حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 3 اور 10؍ جولائی 2023ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ آصفہ احمد صاحبہ کے قلم سے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی سیرت و سوانح پر مضمون شامل اشاعت ہے۔


حضرت الحاج حکیم مو لانا نورالدین صاحبؓ بھیرہ ضلع سرگودھا میں1841ء میں مکرم حافظ غلام رسول صاحب اور مکرمہ نوربخت صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ اپنے سات بھائیوں اور دو بہنوںمیں سب سے چھوٹے تھے۔ سلسلہ نسب حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے۔خاندان میں بہت سے اولیاء اور مشائخ گذرے۔گیارہ پشت سے حفّاظ کا سلسلہ بھی چلا آرہا تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی جس کے بعدحصول علم کے لیے لاہور، راولپنڈی، رامپور، لکھنؤ، میرٹھ اور بھوپال کے علاوہ مکہ اور مدینہ کے سفر اختیار کیے اور عربی، فارسی،منطق،فلسفہ اور طب غرض ہر قسم کے مروّجہ علوم سیکھے۔ پہلی شادی 30سال کی عمر میں بمقام بھیرہ مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی عثمانی بھیروی کی صاحبزادی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہؓ کے ساتھ ہوئی۔ یہ اہلیہ 1905ء میں وفات پاگئیں۔ دوسری شادی 1889ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی تحریک پر لدھیانہ میں صوفی احمد جان صاحبؓ کی صاحبزادی حضرت صغریٰ بیگم صاحبہؓ سے ہوئی جن کی وفات 1955ء میں بمقام ربوہ ہوئی۔
حضورؓ کا رنگ گندمی،قد لمبا اور داڑھی گھنی تھی، شکل و صورت سے نہایت وجیہ تھے۔ آپؓ کے ایک بچے کا نام اسامہ تھا جس کی وجہ سے آپؓ کی کنیت ابواسامہ ہوئی۔

دارالبیعت لدھیانہ

حضرت مسیح موعودؑ سے آپؓ کا غائبانہ تعارف جموں میں ایک شاگرد کے ذریعہ ہوا۔ آپؓ کو بیعتِ اولیٰ کے وقت سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت ملی۔ آپؓ کی سیرت کے چند منتخب پہلو ہدیۂ قارئین ہیں:
٭…آپؓ کی زندگی کا بے مثال پہلو توکّل علی اللہ ہے۔ آپؓ ریاست جموں کشمیر میں ایک معقول تنخواہ پانے کے علاوہ بہت سے انعام واکرام سے بھی نوازے جاتے تھے مگریہ ساری رقم طلبا، بیوگان، یتامیٰ اور دیگر ضرورتمندوں کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کر دیتے تھے۔ آپؓ تحریرفرماتے ہیں:جموں میں حاکم نام ایک ہندو پنساری تھا وہ مجھ سے ہمیشہ نصیحتاً کہا کرتا تھا کہ ہر مہینہ میں ایک سو روپیہ پس انداز کرلیا کریں یہاں مشکلات پیش آجاتی ہیں۔ میں ہمیشہ یہی کہہ دیا کرتا کہ ایسے خیالات کرنا اللہ تعالیٰ پر بدظنّی ہے، ہم پر ان شاءاللہ تعالیٰ کبھی مشکلات نہ آئیں گے۔ جس دن مَیں وہاں سے علیحدہ ہوا تو وہ میرے پاس آیا اور کہا آج شاید آپ کو میری نصیحت یاد آئی ہوگی۔ میں نے کہا میں تمہاری نصیحت کو جیسا پہلے حقارت سے دیکھتا تھا آج بھی ویسا ہی حقارت سے دیکھتا ہوں۔ ابھی وہ مجھ سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ خزانہ سے 480 روپیہ میرے پاس آئے کہ یہ آپ کی تنخواہ ہے۔ اس پنساری نے افسروں کو گالی دے کر کہا کہ نوردین تم پر نالش تھوڑا ہی کرنے لگا تھا۔ ابھی وہ اپنے غصّہ کو فرو نہ کرنے پایا تھا کہ ایک رانی صاحبہ نے بہت سا روپیہ بھجوایا اور کہا کہ اس وقت ہمارے پاس جس قدر روپیہ موجود تھا سب حاضر خدمت ہے۔ پھر تو اس کا غضب بہت ہی بڑھ گیا۔ مجھ کو ایک شخص کا ایک لاکھ 95 ہزار روپیہ دینا تھا۔ پنساری نے کہا جن کا آپ کو قریباً دو لاکھ روپیہ دینا ہے وہ آپ کو بدوں اس کے کہ اپنا اطمینان کرلیں کیسے جانے دیں گے؟ اتنے میں انہی کا آ دمی آیا اور بڑے ادب سے کہنے لگا کہ میرے آقا فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو تو جانا ہے۔ ان کے پاس روپیہ نہ ہوگا اس لیے تم ان کاسب سامان گھر جانے کا کردو اور جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو دے دو۔ اور اسباب کو اگر وہ ساتھ نہ لے جاسکیں تو تم اپنے اہتمام سے بحفاظت پہنچوادو۔ مَیں نے کہا کہ میرے پاس کافی روپیہ آگیا ہے، مزید کی ضرورت نہیں۔


حضورؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنے ایک بھتیجے کو ہمراہ لے کرجموں کے ارادہ سے گھر سے نکلا۔ میرے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا۔مَیں نے ارادہ کیا کہ بیوی سے کچھ روپیہ قرض لے لوں لیکن طبیعت نے مضائقہ کیا اور ویسے ہی چل دیا۔ ہم دونوں گھوڑوں پر سوارتھے۔ایک آدمی نے مجھے ایک روپیہ اور کچھ بتاشے دیے۔ ایک اَور آدمی نے ایک اٹھنی دی۔ آوان نام ایک گاؤں کے قریب پہنچے تو لڑکے نے کہا کہ بتاشے ہمارے پاس ہیں۔ گرمی ہے۔ اگر آپ فرمائیں تومَیں کنویں پر جاکر شربت پی لوں۔چنانچہ وہ لڑکا تھوڑی دور جا کر پھر واپس ہوا اور مجھ سے کہا کہ آپ بھی آجائیں۔ ہم دونوں گاؤں میں پہنچے توکنویں والے نے کہا کہ ذرا ٹھہر جائیں کیونکہ نمبردارنے دُور سے آپ کو دیکھا تھا۔ وہ دودھ لینے کے واسطے گیا ہے۔ نمبردار آیا اور اس نے ایک روپیہ مجھ کو نذر دیا۔اس کابیٹا کبھی میرے پاس علاج کے واسطے آیا تھااور اچھا ہوگیا تھا۔خیر ہم نے دودھ پیا۔ تھوڑی دیر میں گاؤں کے بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ مسجد کا مُلّا بھی آیا اور اس نے ایک روپیہ دیا۔چونکہ وہ غریب حالت میں تھا۔میں نے اس سے روپیہ لینا پسند نہ کیا تو سب نے یک زبان ہوکر کہا یہ روپیہ توضرور لے لیں۔مَیں نے سبب پوچھا تو کہا کہ یہ شخص بہت دنوں سے بیمار تھا اور اس نے آپ سے بذریعہ ڈاک جموں سے دوائی منگوائی تھی۔ یہ اس کے استعمال سے اچھا ہو گیا۔ہم سب کہتے تھے کہ تُو نے دوا مفت منگوائی اور کوئی شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ اگر نوردین ہمارے گاؤں میں آئے تو روپیہ دے دوں گا۔ یہ کبھی روپیہ دینے والا نہیں آج اتفاق سے ہی یہ قابو چڑھا ہے۔ عجیب بات ہے کہ میں اس سے پیشتر کبھی اس گاؤں میں نہیں گیا تھا (حالانکہ صرف ساڑھے چار میل کے فاصلے پر ہوگا) اور نہ اس کے بعد کبھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔
اب میرے پاس ساڑھے تین روپیہ ہو گئے تو ریل اسٹیشن پر پہنچ کرمیرے دل میں خیال آیا کہ اس لڑکے کو لاہور دکھا دیں۔ مَیں نے اسٹیشن پر دیکھا کہ لاہور تک کا دو آدمیوں کا کرایہ تین روپیہ ہے۔ ہم نے ٹکٹ لیے اور لاہور پہنچ گئے۔ آٹھ آنے باقی تھے۔ اسٹیشن پر اترے۔ ایک گاڑی بان سے کہا کہ انارکلی میں شیخ رحیم بخش کی کوٹھی پر اترنا ہے کیا لوگے؟ اس نے کہا کہ ایک روپیہ سے کم نہ لوں گا۔ ہم نے کہا کہ ہمارے پاس توایک اٹھنی ہے۔ چاہو تو لے لو۔اس نے ہنس کراٹھنی لے لی اور شیخ صاحب کے مکان پر پہنچا دیا۔ کچھ دن بعد جب ہم واپس چلنے لگے تو شیخ صاحب نے اپنی گاڑی میرے لیے منگوادی اور آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ ہمارے نوکر کو آپ انعام نہ دیں۔ اسٹیشن پر مجھے یقین تھا کہ میں ابھی کی گاڑی میں جاؤں گا۔ پیسہ تو پاس ایک بھی نہ تھا لیکن یقین ایسا کامل تھا کہ اس میں ذرّہ بھی تزلزل نہ تھا۔ میرے سامنے ٹکٹ تقسیم ہوئے۔ ٹرین آئی، مسافر سوار ہوئے۔ انجن نے روانگی کی سیٹی دی تو بھی مجھ کو یقین تھا کہ اسی گاڑی پرجاؤں گا۔ اچانک ایک آدمی نوردین نوردین پکارتا ہوا دُور تک چلا گیا۔ اور گاڑی میں کوئی ایسا واقعہ ہوا کہ وہ چل کر پھر رک گئی۔اُس نے مجھے دیکھ لیا تو دوڑتا ہواگیا اور تین ٹکٹ لایا۔ ایک اپنا اور دو ہمارے۔ ہم تینوں سوار ہوگئے تو ٹرین چل دی۔ اس نے کہا کہ مجھ کو آپ سے ایک نسخہ لکھوانا ہے میں نے نسخہ لکھ دیا اور پھر ٹکٹوں کو دیکھنے لگا کہ یہ کہاں تک کے ہیں اور کیا کرایہ دیا گیا ہے۔ وہ خود ہی فوراً بولا کہ میں ان ٹکٹوں کے دام ہرگز نہ لوں گا۔ میں بھی خاموش ہوگیا۔ ٹکٹ وہیں کے تھے جہاں ہم کو جانا تھا یعنی وزیرآباد۔ وہ تو نسخہ لکھواکر شاہدرہ اتر گیا۔ ہم وزیرآباد پہنچے۔ میں نے لڑکے سے کہا کہ بیگ لے کر تم جموں جانے کے لیے اڈّہ پر پہنچو۔ پیچھے پیچھے میں بھی آتا ہوں۔ راستہ میں ایک شخص ملا اور کہنے لگا کہ میری ماں بیمار ہے، آپ اس کو دیکھ لیں۔ میں نے کہا کہ مجھ کو جانے کی جلدی ہے۔اس نے کہا کہ میرا بھائی آگے اڈّے پر جاتا ہے اور یکہ کرایہ کرتا ہے اتنے میں آپ میری ماں کو دیکھ لیں۔ چنانچہ میں نے اس کی ماں کو دیکھا اور نسخہ لکھا۔ اس شخص نے میری جیب میں کچھ روپے ڈال دیے جن کو میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر گن لیا۔ معلوم ہوا کہ دس روپیہ ہیں۔ اڈّے پر پہنچے تو اس کا بھائی اور یکہ والا آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ یکہ والا کہتا کہ دس روپیہ لوں گا اور وہ کہتا تھا کہ کم۔ مَیں نے کہا جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں، دس روپیہ کرایہ ٹھیک ہے۔
٭…حضورؓ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلواسوۂ رسولﷺ پر عمل کرنا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کو کمر پر اس طرح اٹھا رکھا ہے جس طرح بچوں کو مشک بناتے ہیں۔ پھر میرے کان میں کہا کہ تُو ہم کو محبوب ہے۔
ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’قرآن کریم کی تعلیم اور رسول اللہ ﷺ کے پاک نمونہ سے ایک قوم تیار ہورہی ہے جو داؤد علیہ السلام کی پیشگوئی کے موافق ارض مقدس کی وارث ہوگی مگر ہاں اس کے لیے راہ یہی ہے کہ عابد اور فرمانبردار بن جاؤ۔ رسول کے آگے پست ہو جاؤ اور وہ تقویٰ جو خیال بناوٹ، اپنی تجویز سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہﷺ کے پاک نمونہ اور خدا تعالیٰ کے فرمودہ نقشہ کے موافق ہے وہ اختیار کرو۔ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء۱۰۸) اس کے ضمن میں نکلتا ہے کہ اگر اس رحمت کو اختیار نہ کرو گے اور اس کے نقشِ قدم پر چل کراپنا چال چلن، صلاح و تقویٰ نہ بناؤ گے تو ذلیل ہو کر ہلاک ہو جاؤ گے۔…بہت سے لوگ اپنی نحوستوں اور فلاکتوں، اپنے فقر و فاقہ کے متعلق چلّاتے ہیں اور واویلا مچاتے ہیں۔ وہ یاد رکھیں کہ تنگ دستیوں اور فلاکتوں کے دُور کرنے کے لیے یہی اور ہا ں یہی ایک مجرب نسخہ ہے کہ حضرت رسول اﷲﷺ کی سچی اطاعت کی جاوے اور صلاح و تقویٰ جو اس اطاعت کی غایت اور منشاء ہے اپنا شعار بنالیا جا وے پھر خدا تعالیٰ کا وعدہ صادق ہے کہ یَرْ زُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق:۴)۔ بےشک بےشک! یہ سچی بات ہے کہ ممکن نہیں رحمت کی اطاعت میں زحمت آئے۔پس رسول ﷲ ﷺ کی کامل اطاعت کرو کہ اس سے تمام نحوستیں اور ہر قسم کے حزن و ہموم دُور ہو جاتے ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ۸؍دسمبر۱۸۹۹ء)

مسجد نبوی مدینہ منورہ

ایک مرتبہ رؤیا میں آنحضرت ﷺ نے آپؓ کو فرمایا کہ تمہارا کھانا تو ہمارے گھر میں ہے لیکن نبی بخش کا ہم کو بہت فکر ہے۔ اس پرآپؓ نے نبی بخش کو بہت تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکے۔ بہت دنوں کے بعد جب ملاقات ہوئی تو آپؓ نے پوچھا کہ کوئی تکلیف ہو تو بتائیں ۔ کہا کہ مجھ کو بہت شدّت کی تکلیف تھی مگر آج مجھ کو چونا اٹھانے کی مزدوری مل گئی ہے اور پیسے مزدوری کے ہاتھ آگئے ہیں اس لیے ضرورت نہیں۔
٭…حضرت خلیفۃ ا لمسیح الاوّلؓ کی زندگی قرآن کریم کی عملی تصویر تھی۔ آپؓ نے اپنی والدہ سے قرآن پڑھا، پنجابی زبان اور فقہ کی کتابیں پڑھیں اور سنیں۔ فرماتے ہیں: ’’میری والدہ کو قرآن کریم پڑھانے کا بڑا ہی شوق تھا … میں نے اپنی ماں کے پیٹ میں قرآن مجید سنا پھر گود میںسنااور پھر ان سے ہی پڑھا۔‘‘ قرآن کریم کا کچھ حصہ اپنے والد صاحب سے پڑھا۔ خود گھنٹوں تلاوت کرتے ہوئے غورو فکر کرتے۔ فرمایا: ’’مَیں نے دنیا کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور بہت ہی پڑھی ہیں مگر ایسی کتاب دنیا کی دلربا، راحت بخش، لذت دینے والی جس کا نتیجہ دکھ نہ ہو، نہیں دیکھی۔جس کو بار بار پڑھتے ہو ئے، مطالعہ کرتے ہوئے اور اس پر فکر کرنے سے جی نہ اُکتائے، طبیعت نہ بھر جائے …میری عمر، میری مطالعہ پسند طبیعت، کتابوں کا شوق، اس امر کو ایک بصیرت اور کافی تجربہ کی بنا پر کہنے کے لیے جرأت دلاتے ہیں کہ ہرگز ہرگز کوئی کتاب ایسی موجود نہیں …کہ اس کو جتنی بار پڑھو،جس قدر پڑھو اور جتنا اس پر غور کرواسی قدر لطف اور راحت بڑھتی جاوے گی۔ طبیعت اکتانے کی بجائے چاہے گی کہ اَور وقت اس پر صرف کرو۔ عمل کرنے کے لیے کم از کم جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ایمان، یقین اور عرفان کی لہریں اٹھتی ہیں۔‘‘
ایک مرتبہ آپؓ درس قرآن دینے مسجد کی طرف جارہے تھے کہ کسی نے بتایا کہ صوفی غلام محمد صاحب نے قرآن حفظ کرلیا ہے۔ یہ سنتے ہی آپؓ نے وہیں سجدۂ شکر ادا کیا۔
آپؓ نے اپنی بیٹی حفصہؓ کو رخصتی کے موقع پر مروّجہ جہیز کے علاوہ ایک صندوق کتابوں کا بھی دیا اور رخصتی کے وقت دیگر نصائح کے علاوہ یہ نصیحت بھی لکھ کر فرمائی کہ قرآن کریم ہمیشہ پڑھنا اور چھوٹی لڑکیوں کو پڑھانا۔
محترم قریشی ضیاءالدین صاحب نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک طالب علم نے قرآن کریم پر دوات رکھ دی تو آپؓ اس کی حرکت کو دیکھ کر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا میاں! اگر تمہارے منہ پر کوئی شخص گوبر اٹھا کر مار دے تو تمہیں کیسا برا لگے! قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے۔ ہمیشہ اس کا ادب ملحوظ رکھا کرو اور اس کے اوپر کوئی چیز نہ رکھا کرو۔
ایک مرتبہ آپؓ نے فر مایا: ’’خدا تعالیٰ مجھے بہشت اور حشر میں نعمتیں دے تو مَیں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں گا تا حشر کے میدان میں اور بہشت میں بھی قرآن پڑھوں،پڑھاؤں اور سناؤں۔‘‘

نور ہسپتال قادیان

وفات کے وقت اپنے بیٹے عبدالحئی کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ خدا تعالیٰ کی کتاب کو پڑھنا ،پڑھانا اور عمل کرنا۔ میں نے بہت کچھ دیکھا پر قرآن جیسی چیز نہ دیکھی۔ پھر وفات سے چند روز قبل حضورؓ نے جماعت کے نام جو وصیت تحریر فرمائی اس کے آخری الفاظ یہ تھے: ’’قرآن و حدیث کا درس جاری رہے۔‘‘
حضورؓ کے دل میں اپنے محبوب آقا حضرت مسیح موعودؑ کی اطاعت و محبت کا کیسا جذبہ موجزن تھا، اس بارہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن مَیں حضرت مولوی صاحبؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ وہاں ذکر ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کرنے کوارشاد فرمایا مگر وہ دوست راضی نہ ہوا۔ اتفاقاً اس وقت مرحومہ امۃ الحی صاحبہ (جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں) سامنے آگئیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ محبت کے جوش سے فرمانے لگے کہ مجھے تو اگر مرزا کہے کہ اپنی اس لڑکی کو نہالی (ایک مہترانی تھی) کے لڑکے کو دے دو تو مَیں بغیر کسی انقباض کے فوراً دے دوں گا۔ یہ کلمہ سخت عشق و محبت کا تھا مگر نتیجہ دیکھ لیں کہ بالآخر وہی لڑکی حضورؑ کی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی جو حضرت مسیح موعود ؑکا حسن واحسان میں نظیر ہے۔


حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کا حضرت مسیح موعودؑ کی محبت میں لذت و سرشاری سے معمور ایک غیرمعمولی واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضورعلیہ السلام دہلی تشریف لے گئے اور وہاں سے آپؓ کو تار دیا کہ فوراً بلاتوقف پہنچ جاؤ۔ تار ملا تو آپؓ مطب میں بیٹھے مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ تار ملتے ہی بٹالہ کی طرف چل پڑے۔ پگڑی بھی چلتے چلتے باندھی۔ گھر جانے کا تو خیال بھی دل میں نہ آیا۔ جیب میں کرایہ بھی نہیں تھا مگر رُک کر کسی سے نہیں لیا۔ کوئی کپڑا ساتھ نہیں لیا۔ بٹالہ اسٹیشن پر پہنچے تو ٹرین کی آمد میں چند منٹ باقی تھے۔انتظار اور بےقراری میں پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگ گئے۔ ایک ہندو واقف کار کی نظر پڑی تو اُس نے آکر درخواست کی کہ اُس کی بیمار بیوی کو دیکھ لیں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ٹرین آنے میں چند منٹ باقی ہیں۔ وہ منت کرتا ہے کہ میرا گھر اسٹیشن کے بالکل پاس ہے آپ بروقت واپس آجائیں گے۔ یہ یقین دہانی سن کر آپؓ جاکر مریضہ کو دیکھتے ہیں۔ واپس اسٹیشن پر پہنچتے ہیں تو وہ ہندو آپؓ کو ٹکٹ اور کچھ رقم نذرانے کے طور پر دیتا ہے جو زاد راہ کے لیے کافی ہے۔آپؓ بےنیازی سے قبول کرتے ہیں اور ٹرین میں سوار ہوکر اپنے محبوب کے قدموں میں دلّی پہنچ جاتے ہیں۔


٭…حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے حضورعلیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق خلافت کے نظام کو مضبوطی سے قائم کرنے کے لیے بےمثال کوشش فرمائی اور اس راہ میں کسی مخالفت کی پروا نہیں کی۔ منکرینِ خلافت سے ایک بار فرمایا: ’’مَیں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں بلکہ خداتعالیٰ کا کام ہے آدمؑ کو خلیفہ بنایا کس نے۔ بارہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ اس خلافت آدم ؑپر فرشتوں نے اعتراض کیا …مگر انہوں نے اعتراض کر کے کیا پھل پایا۔ تم قرآن مجید میں پڑھ لو آخر انہیں آدم کے لیے سجدہ کرنا پڑا۔ پس اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے اور وہ اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو میں اسے کہہ دوں گا کہ آدم ؑکی خلافت کے سامنے سر بسجود ہو جاؤ تو بہتر ہے۔…اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنادیا جو اس کی مخالفت کرتا ہو وہ جھوٹا اور فاسق ہے۔فرشتے بن کر اطاعت و فرماں برداری اختیار کرو۔ ابلیس نہ بنو …تم خلافت کا نام نہ لو۔نہ تم کو کسی نے خلیفہ بناناہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اَور بن سکتا ہے۔ میں جب مر جاؤں گا تو پھروہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کرے گا۔ تم نے میرے ہاتھ پر اقرار کیے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو۔مجھے خدا نے خلیفہ بنادیا ہے اوراب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے۔‘‘
٭…آپؓ کی حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ یہ عجیب مماثلت ہے کہ جس طرح حضرت ابوبکرؓ آنحضرت ﷺ سے عمر میں اتنے ہی چھوٹے تھے جتنی مدت آپؓ خلیفہ رہےاور آپؐ کے برابر یعنی 63؍سال عمر پاکر وفات پائی۔اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ بھی حضرت مسیح موعودؑ سے اتنے ہی چھوٹے تھے جتنی مدت آپؓ خلیفہ رہےاور حضرت مسیح موعودؑ کے برابر یعنی 74؍سال عمر پاکروفات پائی۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ ایک عظیم الشان عالم باعمل اور زندہ جاوید انسان تھے۔ آپؓ کی ارفع شان، علم کی گہرائی اور خداداد بصیرت حضرت مسیح موعودؑ کے اس ارشاد سے ظاہر ہے ۔ فرماتے ہیں: ’’میں رات دن خداتعالیٰ کے حضور چلّاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے ربّ! میرا کون ناصر و مددگار ہے۔ میں تنہا ہوں۔ اور جب دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اورفضائے آسمانی میری دعائوں کے ساتھ بھرگئی۔ تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ربّ العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا … اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے۔ … جب وہ میرے پاس آکر مجھ سے ملا تو میں نے اسے اپنے ربّ کی آیتوں میں سے ایک آیت پایا اورمجھے یقین ہو گیا کہ یہ میری اس دعا کا نتیجہ ہےجو میں ہمیشہ کیا کرتا تھا۔ اورمیری فراست نے مجھے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے اور میں لوگوں کی مدح کرنا اور ان کے شمائل کی اشاعت کرنا اس خوف سے برا سمجھتا تھا۔ کہ مبادا انہیں نقصان پہنچائے مگر میں اسے ان لوگوں سے پاتا ہوں جن کے نفسانی جذبات شکستہ اورطبعی شہوات مٹ گئی ہیں اوران کے متعلق اس قسم کا خوف نہیں کیاجاسکتا … او ر وہ میری محبت میں قسم قسم کی ملامتیں اور بدزبانیاں اور وطن مالوف اور دوستوں سے مفارقت اختیار کرتا ہے اور میرا کلام سننے کے لیے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لیے اپنے اصلی وطن کی یاد بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتاہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام)
نیز فرمایا: ’’دل میں از بس آرزو ہے کہ اَور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں۔مولوی صاحب پہلے راست بازوں کا ایک نمونہ ہیں۔جزاھم اللہ خیرالجزاء‘‘(ازالہ اوہام)

حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں حضرت خلیفۃ ا لمسیح الاوّلؓ بیمار ہو گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ آپؓ کو دیکھنے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ ایک دن آپؓ کی طبیعت کچھ زیادہ ناساز تھی۔ اپنے مکان میں واپس تشریف لاکرحضرت صاحب نے ایک الماری میں سے کچھ دوائیں نکالیں اور حضرت اماں جانؓ کے دالان میں ہی زمین پر بیٹھ گئے اور ان دواؤں میں سے کچھ دوائیں نکال نکال کر کاغذ کے ٹکڑوں پر رکھنی شروع کردیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی فکرمندی کودیکھ کرحضرت اماں جانؓ بھی آکر حضورؑ کے پاس بیٹھ گئیں اور جیسے کوئی کسی کو تسلی دیتا ہے اس طرح سے حضورؑ سے کلام کرنا شروع کردیا کہ جماعت کے بڑے بڑے عالم فوت ہو رہے ہیں۔ مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ فوت ہوگئے، مولوی عبدالکریم صاحبؓ بھی فوت ہوگئے، خداتعالیٰ مولوی صاحب کو صحت دے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا: ’’یہ شخص ہزار عبدالکریم کے برابر ہے ۔‘‘
ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو کچھ رقم کی ضرورت پیش آئی تو آپؓ نے حضرت اقدسؑ سے دو صد یا کم و بیش روپیہ منگوایا۔کچھ دنوں کے بعد اتنا روپیہ حضورؑ کی خدمت میں واپس پیش کردیا تو حضورؑنے فرمایا کہ ’’مولوی صاحب !کیا ہمارا اور آپ کا روپیہ الگ الگ ہے۔آپ اور ہم دو نہیں ہیں۔ آپ کا روپیہ ہمارا اور ہمارا روپیہ آپ کا ہے۔‘‘
٭…حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ سرسیّد مرحوم بانی مدرسہ علیگڑھ کی قومی خدمات کے معترف تھے اور اس سلسلہ میں ہمیشہ ان کی امداد فرماتے رہتے تھے مگر ان کے مذہبی معتقدات سے اپنے اختلاف کا برملا اظہار فرما دیا کرتے تھے۔ حضورؓ نے کسی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا: ’’مجھ خاکسار کی (سر) سیّد سے خط و کتابت رہی ہے۔ مَیں نے ان کوایک بار کسی تقریب پر عرض کیا تھا، جاہل علم پڑھ کر عالم بنتا ہے اور عالم ترقی کر کے حکیم ہو جاتا ہے حکیم ترقی کرتے کرتے صوفی بن جاتا ہے مگر صوفی ترقی کرتا ہے تو کیا بنتا ہے؟ قابل غور ہے جس کے جواب میں سرسیّد نے لکھا کہ وہ نورالدین بنتا ہے۔‘‘
٭…آپؓ کے دورِ خلافت کے چند کارنامے یہ ہیں:
1۔باقاعدہ بیت المال کا محکمہ قائم کیا۔
2۔آپؓ کے مشورہ سے حضرت مصلح موعودؓ نے انجمن تشحیذالاذہان کے زیرانتظام پبلک لائبریری قائم کی۔

مسجد اقصیٰ قادیان

3۔حضورؓ کی آغازِ خلافت ہی سے یہ خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں ایک دینی مدرسہ قائم ہو۔ یکم مارچ 1909ء کو آپؓ نے اس مدرسہ کی بنیاد رکھی جس کا نام حضرت مولانا شیرعلی صاحبؓ کی تجویز پر مدرسہ احمدیہ رکھا گیا۔
4۔ اخبار ’’نور‘‘ جاری کیا گیا۔
5۔ حضورؓ نے 5؍مارچ 1910ء کو مسجد نور کی بنیاد رکھی۔

مسجد نُور قادیان

6۔تعلیم الاسلام ہائی اسکول کی عمارت کی بنیاد رکھی۔
7۔ مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی اور 21؍جنوری1910ء کو احمدی عورتوں نے پہلی بار مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔

مسجد اقصیٰ قادیان

8۔فروری 1911ء میں حضورؓ کی اجازت سے حضرت مصلح موعودؓ نے انجمن انصاراللہ کی بنیاد ڈالی اور حضورؓ نے فرمایا: ’’میں بھی آپ کے انصاراللہ میں شامل ہوں۔‘‘
9۔حضورؓ نے اپنے خرچ پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ اور حضرت شیخ محمد یوسف صاحبؓ کو سنسکرت پڑھانے کے لیے ایک پنڈت کا انتظام کیا۔
10۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 18؍جون 1913ء کو ایک اخبار جاری کیا جس کا نام حضورؓ نے ’’الفضل‘‘ تجویز فرمایا۔
11۔احمدی عورتوں کی تربیت کے لیے پہلا رسالہ ’’احمدی خواتین‘‘ 1912ء میں جاری ہوا۔
٭…حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی شاندار لائبریری میں تفسیر، حدیث اسماء الرجال، فقہ، اصول فقہ، کلام، تاریخ، تصوف، سیاست، منطق، فلسفہ، صرف ونحو، ادب، کیمیا، طب، علم جراحی، علم ہیئت اور غیر مذاہب کی نادر کتب موجود تھیں۔ ہندوستان کے اہل علم کو آپؓ کی اس لائبریری کا علم تھا چنانچہ سرسید اور علامہ شبلی نعمانی جیسے علماء بھی اس سے فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سر شاہ محمد سلیمان جج فیڈرل کورٹ آف انڈیا کو سپین کی ایک نادر کتاب کی ضرورت پیش آئی جو ہندوستان کی کسی مشہور لائبریری میں میسر نہ آسکی تو آخر انہیں علم ہوا کہ اس کا ایک قلمی نسخہ قادیان میںموجود ہے۔جس پر انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی اجازت سے یہ نسخہ عاریتاً حاصل کیا اور بحفاظت واپس بھجوایا۔
محترم عبدالقادر صاحب (سابق سوداگرمل) بیان کرتے ہیں کہ متعدد غیر ملکی سیاح قادیان آیا کرتے تھے تو سب سے زیادہ جو بات انہیں تعجب میں ڈالا کرتی تھی وہ چھوٹے سے گاؤں قادیان کی عظیم الشان لائبریری تھی۔

قادیان دارالامان

٭…تصانیف: 1۔فصل الخطاب فی مسئلہ فاتحۃالکتاب۔ 2۔فصل الخطاب المقدمۃ اہل الکتاب۔3۔ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات۔4۔ تصدیق براہین احمدیہ۔ 5۔ابطال الوہیت مسیحؑ۔6۔ردّتناسخ۔7۔خطوط جواب شیعہ و ردّ نسخ قرآن ۔ 8۔تفسیر سورۃ جمعہ۔ 9۔نورالدین بجواب ‘ترک اسلام’۔ 10۔دینیات کا پہلا رسالہ۔ ۱۱۔وفات مسیح موعودؑ۔ 12۔درس القرآن۔ 13۔خطبات نور۔ 14۔روحانی علوم۔ 15۔مجربات نورالدین۔ 16۔تفسیر احمدی۔
حضورؓ کے حالاتِ زندگی شائع کرنے کا پہلا خیال مکرم اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کو آیا۔ چنانچہ اُن کی خواہش پر حضورؓ نے اپنے حالات زندگی لکھوائے جو 1912ء میں ’’مرقاۃالیقین فی حیات نورالدین‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔


٭…احباب جماعت کے لیے چند قیمتی نصائح:
1۔اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کے لیے استغفار، لاحول، الحمدللہ اوردرود کو بہت توجہ سے پڑھو۔
2۔متکبر،منافق،کنجوس، غافل، بےوجہ لڑنے والے، کم ہمت، مذہب کو لہوولعب سمجھنے والے اور بے باک لوگوں سے تعلق نہ رکھو۔
3۔نماز مومن کا معراج ہے۔تمام عبادتوں کی جامع ہے۔ کبھی اس میں غفلت نہ کرو۔ …بے کس اور بے بس لوگوں کے ساتھ سلوک کیا جاوے۔
4۔اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے اور اپنے بڑوں کے ادب اور اپنے برابروں کی مدارت بقدر امکان کرو۔
5۔والدین اور اپنے افسروں کے راضی رکھنے میں کوشش کروجہاں تک دین اجازت دیوے۔
6۔ہر کام احتیاط اور عاقبت اندیشی سے کرو۔
7۔جو کام ہو، اللہ ہی کے لیے ہو۔کھانا ہویا پہننا، سونا ہو یا جاگنا، اٹھنا ہو یا بیٹھنا، دوستی ہو یا دشمنی۔
8۔ہر ایک مشکل میں دعا سے کام لو۔
9۔ بعض لوگ دعا کے واسطے مجھے اس طرح سے کہتے ہیں کہ گویا میں خدا کا ایجنٹ ہوں اور بہرحال ان کا کام کرادوں گا۔ خوب یاد رکھو! میں ایجنٹ نہیں ہوں میں اللہ کا ایک عاجز بندہ ہوں … دعاؤں میں تڑپنا اور قسم قسم کے الفاظ میں دعا کرنا مجھے بتایا گیا ہے … اسی کے آگے سجدہ کرو، اسی سے دعا مانگو۔ روزہ، نماز، دعا، وظیفہ، طواف، سجدہ، قربانی اللہ کے سوا دوسرے کے لیے جائز نہیں۔
10۔گناہ سے بچنے کے کئی علاج ہیں۔موت کو یاد رکھنا، قرآن کریم کو پاس رکھنا اورکثرت سے استغفار کرنا … اورکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْن پر عمل اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا بھی گناہ سے بچنے کے ذرائع میں سے ہے۔ غرض کسی شخص پر ایک بات زیادہ اثر کرتی ہے اور کسی پر دوسری۔انسان اگر کوشش میں لگا رہے تو آخر کامیاب ہوہی جاتاہے۔
میں نے حضرت مسیح موعودؑ سے دریافت کیا کہ انسان گناہ سے کس طرح بچ سکتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ آدمی بہت کثرت سے استغفار کرنے سے بچ جاتا ہے۔
بدی سے بچنے کا یہ گر ہے کہ انسان علم الٰہی کا مراقبہ کرے سوچے اور فکر کرے اور بار بار اس بات کو دل میں لائے اور اس پر اپنا یقین جمائے کہ خدا علیم ہےخبیر ہے،وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے۔میرے ہر فعل کی اس کو خبر ہے۔اس طرح ریاضت کرنے سے انسان بدی سے بچ جاتا ہے۔
٭…حضرت حافظ عبدالجلیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حاجی غلام جبار سکنہ بریلی کے ذمہ چار ہزار روپیہ قرض تھا۔ وہ حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حال بیان کرکے دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ نے اپنی جیب سے پانچ روپے نکال کر انہیں دیے اور فرمایا جب بھی کچھ روپیہ ہاتھ لگے اس کے ساتھ شامل کرلو اور جب ایک سو روپیہ ہو جائےتو فوراً ادا کردو۔ اس نصیحت پر عمل سے دو سال میں قرض ادا ہو گیا۔
٭…قادیان میں چھوٹے بچوں کی ایک انجمن ہمدردانِ اسلام تھی۔ آپؓ اکثر وہاں تشریف لے جاتے اور بچوں کو اُن کی عمر کے مطابق پیاری پیاری باتیں سناتے۔
آپؓ کے بیٹے میاں عبدالحئی صاحب نے قرآن ختم کیا تو آپؓ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: بیٹا! ہم تم سے دس باتیں چاہتے ہیں:1:قرآن شریف پڑھو۔ 2: پھر اسے یاد کرو۔ 3:پھر اس کا ترجمہ پڑھو۔ 4:پھر اس پر عمل کرو۔ 5: پھر اس طرح ساری زندگی گزارو یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے۔ 6:قرآن پڑھاؤ۔ 7:پھر یاد کراؤ۔ 8: پھر ترجمہ سناؤ۔ 9:پھر عمل کرواؤ۔ 10: پھر اسی حالت میں تم کو موت آجائے۔
٭…بیٹی کی شادی پر رخصت کرتے وقت آپؓ نے یہ نصائح لکھ کر اُس کی گود میں رکھ دیں:
بچہ! اپنے مالک ،رازق ،اللہ کریم سے ہر وقت ڈرتے رہنا اور اس کی رضامندی کا ہر دم طالب رہنا، اور دعا کی عادت رکھنا، نماز اپنے وقت پر اور منزل قرآن کریم کی بقدر امکان بدوں ایام ممانعت شرعیہ ہمیشہ پڑھنا۔ زکوٰۃ، روزہ، حج کا دھیان رکھنا اور اپنے موقع پر عملدرآمد کرتے رہنا۔ گلہ، جھوٹ، بہتان، بیہودہ قصّے کہانیاں یہاں کی عورتوں کی عادت ہے اور بےوجہ باتیں شروع کر دیتی ہیں۔ ایسی عورتوں کی مجلس زہر قاتل ہے۔ ہوشیار، خبردار رہنا۔ہم کو ہمیشہ خط لکھنا۔علم دولت ہے بےزوال ہمیشہ پڑھنا۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو قرآن پڑھانا۔ زبان کو نرم، اخلاق کو نیک رکھنا۔پردہ بڑی ضروری چیز ہے۔ قرآن شریف کے بعد ریاحین العابدین کو ہمیشہ پڑھتے رہنا۔ مرأ ۃ العروس اور دوسری کتابیں پڑھو اور اس پر عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ وناصر ہو اور تم کو نیک کاموں میں مدد دیوے۔ والسلام نورالدین
٭… وفات سے ایک دو روز پہلے حضورؓ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر دیا اور فرمایا کہ میرے بعد اسے پڑھنا، دین ودنیا کے خزائن کی چابی ہے۔ آپؓ کی وفات کے بعد اسے کھولا گیاتو اس میں لکھا تھا:
1۔پانچ وقت نماز کی پابندی رہے۔
2۔شرک سے نفرت تامہ ہو۔
3۔جھوٹ، چوری، بدنظری، حرص و بخل، عدم استقلال، بزدلی، بے وجہ مخلوق کا خوف تم میں نہ ہو بلکہ اس کی جگہ پابندی نماز، وحدت الٰہیہ، صداقت،عفت،غضّ بصر، ہمت بلند، شجاعت، استقلال میں اللہ کے فضل سے ترقی ہو۔ آمین
٭…13؍مارچ 1914ء کو ساعتِ وصال قریب دیکھ کر حضورؓ نے اپنے صاحبزادہ عبدالحی کو بلواکر الوداعی الفاظ کہے۔ پھر فرمایا : ’’تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اور مجھے اطمینان ہے کہ وہ ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ اسی روز عین جمعہ کے وقت وفات پائی۔
آپؓ کا آسمانی نام ‘عبدالباسط’تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں