حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی الہامی دعا کا اعجاز

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین ستمبرواکتوبر 2023ء)

انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’پس میں نے اپنے دوستوں کے لیے یہ اصول کر رکھا ہے کہ خواہ وہ یاد دلائیں کوئی امر خطر پیش کریں یا نہ کریں ان کی دینی اور دنیوی بھلائی کے لیے دعا کی جاتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 89)
یہی کیفیت آگے آپ کے خلفاء کی ہے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم غریبوں کی جو دعائیں قبول ہوتی ہیں وہ امام وقت کی دعاؤں کے ظل کے طور پر قبول ہوتی ہیں۔ اب میں تحدیث نعمت کے طور پر، نہ کہ خود نمائی کے طور پر، قبولیتِ دعا کے چند واقعات پیش کرتا ہوں۔ وما توفیقی الا باللہ

1965ء کی جنگ اور ٹرین کا سفر

اس وقت مَیں ویسٹ پاکستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کا سٹوڈنٹ تھا اور ہوسٹل میں مقیم تھا۔ 6 ستمبر 1965ء کو انڈیا اور پاکستان کی جنگ شروع ہوئی اور چند دن بعد ایک بم شیل ہوسٹل پر گرا جس سے بہت بڑا دھماکا ہوا اور ایک چوکیدار شہید ہوگیا۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ہوسٹل خالی کروالیے۔ جو غیرملکی عرب سٹوڈنٹ تھے انہیں لاہور کے بڑے ہوٹلوں میں شفٹ کر دیا اور باقی طلباء کو اپنے گھروں کی طرف روانہ کر دیا۔
میرا گھر بھیرہ ضلع سرگودھا میں تھا اور مجھے ٹرین کا سفر درپیش تھا۔ چنانچہ بیگ لے کر میں لاہور ریلوے سٹیشن پہنچا۔ وہاں ٹکٹ خریدنے والوں کی قطار اتنی طویل تھی کہ ٹکٹ خریدنے کی کوئی صورت دکھائی نہ دی۔ چونکہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور ریلوے سٹیشن کے عقب میں واقع ہے اس لیے مَیں سٹیشن کے پیچھے سے غیرمعروف راستوں سے واقف تھا۔ مَیں اُن راستوں سے ہوتا ہوا پلیٹ فارم نمبر 2 پر پہنچ گیا۔ میری جیب میں ایک سو روپے کا نوٹ تھا اور میرا ارادہ یہ تھا کہ ٹرین میں جرمانہ ادا کر کے ٹکٹ بنوا لوں گا۔
اتنے میں ٹرین آگئی اور میں اس میں سوار ہوگیا۔ اسی ڈبے میں میرا ایک دوست مل گیا جس کے پاس ٹکٹ تھا۔ چند ہی لمحوں میں ٹرین شاہدرہ کے سٹیشن پر پہنچ گئی۔ میں نے اُس دوست کو 100 روپے کا نوٹ دیا اور کہا کہ وہ مجھے ٹکٹ خرید کر لا دے۔ میں خود اس لیے نہیں جاسکتا تھا کہ میرے پاس ٹکٹ نہیں تھا اور بکنگ کی کھڑکی تک پہنچنے سے پہلے ہی میں پکڑا جاتا۔ میرا دوست اتر کر ٹکٹ لینے کے لیے بھاگا۔ جلد ہی ٹرین چل پڑی۔ اچانک وہاں ٹکٹ چیکر بھی آگئے۔ اسے دیکھ کر میری حالت بڑی غیر ہو گئی۔ ٹکٹ بھی نہیں تھا اور جو سو روپے کا نوٹ تھا وہ دوست کو ٹکٹ خریدنے کے لیے دے دیا تھا۔ اس نازک صورتحال میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی الہامی دعا جسے حضور نے اسم اعظم قرار دیا ہے بڑی اضطراری کیفیت میں کرنی شروع کر دی یعنی

رَبِّ کُلِّ شَیْ ءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ

میں بڑے تذبذب کی حالت میں تھا۔ ٹکٹ بھی نہیں، جیب میں پیسہ بھی نہیں اور ادھر دوست کا فکر کہ اس سے کہیں ٹرین miss نہ ہو گئی ہو اور ان حالات میں میرا کیا بنے گا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ مجھ سے پہلے جو مسافر بیٹھے تھے اور وہ بھی سٹوڈنٹ تھے وہ ٹکٹ چیکر سے الجھ پڑے۔ غالبا وہ جرمانہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ اِدھر میں دعا کر رہا تھا اور اُدھر ان کی بحث لمبی ہوتی چلی گئی حتی کہ اگلا سٹیشن غالباً وزیر آباد آگیا جہاں ٹرین رکی لیکن ابھی چیکرز کے ساتھ ان کی بحث جاری تھی۔
مَیں قربان جاؤں اس زندہ خدا پر جو دعاؤں کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ اس دوران میں میرا دوست جو شاہدرہ ٹکٹ لینے اترا تھا پسینہ سے شرابور، چہرے کا رنگ اترا ہوا، سخت پریشانی کی حالت میں نمودار ہوا اور اس نے بتایا کہ میرا ٹکٹ خریدنے تک ٹرین شاہدرہ سے چل پڑی تھی۔ تب وہ تیز بھاگ کر چلتی ٹرین کے آخری ڈبے میں سوار ہونے میں کا میاب ہوگیا۔ اس نے مجھے ٹکٹ اور 100 روپے میں بچی ہوئی رقم تھمائی تو میری جان میں جان آئی۔ میں اس دوست کا شکرگزار ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے میرے پاس وہ الفاظ نہیں جس نے حضرت مسیح موعودؑ کی الہامی دعا قبول کر کے یہ معجزہ دکھایا۔ اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ چنانچہ میں اس ٹرین پر لالہ موسیٰ جنگشن تک گیا۔ پھر ٹرینیں بدل کر بھیرہ اپنے ماں باپ کے پاس پہنچ گیا۔

تجھے دنیا میں ہے کس نے پکارا
کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا
تو پھر ہے کس قدر اس کو سہارا
کہ جس کا تُو ہی ہے سب سے پیارا

سروے کیمپ اور دریائے سوات میں ڈوب کر بچ جانا

سول انجینئرنگ کی ڈگری کے لیے ایک ماہ کا سروے کیمپ اٹینڈ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ میں نے 1966 ء میں سروے کیمپ اٹینڈ کیا جو وادیٔ سوات میں جولائی کے مہینے میں ہوا۔ ہماری رہائش اورنگزیب ہوسٹل سیدو شریف میں تھی اور مرگزار کی پہاڑی پر ہم سروے کرنے جاتے تھے۔ یونیورسٹی کی طرف سے دوبسیں ہمارے ساتھ تھیں۔ اتوار کو چھٹی والے دن بسیں سیر کے لیے لے جاتی تھیں۔ ایک اتوار کو ہم لوگ بحرین گئے جہاں دریائے سوات کی دو شاخیں ملتی ہیں اور بڑا خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ پانچ پانچ سٹوڈنٹس کا سروے گروپ ہوتا ہے اور سب آپس میں بے تکلف ہوتے ہیں۔ دریا سے تقریباً ایک منزل اوپر بازار ہے۔ اور سٹوڈنٹ نیچے دریا کے ساحل پر اور دریا کے اندر جمپ کر کے بڑے پتھر پر فوٹو گرافی کرتے ہیں۔ ہمارا گروپ بھی فوٹو گرافی کر رہا تھا اور اتفاق سے میں گروپ لیڈر تھا۔ جب فوٹو لینے کی میری باری آئی تو مَیں پتھر سے پھسل کر دریا میں جاگرا۔ پانی کی رفتار وہاں اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہاں گرنے والا اکثر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ جب مَیں گرا تو اوپر سارا بازار اکٹھا ہوگیا۔ میرے گروپ کے ساتھی پکار پکار کر مجھے تسلیاں دے رہے تھے۔ اس کیفیت میں اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہی دعا جو اسم اعظم کہلاتی ہے کرنے کی توفیق دی

رَبِّ کُلُّ شَیْ ءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ

اور اس دعا کو قبول کرکے اللہ تعالیٰ نے مجھے موت کے منہ سے نکال لیا۔ لوگ حیران تھے اور سٹوڈنٹ اور پروفیسر جو ہمارے ساتھ نگرانی کے لیے گئے تھے سب بہت فکر مند تھے۔ سب میرے پاس جمع ہو گئے اور مجھے مبارک دینے لگے اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگے ۔اوپر بازار سے لوگ بھی مجھے دیکھنے کے لیے نیچے آگئے اور مبارک دینے لگے۔ وہ وہاں کے مقامی لوکل لوگ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ تو معجزہ ہوا ہے ورنہ ہر سال کوئی نہ کوئی یہاں ڈوب کر مر جاتا ہے ۔
کلاس کو آگے لے جانے کا پروگرام کینسل کر دیا گیا اور ہم واپس سیدوشریف اپنے ہوسٹل میں آگئے ۔ کئی دن ان سب کا موضوع سخن یہ عاجز رہا۔

ایک قاتلانہ حملہ میں اسم اعظم کی دعا سے بچ جانا

ریٹائرمنٹ سے قبل غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ میرا آخری پراجیکٹ تھا۔ واپڈا کالونی میں سینئر ہوسٹل میں میری رہائش تھی جو اٹک شہر سے پندرہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے تحت وہاں امارت ضلع اٹک کی ذمہ داری میرے کمزور کندھوں پر آ پڑی۔ ایک رات مَیں اسلام آباد سے بذریعہ کار آرہا تھا جسے ڈرائیور چلا رہا تھا۔ اٹک موڑ سے آگے تک zig zag سڑک کافی سنسان رہتی ہے۔ جب ہم بروٹھا سے پانچ سات کلو میٹر پہلے پہنچے جہاں S Curve بنتا ہے تو وہاں ڈاکوؤں نے درختوں کے تنے سڑک پر پھینک کر راستہ بند کیا ہوا تھا۔ وہ ہماری کار پر حملہ آور ہوئے تو اس خطرناک اور نازک صورتحال میں جبکہ بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی میں نے رَبِّ کُلُّ شَیْ ءٍ خَادِمُکَ کی دعا رقّت سے اور زور زور سے کرنی شروع کر دی اور ڈرائیور کو کہا وہ Reverse میں کار واپس لے جائے۔ ڈاکو چاہتے تو ٹائر پر فائر کر سکتے تھے لیکن ان کی تدبیر کو خدا نے روک دیا اور نہایت مشکل S Curves سے کار نکال کر ہم ڈاکوؤں کی range سے باہر نکل گئے اور گاڑی سیدھی کر کے اٹک چیک پوسٹ تک پہنچ گئے جہاں پولیس کو رپورٹ کی۔ پولیس چیک پوسٹ پر موجود پولیس افسر نے DSP کو فون کیا اور چند ہی لمحوں کے بعد DSP صاحب بھی پہنچ گئے۔ مَیں مسلسل اسم اعظم والی دعا کرتا رہا۔ جب ہم سب موقع پر پہنچے تو ڈاکو بھاگ چکے تھے۔ پولیس نے لائٹ بم سے سڑک کے دونوں طرف جائزہ لیا لیکن انہیں کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ اس پر پولیس نے ایک پولیس وین میں سڑک سے درخت اٹھا کر رکھے اور روانہ ہو گئے اور ڈی ایس پی صاحب مجھے باحفاظت واپڈا کالونی میں میری رہائش پر چھوڑ آئے۔ میں نے شکرانے کے نوافل پڑھے اور فوراً حضور انور کو خط لکھا۔ چند دن بعد حضور انور کا جواب آیا کہ خدا کا شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قاتلانہ حملہ سے بچا لیا۔
اس واقعہ کے اگلے روز یہ خبر سارے پراجیکٹ پر پھیل گئی اور پراجیکٹ کی انتظامیہ نے پندرہ دن کا نوٹس دے کر مجھے فارغ کردیا۔ مَیں سامان لے کر ربوہ پہنچا ہی تھا کہ ہیڈ آفس سے مجھے فون آیا کہ منگلا ڈیم raising پراجیکٹ پر چلاجاؤں۔ چنانچہ وہاں سے بھی مَیں ہر weekend پر اٹک جاتا رہا۔

اسم اعظم کی دعا کا پس منظر

6 دسمبر 1902ء:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

’’رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر ہوں اور وہ کوچہ سر بستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آئے ہیں۔ ایک ان میں سے میری طرف آیا تو میں نے اسے مار کر ہٹا دیا۔ پھر دوسرا آیا تو اسے بھی ہٹا دیا۔ پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پر زور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہؤا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا۔ میں نے اس وقت یہ غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں۔ میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا مگر میں نے پھر نہ دیکھا۔ اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القا کی گئی :

رَبِّ کُلُّ شَیْ ءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ

اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے۔ اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اسے نجات ہوگی۔‘‘
( البدر 12 دسمبر 1902ء ، الحکم 10 دسمبر 1902 ء تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 363 ,364 )
اردو ترجمہ : اے میرے خدا ہر ایک چیز تیری خادم ہے۔ اے میرے خدا شریر کی شرارت سے مجھے نگہ رکھ اور میری مدد کر اور مجھ پر رحم کر۔
( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 556)
فرمایا: ’’یہ دعا ایک حرز اور تعویذ ہے۔ … میں اس دعا کو اب التزاماً ہر نماز میں پڑھا کروں گا۔ آپ بھی پڑھا کریں۔
فرمایا: اس میں بڑی بات جو سچی توحید سکھاتی ، یعنی اللہ جلشانہ کو ہی ضار اور نافع یقین دلاتی ہے ، یہ ہے کہ اس میں سکھایا گیا ہے کہ ہر شے تیری خادم ہے۔ یعنی کوئی موذی اور مضر شے تیرے ارادے اور اذن کے بغیر کچھ نقصان نہیں کرسکتی۔‘‘
(الحکم 10 دسمبر 1902 ء تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ363 حاشیہ)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں