی کہ ایک سال گزر گیا۔ اگرچہ عیسائی مشنری جنگ عظیم کے ختم ہوتے ہی وہاں پہنچ چکے تھے لیکن مسلمان مبلغین کو اس ملک میں آنے کی اجازت دینے کو تیار نہ تھے۔ مگر خدا تعالیٰ نے احمدیت کے پیغام کو پہنچانے کا از خود انتظام فرما دیا اور وہ اس طرح کہ 1947ء میں ایک جرمن ’’عبداللہ Kuhne‘‘ جو دوران جنگ ایک احمدی بھائی کے ذریعے احمدیت سے متعارف ہوئے تھے احمدی ہو گئے اور پھر اُن کی کوششوں کے نتیجہ میں پانچ مزید احباب احمدی ہوگئے۔ اسی دوران مکرم شیخ ناصر احمد صاحب نے سوئٹزرلینڈ سے بعض جرمن لوگوں سے رابطے کئے اور خط و کتابت کے ذریعے ان تک احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچایا۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں بھی خدا تعالیٰ نے بعض جرمنوں کو قبول احمدیت کی توفیق بخشی۔ اولین جرمن احمدیوں میں ایک عبدالشکور کنزے (KUNZE) بھی تھے جو 1938ء میں فوج میں بھرتی ہوئے ۔ 1943ء کی جنگ میں گرفتار ہو کر امریکہ بھجوا دئیے گئے۔ جہاں انہوں نے انگریز ی زبان سیکھی ۔ 1946ء میںلندن آگئے اور امام مسجد فضل لندن محترم مشتاق احمد باجوہ صاحب سے خط و کتابت کے ذریعے لٹریچر منگوایا اور مطالعہ کرنے کے بعد احمدیت قبول کی۔ 1947ء میں وہ جرمنی چلے گئے۔ اور وہاں سے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں زندگی وقف کرنے کا خط لکھا۔ وقف قبول ہوا تو 14مارچ 1949ء کو ربوہ آگئے اور دینی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ آپ پہلے جرمن واقف زندگی احمدی تھے۔ آپ کو امریکہ اور پھر جرمنی میں کچھ عرصہ مبلغ سلسلہ کی حیثیت میں خدمات سلسلہ کی توفیق ملی۔
اسی اثنا میں حضرت مصلح موعود ؓ نے سوئٹزر لینڈ میں مستقل مشن کے قیام کا فیصلہ فرمایا چنانچہ مکرم شیخ ناصر احمد صاحب تو سوئٹزرلینڈ ہی میں مقیم رہے جبکہ باقی دو مبلغین 2نومبر 1947ء کو ہالینڈ چلے گئے۔ تاہم مبلغین کی جرمنی میں داخلے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ بالآخر جون 1948 ء میں چند ایام کے لیے احباب سے رابطے اور ملاقات کی خاطر جرمنی حکومت نے مبلغ احمدیت کو جرمنی آنے کی اجازت دی۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مکرم شیخ ناصر احمد صاحب کو دو مرتبہ اور مکرم مولوی غلام احمد بشیر صاحب کو ایک مرتبہ ہمبرگ جانے کا موقعہ میسر آیا ۔
مکرم شیخ ناصر احمد صاحب پہلی مرتبہ 10 جون 1948ء کو زیورک سے ہمبرگ پہنچے جہاں اس وقت تک پانچ مقامی افراد حلقہ بگوش احمدیت ہو چکے تھے۔ 11اور 18 جون کو نماز جمعہ باجماعت ادا کی گئی۔ دو جرمن میاں بیوی جناب عمر شوبرٹ اور ان کی اہلیہ خدیجہ شوبرٹ نے بیعت بھی کی۔ 20 جون کو مکرم شیخ صاحب واپس زیورک چلے گئے ۔
جناب عبدالکریم ڈنکرک صاحب اور خلیل Gragert صاحب نے اگست 1948ء میں بیعت کی جس سے احمدیوں کی تعداد تیرہ ہو گئی۔ جناب عبدالکریم ڈنکرک بچپن ہی سے اسلام کے بارے میں نیک خیالات رکھتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی سلسلہ سے خاص عقیدت دیکھنے میں آئی۔ ہمبرگ میں باقاعدہ مشن قائم ہونے کے بعد جمعہ اور ہفتہ وار اجلاس ان ہی کے گھر ہوتے تھے۔ 12 ؍اپریل 1950ء کو پاکستان آئے، لاہور میں قیام رہا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ سے ملاقات کی غرض سے تین مرتبہ ربوہ بھی آئے۔ پاکستان میں کچھ عرصہ قیام کے بعد قادیان چلے گئے جہاں ایک تقریب میں انہوں نے بیان کیا کہ: ’’میں چھوٹی عمر میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تو ایک استاد ہمیں آنحضور ﷺ کی حیات طیبہ پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ہجرت نبوی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے غارثور کے منہ پر مکڑی کا جالا بُننے کا ذکر کیا کہ اس کی وجہ سے دشمن رسول مقبول ﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ حالانکہ یہ صرف خدا کا فضل تھا یہ واقعہ سننے کے بعد میں نے آج تک کسی مکڑی کو نہیں مارا۔ بلکہ مکڑی دیکھنے سے رسول مقبول ﷺ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے‘‘۔
جرمنی میں احمدیہ مشن کے قیام کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب ہالینڈ سے ایک ماہ کے ویزا پر 20 جنوری 1949ء کو ہمبرگ پہنچ گئے۔ ابتداء آپ کا قیام مکرم عبداللہ کوہنے صاحب کے گھر ہی رہا تا ہم جلد ہی حکومت کی طرف سے کرائے کے مکان میں رہائش کا انتظام ہو گیا اور ساتھ ہی ویزے میں بھی توسیع ہوگئی۔
مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب نے آغاز میں ہمبرگ میں صرف ایک کمرہ کرائے پر حاصل کر کے مشن کی ابتداکی تھی ۔ آپ کی آمد کے بعد مکرم شیخ ناصر احمد صاحب 27 جنوری 1949ء کو چند روز کے لئے زیورک سے ہمبرگ آئے۔ مبلغ احمدیت کی جرمنی میں آمد کو اخبارات میں بہت اہمیت دی گئی۔ اس موقع پر جناب عبداللہ کوہنے صاحب کے ایک جرمن دوست مسٹر Wilkinsکے ذریعہ افسران ریڈیو سے تعارف ہو ا اور 16 فروری 1949ء کو مکرم شیخ ناصر احمد صاحب اور مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب کی اسلام کے بارہ میں ایک گفتگو ریکارڈ کی گئی۔ جو نارتھ ویسٹ جرمن براڈکاسٹنگ سسٹم سے 24 فروری 1949ء کو دومرتبہ نشر کی گئی ۔
مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب دس سال تک تن ِتنہا جرمنی میں شجر احمدیت کی آبیاری کرتے رہے۔ اس عرصہ میں آپ 16 ستمبر 1951ء سے 7 فروری 1952ء تک ربوہ بھی آئے۔ جرمنی میں کامیاب تبلیغ کے لئے آپ نے جرمن زبان بھی سیکھی۔
جرمنی میں پہلی احمدیہ جماعت ہمبرگ میں بنی۔ نیورنبرگ میں دوسری جماعت فروری 1952ء میں قائم ہوئی۔ اس جماعت کے جرمن نومسلم مکرم عمر ہوفر (Hoffer) صاحب 1968ء تک اخلاص کے ساتھ اعزازی مبلغ کی حیثیت سے خدمات بجا لاتے رہے۔ 20 مارچ 1954ء کو مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب مبلغ سلسلہ نے اس جماعت کا پہلی مرتبہ دورہ کیا۔ اس وقت تک وہاں 13 جرمن احمدی ہو چکے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں