حضرت حزقیلؑ کا قرآن و بائبل میں ذکر … حضرت مصلح موعودؓ کا منفرد علم قرآن

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 6 مئی 2022ء)
حضرت حزقیل علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے چار سو کے قریب انبیاء میں سے ایک جلیل القدر بزرگ نبی تھے۔ آپؑ کو قرآن کریم نے ’’ذوالکفل‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔ مثلاً فرمایا:
…… اور ذوالکفل … ان میں ہر ایک صبر کرنے والوں میں سے تھا۔ (سورہ انبیاء آیت 86)
حضرت مصلح موعودؓ نے مذکورہ آیت کریمہ کی روشنی میں جو نہایت عالمانہ تحقیق تفسیرکبیر میں پیش کی ہے اس کا خلاصہ مکرم عطاء النور صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍جنوری 2014ء میں شامل اشاعت ہے۔
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ذوالکفل کا ذکر نام لے کر قرآن کریم میں دو جگہ پر آتا ہے۔ ایک تو یہی آیت ہے جس میں اسمٰعیلؑ، ادریسؑ اور ذوالکفلؑ کا اکٹھا ذکر آتا ہے اور دوسرے سورۃ صٓ میں اسمٰعیلؑ، یسعیاہؑ اور ذوالکفلؑ کا اکٹھا ذکر آتا ہے۔ بعض مفسرین نے ذوالکفل کے متعلق یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک غیر نبی شخص تھا جو دن کو روزہ رکھتا اور رات کو عبادت کرتا تھااور غصہ میں کبھی نہیں آتا تھا۔ اسے بعض کے نزدیک ایک نبی نے اور بعض کے نزدیک ایک بادشاہ نے اپنا قائم مقام مقرر کیا تھا۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ دراصل ذوالکفل معرب ہے حزقیلؑ کا۔ ‘ی’، ک یا وائو سے بدلتی رہتی ہے اور وائو ‘فاء’سے بدل جاتی ہے۔ پس حزقیل سے حزکفل اور اس سے ذوالکفل ہو جانا کوئی بعید بات نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حزقیل کا عربی میں ترجمہ کر کے اسے ذوالکفل کہہ دیا گیا ہو۔ کیونکہ حزقیل کے معنے ہیں ‘جسے خدا کی طرف سے طاقت ملی ہو’ اور ذوالکفل کے معنے ہیں ‘جس کو بڑا حصہ ملا ہو’۔
یسعیاہؑ کے ساتھ ا س کے نام کا آنا مزید ثبوت ہے کہ یہ نبی حز قیل ہی ہیں کیونکہ دونوں کا خاص جوڑ تھا۔ جو پیشگوئیاں یسعیاہؑ نے کی تھیں وہ حز قیلؑ کے زمانہ میں پوری ہوئی تھیں اور یہودی مصنف دونوں کا باہم مقابلہ بھی کرتے ہیں۔
بائبل میں حزقیلؑ کو چار بڑے نبیوں میں سے ایک شما ر کیا جاتا ہے۔ غالباً ان کی پیدائش622 قبل مسیح کی تھی۔ اور قریباً تیس سال کی عمر میں 592 قبل مسیح میں ان کا الہامی زمانہ شروع ہوتا ہے۔ اندازاً بائیس سال تک انہوں نے نبوت کی اور 570 قبل مسیح میں 52سال کی عمرمیں وفات پائی۔ وہ ایک مشہور مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی ابتدائی عمر یر وشلم کی عبادت گاہ میں گزری تھی جہاں دینی تعلیم بھی پائی۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھے جن کو بابل کا بادشاہ قید کرکے یروشلم سے لے گیا تھا۔ گو وہ علماء کے لیڈر نہیں تھے مگر بوجہ بڑھتے ہوئے رسوخ کے بادشاہ نے اُن کو اس قابل سمجھا کہ اُن کو گرفتار کر کے لے جائے۔ حزقیلؑ نے شادی بھی کی۔
حزقیل کو اس لحاظ سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ ان کے زمانہ کے بعد یہود نے قریباً قریباً ظاہری بت پرستی چھوڑ دی جو اس سے پہلے زمانوں میں باربار ان میں عود کر آتی تھی۔
بعض ائمہ بائبل کا خیال ہے کہ حزقیلؑ آخری اسرائیلی نبی تھے۔ اُن کے بعد صرف بڑے علماء پیدا ہوئے جو صرف مجددانہ رنگ رکھتے تھے۔ حزقیلؑ کی کتاب غالباً بائبل کی پہلی اور آخری کتاب ہے جس کا کچھ حصہ خود نبی نے لکھا ہے۔
بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے ابتدائی دنوں میں حضرت زکریاؑ کی طرح حزقیلؑ کو بھی خاموش رہنے کاحکم ملا تھا۔ آپؑ اپنی قوم کی دوبارہ نجات اور ترقی کی بھی خبر دیتے ہیں اور ایک لمبے عرصے تک اس کے محفوظ رہنے کی پیشگوئی کرتے ہیں۔ حزقیلؑ نے یروشلم کے دوبارہ معبد بنانے کے متعلق بھی پیشگوئی کی اور وہ تمام قوانین بیان کیے ہیں جن کے مطابق معبد بنایا جائے گا اور جس کے مطابق کا ہن کام کریں گے۔ یروشلم کی دوبارہ آبادی کی اُن کی پیشگوئی کا ذکر قرآن کریم میں سورۂ بقرہ آیت 260 میں آتا ہے۔
حزقیلؑ فرشتوں کا ذکر نہیں کرتا لیکن وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ روحیں اس کو اٹھا کر لے گئیں۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ فرشتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
انسان کے متعلق حزقیلؑ کی یہی تعلیم ہے کہ وہ مقتدر ہے اور اپنے ارادے اور عزم کی بنیاد پر بد سے نیک اور نیک سے بد ہونے کی طاقت رکھتا ہے۔ چنانچہ حزقیل باب 18 میں یہ تمثیل بیان کی گئی ہے کہ اچھے باپ سے برا بیٹا اور برے باپ سے اچھا بیٹا پیدا ہو سکتا ہے۔ نیز یہ کہ سزا شریر کو ہی ملتی ہے، کسی دوسرے کو نہیں۔ حزقیلؑ تو بہ کے ذریعہ سے دائمی زندگی ملنے کے بھی قائل تھے اور توبہ کرنے پر زور دیتے تھے۔
یہودی لٹریچر کے مطابق حزقیلؑ شوعا کی اولاد میں سے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ یرمیاہ کے بیٹے تھے۔ لکھا ہے کہ آپؑ نے یسعیاہؑ سے زیادہ تفصیل کے ساتھ خدا کے تخت گاہ کا حال بیان کیا۔ لیکن یہودی علماء کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ یسعیاہؑ سے بڑا تھا۔ بلکہ اس نے خدا کے تخت کو صرف ایک دفعہ دیکھا اس لئے زیادہ تفصیل سے یاد رکھا۔ یسعیاہؑ چونکہ بار بار دیکھتا تھا اس لئے اس کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی تھی۔ علمائے یہود کے نزدیک حزقیلؑ مُردے بھی زندہ کیا کرتے تھے۔ لیکن بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ رئویا تھی۔ چنانچہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ رئویا ہی تھی (سورۂ بقرہ رکوع25)۔
حز قیلؑ جلاوطنی میں بابل کے پاس ہی فوت ہوئے اور ایک لمبے عرصہ تک ان کی قبر کی زیارت یہودی اور مسلمان کرتے رہے۔ چنانچہ ڈیر نمرود کے پاس کِفل جگہ پر یہ قبر بتائی جاتی ہے۔ اس جگہ کا نام کِفل ہونا صاف بتا تا ہے کہ عربوں کی زبان میں حزقیلؑ کا نام ہی کِفل تھا۔
حزقیلؑ نبی کا دعویٰ تھا کہ خداتعالیٰ کی رئویت ان کو حاصل ہوئی۔ حزقیلؑ زیادہ تر اپنی قوم کی تباہی کی خبریں دیتے ہیں۔ چنانچہ اپنی کتاب کے باب2میں وہ یہ رئویا بیان کرتے ہیں کہ ایک کتاب انہیں دکھائی گئی اور کہا گیا کہ اس کو کھالو۔ اس کتاب پر لکھا تھا ‘نوحہ ماتم اور واویلا’۔ اس میں اشارہ تھا کہ ان کی ساری زندگی ان الفاظ کے ماتحت گزرے گی۔
معلوم ہوتا ہے کہ حزقیلؑ کے زمانہ میں یہودیوں میں تہذیب بہت بڑھ گئی تھی اور وہ ایک مضبوط قوم بن گئے تھے گو سیاسی طور پر وہ کمزور ہو گئے تھے۔ ان کی جتھہ بندی کی وجہ سے کوئی شخص ان کو حق نہیں سنا سکتا تھا۔ جو حق بات کہتا تھا سارے اس کے پیچھے پڑجاتے تھے۔ اسی وجہ سے باب3میں حزقیلؑ سے کہا گیا کہ جو کچھ میں تجھے کہوں وہ لوگوں کو پہنچا، ورنہ تُو ذمہ دار ہو گا۔ یہ وہی تعلیم ہے جو قرآن کریم میں بھی رسول کریمﷺ سے بیان کی گئی ہے۔
حزقیلؑ کو اُسترے سے اپنے سر اور داڑھی کے بال منڈوانے کا حکم دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت یہودی داڑھی رکھتے تو تھے مگر اسے ضروری نہیں سمجھتے تھے۔
حزقیلؑ بتاتے ہیں کہ تو حید کی مخالفت کی وجہ سے یہود تباہ کیے جائیں گے مگر تھوڑے سے بچائے جائیں گے۔ بنی اسرائیل کی تباہی کی خبر دیتے ہوئے وہ بتاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی سچی جماعت جب بگڑتی ہے تو غیرقوموں کو اس پر مسلّط کیا جاتا ہے اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ (غیرقومیں ) خود بھی بُری ہیں۔ وہ خواہ کتنی ہی بگڑی ہوئی ہوں سچی کتاب سے تعلق رکھنے والی جماعت پر ان کو مسلّط کر دیا جاتا ہے تا کہ نبی کی جماعت توبہ کرے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرے۔ اسی طرح جو لوگ سچے دین سے تعلق رکھ کر بگڑتے ہیں ان کے حق میں شفاعت بھی قبول نہیں کی جاتی۔
حزقیلؑ فرماتے ہیں کہ آخر بنی اسرائیل کو نجات دی جائے گی اور وہ بابل کی حکومت کی قید سے آزاد ہو جائیں گے۔ وہ یہودیوں کو متنبّہ کرتا ہے کہ وہ الٰہی کلام پر تمسخر اڑاتے ہیں اور پیشگوئیوں کو فضول قرار دیتے ہیں لیکن خداتعالیٰ حزقیل کی پیشگوئیوں کو سچا کر کے یہودیوں کو جھوٹا کرے گا۔ وہ ان لوگوں کو ملامت کرتا ہے جو کہ جھوٹے طور پر خدا رسیدہ بنتے ہیں۔
حزقیلؑ نے نبو کد نضر کے مقابلے میں مصر کی ایک زبردست شکست کی خبر بھی دی ہے۔ مگر چالیس سال کے بعد پھر اس کے بحال ہونے کی بھی خبر دیتے ہیں۔
حضرت حزقیلؑ کی ایک مشہور رئویا قرآن کریم کی سورۃالبقرۃ کی آیت260میں درج ہے۔ حضرت مصلح موعودؑ اس کی پُرمعارف تشریح میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تُو اس شخص کی طرف دیکھ جو ایک بستی یاگائوں پر سے ایسی حالت میں گزرا کہ وہ اپنی چھتوں پر گر اپڑا تھا۔ اور اس نے سوال کیا کہ الٰہی یہ بستی اپنی ویرانی کے بعد کب آباد ہوگی؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے اُسے سو سال تک مارے رکھا (یعنی خواب میں ) اور پھر اسے اُٹھایا اور اس سے پوچھا کہ تُو کتنی دیر تک رہا ہے؟ اس نے کہا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بات تو درست ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ہم تجھے ایک اَور بات بھی بتاتے ہیں کہ تُوسو سال تک بھی رہا ہے۔ تیری بات کے سچا ہونے کا تو ثبوت یہ ہے کہ تو اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ وہ سڑا نہیں۔ لیکن میری بات کے سچا ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے تجھے کشفی حالت میں سو سال کا نظارہ دکھایا ہے اور جب یہ رئویا پورا ہو گا اس وقت لوگوں کو تسلیم کرنا پڑے گاکہ تیرا خدا کے ساتھ سچا تعلق تھا۔ جب اس پر یہ حقیقت روشن ہو گئی تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کے آگے یہ کچھ بھی مشکل نہیں کہ وہ ایسی اُجڑی ہوئی بستی کو اپنے فضل سے پھر دوبارہ آباد کر دے۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اولؓ اس بستی سے یروشلم مراد لیا کرتے تھے جسے بخت نصر نے تباہ کر دیا تھا۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ وہ آدمی جو یروشلم کے پاس سے گزرا اور جس پر خداتعالیٰ نے اس بات کا انکشاف کیا کہ ایک سو سال تک یہ شہر دوبارہ آباد ہو جائے گا وہ حزقیل نبی تھا۔ میرے نزدیک بھی یہی درست ہے۔ یہاں اس بستی کے متعلق یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ یہ گائوں اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھا۔ یعنی پہلے چھتیں گریں اور پھر ان پر دیواریں گر گئیں۔ کیونکہ جو مکان عدم استعمال کی وجہ سے گریں بالعموم پہلے ان کی چھتیں گرتی ہیں کیونکہ چھتوں میں لکڑی ہوتی ہے اور لکڑی کو دیمک لگ جاتی ہے۔ جب چھتیں گر جاتی ہیں تو پھر بارش کی وجہ سے ننگی دیواریں بھی گرنے لگتی ہیں۔ اور اس صور ت میں وہ دیواریں چھتوں پر آگرتی ہیں۔ ورنہ جو مکان زلزلہ وغیرہ کی قسم کے حادثات سے گرتے ہیں ان کی دیواریں پہلے گرتی ہیں اور چھت ان پر آگرتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ اس گائوں کی ویرانی کا سبب زلزلہ وغیرہ نہ تھا بلکہ اس کے باشندوں کا شہر چھوڑ کر چلا جانا اس کا موجب تھا۔ بہر حال حزقیل نبی کے دل میں یروشلم کی بربادی دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوا کہ خداتعالیٰ اس بستی کو کب زندہ کر ے گا۔ بستی کو زندہ کرنے کے یہ معنے نہیں کہ مُردہ لوگ کس طرح زندہ ہوں گے۔ بلکہ اس کا مطلب وہی ہے جو دوسری جگہ بستیوں کو زندہ کرنے کے متعلق قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ (ق آیت 12)ہم بارش کے ذریعہ مُردہ شہر کو زندہ کیا کرتے ہیں۔ پس مُردہ شہر کو زندہ کرنے کے معنے ویران شہر کو آباد اور خوشحال کرنے کے ہوتے ہیں۔
یہ رئویا جس کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے حزقیل نبی کی کتاب میں بھی پائی جاتی ہے صرف اتنا فرق ہے کہ حزقیل نبی کی کتاب میں سو سال کی میعاد کا ذکر نہیں۔ یہ قرآن کریم کی صداقت اور اس کے کامل ہونے کا ایک زبردست ثبوت ہے کہ جو ضروری امور پچھلی کتب میں بیان نہیں ہوئے قرآن کریم نے ان کو بھی بیان کر دیا ہے اور اس طرح ان کی کمی کو پورا کردیا ہے۔ بہرحال حزقیل باب 37 میں یہ پیشگوئی تفصیل سے بیان کی گئی ہے کہ جب آپؑ کا گزر اُجڑی بستی اور مُردہ جسموں کے پاس سے ہوا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو اس وقت بابل میں قید تھے وہ اس بستی کے پاس سے کب گزرے سو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ گزرنا بھی خواب میں ہی ہوجیسا کہ بائبل کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ نبو کد نضر جو بابل کا بادشاہ تھا اُس نے586قبل مسیح یروشلم پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا تھااور اس کا ایک حصہ گرا دیا تھا۔ وہ وہاں کے بادشاہ اور اس کے خاندان کے تمام افراد کو پکڑ کر اپنے ملک میں لے گیا۔ اسی طرح شہر کے تمام شرفاء اور بڑے بڑے کا ریگروں کو بھی قید کر کے لے گیا اور سوائے چند رذیل لوگوں کے وہاں کوئی باقی نہ رہا۔ حضرت حزقیلؑ بھی ان قیدیوں میں ہی تھے۔ ان کے متعلق مورخین نے لکھا ہے کہ چونکہ وہ لوگوں کو ترغیب دیتے تھے کہ نبو کدنضر کا مقابلہ کرو اور اپنے ملک کو نہ چھوڑو، اس لیے وہ ان کو بھی قید کر کے لے گیا۔ پرانی تاریخوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ جن شہروں کو گراتے اور ویران کرتے تھے، وہاں کے قیدیوں کو وہ ان کے اوپرسے گزارتے تھے تاکہ انہیں اپنی ذلّت اور بیچار گی کا احساس ہو۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک جب وہ پکڑے گئے اور یروشلم کے اوپر سے گزارے گئے، اس وقت انہوں نے اس کے متعلق خداتعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ خدایا یہ کیا ہو گیا ہے۔ شہر گرا دیا گیا ہے۔ سب بڑے بڑے لوگ قید کر کے لے جائے جا رہے ہیں۔ ایسی خطر ناک تباہی کے بعداب یہ شہر دوبارہ کب آباد ہوگا؟ دراصل یروشلم کے تباہ ہوتے ہی اُن کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا جبکہ گری ہوئی چھتیں انہیں نظر آرہی تھیں۔ ورنہ بعد میں تو لوگ سامان اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اُس وقت ان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ الٰہی یہ شہر دوبارہ کب آباد ہو گا۔ ہم تو سب قید ہو کر جارہے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو سو سال کی موت کا نظارہ دکھایا یعنی کشفی رنگ میں انہیں ایساہی محسوس ہوا کہ وہ فوت ہو گئے ہیں اور سو سال کے بعد پھر زندہ ہوئے ہیں۔ اور خوابوں میں ایسا ہونا کوئی تعجب انگیز امر نہیں۔ انسان خواب میں مرتا بھی ہے اور مختلف قسم کے نظارے بھی دیکھتا ہے۔ حضرت حزقیلؑ چونکہ اپنی قوم کے نبی تھےاس لئے ان پر کشفی رنگ میں موت کی کیفیت وارد کرنے سے مراد درحقیقت بنی اسرائیل کی موت تھی اور اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے انہیں یہ بتا نا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل سو سال تک غلامی اور ادبار کی حالت میں رہیں گے اس کے بعد ان کو ایک نئی زندگی عطا کی جائے گی اور وہ اپنے شہر میں واپس آجائیں گے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس جگہ رؤیا کا کوئی لفظ نہیں۔ مگر قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ وہ بعض دفعہ رؤیا کا توذ کر کرتا ہے مگر رئویا کا لفظ استعمال نہیں کرتا۔ چنانچہ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کو جب بتایا کہ میں نے دیکھا کہ چاند اور سورج وغیرہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں تو انہوں نے رؤیا کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ پس یہ ضروری نہیں ہوتا کہ خواب کے ذکر میں خواب کا لفظ بھی استعمال کیا جائے۔
جب وہ یہ نظارہ دیکھ چکے تو ان کو اٹھا یا گیا۔ یعنی ان کی کشفی حالت جاتی رہی۔ اور خداتعالیٰ نے ان سے پوچھا کہ بتا تُو کتنے عرصہ تک اس حالت میں رہا؟ تو انہوں نے عرض کیا: مَیں تو صرف ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہا ہوں۔ محاورہ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اچھی طرح معلوم نہیں۔ چنانچہ یہ محاورہ قرآن کریم میں بعض دوسرے مقامات پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ فرمایا ہے…(مومنون آیت113تا114)یعنی اللہ تعالیٰ کفار سے فرمائے گا کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو۔ وہ کہیں گے ہم ایک دن یاد ن کا کچھ حصہ رہے ہیں، تُو گننے والوں سے پوچھ لے۔ یعنی ہم بہت تھوڑا عرصہ رہے ہیں یا ہمیں معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ رہے۔ حضرت حزقیلؑ کا یہ جواب اد ب کے طور پر تھاکہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کا اس سوال سے کیا منشا ہے۔ یعنی بات تو ظاہر ہے کچھ دیر ہی سویا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس بات کے علاوہ جو تیرے دل میں ہے ہم ایک اَور بات بھی بتاتے ہیں، اور وہ یہ کہ تُو سو سال تک رہا ہے۔ یہاں پہلے قول کی نفی نہیں کی گئی۔ بلکہ ایک اَور بات بیان کی گئی ہے۔ یعنی حضرت حزقیلؑ کے اِس خیال کی کہ وہ دن یا دن کا کچھ حصہ اس حالت میں رہے تردید مدّنظر نہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک اَور مضمون کی طرف ان کا ذہن منتقل کیا ہے اور بتایا ہے کہ ایک نقطہ نگاہ سے دیکھو تو تم نے سو سال اس حالت میں گزارے ہیں۔ مگر چونکہ نبی کا قول بھی اپنی جگہ درست تھا اس لیے اس خیال سے کہ نبی خداتعالیٰ کے قول کو مقدّم رکھ کر اپنے خیال کو غلط نہ قرار دیدے، اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی فرما دیا کہ ہم تمہارے خیال کو ردّ نہیں کرتے، وہ بھی درست ہے، چنانچہ دیکھو تمہارا کھانا اچھی حالت میں ہے سڑا نہیں اور تمہارا گدھا بھی تندرست اپنی جگہ پر کھڑا ہے جس سے ثابت ہوا کہ تمہارا خیا ل بھی، کہ تم صرف چند گھنٹے اس حالت میں رہے ہو، اپنی جگہ درست ہے۔ ورنہ جو سو سال تک واقعہ میں مرا رہا ہو اسے یہ نہیں کہا جاتا کہ اپنا کھانا دیکھ وہ سڑا نہیں۔ اور پھر فرمایا کہ یہ رئویا ہم نے اس لیے دکھائی ہے تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشان بنائیں۔ اب تو ان مُردہ ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم ان کو کس طرح کھڑا کرتے ہیں اور ان پر گوشت پوست چڑھاتے ہیں۔
اس کشف اور الہام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوشخبری دی کہ ایک سو سال تک یہ شہر آباد ہو جائے گا۔ چنانچہ ٹھیک سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس شہر کی ترقی اور آبادی کی صورت پیدا کردی۔
یروشلم کی تباہی دو دفعہ ہوئی ہے ایک دفعہ 597قبل مسیح میں اور دوسری دفعہ یروشلم بغاوت پر 586قبل مسیح میں اس جگہ سو سال دوسری تباہی سے ہی لیے جائیں گے۔ کیونکہ شہر کو اسی میں برباد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد519قبل مسیح میں یروشلم کی دوبارہ بنیاد رکھی گئی اور تیس سال تک تعمیر جاری رہی جس کے نتیجہ میں 489قبل مسیح میں یروشلم صحیح طور پر آباد ہوا۔ پس درمیانی فاصلہ قریباً سوسال(98سال)کا ہی ثابت ہوتا ہے۔
حزقیل نبی کی کتاب میں ذکر آتا ہے کہ ہماری ہڈیاں سوکھ گئیں اور ہماری امید جاتی رہی ہم تو بالکل فنا ہو گئے(حزقیل باب37آیت11) اللہ تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ تم ایک بار پھر زندہ ہو گے اور پھر اپنی کھوئی ہوئی طاقت اور عظمت حاصل کرو گے۔ غرض اس واقعہ کے متعلق بائبل سے رئویا بھی مل گیا۔ بنی اسرائیل کی ہڈیوں پر گوشت کا چڑھایا جانا بھی ثابت ہو گیا۔ اسی طرح حزقیل نبی کو پکڑ کر لے جانا بھی ثابت ہوگیا۔ اور پھر سو سال کے بعدیروشلم کا دوبارہ آباد ہونا بھی تاریخ سے ثابت ہو گیا۔
حزقیل نبی کو پہلے توصدمہ ہوا کہ یہ کیا ہو گیا ہے مگر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ یہ ہمیشہ کی تباہی نہیں تو انہوں نے کہا…خدایا اب میری تسلی ہو گئی ہے اور گو بظاہر ان حالات کا بدلنا ناممکن نظر آتا ہے مگر یہ بات یقیناً ہو کر رہے گی۔ اور خداتعالیٰ دوبارہ اس شہر اور قوم کو ترقی عطا فرمائے گا۔
الغرض اپنے موضوع کا ہرپہلو سے احاطہ کرنے والی یہ پُرمعارف تفسیر سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیے جانے کی عظیم الشان پیشگوئی پر مُہر صداقت ثبت کرتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں