شیخ عجم کے شاگرد – محترم مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ مارچ 2011ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید کے شاگرد حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کا مختصر ذکر کیا گیا ہے جنہیں کابل میں جام شہادت پینا نصیب ہوا۔
حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب موضع خوجہ ضلع پنج شیر افغانستان کے رہنے والے تھے۔ والد کا نام امان اللہ خان تھا۔ 1924ء میں 34 سال کی عمر میں شہید کیے گئے۔آپ خلیفہ عبدالرحمن صاحب افغانی کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے اور پھر قادیان آکر مدرسہ احمدیہ میں دینی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ 1919ء میں آپ کو افغانستان بھجوایا گیا۔ اسی سال امیر حبیب اللہ خان کو قتل کردیا گیااور نیا امیر امان اللہ خان مقرر ہوا جس کے بارے میں اخباروں نے لکھا کہ وہ آزادی پسند نوجوان ہے۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو کابل جاکر احمدیوں کے حالات سے مطلع کرنے کی ہدایت کی۔ آپ کابل چلے گئے اور مخفی طور پر احمدی بھائیوں کو احمدیت کی تعلیم سے واقف کرتے رہے۔ اگرچہ افغان حکومت نے مذہبی آزادی کا اعلان کیا تھا مگر افغانستان کے بعض علاقوں سے یہ خبریں آرہی تھیں کہ احمدیوں پر ظلم ہورہا ہے اور اُن سے روپیہ لے کر اُنہیں چھوڑا جاتا ہے۔ اس پر حکومت سے رابطہ کیا گیا اور حکومت کی طرف سے احمدیوں کی حفاظت کی یقین دہانی کے بعد 1922ء میں نعمت اللہ خان صاحب کو دوبارہ افغانستان بھجوایا گیا۔
محترم مولوی نعمت اللہ خان صاحب درمیانہ قد کے خوبصورت، نہایت پاکیزہ،کم گو، پُرجوش نوجوان تھے۔ فارسی آپ کی زبان تھی، پشتو بھی بولتے تھے اور اردو بھی جانتے تھے۔ آپ اپنے ساتھ حضورؓ کی کتاب ’’دعوۃ الامیر‘‘ کا فارسی ترجمہ بھی لے گئے تاکہ وہاں تقسیم کرسکیں۔ لیکن 1923ء میں اطلاع ملی کہ کابل میں دو احمدیوں کو حکومت نے گرفتار کرلیا ہے۔ جولائی 1924ء میں نعمت اللہ خان صاحب کو حکومت نے بلایا اور بیان لیا کہ وہ احمدی ہیں؟ یہ بیان لے کر پہلے اُن کو رہا کردیا گیا لیکن پھر جلد ہی جیل میں ڈال دیا گیا۔ یکم اگست 1924ء کو آپ نے قیدخانہ سے فضل کریم صاحب بھیروی مقیم کابل کو ایک مفصل خط میں بتایا کہ ’’یہ کمترین بندہ داعی اسلام تیس روز سے ایسے قیدخانہ میں ہے جس کا دروازہ اور روشن دان بھی بند رہتے ہیں اور صرف ایک حصہ دروازہ کھلتا ہے۔ کسی سے بات کرنے کی ممانعت ہے۔ جب مَیں وضو وغیرہ کے لیے جاتا ہوں تو ساتھ پہرہ رہتا ہے۔ خادم کو قید میں آنے کے دن سے لے کر اس وقت تک چار کوٹھڑیوں میں تبدیل کیا جاچکا ہے لیکن جس قدر بھی زیادہ اندھیرا ہوتا ہے اسی قدر خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے روشنی اور اطمینان قلب دیا جاتا ہے۔‘‘
پھر آپ کو محکمہ شریعہ ابتدائیہ میں پیش کیا گیا جس نے 11؍اگست 1924ء کو آپ کے ارتداد اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا۔ 14؍اگست کو عدالت مرافعہ میں پیش ہوئے جس نے فیصلہ کیا کہ آپ کو ہجوم کے سامنے سنگسار کیا جائے۔ 31؍اگست کو آپ کو کابل کی گلیوں میں پھرایا گیا اور منادی کرنے کے بعد عصر کے وقت شیرپورچھاؤنی لایا گیا۔ جہاں آپ نے آخری خواہش کے مطابق نماز پڑھی اور اس کے بعد کہا کہ اب مَیں تیار ہوں، جو چاہو کرو۔ آپ کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا اور پہلا پتھر کابل کے ایک عالم نے پھینکا۔ اس کے بعد چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہوگئی یہاں تک کہ آپ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے اور شہید ہوگئے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اُس وقت لندن میں تھے۔ آپؓ نے قادیان میں ایک پیغام ارسال کیا جس میں فرمایا:
’’آؤ ہم اس لمحہ سے یہ مصمّم ارادہ کرلیں کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک ہم ان شہداء کی زمین کو فتح نہیں کرلیں گے۔ صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ، نعمت اللہ خان صاحب اور عبدالرحمٰن صاحبؓ کی روحیں آسمان سے ہمیں ہمارے فرائض یاد دلا رہی ہیں اور مَیں یقین کرتا ہوں کہ احمدیہ جماعت ان کو نہیں بھولے گی۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

شیخ عجم کے شاگرد – محترم مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید” ایک تبصرہ

  1. زبردست ھے ماشاءاللہ لیکن حضرت صاحب زادہ صاحب کے شاگرد کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ 1924 میں 34 سال عمر تھی جب کہ صاحب زادہ صاحب کی شھادت کے وقت ان کی عمر 9 سال بنتی ھے یا دس سال شکریہ

اپنا تبصرہ بھیجیں