حضرت چودھری نثار احمد صاحبؓ

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری و فروری 2024ء)

(انور احمد رشید)

حضرت چودھری نثار احمد صاحبؓ کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا۔ آپ حضرت منشی امام الدین صاحبؓ کے بیٹے اور مکرم چودھری ظہور احمد صاحب (سابق ناظردیوان صدرانجمن احمدیہ ربوہ) کے بڑے بھائی تھے۔ حضرت منشی صاحبؓ کی بعض روایات ’’والدہ نثار احمد‘‘کے نام سے بیان کی گئی ہیں، ان میں آپؓ کی مراد یہی ہیں۔ چنانچہ حضرت منشی صاحب ؓ بیان کرتے ہیں:

محترم چودھری ظہور احمد صاحب

’’ایک مرتبہ میری اہلیہ قادیان آئیں۔ مولوی رحیم بخش صاحبؓ مرحوم ساکن تلونڈی جھنگلاں کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔ واپسی پر میری اہلیہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان پر پہنچیں اور اندر داخل ہونے لگیں تو حضرت صاحب تمام خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرما رہے تھے۔ ہم جلدی سے واپس ہوگئیں۔ حضرت صاحب نے دریافت فرمایا : کون ہیں؟ عرض کیا گیا کہ مولوی رحیم بخشؓ صاحب ساکن تلونڈی کی اہلیہ ہیں اور دوسری منشی امام الدینؓ صاحب پٹواری لوہ چپ کی اہلیہ ہیں۔ حضوؑر نے اندر بلا لیا ۔ ان دنوں میری اہلیہ کی گود میں عزیزم نثار احمد تھا۔ حضوؑر نے اپنے کھانے سے ایک برتن میں کچھ کھانا ڈال کر دیا۔ میری اہلیہ کو کہا کہ لو یہ کھانا بچے کو کھلاؤ۔ ایسا ہی کئی مرتبہ ہوا جب کبھی میری اہلیہ کھانے پر پہنچیں حضورؑ نے بچہ کے لیے کھانا دیا اور یہ حضور کی ذرّہ نوازی تھی کہ اپنے مریدین سے ایسی شفقت فرماتے تھے۔‘‘
(رجسٹر روایات جلد 11،روایات حضرت منشی امام الدین صاحب پٹواری)

حضرت چودھری نثار احمد صاحبؓ

حضرت منشی صاحب ؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ
’’میرا یہ قاعدہ تھا کہ فرصت کے وقت مَیں لوہ چپ سے ، نہر کے اُس پُل پر، جو بٹالہ کی سڑک ہے، آکر بیٹھ جاتا تھا تا کہ قادیان سے آنے جانے والے دوستوں سے ملاقات ہو سکے۔ ایک دفعہ عصر کے قریب مَیں پُل پر آکر بیٹھا تھا کہ بٹالہ کی طرف سے ڈاک کا ہرکارہ، جس کا نام بینی تھا، آیا۔ مَیں نے اس سے دریافت کیا کہ آج بے وقت قادیان کیوں جا رہے ہو؟ اُس نے کہا تار لایا ہوں، مرزاصاحب فوت ہو گئے ہیں۔ اس وقت میری جو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ مَیں نے اُسے کہا : تم بکواس کرتے ہو اور اُسے سخت سست بھی کہا۔ کیونکہ مجھے یقین نہ آتا تھا کہ حضوؑر فوت ہوئے ہیں لیکن اس نے مجھے تار کا لفافہ دکھایا اور حلفاً کہا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ مَیں اُسی وقت گھر واپس آیا۔ میری حالت بہت خراب تھی۔ آہستہ آہستہ گھر پہنچا اور یہ خبر سنائی۔ سب کو سخت صدمہ ہوا ۔ اُس دن ہمارے ہاں نہ کھانا پکا اور نہ ہی کسی نے کچھ کھایا۔ دل میں سخت بے چینی تھی۔ مَیں گھر سے نکلا اور موضع تلونڈی جھنگلاں روانہ ہو گیا جہاں خدا کے فضل سے ایک بڑی جماعت قائم ہو چکی تھی۔ وہاں دوستوں کو یہ خبر سنائی۔ سب کو بہت صدمہ ہوا۔ دوسرے دن صبح مَیں پُل پر جا کر جنازہ کا انتظار کرنے لگا ۔ تلونڈی کے دوست وڈالہ گرنتھیاں پہنچ چکے تھے۔ میرے گھر سے بھی پُل پر گئے ہوئے تھے ۔ حضور کی وفات کا صدمہ بچوں تک کو تھا۔ میرا بڑا لڑکا نثار احمد اُس وقت چھوٹا تھا۔ جب صبح اُس کی والدہ روانہ ہوئیں تو اسے گاؤں میں ہی چھوڑ آئیں۔ جب اُسے علم ہوا تو وہ باوجود چھوٹی عمر کے ننگے سر، ننگے پاؤں ان کے پیچھے بھاگ آیا۔ جس وقت جنازہ آیا تو مَیں بھی ساتھ شامل ہو گیا اور جنازہ کے ساتھ قادیان آیا۔ لوگ بالکل دیوانہ ہورہے تھے اور کندھا دینے کے لیے ہر شخص کوشش کرتا تھا۔ اس کوشش میں پاؤں بھی زخمی ہو رہے تھے، مگر کسی کو اس کی پروا نہ تھی۔
(رجسٹر روایات جلد 11،روایات حضرت منشی امام الدین صاحب پٹواری)

حضرت چودھری نثار احمد صاحبؓ

حضرت چودھری نثار احمد صاحبؓ اپنی خود نوشت میں تحریر کرتے ہیں:
یہ عاجز تقریبا ًساٹھ سال قبل حضرت مسیح موعودؑ کے ایک مخلص اور دیرینہ خادم کے گھر پیدا ہوا۔ میرے والد صاحب کا نام حضرت منشی امام الدین صاحبؓ تھا۔ انہوں نے 1894ءکے اوائل میں حضرت اقدسؑ کی بیعت کی تھی۔ اصحابِ احمد حصہ اوّل میں آ چکا ہے ، ہماری والدہ محترمہ کے حالات زندگی بھی درج ہیں اور تاریخ احمدیت میں 1894ء کے بیعت کرنے والوں میں بھی آپ کا نام درج ہے۔ طفولیت کے ایّام اپنے گاؤں ، جہاں پر والد صاحب سرکاری ملازمت کے سلسلے میں متعین تھے ، میں گزارے ۔بچپن میں بندہ اپنی والدہ کے ہمراہ حضرت اقدؑس کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور ہر جمعہ کو تو تقریباً باقاعدگی سے حاضر ہوتے اور جب رات ٹھہرنا ہوتا تب بھی دیارِ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں حضرت اُمّ المؤمنین کے زیرِ سایہ ہی قیام ہوتا۔
حضرت والدہ محترمہ نے بھی 1894ء میں ہی بیعت کرلی تھی۔ کیونکہ ان کے بھائی یعنی ہمارے ماموں حضرت منشی عبد العزیز صاحبؓ جو حضرت اقدسؑ کے خاص الخاص فدائیوں میں سے تھے، وہ غالباً1892ء میں ہی بیعت کر چکے تھے۔ حضرت والدہ صاحبہ سنایا کرتی تھیں کہ ایک دفعہ آپ حضرت اقدؑس کے گھر قیام پذیر تھیں۔ حضوؑر تصنیف کا کام کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں کھانے کا وقت ہو گیا اور آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، جو آپ چارپائی پر بیٹھ کر کھا رہے تھے۔ یہ خاکسار جو اس وقت دو تین سال کا ہو گا، کھیلتے کھیلتے ادھر آ نکلا۔ حضوؑر نے بڑی شفقت سے خاکسار کو پاس بلایا اور اپنے دستِ مبارک سے اپنے کھانے میں سے کھانا اس عاجز کو عطا فرمایا۔ یہ عاجز سمجھتا ہے کہ ایک امام اور نبیٔ وقت کے ہاتھ کا دیا ہوا ایک لقمہ دنیا کے شہنشاہوں کی دی ہوئی لاکھوں بڑی بڑی نعمتوں سے بدرجہا بہتر اور افضل ہے۔
پھر حضرت والدہ صاحبہ سناتی تھیں کہ ایک دفعہ حضرت اقدؑس کسی مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور مقیم تھے۔ میری والدہ ان دنوں اپنے گاؤں اوجلہ ، جو گورداسپور سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا، مقیم تھیں۔ ہمارے ماموں حضرت منشی عبدالعزیز ؓ صاحب گورداسپور حضرت اقدؑس کی خدمت میں حاضر رہتے تا حضوؑر کی خدمت انجام دے سکیں۔ والدہ محترمہ نے غالبا ًان سے اشتیاق ظاہر کیا ہوگا کہ اگر وہ گورداسپور جائیں تو حضوؑر سے ان کی ملاقات کروا دیں۔ چنانچہ والدہ محترمہ کی روایت تھی کہ آپ ایسے وقت حضوؑر کے کمرہ میں حاضر ہوئیں جب صرف میرے ماموں صاحب حضوؑر کو چارپائی پر لیٹے ہوئے دبا رہے تھے۔ حضرت والدہ صاحبہ نے اندر داخل ہو کرسلام عرض کیا اور اس خاکسار کو بھی جو اس وقت پانچ چار سال کا تھا یہ سکھایا گیا ہو گا کہ حضور کو جا کر سلام کس طرح کرنا ہے۔ چنانچہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ مَیں نے اندار داخل ہو کر اپنی بچوں والی زبان میں ہی اونچی آواز سے حضوؑر کو مخاطب کرکے مندرجہ ذیل الفاظ میں سلام عرض کیا:’’مہندی جی! السلام علیکم۔‘‘ یعنی حضرت مہدیٔ زماں السلام علیکم۔ اس پر حضورؑ نے ذرا سر اٹھایا اور مسکرائے اور حضرت ماموں صاحب سے پوچھا کہ یہ کون بچہ ہے۔ آپ نے حضوؑر سے عرض کیا کہ یہ بچہ میرے بہنوئی حضرت منشی امام الدینؓ کا ہے اور یہ خادمہ یعنی میری والدہ میری بہن ہیں جو حضور کی زیارت کے لیے اوجلہ سے حاضر ہوئی ہیں۔ اس پر حضوؑر خوش ہوئے۔
اس سلسلہ میں حضرت منشی امام الدین صاحب پٹواریؓ بیان کرتے ہیں:
والدہ نثار احمد نے بیان کیا کہ ان دنوں میں جبکہ مارٹن کلارک والا مقدمہ گورداسپور میں چل رہا تھا۔ حضرت امّ المؤمنینؓ بھی گورداسپور میں تھیں۔ اوجلہ متصل گورداسپور سے چند مستورات حضوؑر کی زیارت کے لئے آئیں۔ والدہ نثار احمد بھی ساتھ تھیں۔ عزیز نثار احمد اس وقت چھوٹا سا تھا اور اپنی والدہ کے ساتھ تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے حضوؑر کو مخاطب کر کے کہا: مہدی جی! السلام علیکم۔ پہلی دفعہ حضوؑر نے نہ سنا۔ دوسری بار پھر اس نے ایسا ہی کہا۔حضوؑر مسکرائے اور سلام کا جواب دیا۔ حضرت امّ المؤمنینؓ نے فرمایا: اس بچہ کو پتہ ہے کہ آپؑ مہدی ہیں ؟ حضوؑر نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کے نبی آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ لوگوں کو خود بخود القا کرتا ہے اور بچوں پر بھی القا کرتا ہے۔ (رجسٹرروایات جلد 11روایات حضرت منشی صاحبؓ)
حضرت چودھری نثار احمد صاحبؓ نے اپنی ابتدائی تعلیم کے حوالے سے اپنی خود نوشت میں تحریر فرمایا: ابتدائی تعلیم یعنی پرائمری تک موضع تلونڈی جھنگلاں کے پرائمری سکول میں حاصل کی جو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی دو شاخوں میں سے ایک تھا اور جس کی ابتدا کرنے کا حضرت والد صاحب کو فخر حاصل تھا اور غالباً وہی سکول کے پہلے مینیجر مقرر ہوئے۔ دوسرا پرائمری سکول جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ضمیمہ تھا وہ موضع سیکھوانی میں حضرت سیکھوانی برادران کے ہاتھوں معرضِ وجود میں آیا تھا۔ تلونڈی جھنگلاں سے پرائمری پاس کرنے کے بعد قادیان دارالامان آ کر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخلہ لیا ا ور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ قادیان کی تعلیم کے دوران بندہ کو یہ فخر بھی حاصل ہوا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب کی شاگردی آٹھویں جماعت میں نصیب ہوئی اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو اپنے شاگرد آخر وقت تک یاد تھے۔
چنانچہ 1961ء میں میری بڑی لڑکی عزیزہ آنسہ اپنی ساس اہلیہ چودھری احمد جان صاحب امیر جماعت راولپنڈی کی معیت میں آپؓ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئی تو اسے نہایت مشفقانہ رنگ میں فرمانے لگے کہ تمہیں شاید علم نہ ہو مَیں تمہارے باپ کاا ستاد ہوں۔ طالب علمی کے زمانہ میں بھی اور اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے خدمات ِسلسلہ کی حقیر سی توفیق عطا فرمائی۔
1924ءکے آخر میں اور غالباً 1925ء کے وسط تک الفضل میں کچھ دیر کے لیے ایکٹنگ ایڈیٹر اور پھر اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کرنے کی توفیق ملی۔ چنانچہ اُس وقت کے الفضل کے پرچوں میں ایڈیٹر کا نام حافظ جمال احمد سابق مبلغ ماریشیس، جو ماریشیس میں ہی فوت ہوئے اور وہیں سپرد خاک ہوئے، اور اسسٹنٹ ایڈیٹر کا نام نثار احمد دیا جاتا رہا۔ الفضل میں باقاعدہ کام کرنے کے علاوہ خاکسار کثرت سے دینی مضامین الفضل میں بغرضِ اشاعت دیتا رہتا تھا ۔
1924ء کے وسط میں جب حضورؓ انگلینڈ تشریف لے گئے تو حضورؓ کے قافلہ میں حضرت شیخ یعقوب علیؓ صاحب عرفانی اور حضرت بھائی جی عبد الرحمٰنؓ صاحب قادؔیانی جیسے بلند پایہ رپورٹر بھی شامل تھے اور حضرت بھائی صاحب نے تو خاص طور پر تازہ سے تازہ اور جلد سے جلد رپورٹیں بھیج کر جماعت کو حضور کے سفر کے حالات سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن بمبئی سے جہاز کی روانگی کی سب سے پہلی رپورٹ جو الفضل میں شائع ہوئی تھی وہ اس خاکسار کی ارسال کردہ تھی اور جماعت کے بیشتر احباب نے اس مختصر رپورٹ کو بہت پسند کیا اور سراہا اور مجھے قادیان واپس آنے پر مبارکباد دی۔ بندہ ان دنوں کسی نجی کام کے سلسلہ میں بمبئی میں مقیم تھا۔ اسی وجہ سے حضور کو جہاز پر الواداع کہنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔
اس کے علاوہ کچھ دیر کے لیے آنریری طور پر نظارت بیت المال میں بھی کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب ناظر بیت المال تھے۔ کسی تحریک کے سلسلہ میں دو چار روز کے اندر سینکڑوں چٹھیاں لکھنا مقصود تھا۔ یہ کام آپ نے اس خاکسار کے سپرد کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن رات ایک کرکے معینہ وقت کے اندر یہ کام پورا کر دیا جس پر حضرت مولوی صاحبؓ بہت خوش ہوئے اور خوشنودی کا ایک سرٹیفکیٹ بھی اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیا جو بطور یادگار اور تبرک قادیان سے غالباً نکلنے تک بندہ کے پاس محفوظ تھا۔
1923ء میں ملکانوں کے اندر شدھی کا چکر چلا۔ حضورنے آنریری مبلغ مانگے۔ بندہ نے غالباً تیسرے وفد میں جانے کا شرف حاصل کیا۔ بندہ کے ہمراہ چودھری محمد احسن صاحب ریٹائرڈ ایس ڈی سی تھے ۔ چونکہ کام ابھی نیا نیا شروع ہوا تھا اس لیے گھر سے جو روپے خرچ کے لیے جاتے وہ پہلے مرکز میں، جو اس تحریک کے سلسلہ میں آگرہ میں قائم کیا گیا تھا، پہنچتے۔ پھر مبلغین کا صحیح اور معیّن پتہ نہ ہونے کی وجہ سے روپے ارسال کرنے میں دیر لگتی۔ اسی وجہ سے ایک دفعہ روپے پہنچنے میں دیر ہو گئی اور ہم دونوں کے پاس خرچ کے لیے ایک پیسہ نہ رہا۔ حضوؓر کا ارشاد تھا خواہ کچھ ہو کسی ملکانے سے مانگ کر یا اس کا ہدیہ کے طور پر دیا ہوا کھانا بھی نہیں کھانا۔ چنانچہ کئی فاقے آ گئے حتّٰی کہ ہم دونوں نے درختوں کے پتے کھائے۔ حضور کو بھی اس کی اطلاع مل گئی۔ چنانچہ آپ نے افسوس کے ساتھ خوشنودی کا بھی ایک خطبے یا تقریر میں ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے مبلّغ دیے ہیں کہ غیر احمدیوں کے مبلّغوں کی طرح ملکانوں سے خاطریں وغیرہ نہیں کرواتے بلکہ بھوکے رہ کر اور پتے کھا کر گزارہ کرتے رہے ہیں۔

حضرت چودھری نثار احمد صاحبؓ

اس کے علاوہ جماعت کی طرف سے ٹیریٹوریل فوج میں ایک کمپنی قائم کروائی گئی۔ نوجوانوں کو اس میں بھرتی ہونے کی تحریک ہوئی تو یہ خاکسار بھی بصد خوشی اس میں شامل ہوااور بطور سپاہی بھرتی ہو کر بہت جلد ترقی کر لی اور کمیشن کے لیے نمبر آ ہی گیا تھا کہ بندہ کو بعض وجوہ سے نیروبی افریقہ کے لیے روانہ ہونا پڑا۔ قریباً پندرہ سال نیروبی گزارے اور وہاں بھی بفضلہ تعالیٰ کچھ عرصہ کے لیے جماعت کا سیکرٹری بھی رہا اور جماعت کے تمام کاموں میں عہدیداران سے تعاون کیا۔ چنانچہ بندہ کی نیروبی سے واپسی پر ایک رپورٹ میں، جو الفضل میں شائع ہوئی، نیروبی کے رئیس التبلیغ مولانا مبارک احمد صاحب کی طرف سے نہایت اچھے الفاظ میں بندہ کی خدمات کا تذکرہ ہے۔
اس کے بعد مسلسل بیماری کی وجہ سے Active پارٹ جماعت کی خدمات کے لیے ادا نہ کر سکا۔ لیکن تبلیغ جو ہر احمدی کا فرض ہے اس سے غافل نہیں رہا۔ اب بھی سلسلہ کے تقریباً سارے اخبار یعنی الفضل، ریویو آف ریلیجنز، مصباح، تشحیذالاذہان، انصاراللہ وغیرہ منگوا کر خود پڑھتا ہوں۔ اپنے اہل و عیال کو پڑھاتا ہوں اور پھر غیر از جماعت ہمسایوں اور دوستوں کو پڑھواتا ہوں۔ ایسا کرنے سے سلسلہ کے اخبارات کی بھی مدد ہوتی ہے، جو ہر احمدی کا فرض ہے اور تبلیغ کا بھی مؤثر ذریعہ ہے۔ چندہ وصیت کے علاوہ تقریباً چندہ کی سب تحریکوں میں بفضلہ تعالیٰ حصہ لیا ہے۔ اور چندہ جلسہ سالانہ اور دیگر چندے بھی اس کی دی ہوئی توفیق سے ادا کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت چودھری نثار احمد صاحبؓ کواللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔ آپؓ کی اہلیہ محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ کے بارے میں اُن کی بھانجی مکرمہ سلیمہ خاتون صاحبہ تحریر کرتی ہیں کہ ممانی جان رضیہ بیگم اہلیہ چودھری نثار احمد صاحب پابندِ صوم و صلوٰۃ اور دینی شعار پر عمل کرنے والی بہت نیک فطرت خاتون تھیں۔ ممانی جان کے والد صاحب کا تعلق گجرات کے بہت متموّل اور معزز گھرانے سے تھا۔ انہوں نے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں تعلیم پائی۔ آپ کے والد وہاں پر ڈاکٹر عبد اللہ احمد ؔی کے نام سے مشہور تھے۔ وہ کہتے تھے نام کے ساتھ احمدؔی لکھنا میرے لیے باعث صدافتخار ہے۔ یہ لفظ میرا مذہب، میرا ایمان ہے اور میری پہچان ہے اور بچوں کو بھی تاکید تھی کہ وہ بھی اپنے ناموں کے آگے احمدؔی لگائیں۔ ممانی جان اپنا نام رضیہ احمدؔی لکھتیں۔ نیروبی سے کچھ فاصلے پر” کراٹینا ماؤنٹین“ نامی پہاڑی تھی جس کے آگے گھنے جنگلات کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا جہاں پر شیر ببر، ارنا بھیڑ، نیل گائے، چیتا وغیرہ بکثرت پائے جاتے تھے۔ ممانی جان کے والد صاحب کو یہ جنگلات کٹوانے کا ٹھیکہ مل گیا۔
یہ ٹھیکہ انگریز اپنے ہم قوم کو دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر احمدؔی بہت خوبصورت تھے اور سرخ و سفید رنگت کی وجہ سے انگریزوں کو مات کرتے تھے۔ خود انگریز دھوکا کھا گئے اور انہیں یہ کنٹریکٹ مل گیا۔ ممانی جان بتایا کرتی تھیں کراٹینا کی وادی میں ہمیں رہائش مہیا کر دی گئی مگر اور کسی کو یہ سہولت میسر نہ تھی۔ انڈیا اور دیگر ممالک سے شیر کے شکار کے لیے آنے والے رؤسا، نواب، راجے مہاراجے انہیں کے ہاں ٹھہرتے تھے۔ انہیں میں نواب آف پٹودی بھی شامل تھے جن کے بیٹے منصور علی خاں پٹودی کرکٹ کے نامور کھلاڑی تھے۔ ان کے ہاں تو پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے تک آنا جانا لگا رہا تھااور بہت دوستی تھی۔ کراٹینا کی وادی کے حسین مرغزاروں میں ممانی جان کا شادی سے پہلے کا زمانہ گزرا۔ دولت کی ریل پیل کے سبب خوب ناز و نعم سے پروش ہوئی۔
ممانی جان نے بتایا کہ باوا جی کو (وہ اپنے والد صاحب کو باوا جی کہہ کر بلاتی تھیں) اپنے مذہب سے جنون کی حد تک پیار تھا۔ رات کو ایک گھنٹہ کے لیے سب بچوں کو پاس بٹھا کر اپنے مذہب کی تعلیمات سے روشناس کراتے۔
کہتی تھیں نیروبی میں مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ کی تحریک ہوئی تو باوا جی نے سب بچوں کو اکٹھا کیا اور کہا پیارے بچو کیا تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے لیے جنت میں گھر تعمیر کرے؟ جنت و دوزخ کی اہمیت پہلے ہی گھول کے پلا چکے تھے۔ سو ہم نے ایک زبان ہو کر کہا کہ ضرور چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا پھر کل سب تیار رہنا نیروبی چلیں گے۔اس وقت انہوں نے مسجد کے لیے چندہ کی افادیت پر زبردست لیکچر دیا اور کہا جس کا چندہ سب سے زیادہ ہو گا اسے مَیں انعام دوں گا۔ اور پھر سب سے زیادہ چندہ میرا تھا سو باوا جان نے مجھے پچاس شلنگ بطور انعام دیے اور یہ انعامی رقم بھی مَیں نے چندہ میں دے دی، اس خیال سے کہ جنت میں اَور بھی وسیع گھر ملے۔ میرے اس کارنامہ سے باوا جی اتنے خو ش ہوئے کہ بیان نہیں کر سکتی۔
اس کے بعد تحریک جدید کا اعلان ہوا تو باوا جی نے پھر پہلے والے اعلان کو دہرایا مگر اس بار بڑے بھائی صاحب انعام کے حق دار قرار پائے۔ مَیں مغموم ہوئی تو باوا جی نے کہا بیٹا تم دوسرے نمبر پر ہو، تمہیں بھی انعام ملے گا۔ پھر شادی ہو کر ممانی جان ماموں جان کے پاس نیروبی آ گئیں۔ کچھ والدین کی جدائی کی وجہ سے اور کچھ نیروبی میں وہ خوبصورت مناظر کہاں تھے، نہ وہ چشمے تھے اور نہ آبشار نہ جھیلیں نہ وہ برکھائیں اور نہ وہ مستانہ ہوائیں اور سر مست نظارے۔ سو نیروبی انہیں بھایا نہیں اور ماموں جان نے بھی ان کی اداسی کے پیش نظر نیروبی کو خیر آباد کہا اور قادیان آ گئے۔
ممانی جان کے والد صاحب نے سٹیشن سے چند قدم کے فاصلہ پر بڑا سا پلاٹ خرید کر بہت بڑی جدید طرز کی کوٹھی تعمیر کروائی تھی۔ ان کا ارادہ قادیان شفٹ ہونے کا تھا۔ ممانی جان نے بھی اسی کوٹھی میں رہائش اختیار کر لی۔ قادیان میں ہمارے ہاں صفائی کے لیے ایک عورت آتی تھی، امرتسر کے کسی نواحی گاؤں سے۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے ایک یتیم اور لا وارث لڑکی بیاہ لائی۔ کچھ عرصہ تو اس کے ساتھ ٹھیک رہی پھر اسے مارنا پیٹنا شروع کر دیا، اسے بھوکا رکھتی۔ ایک دن تو حد کر دی۔ اسے گھر سے نکال باہر کیا۔ ذرا خوف نہیں آیا کہ وہ کدھر جائے گی۔ وہ ہمارے گھر آ گئی اور اپنی داستان غم میری والدہ ماجدہ کو کہہ سنائی۔ امی بےحد خداترس انسان تھیں۔ انہوں نے ممانی جان سے جو حسنِ اتفاق سے ہمارے ہاں آئی ہوئی تھیں کہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جائیں۔ ممانی جان بخوشی رضامند ہو گئیں۔ ان کے ہاں کئی سنگل روم سرونٹ کوارٹر تھے۔ ممانی جان نے ایک اسے دے دیا۔ مارے تشکر کے اس لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ روتے ہوئے ممانی جان کے قدموں میں گرگئی۔ ممانی جان خفا ہوئیں اور اسے ایسا کرنے سے منع کیا۔ وہ لڑکی کسی چرچ میں کام کر رہی تھی اور جنت اور دوزخ سے واقفیت رکھتی تھی کیوں کہ اکثر کہتی کہ معلوم نہیں میری کون سی نیکی خداوند یسوع مسیح کو بھا گئی جنہوں نے مجھے زندگی میں ہی ہیون عطا کردیا۔ ممانی جان نے کہا یسوع مسیح تو نبی تھے۔ ان سے بڑی بھی ایک طاقت خدائے وحدہٗ لا شریک کی ہے۔ تم پر یہ مہربانی اس کبریا نے کی ہے۔ وہ لڑکی کچھ سمجھ دار تھی۔ ایک روز اس نے ممانی جان سے کہا بی بی آپ کا مذہب اختیار کرنا چاہتی ہوں۔ میرے خیال میں سب مذہبوں سے اچھا مذہب احمدیوں کا ہے جس کے ماننے والے اتنے خدا ترس ہوں۔ اس نے میرے ابا جان حضرت بھائی محمود احمد صاحبؓ یکے از رفقاء حضرت مسیح موعود کا نام لیا کہ وہ بے حد خدا ترس انسان ہیں۔ ابا جان یتیم و یسیر لڑکی پر بےحد ترس کھاتے بیمار ہوتی۔ تو اس کی دوا کے پیسے نہیں لیتے تھے ۔ پھر اُس نے واقعی بیعت کرلی تھی۔ پھر ایک روز اس کا خاوند آ گیا۔
ماموں جان نے بتایا کہ تمہاری بیوی احمدی ہو چکی ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے بھی بیعت کرادیں۔ اس نے تمام بری عادات ترک کرنے کا وعدہ کیا (وہ جوا وغیرہ کھیلتا تھا)۔ اس نے بیعت کرلی اور واقعی بری عادات چھوڑ دیں۔ ابا جان نے اسے شیشہ کے کارخانہ میں ملازمت دلوا دی اور ماموں جان نے بیوی کے پاس رہنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے پر ممانی جان کچھ عرصہ سیالکوٹ رہیں، پھر سرگودھا آ گئیں۔
ایک بار غالباً 51ء یا 52ء کا جلسہ سالانہ تھا۔ سب25 دسمبر کو ربوہ چلے گئے تھے۔ ہمارا ارادہ 26دسمبر کو صبح بذریعہ ریل جانے کا تھا۔ گاڑی میں بے پناہ رش تھا تاہم ہمیں جگہ مل گئی۔ ایک عورت کے دو بچے تھے، جگہ نہ ملنے پر بےحد پریشان تھی۔ ممانی جان کو ترس آ گیا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو گود میں اٹھا لیا اور اس کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنا دی۔ جب گاڑی لالیاں سے چلی تو کسی عورت نے کہا پتہ نہیں اب کون سا سٹیشن آ رہا ہے؟ جسے ممانی جان نے جگہ دی تھی وہ احسان فراموش گالی دیتے ہوئے بولی: اب مرزائیوں کا اڈا آ رہا ہے۔ حکومت نے ایسی جگہ انہیں پھینکا ہے جہاں زمین سے پانی نہیں نکل سکتا۔ کم بختوں کو ہر روز بھیڑیے پکڑ پکڑ کر لے جاتے ہیں مگر ڈھیٹ بنے بیٹھے ہیں۔ میرا دل چاہا اس عورت کو اتنے زور کا دھکا دوں کہ نیچے گر کر سر پھٹ جائے مگر چپ رہی۔ ممانی جان نے کہا: اے نادان عورت ذرا زبان سنبھال۔ اگر تُو مسلمان ہے تو کیا تجھے اسلامی تعلیم سے روشناس نہیں کرایا گیا۔ میں تجھے گالیاں دینے پر اچھا خاصا سبق سکھا سکتی تھی مگر ہمارے مذہب میں گالی کا جواب گالی سے دینا منع ہے۔ تجھے تو شاید علم بھی نہیں ہوگا کہ سفرِ طائف کے موقع پر اللہ کے پیارے نبی پر ظالموں نے پتھر پھینکے، انہیں زخمی کر دیا ۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ آپ ان کے لیے بد دعا کریں مگر آپؐ نے فرمایا اے اللہ انہیں ہدایت دے، یہ نہیں جانتے یہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ عورت تو مانو گونگی اور بہری بن چکی تھی اور ممانی جان کی زبان گویا پھول برسا رہی تھی۔ کچھ طوالت کے ڈر سے اور کچھ مجھے یاد نہیں رہا ورنہ ممانی جان نے اسے اچھا خاصا شرمندہ کیا تھا۔ سب مسافر عورتوں نے ممانی جان کی حمایت کی۔ ربوہ آ گیا تھا۔ نعرہ ہائے تکبیر کی روح پرور اور ایمان افروز آواز دل و دماغ کو سرشار کر رہی تھی۔ ممانی جان نے مجھ سے کہا۔ پلیٹ فارم نہیں ہے، تم اتر جاؤ، مَیں تمہیں بچے اور سامان پکڑا دوں گی۔ مَیں نیچے اتر گئی۔ اتنے میں دو تین مسافر عورتیں اٹھ کر آ گئیں۔ کہنے لگیں: بہن آپ بھی اتر جاؤ۔ ہم آپ کا سامان پکڑا دیتے ہیں۔ مَیں حیران رہ گئی کتنی تاثیر تھی ممانی جان کی شیریں بیانی میں۔
چھوٹے ماموں جان چودھری ظہور احمد صاحب کا مکان قریب تھا۔ چار پانچ منٹ میں ہم وہاں پہنچ گئیں۔ صحن میں بڑا سا خیمہ نصب تھا۔ سب مرد خیمہ میں بیٹھے تھے۔ چھوٹی ممانی جان مع والنٹیئر کے کھانا لے کر گئیں، ماش کی گرما گرم دال سے بھاپ اٹھ رہی تھی اور اس کی اشتہا انگیز مہک سے دل و دماغ معطر ہو رہے تھے۔ مَیں نے ممانی سے کہا۔ صبح آپ کے پیٹ میں درد تھا، چھوٹی ممانی سے کہہ کر آپ کے لیے کچھ اَور منگواؤں؟ نہیں نہیں، بڑی امّاں بننے کی کوشش نہ کرو مَیں یہی دال کھاؤں گی۔ یہ میرے لیے اکسیر اور کیمیا ہے۔ اور پھر بے حد رغبت سے وہ دال کھائی۔ ممانی جان کی ایک پھوپھی تھیں جوبہت امیر کبیر تھیں۔ سیالکوٹ میں ان کے مختلف چیزوں کے کئی کارخانے تھے۔ ایک بار وہ جلسہ کے موقع پر ہمارے ہاں آئیں۔ مَیں نے کھانے میں ان کے لیے گھر کا پکا سالن رکھ دیا۔ وہ کہنے لگیں یہ اٹھا لو، مجھے مسیح کے لنگر کی دال دو۔ ہمارے ہاں دال نہیں تھی۔ سو مَیں نے ہمسایوں سے لے کر انہیں کھانا کھلایا۔ ہمارے ساتھ جلسہ گاہ گئیں ۔اس روز حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے عورتوں کے اجلاس میں خطاب فرمانا تھا۔ حضوؓر تشریف لا چکے تھے۔ حضوؓر کو دیکھ کر یہ والہانہ طور پر سٹیج کی جانب لپکیں۔ پہرہ دینے والی لڑکیوں نے روکا تو انہیں دھکا دے کر سٹیج پر چڑھ گئیں۔ حضورؓ ان کی اس کارروائی پر مسکرا دیے۔ غالباً آپ پہچان گئے تھے کہ ڈاکٹر احمدؔی کی بہن ہیں۔ حضوؓر نے ان کے لیے کرسی منگوائی اور کارکن خواتین کو ہدایت فرمائی کہ آئندہ انہیں سٹیج پر کرسی دی جائے۔ حضورؓ کی اس عزت افزائی سے خوشی سے پھولے نہیں سمائیں اور فرطِ عقیدت سے حضورؓ کے سر پر پیار کیا اور اپنا طلائی زیور اتار کر حضور کے سر پر سے وار دیا۔
اپنے سسرال کی کئی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی بہت فخر محسوس کرتیں مثلاً ہماری والدہ کا نام منارۃ المسیح پر کندہ دیکھ کر بے حد خوش ہوتیں۔ یا یہ سن کر کہ ان کے سسرالی رشتہ داروں میں حضرت مسیح موعود کے رفقاء کی تعداد بہت زیادہ ہے، بے حد خوشی کا اظہار کرتیں۔ بتایا کرتیں تھیں کہ ہمارے ہاں یہ رواج تھا کہ جو سترہ برس کا ہو جاتا اس کی وصیت کروا دی جاتی تھی۔ ممانی جان کی وصیت بھی سترہ برس کی عمر میں ہو گئی تھی۔ مَیں چھوٹی تھی مگر الفضل میں شائع وصایا ضرور پڑھتی تھی۔ ممانی جان کی وصیت اخبار الفضل میں شائع ہوئی۔ اس وقت ان کا رشتہ ماموں جان سے نہیں ہوا تھا۔ مَیں نے وصیت پڑھی تو بڑے جوش سے بلند آواز میں بولی مَیں بھی اس رضیہ نامی لڑکی کی طرح سترہ برس کی عمر میں وصیت کر لوں گی۔ اتفاق سے وصیت کرتے وقت میری عمر سترہ برس تھی۔
مکرم بشارت احمد کو امپورٹ اور ایکسپورٹ کے لائسنس مل گئے۔ وہ لندن چلے گئے۔ ماموں جان (حضرت چودھری نثار احمد صاحبؓ)بیمار ہوئے تو ممانی جان نے ان کی خدمات میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ دونوں ماں بیٹے نے انتہائی تندہی اور جاں فشانی سے ان کی تیمارداری کی مثال قائم کر دی۔ نہ دن کو دن سمجھا نہ رات کو رات نہ پیسے کو پیسہ۔ مگر جو چیز اٹل اور برحق ہو اس سے مقابلہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ ماموں جان کی وفات کے بعد بشارت احمد ممانی جان کو اپنے ساتھ لندن لے گئے۔ پھر وفات تک وہ انہیں کے پاس رہیں۔ ماموں جان اکثر کہا کرتے تھے کہ معلوم نہیں میری کون سی خوبی تھی جو خدا تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے مجھے دنیا میں ہی جنت عطا کر دی۔ وہ ممانی جان کے بےحد احسان مند اور معترف رہے۔ میری دعا ہے کہ نئی نسل کی بچیاں ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے گھروں کو جنت کا نمونہ بنائیں۔
محترمہ رضیہ بیگم صاحبہ کے والد حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحب احمدؓی آف نیروبی تھے جنہیں مشرقی افریقہ میں احمدیت کی قبولیت کی توفیق ملی۔ آپؓ کا نام الحکم 10 ؍اپریل 1901ء میں شائع شدہ ہے۔ آپ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے اور ایک لمبے عرصہ سے نیروبی مشرقی افریقہ میں مقیم تھے۔ بلکہ نیروبی کے ابتدائی آباد کاروں میں سے تھے اور اسی بنا پر احمدیہ مسجد نیروبی کی ملحقہ ذیلی سڑک کا نام نیروبی میونسپلٹی نے احمدی روڈ رکھا تھا۔
حضرت ڈاکٹر رحمت علیؓ صاحب برادر حضرت حافظ روشن علیؓ صاحب یوگنڈا ریلوے کی تعمیر کے سلسلہ میں ابتدائی بھرتی میں جب مشرقی افریقہ گئے تھے ان کی تبلیغ کے طفیل جہاں اور کئی نیک روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی وہاں مرحوم کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ نیروبی کی عالی شان احمدیہ مسجد کی تعمیر و چندہ جمع کرنے اور دیگر متعلقہ کاموں میں آپ نے آغازِ کار ہی سے نمایاں حصہ لیا۔ علاوہ ازیں احمدیہ مسجد بنورا کی نہایت خوبصورت عمارت کے چندہ کی فراہمی میں بھی آپ نے بڑی محنت و کاوش سے کام لیا۔ اپنی موٹرکار پر اس بڑھاپے میں جوانوں کی طرح مختلف دیہات و قصبات میں اور دوستوں کے پاس جاتے رہے اور تحریک کرکے چندہ وصول کرنے میں مدد دیتے رہے۔
حضرت ڈاکٹر صاحب ہمیشہ اپنے عزیزوں کو یہ تلقین کرتے کہ شہری زندگی کی وجہ سے اور بعض اوقات مجبوریوں کی وجہ سے بھی لوگ مہمانوں کی خدمت کماحقہٗ نہیں کر سکتے۔ تمہارا گھر ہمیشہ مہمانوں کے لیے کھلا رہے اور مہمانوں کی خدمت سے کبھی تمہیں گریز نہیں کرنا چاہیے۔ کانفرنسوں اور دیگر مواقع پر آپ مہمانوں کو حتی المقدور اپنے عزیزوں کے گھروں میں لے جاتے۔ باوجود بڑھاپے اور بیماری کے خود فرش پر لیٹ جاتے اور مہمانوں کو چارپائی اور بستر دے دیتے۔ مربّیان سلسلہ سے بالخصوص محبت و پیار کا سلوک کرتے اور ان کی خدمت سے خود بھی خوش ہوتے اور اپنے بچوں بچیوں کو ان کی مہمان نوازی کی تلقین کرتے۔
سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعودؓ سے آپ کو بے انتہا محبت تھی۔ آپ ہمیشہ جماعت اور اپنے عزیزوں کو فتنہ پردازوں کی شرارتوں کے متعلق اصل حالات بتا کر آگاہ کر دیتے۔ڈاکٹر صاحب انقلابِ ہندوستان اور ہجرت کے وقت قادیان میں تھے۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب کے منہ سے اکثر خدا تعالیٰ سے خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ نکلتے کہ یا الٰہی! تُو قادیان میں ہی وفات دے دے۔ لیکن جب سلسلہ کے نظام کے ماتحت آپ کو قادیان سے ہجرت کرکے پاکستان آنا پڑا تو آپ جنابِ الہٰی میں یہ عرض کرنے لگے کہ اگر قادیان میں میری وفات مقدر نہیں تو افریقہ کی سرزمین میں ہی لے چل۔ مرحوم کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ کی وفات نیروبی میں ہوئی اور احمدیہ قبرستان نیروبی میں سپرد خاک کیے گئے۔
حضرت ڈاکٹر صاحب موصی تھے اور مقامی اور مرکزی تحریکوں میں سر گرم حصہ لیتے تھے۔ بہت سے نیک کام کیے۔ طبیعت میں خاص مزاح تھا اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ بچے، جوان اور بوڑھے سب ہی ان کی مجلس اور گفتگو سے حظ اٹھاتے۔ نیروبی کی ہر قوم کے لوگ جو اِن کے واقف تھے، انہیں بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 23 فروری 1950ء کو وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں