حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے زرّیں اقوال

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 26؍ جون 2023ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ21؍جنوری2014ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے چند زرّیں اقوال شامل اشاعت ہیں۔ ان میں سے انتخاب پیش ہے۔

حضورؓ فرماتے ہیں:
٭… قرب الٰہی کے لئے نہایت ضرورت ہے:
۱۔اتباع نبی کریم ﷺ کی جاوے۔
۲۔کبر اور کسل سے کلی اجتناب۔
۳۔استغفار و استقلال کے ساتھ درود شریف۔
٭…ماہ رمضان کی شب کو:
۱۔باربار تہجد پڑھے تا کہ بار بار عرض کا موقعہ ملے۔
۲۔ایسے اضطراب سے کہ گویا آخری فیصلہ ہے۔
۳۔پورے ابال اور جوش سے۔
۴۔خلوت رمضان میں گریہ، خشیت، دعا، غذا میں تغیر کرو تاکہ آسمان سے تمہارے لیے برکات کا نزول ہو۔ میرے نزدیک…بڑا بد نصیب ہے جس نے رمضان پایا اور تغیر نہ پایا۔
٭…اللہ تعالیٰ پر میرا بھروسہ اتنا ہے کہ الہام کشف اور رؤیا اور ان کا تو اتر جو یقین تام کا موجب ہے نہ ہو اور میں قسم کھالوں تو اللہ تعالیٰ کو اگر زمین کا تختہ الٹنا پڑے تو الٹ دے۔
٭…طب میں اضطراب، دعا، توجہ الی اللہ، اخلاص، تضرع اور اپنی کم علمی،کم فہمی سمجھنے کا خوب موقع ملتا ہے اس لئے علاج کی جستجو میں الہام الٰہی بھی ہو جاتا ہے۔اگر تقویٰ،رحم،فکر،اسباب و علامات کی جستجو جو ضروری ہے ساتھ مل جاویں تو موجب نجات ہے اورایک ہی علاج دین میں اور ایک ہی دنیا کے لیے کفایت کر جاتا ہے۔
قرآن کریم کے اس علم کے اصول پر علماء اور خاتم الانبیاءﷺ نے عملاً توجہ دلائی۔بڑے بڑے ڈاکٹروں میں معالج بننا معیوب نہیں۔ وہ خود پسندی کے باعث پیچھے اور منکسر متوجہ الی اللہ آگے نکل جاتا ہے۔
طبیب اگر کامیابی تک نہ پہنچے تو مت گھبراوے کیونکہ طبیب کا کام تقدیر کا مقابلہ کرنا نہیں بلکہ ہمدردی اور غمخواری ہے۔
٭… عقل کو کافی سمجھنے والا اور نیچر کا محقق اللہ پر اس کی دریافت کا احسان کرتا ہے بخلاف اس کے ملہم اللہ تعالیٰ کا احسان مانتا ہے۔
٭… لوگ دنیوی ترقی کو مقصود بالذات بناتے مگر ضروری غیر محدود ترقی سے بے پروا ہیں۔
لوگ دنیو ی آرام کے لیے جان دینے کو تیار ہیں مگر آخرت کے لیے کاہل و سست ہیں۔
لوگ اگر ان کے والدین کو کوئی گالی دیوے ان کی حقارت کرے تو آگ بگولا ہو کر کیا نہیں کرتے مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق گالیاں سن کر کہتے ہیں۔ بکنے دو احمق ہے۔
لوگ ایک انجمن کا نام فرضی رکھتے ہیں اور اس کے کاموں میں عزت، فخر،خوشی وغیر وغیرہ یقین کرتے ہیں مگر تعجب کہ قرآن مجید جیسی نور،رحمت، فضل، روح،ہدایت کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو آگ ہو جاتے ہیں۔
٭… بدی کو انسان بدی مانتا ہے اس لئے ممکن ہے کہ کبھی نجات پاوے مگر اعتقاد فاسدہ کو برا نہیں جانتا اس لیے اس سے امیدِ نجات کیونکر ہو!۔ (الحکم31؍اگست 1907ء)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں