شب قدر کا خونی ڈرامہ اور قہری تجلّی

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شمارہ 2۔ 2010ء) میں مکرم فضل الٰہی انوری صاحب کے قلم سے محترم ریاض احمد صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں شہید مرحوم کا مختصر تذکرہ 17؍جولائی 1998ء اور 10؍اپریل 2020ء کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں کیا جاچکا ہے جسے ویب سائٹ میں بھی سرچ کیا جاسکتا ہے۔ زیرنظر مضمون میں بیان کردہ چند اضافی حقائق درج ذیل ہیں جو دراصل خداتعالیٰ کی طرف سے بعض قہری تجلّیاں ہیں جن کا ظہور محترم ریاض احمد صاحب کی ظالمانہ شہادت کے بعد ہوا۔
قہری تجلّی کا نشانہ پہلا شخص زمان خان بنا جس نے اپنی سنگ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے شہید مرحوم کی ٹانگوں میں رسّی باندھی تھی جس کے بعد شہید مرحوم کی نعش کو سربازار کھینچا جاتا رہا۔ زمان خان ایک ہٹاکٹا مضبوط جسم کا پٹھان تھا۔ واقعہ شہادت سے چند روز بعد جب وہ بازار میں کھڑا کباب کھا رہا تھا تو اُس کی ٹانگیں لرزنے لگیں اور وہ وہیں گر کر تڑپنے لگا اور کچھ ہی دیر میں اُس کی جان نکل گئی۔ چونکہ لوگوں کو معلوم تھا کہ شہید مرحوم کی ٹانگوں میں رسّی باندھنے والا یہی شخص تھا اس لئے لوگ اسے خدائی عذاب سمجھ کر توبہ توبہ کرنے لگے۔
خدا تعالیٰ کے قہری انتقام کا دوسرا نشانہ شہید مرحوم کا بھائی خادم حسین بنا جس نے احمدیت کے خلاف فسادات کو ازسرنَو بھڑکایا تھا جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ واقعہ شہادت کے آٹھ دس دن بعد پہلے اُسے لقوہ ہوگیا اور پھر فالج بھی ہوگیا اور چہرہ خوفناک نظر آنے لگا۔ 1995ء کے جلسہ سالانہ لندن کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے عبرتناک واقعات کے ضمن میں اس واقعہ کا ذکر بھی فرمایا اور ریاض شہید کے سسر مکرم ڈاکٹر رشید احمد صاحب کو سٹیج پر بلاکر تصدیق چاہی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ خادم حسین کی شکل بگڑ کر اتنی خوفناک ہوچکی ہے کہ وہ اپنا منہ چھپاکر پھرتا ہے۔
حضورؒ نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نظارے انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی طور پر بھی ظاہر ہورہے ہیں۔ چنانچہ جس طرح حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کی شہادت کے بعد خدا تعالیٰ کی قہری تجلّی کا نشانہ انفرادی طور پر بھی لوگ بنے تھے لیکن چونکہ اس اجتماعی جرم میں عام شہری بھی شامل ہوئے تھے اس لئے کابل میں ہیضہ کی وبا پھوٹ جانے سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اسی طرح ریاض شہید کے بعد انفرادی قہری تجلّیات کے علاوہ اجتماعی طور پر خدا کا غضب نازل ہوا۔ سانحہ شب قدر کے چند روز بعد اس علاقے میں زبردست قبائلی جنگ بھڑک اٹھی جس میں مارٹرگنوں اور میزائلوں کا بکثرت استعمال ہوا اور اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے جبکہ سینکڑوں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں