حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 4؍مارچ 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالنصیر بشریٰ چودھری صاحبہ نے اپنے ایک مضمون میں حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کی سیرت کو ذاتی مشاہدات کی روشنی میں بیان کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ مجھے اگست 1982ء سے 1986ء تک دفتر لجنہ اماءاللہ ربوہ میں خدمت کا موقع ملا۔ اس وقت حضرت سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ ربوہ تھیں۔ آپ کے ساتھ کام شروع کرتے وقت آپ نے مجھے جو نصائح کیں اُن میں یہ بھی کہا کہ مختلف معاملات اور کئی مسائل بھی تمہاری نظروں سے گزریں گے لیکن دفتر کی بات دفتر تک ہی محدود رہنی چاہیے۔ خاکسار نے بھی آپ کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی۔
کام کے دوران اکثر ڈاک لے کر آپ کے پاس جانے کا موقع ملا کرتا تھا۔ اس طرح خاکسار کو آپ کو قریب سے دیکھنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملتا رہا۔ آپ بہت حلیم الطبع، بردبار، نرم مزاج اور درگزر کرنے والی ہستی تھیں۔ ہمیشہ انصاف سے کام لیتیں۔ بہت دعاگو تھیں۔ کم گو بھی تھیں۔ چہرہ بہت بارعب تھالیکن چہرے پر ہمیشہ ہلکی سی مسکراہٹ رہتی۔ اس کا اندازہ صرف ساتھ کام کرنے والا ہی کر سکتا ہے کہ آپ کتنی نرم مزاج اور حلیم طبیعت کی مالک تھیں۔
ایک دفعہ ایک لڑکی نے غلط فہمی کی بنا پر کسی معزز خاندان کی خاتون کے مناسب طریق سے پردہ نہ کرنے کا خط حضرت آپا جان کی خدمت میں لکھ دیا۔ آپاجان نے اُن خاتون کو بلایا اور بات کی۔ پھر اس لڑکی کوبھی بلایا۔ لیکن وہ ڈر کے مارے آپ کے سامنے نہیں جا رہی تھی۔ وہ پریشان تھی۔ کہنے لگی کہ مَیں نے تو ایک جرأت مندانہ قدم اُٹھایا تھا، لیکن اب کہیں بات میرے اوپر ہی نہ آجائے۔ آپاجان نے اُس کو ایک خط لکھوایا جس میں یہ بھی تحریر فرمایا: ’’حلیمی مَیں نے اپنے عظیم باپ سے ورثہ میں پائی ہے۔ تم بغیر خوف کے میرے پاس آئو اور کھل کر بات کر و۔‘‘
حضرت سیّدہ پردے کی بہت پابند تھیں۔ جب کبھی باہر تشریف لے جاتیں تو چہرے پر نقاب ڈال کر گاڑی میں بیٹھتیں اور ہاتھوں پردستانے بھی پہنتیں۔
آپ نے ایک کتا پالا ہوا تھا جو دوسرے صحن میں بندھا رہتا تھا لیکن ایک روز مَیں آپ کے گھر گئی تو اس دن نہ جانے کیسے کھلا رہ گیا تھا۔ جونہی میںاندر داخل ہوئی وہ میری طرف لپکا تو میری چیخ نکل گئی اور میں گر گئی۔ آپا جان نے اندر سے دیکھا تو ننگے پیر ہی باہر نکل آئیں اور مجھے بچالیا۔ آپ کی شفقت کے اَور بھی بہت سے واقعات ہیں۔
ایک دفعہ آل پاکستان لجنہ اماءاللہ سپورٹس ٹورنا منٹ تھا۔ دفتر نارمل وقت سے دو گھنٹہ پہلے کھلنا تھا۔ سپورٹس کی چیزیں کمرہ میں پڑی تھیں اور چابی میرے پاس تھی۔ مَیں کسی وجہ سے ایک گھنٹہ لیٹ ہوگئی تو مکرمہ امۃالشکور صاحبہ (سیکرٹری سپورٹس) نے پریشان ہوکر آپاجان کو فون کیا۔ آپ نے کہا کہ تالا توڑدو۔ اتنے میں مَیں پہنچ گئی۔ مَیں بہت ڈر رہی تھی کہ نہ جانے آپ اب مجھے کیا کہیں گی۔ لیکن آپ نے نہایت شفقت سے صرف اتنا فرمایا کہ آئندہ وقت کی پابندی کا خیال رکھنا۔ آپ کی شفقت اور نرم دلی کو دیکھ کر مَیں حیران رہ گئی، اس کے بعدآپ سے کبھی ڈر نہ لگا۔ ہمیشہ آپ سے کھل کر بات کرلیتی تھی۔ یہی دیکھنے میں آیا کہ آپ نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو کبھی نہیں ڈانٹا۔ ہمیشہ پیارسے سمجھا دیتیںاور سمجھنے والا بھی سمجھ جاتا۔
خاکسار پر آپ کی پیار بھری شفقتیں اتنی ہیں جو مَیں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ ایک روز مَیں پوسٹ لے کر آپ کے گھر پہنچی تو آپ د ھوپ لگوا نے کی غرض سے صندوقوں سے کپڑے اور دوسری اشیاء نکال رہی تھیں۔ ان کے ساتھ پرانی تصاویر بھی نکلیں۔ آپ نے مجھے حضرت امّاں جانؓ اور حضرت امی جانؓ (آپ کی والدہ محترمہ)کی تصاویردکھائیں۔ مَیں بہت خوش ہوئی اس لیے کہ میں نے ان ہستیوں کو نہیں دیکھا تھا۔ ہمّت کرکے پوچھا کہ کیا مَیں یہ تصاویر اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کو دکھانے کی غرض سے ساتھ لے جا سکتی ہوں؟ آپ نے نہایت شفقت سے اجازت دے دی۔ ہمارے محلّہ کی صدر لجنہ کہنے لگیں کہ بی بی صاحبہ اگر اجازت دیں تو ہم یہ تصاویر اپنے اجلاس میں لجنہ کو دکھادیں۔ خاکسار نے صدر صاحبہ کے حوالے سے جب آپ سے پوچھا تو اجازت مل گئی۔ صرف اتنا فرمایا کہ ان کو سنبھالنے کی ذمہ داری تمہاری ہے۔ ہم سب پر یہ آپ کی شفقت اور بہت بڑا احسان تھا۔
جن دنوں کپڑے اور کاغذ وغیرہ کے پھول بنانے کا بہت رواج تھا، خاکسار نے پھولوں کی ایک بیل بناکر آپ کی خدمت میں پیش کی۔ دو دن کے بعد مَیں گئی تو وہ بیل دیوار پر لگی دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کو پسند آئی ہے۔ آپ نے مجھے اپنا بیڈروم دکھایا اور فرمایا کہ اس کی میچنگ کے کچھ پھول بنا دو۔ اس کے بعد ایک دفعہ آپ مجھ سے کہنے لگیں کہ تمہاری بنائی ہوئی بیل بہت لوگوں کو پسند آئی ہے اور بنوانے کے لیے فرمائش بھی کی ہے لیکن مجھے پتا ہے کہ تمہارے پاس اتنا وقت نہیں ہے، صرف ایک بیل بنا دو۔ خاکسار کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی ورنہ مَیں کیا اور میری بساط کیا!
خاکسار جب جرمنی آئی تھی تو پہلی دفعہ 19 سال کے بعد پاکستان جاسکی۔ آپ سے ملنے گئی تو آپ نے مجھے پہچان لیا۔ ایک اَور خاتون اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر وہاں آگئیں۔ اتنی دیرمیں وہاں آپ کی بہوامۃالصبور صاحبہ آگئیں تو آپ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور ہم سے پوچھا کہ بھلا یہ کون ہیں؟ مَیں ذرا خاموش رہی۔ سوچا پہلے وہ خاتون بتا دیں۔ لیکن جب وہ نہیں بتا سکیں تو خاکسارکے بتانے پر آپ بہت خوش ہوئیں۔ آپ کے چہرے پر بہو کو دیکھ کرایسی خوشی تھی جیسے بیٹی کو دیکھ کر ماں کے چہرے پر ہوتی ہے۔
خاکسار 2005ء میں پاکستان گئی تو ملاقات کی غرض سے آپ کے ہاں گئی۔ بتایا گیا کہ ملاقات کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ مَیں نے کہا کہ آپ اندر بتا دیں کہ مَیں جرمنی سے آئی ہوں اور میرے پاس صرف آج کا ہی دن ہے۔ اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ مجبور نہیں کرنا۔ اجازت مل گئی اور ملازمہ نے کہا کہ بیڈروم میں چلی جائوں۔ مَیں اندر گئی تو آپ خود کرسی پر تشریف فرما تھیں۔ آپ نے مجھے چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ آپ بہت رکھ رکھاؤ والی خاتون تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں