سب ہیں تمنائی وہ آئے تم بھی ہو اور ہم بھی ہیں – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12 جنوری 2005ء میں شامل اشاعت مکرم مبارک احمد عابد صاحب کی ایک غزل سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

سب ہیں تمنائی ، وہ آئے ، تم بھی ہو اور ہم بھی ہیں
مَن میں اک یہ جوت جگائے ، تم بھی ہو اور ہم بھی ہیں
جس میں نور کی بارش بھی ہے آسمان کا پانی بھی
اس بادل کے سائے سائے تم بھی ہو اور ہم بھی ہیں
یہ اس چاند کی مرضی ہے وہ کس آنگن میں اترے گا
اپنی آس کا دیپ جلائے تم بھی ہو اور ہم بھی ہیں
کچھ بھی نہیں ہے عابدؔ تو کیوں محفل کے آئینوں میں
ان کو دیکھ کے کچھ شرمائے تم بھی ہو اور ہم بھی ہیں

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں