حضرت مصلح موعودؓ کی چند دلنشیں یادیں

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 12؍فروری 2024ء)
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی چند خوبصورت یادیں مکرم مبارک مصلح الدین احمد صاحب مرحوم کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 14؍مارچ 2014ء میں شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ خاکسار کے نانا حضرت بابو الٰہی بخش صاحبؓ سٹیشن ماسٹر اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور برادری شدید مخالف تھی۔ 1917ء میں وہ وفات پاگئے تو اُن کی اہلیہ اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ہمراہ قادیان آگئیں۔ تینوں بچوں کی عمریں دس سے چودہ سال کے درمیان تھیں۔ حضرت امّاں جانؓ اور حضرت مصلح موعودؓ نے اُن سے بہت شفقت کا سلوک کیا۔ آٹھ سال کی عمر میں ایک دفعہ جب مَیں اپنی امی اور نانی کے ہمراہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے بڑے پیار سے بہت سی باتیں کیں اور یہ بھی فرمایا کہ تمہیں پتہ ہے کہ تمہارے ابّا کی یہ دوسری شادی ہے، گھر جاکر ابّا سے پوچھنا۔ مَیں بڑا حیران ہوا اور گھر آکر پوچھا تو والد (حضرت صوفی غلام محمد) صاحبؓ نے بتایا کہ وہ ابھی چھوٹے تھے اور اُن سے کچھ سال بڑی ایک تایازاد بہن تھی۔ ان کے دادا کی خواہش تھی کہ دونوں کی منگنی کردی جائے اس پر اُن کے والد صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ جب حضرت اقدسؑ کی خدمت میں خط لکھا تو حضور علیہ السلام کا جواب آیا کہ اس طرح چھوٹی عمروں میں منگنی کرنا مجھے پسند نہیں، بچے بڑے ہوجائیں تو پھر رشتے طے کرنے چاہئیں۔ لہٰذا یہ رشتہ نہ ہوا۔

مکرم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب

حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے بچوں کی تربیت کا بہت خیال رہتا۔ میرے والد حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ سکول میں حساب پڑھاتے تھے۔ حضورؓ اپنے تین صاحبزادوں کو گرمیوں کی تعطیلات میں ان کے پاس بھجوادیتے۔ والد صاحب ہم چاروں کو پڑھاتے اور تفریح کا وقت بھی دیتے۔ اس کا ایک فائدہ خاکسار کو یہ ہوا کہ ان صاحبزادوں سے دوستی کی بِنا پر کئی مرتبہ قصر خلافت جانے اور حضورؓ سے ملنے کا موقعہ بھی ملتا رہا۔

حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ

قادیان میں ہر ماہ کی آخری جمعرات کو دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیل ہوتی تھی۔ حضورؓ کی ہدایت تھی کہ اُس روز پکنک، سیر یا شکار پر جایا کریں۔ 1941ء میں جب مَیں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا اور ہم نہر پر پکنک منانے گئے ہوئے تھے کہ حضورؓ بھی وہاں تشریف لے آئے۔ حضورؓ نے پہلے تیراکی کا مقابلہ کروایا پھر نہر کے پُل کے معاً بعد (جہاں بہاؤ تیز تھا) تیر کر نہر کو سیدھا کراس کرنے کا مقابلہ کروایا۔ حضورؓ نے ازراہ شفقت خود بھی ان مقابلوں میں حصہ لیا۔ حضورؓ مقابلے میں سب سے آگے رہے اور میرے والد صاحب دوسرے نمبر پر آئے۔ اطفال کا مقابلہ علیحدہ کروایا گیا۔

حضورؓ کا طریقہ کار تھا کہ مختلف شعبوں کے کام اور حالات کے بارے میں مختلف ذرائع سے معلومات حاصل فرماتے رہتے تھے۔ بچوں سے بھی معلومات حاصل فرماتے۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر حضورؓ نے مجھ سے کالج اور ہوسٹل کے حالات دریافت فرمائے تو میری باتوں کو سُن کر حضورؓ نے فرمایا: اچھا مَیں ناصر سے پوچھوں گا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ ہمارے پرنسپل تھے۔ حضورؓ کی بات سُن کر مَیں یکدم گھبرا گیا تو حضورؓ نے فرمایا: فکر نہ کرو، مَیں تمہارا نام لے کر نہیں پوچھوں گا۔ پھر خاکسار نے اپنی قبض کی تکلیف کا ذکر کیا تو فرمایا:نکس وامیکا 30 لے لیا کرو۔
جون 1953ء میں فضل عمر انسٹیٹیوٹ کے افتتاح کے موقع پر خاکسار کو تلاوت کرنے کی سعادت ملی تو بعد میں حضورؓ نے وکیل التعلیم مکرم میاں عبدالرحیم احمد صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ فضل عمر ریسرچ میں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ فرمایا کہ تلاوت کے لیے بھی باہر سے آدمی تلاش کرنا پڑا!۔
ستمبر 1956ء میں جب مَیں ریاضی میں اور مکرم سمیع اللہ سیال صاحب شماریات میں ایم اے کرنے کے بعد حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؓ نے فرمایا کہ مخالفین کہتے ہیں کہ خلیفہ کے ساتھ تو بڈھے بڈھے ہیں۔ اگر نوجوان سامنے آئیں تو پھر وہ یہ اعتراض نہ کریں۔ پس تم ثابت کرو کہ جوان بھی سلسلہ کے ساتھ ہیں۔
ربوہ ابتدائی دَور میں ملتان کمشنری میں شامل تھا۔ 1956ء میں حضورؓ نے کمشنر ملتان کو ربوہ آنے کی دعوت دی اور اس موقع پر سرکاری افسران اور علاقے کے معززین کو بھی مدعو فرمایا۔ اس تقریب کے انتظامات لجنہ ہال میں کیے گئے۔ حضورؓ نے میری ذمہ داری کیٹرنگ کے انتظام پر لگائی اور تفصیلی ہدایات دیں مثلاً سینڈوچ کہاں سے اور کیسے بنوانے ہیں، اعلیٰ قسم کی پیسٹری کہاں سے ملے گی، مٹھائی کون کونسی اور کہاں سے لینی ہے اور دیگر متفرق سامان کہاں سے لینا ہے۔ بعدازاں حضورؓ کو قصرخلافت سے لجنہ ہال لانے کے لیے میری ڈیوٹی لگی تو راستے میں حضورؓ نے انتظامات کی صورتحال کے بارے میں تفصیل سے دریافت فرمایا۔
1957ء میں جماعت کی ایک لمیٹڈ کمپنی میں خاکسار کو بطور نمائندہ بھجوانے سے پہلے حضورؓ نے ازراہ شفقت مجھ سے اور میرے والد صاحب سے پتہ کروایا کہ تجارتی کام میں مجھے دلچسپی ہے یا نہیں؟پھر روانگی سے پہلے تفصیلی ہدایات دیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ مینیجنگ ڈائریکٹر اپنی پسند کے آدمی رکھے گا جن میں احمدی شاذ ہی ہوں گے، تم نے نرمی اور تعاون کرتے ہوئے کام سیکھنا ہے لیکن جب دیکھو کہ سلسلہ کا مفاد خطرے میں ہے تو پھر کسی کی کوئی پروا نہیں کرنی اور اپنے مؤقف پر ڈٹ جانا ہے۔ اس کے بعد جب خاکسار کراچی پہنچا تو حضورؓ نے جس جس طرح حالات سے متنبہ فرمایا تھا، اسی طرح وہاں صورتحال رہی۔خاکسار حسب ارشاد نرمی اور تعاون سے کام سیکھتا رہا۔ مینیجنگ ڈائریکٹر نے اپنا ایک لڑکا بھی اپنے ساتھ لگالیا تھا۔ 1963ء کے آخر میں اچانک انتظامیہ اور مینیجنگ ڈائریکٹر نے میری شدید مخالفت شروع کردی۔ پہلے صرف زبانی دھمکیاں تھیں لیکن پھر ایک روز پچیس تیس آدمیوں نے میرے فلیٹ پر حملہ کیا اور دیوار توڑ دی۔ ان حالات کی اطلاع مَیں نے بذریعہ ٹیلی گرام انچارج ایڈمنسٹریشن ڈائریکٹر کو اور حضورؓ کو بھی دے دی۔ حضورؓ نے فوری ایکشن لیا اور رات کو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا مجھے فون آیا کہ حضورؓ بڑے فکرمند ہیں اور بار بار تمہارا حال پوچھ رہے ہیں۔ مَیں بڑا جذباتی ہوگیا کہ حضورؓ کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی ہے۔ بہرحال حضورؓ نے مکرم امیر صاحب کراچی کو بھی میری حفاظت کے حوالے سے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کی دعا سے خاص فضل فرمایا۔
ستمبر 1964ءمیں خاکسار کی شادی ہوئی تو میرے والد صاحب نے حضورؓ کی خدمت میں تحریراً اس کی اطلاع کی۔ حضورؓ اُن دنوں علیل تھے۔ خاکسار کی رہائش چنیوٹ میں تھی۔ والدہ صاحبہ بستر علالت پر تھیں۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ شام کو ٹرانسپورٹ نہیں ملتی اس لیے مَیں رات ربوہ میں ہی رہوں گا اور اگلے روز آپ کی بہو کو لے کر چنیوٹ آؤں گا۔ پھر دو تانگوں میں چند عزیزوں کے ہمراہ ربوہ پہنچا۔ والد صاحب نے ایک جونیئر کوارٹر الاٹ کروایا ہوا تھا۔ وہاں سے بارات پیدل گئی۔ جب رخصتانہ کی دعا ہوگئی اور خاکسار اپنی اہلیہ کے ہمراہ باہر نکلا تو دیکھا کہ حضورؓ نے اپنی گاڑی اور ڈرائیور کو بھجوایا ہوا ہے کہ ہمیں ہمارے گھر (چنیوٹ میں) چھوڑ آئے۔ جزاھم اللہ احسن الجزاء

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں