محترم فضل الرحمن خان صاحب مرحوم سابق امیر جماعت راولپنڈی کی چند خوبصورت یادیں

(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مئی و جون 2022ء)

(فرخ سلطان محمود)

محترم فضل الرحمن خان صاحب مرحوم سابق امیر جماعت راولپنڈی کی خلافت کی اہمیت اور خلفائے سلسلہ احمدیہ کے حوالے سے بیان کردہ چند خوبصورت یادیں ہدیۂ قارئین ہیں جو آپ نے ایم ٹی اے انٹرنیشل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بیان فرمائیں:

محترم فضل الرحمن خان صاحب رقمطراز ہیں کہ جب مجھے انجینئرنگ کالج لاہور میں داخلہ ملا تو یہ اس وقت پنجاب کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی تھا اور اس میں داخلہ بہت مشکل ہو تا تھا۔ مَیں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے اجازت لینے کے لیے رتن باغ آیا تو رتن باغ کے لان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ٹہل رہے تھے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

چونکہ ایک خوشی کی بات تھی اس لیے مَیں نے آپ کو بتایا مجھے انجینئرنگ کالج میں داخلہ مل گیا ہے۔ فرمانے لگے کہ کیا آپ نے حضرت صاحب کو بتادیا ہے؟ حضور سے اجازت لے لی ہے؟ مَیں نے کہا: ابھی نہیں بتایا، میں جانے لگا ہوں۔ تو نصیحتاً انہوں نے کہا کہ خوشی کی بات سب سے پہلے حضور کو بتایا کریں۔ تو یہ ایک Student کے لیے تربیت کا ایک نکتہ تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں مَیں نے تحریری اطلاع کی تو حضور نے اجازت دی۔ اس کے بعد ملاقات میں حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن پاکستان بننے کے بعد سے Inactive ہو گئی ہے۔ آپ اس کو Activeکریں۔ مَیں نے عرض کی کہ مَیں تو ابھی نیا نیا لاہور آیا ہوں اور میری یہاں جان پہچان بھی زیادہ نہیں ہے تو اگر حضور کسی کو Nominate کردیں تاکہ بطور Patron مَیں ان سے ہدایات لے کر کام کر تا رہوں۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ نام بتاؤ۔ اس وقت تعلیم الاسلام کالج بھی لاہور میں تھا تو مَیں نے کالج کے پرنسپل حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کا نام لیا۔

حضورؓ نے فرمایا: نہیں، اگر اُن کو مَیں نے بنا دیا تو یہ ایسوسی ایشن ٹی آئی کالج کی ایسوسی ایشن بن کر رہ جائے گی۔ مَیں چاہتا ہوں انٹرکالجیٹ ایسوسی ایشن الگ ہو اور اس میں ٹی آئی کالج ایک یونٹ کی حیثیت سے شامل ہو۔ پھر مَیں نے غالباً قاضی محمد اسلم صاحب کا نام لیا تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہاں وہ ٹھیک ہیں۔ آپ میری طرف سے جاکر اُن کو پیغام دے دیں اور ان کو کہیں کہ وہ فوری طور پر کام شروع کر دیں۔
بہرحال پھر کام شروع ہو گیا۔ قاضی صاحب نے دلچسپی سے اس تنظیم کو آرگنائز کرنے میں ہماری راہنمائی کی۔ پہلے ہم نے اس کا آئین اور دستور بنایا۔ پھر تمام کالجوں میں جتنے احمدی لڑکے تھے ان کی لسٹیں بنائیں اور ان سے رابطہ کیا۔ قاضی صاحب اس وقت گورنمنٹ کالج میں وائس پرنسپل تھے۔ قاضی صاحب نے خود ہی ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو بھی ساتھ ملالیا جو اُن دنوں گورنمنٹ کالج میں لیکچرار تھے۔ یہاں تک کہ ایسوسی ایشن بن گئی اور مجھے بھی چند سال تک اس میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران ایک ملاقات میں حضورؓ نے مجھے فرمایا کہ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مَیں نے اپنے بیٹے کو کالج کا پرنسپل بنایا ہوا ہے۔ شاید اُس کو اٹھانا چاہتے ہیں اور خلیفہ بنانے کا خیال ہوگا تو آپ مجھے بتائیں کہ لاہور میں کوئی ایسا شخص ہے جو کہ میرے اس کالج کا پرنسپل بن سکے۔ اب یہ ایک طالبعلم کے لیے بڑا مشکل سوال تھا لیکن چونکہ حضرت صاحب نے پوچھا تھا، مجھے کچھ نہ کچھ تو عرض کرنا تھا۔ مَیں نے کہا حضور! قاضی اسلم صاحب ہوسکتے ہیں۔ کہنے لگے اچھا اَور؟ مَیں نے کہا ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ہوسکتے ہیں۔

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

حضورؓ نے فرمایا کہ آپ دونوں کے پاس جائیں اور میری طرف سے اُن کو یہ پیغام دیں کہ جو صاحب بھی رضامندی ظاہر کریں مَیں اُس کو پرنسپل لگانے کے لیے تیار ہوں۔ پھر واپس آکر مجھے بتائیں۔ چنانچہ میں پہلے قاضی صاحب کے پاس اور پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا۔ان دونوں بزرگوں نے موزوں طریق سے اپنی مشکلات بیان کیں۔ انکار نہیں کیا، کہا کہ حضور کا جو حکم ہوگا ہم حاضر ہوں گے مگر ہماری یہ مشکلات ہیں۔ چنانچہ چند دن بعد حضرت صاحب کے پاس مَیں ربوہ میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے اس بارے میں پوچھا اور مَیں نے بتایا تو اُس وقت یہ بات کھلی کہ کچھ طلبہ تھے جنہیں اُکسایا جا رہا تھا اور جو 1956ء میں ایک فتنہ بنا اورچند دوست علیحدہ بھی ہو گئے۔ تو یہ فتنہ اُس وقت سر اٹھا رہا تھا اور حضورؓکی اس پر نظر تھی۔ مَیں بھی انٹرکالجیٹ ایسوسی ایشن کا ممبر بلکہ اس کا صدر تھا، ہماری غفلت کہہ لیں ہمارے علم میں یہ نہیں تھا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ آپ اپنے طلباء کو یہ بات بتائیں کہ یہ میری مجبوری ہے ورنہ میرے پاس تو بیسیوں کام ہیں مرزا ناصر احمد کے لیے اور مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو کہ ٹی آئی کالج کا پرنسپل ہو۔ یہ تو میری قربانی ہے کہ مَیں نے اپنے بیٹے کو وہاں رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ جیسے حضور کی ہدایت تھی ہم نے طلبہ کو بتایا۔ اس میں تربیت کا پہلو ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ اگر کہیں پر اشارۃً بھی شر پیدا کرنے کی کوشش ہوتی نظر آئے تو جماعت کے نظام کو بیدار ہونا چاہیے اور خلیفۂ وقت کی خدمت میں جاکر عرض کرنا چاہیے تاکہ مناسب تدارک کیا جا سکے۔
بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ حضورؓ سے راہ نمائی لینے کے مجھے کافی مواقع ملتے رہے۔ چند ایک جن کا تعلق تربیتی نکتہ نگاہ سے ہے وہ بیان کردیتا ہوں۔ ایک مرتبہ ہمیں اطلاع ملی کہ حضورؓ لاہور تشریف لا رہے ہیں تو انٹرکالجیٹ ایسوسی ایشن میں ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ حضور کا ایک لیکچر کرایا جائے اور ہماری ایگزیکٹو نے مجھے کہا کہ تم ربوہ جائو اور حضور سے درخواست کرو۔ مَیں ربوہ گیا، ملاقات کا وقت لیا، اس وقت ربوہ میں کچے دفاتر تھے، کچی مسجد تھی اور پرانا قصر خلافت جو یادگار چوک کی جگہ پر تھا، یہ ملاقات وہاں ہوئی۔کئی ناظر صاحبان بھی حضور سے ملاقات کے لیے انتظار کر رہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب نے اگلے دن لاہور جانا تھا اور غالباً کافی دنوں کے لیے جانا تھا اس لیے انہوں نے ہدایات لینی تھیں۔میں حیران بھی تھا کہ اتنے بہت سے بزرگ بیٹھے ہیں مجھے تو مشکل سے کوئی وقت ملے گا۔خیر حضورؓ نے پہلے مجھے ہی بلا لیا۔ اب چونکہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ حضور کس غرض سے لاہور جارہے ہیں تو میں نے جاتے ہی کہا: حضور سنا ہے آپ لاہور تشریف لا رہے ہیں تو ہمارا پروگرام یہ ہے کہ ہم حضور کے ایک لیکچر کا انتظام کریں۔ اور مَیں نے اپنی حماقت میں یہاں تک کہہ دیا کہ حضور کے لیکچر کا موضوع یہ ہوگا: ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز۔‘‘ اس موضوع پر حضور کا ایک لیکچر ہو چکا ہے اس کا دوسرا حصہ ابھی نہیں ہوا…۔
اب یہ بالکل بے وقوفی کی بات تھی، کون خلیفہ وقت کو ایسی بات کہہ سکتا ہے! چنانچہ حضورؓ کے چہرے پر تھوڑی سی ناراضگی کے آثار نظر آئے اور فرمایا: عقل سے کام لینا چاہیے، آپ کو پتہ ہے میں کیوں جارہا ہوں، میں بیمار ہوں اور علاج کے لیے جا رہا ہوں اور بیمار آدمی لیکچر دیا کر تا ہے؟
اب حضور سے ملاقاتیں تو پہلے بھی ہوتی رہتی تھیں لیکن یہ انداز مَیں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا لہٰذا اس کا طبیعت پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ میں نے رونا شروع کر دیا۔ ادھر ملاقات کا وقت ختم ہو گیا۔ باہر پرائیویٹ سیکر ٹری صاحب گھنٹی بجا رہے تھے۔ مَیں اٹھنے لگا تو حضورنے فرمایا کہ بیٹھ جائو اور حضور نے خود باتیں شروع کردیں اور مختلف باتیں اتنی دیر تک کرتے رہے کہ بالکل وہ ماحول بدل دیا اور جب تک مَیں ہنس نہیں پڑا اس وقت تک مجھے جانے نہیں دیا۔ میں نے اس واقعہ پر بعد میں غور کیا اور جو حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی مصلح موعود ہے تو اس میں جو فقرہ ہے کہ وہ دل کا حلیم ہو گا۔ میرا ذوق یہ ہے کہ مصلح موعود انتظامی طور پر شاید طبیعت کا سخت بھی ہوگا لیکن دل کا حلیم ہوگا۔ جب میں باہر آیا تو بعض ناظرصاحبان کہنے لگے کیا بات تھی آج اتنی لمبی چوڑی؟ میں نے کہا جی کچھ نہ پوچھیں، یہ حضورکی شفقت تھی۔
جب حضور پر چاقو سے حملہ ہوا تھا تو مَیں ان دنوں لاہور میں ہی تھا اور جیسے ہی اطلاع پہنچی تو فوراً ربوہ پہنچ گیا۔ بے حد رش تھا، پولیس بھی اور ڈاکٹر بھی آئے ہوئے تھے۔ہم سارا دن باہر قصرِخلافت میں بیٹھے رہے اور شام کو بتایا گیا کہ دوست جانا چاہیں تو چلے جائیں کیونکہ ڈاکٹروں نے ملاقات کی یا زیارت کی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ ہم پھر واپس آگئے۔ چند دن بعد جب ملاقات کی صرف اتنی اجازت ملی کہ حضور بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور احباب پاس سے گزرتے جاتے تھے۔ صرف سلام کہنے اور اپنا نام بتانے کی اجازت تھی تو اُن میں ہمارے ایک ساتھی چودھری محمد امجد صاحب بھی تھے۔ اکثر ہم دونوں اکٹھے ربوہ جایا کرتے تھے۔ جب وہ حضور کے پاس سے گزرے اور اپنا نام بتایا تو حضور فوراً فرمانے لگے فضل الرحمن کہاں ہے؟ وہ کیوں نہیں آئے؟ اب دیکھیں یہ بہت شفقت کی بات ہے۔ ایک باپ جب بیمار ہوتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے سارے بیٹے اس کے پاس آجائیں کوئی بیٹا غیر حاضر نہ ہو۔ حالانکہ مَیں کوئی چیز نہیں تھالیکن اس میں باپ کی جو شفقت نمایاں تھی۔ لہٰذا میں اگلے دن گیا اور سلام عرض کیا۔
انہی ایام میں الفضل سے ہمیں یہ اطلاع ملی کہ حضور لاہور تشریف لارہے ہیں اور اتنے دن قیام کریں گے۔ مَیں اور چودھری محمد امجد ملاقات کے لیے رتن باغ چلے گئے تو پرائیویٹ سیکر ٹری صاحب کہنے لگے ملاقات کے لیے لسٹ جا چکی ہے۔ تب ہم نے دعا کے لیے ایک رقعہ لکھ دیا جس میں یہ بھی ذکر کر دیا کہ ربوہ میں طلبہ کو اکثر حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کاموقع ملتا ہے، ہمیں تو شاذونادر ہی موقع ملتا ہے، حضور انجینئرنگ کالج کے طلبہ کو (ہم 13 تھے) ملاقات کا موقع دیں۔ یہ رقعہ دینے کے بعد مَیں ٹی آئی کالج چلاگیا تو تھوڑی دیر بعد پرائیویٹ سیکر ٹری صاحب کا فون آیاکہ حضور نے یاد فرمایا ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو ظہر کی نماز کے بعد حضورؓ نے آگے ہی بلالیا اور فرمایا کہ کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ ہم نے کہا کہ ہم صرف حضور کی خدمت میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ حضور ہمارے ساتھ چائے پئیں۔ حضور نے فرمایا: ہاں اچھی بات ہے لیکن اس موقع کو کوئی تبلیغی رنگ دیں۔ یونیورسٹی کے اور اپنے کالج کے پروفیسروں کو بلائیں اور سینئر طلبہ میں جو احمدیت کے متعلق کچھ علم رکھنا چاہتے ہیں یا جانتے ہیں ان کو بلائیں۔ مَیں نے کہا: بہت اچھا حضور۔ اب باہر ہم آئے تو کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ کیا کریں۔ پھر ہم نے ٹی آئی کالج میں بیٹھ کر دعوتی کارڈ بنوائے۔ وہاں چوہدری محمد علی صاحب اور صوفی بشارت الرحمن صاحب نے ہمیں مشورے دیے کہ کس کس کو بلایا جائے۔ کچھ ہم نے انجینئرنگ کالج کے نام بتائے تو وہ 100 سے کچھ زیادہ کی لسٹ بن گئی۔ چنانچہ ان سب کو دعوت نامے بھجوادیے۔ دو دن کے بعد حضرت صاحب نے وقت دیا تھا۔ یہ بھی فیصلہ کرنا تھا کہ چائے کہاں دی جائے۔ چونکہ ان دنوں (1952ء) لاہور میں احمدیوں کے خلاف احرار کے ہنگامے شروع ہو چکے تھے اور انجینئرنگ کالج احراریوں کا گڑھ تھا اس لیے حفاظتی نکتہ نگاہ سے ہم نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ حضور کو انجینئرنگ کالج میں لے جائیں۔ چنانچہ ٹی آئی کالج میں ہی انتظام کیا گیا۔
وہ ایک یادگار موقع تھا۔ حضورؓ تشریف لائے۔ میاں بشیر احمد صاحبؓ ساتھ تھے اور وہ سارے مہمان جن کو ہم نے دعوت نامے دیے تھے وہ سب لوگ شوق سے آئے۔ ایک اتنی Attractionتھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے وجود میں کہ صاف پتہ لگتا تھا کہ ان کی خواہش تھی کہ حضرت صاحب کے ساتھ ہوں۔ مَیں نے سپاسنامہ پیش کیا جس کے بعد حضور کا خطاب ہوا۔ چونکہ بنیادی طور پر یہ انجینئرنگ کالج کے سٹوڈنٹس کی طرف سے فنکشن تھا تو اس میں حضورؓ نے قرآن کریم سے بعض انجینئرنگ کی باتیں بیان فرمائیں اور بعض دیگر مضامین پر روشنی ڈالی جو کہ قرآن سے اخذ کرتے ہوئے بالکل ماڈرن انجینئرنگ کے متعلق تھیں۔ اس کوہمارے پرنسپل نے بڑا appreciate کیا۔ ایس ڈی مظفر ان کا نام تھا۔ جب فنکشن ختم ہوا تو مجھے کہنے لگے کہ آپ نے بڑا غلط کام کیا ہے، آپ نے مجھے پہلے بتایا ہوتا تو ہم حضرت صاحب کو انجینئرنگ کالج میں لے جاتے۔ حضورؓ نے بھی اپنے خطاب میں فرمایا کہ یہ عجیب بات ہے انجینئرنگ کالج کے لڑکوں کی طرف سے یہ دعوت ہے اور ہے ٹی آئی کالج میں، بہتر ہوتا اگر یہ انجینئرنگ کالج میں ہوتی۔ بہرحال اس تقریب کی رپورٹ اور گروپ فوٹو تاریخ احمدیت جلد 13 میں شامل ہے۔
جب حضورؓ کی وفات ہوئی اُس وقت حیدرآباد ذیل پاک سیمنٹ میں میری پوسٹنگ تھی۔ حضور کی بیماری کی اطلاعات ملتی رہتی تھیں اور اکثر ہم شام کو وہاں کی مسجد میں اکٹھے ہوتے تھے۔ اُس دن بھی وہاں اکٹھے ہوئے تو بس یہی رپورٹ آئی کہ طبیعت ناساز ہے دوست دُعائیں کریں۔ واپسی پر اپنی گاڑی مَیں خود ہی ڈرائیو کر رہا تھا، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی صحت کے لیے دُعا کر رہا تھا تو میری دُعا کا رُخ تبدیل ہوگیا اور اچانک مَیں نے خلافت کی حفاظت کے متعلق دُعا کرنا شروع کر دی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد مجھے ایک دم یہ خیال آیا کہ یہ تبدیلی جو ہوئی ہے یہ کوئی اشارہ ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ جب میں اپنے گھر پہنچا تو وہاں پیغام پہنچ چکا تھا کہ حضور کا وصال ہو گیا ہے۔ اگلے روز ہم بہت سارے لوگ وہاں سے ربوہ آئے۔ وہاں سے براہ راست آنا بہت مشکل تھا۔ پہلے کراچی جانا پڑا۔ کراچی سے پھر بذریعہ ہوائی جہاز لاہور آئے اور پھر لاہور سے بسوں کے ذریعے ہم ربوہ پہنچے۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے انتخاب ہو چکا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بیعت ہو چکی تھی تاہم جنازہ ابھی نہیں ہوا تھا۔جنازے میں ہم شامل ہوگئے اور جنازہ جب لے جایا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ آگے آگے تھے اور اُن کے ساتھ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ تھے۔جنازہ کندھوں پر ہی اُٹھا کر بہشتی مقبرہ لے جایا گیا اور حضورؒ نے وہاں پر ہی جنازہ پڑھایا اور پھر تدفین ہوئی۔
وہ ایک عجیب منظر تھا کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا دَور تو ایک بہت ہی ٹاپ کی لیڈرشپ تھی اور ذہن اُس کا متبادل سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ حضورؓ کی وفات بہت بڑا صدمہ تھا لیکن بعد میں بعض لوگوں نے یہ تذکرہ بھی کیا ہے کہ شاید حضورؓ کی لمبی بیماری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت کے لیے اللہ تعالیٰ جماعت کو تیار کرنا چاہتا تھا۔ بہرحال پھر ہم نے ایک شان دیکھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بھی۔ خاص طور پر یہ جو اسمبلی کی کارروائی تھی اور اس میں حضورؒ نے جس طرح جماعت کے نقطہ نظر کو پیش کیا اور دفاع کیا۔پس خلافت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا احسان ہے۔ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے ساتھ کچھ کام کرنے کا موقع ایسا بھی ملا کہ ابھی حضورؒکی خلافت سے پہلے کی بات ہے۔ جب فسادات ہوئے 1953ء کے اور مارشل لاء لگا تو امیرجماعت لاہور شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر حملہ کیا گیا۔ وہاں ڈیوٹی پر ہمارے کچھ خدام تھے۔ شیخ صاحب ماشاء اللہ بڑے ٹاپ کے وکیل بھی تھے اور انہوں نے خدام کو کہہ رکھا تھا کہ جب تک میں نہ کہوں آپ نے کوئی جوابی کارروائی نہیں کرنی۔ باہر جلوس آیا بہت نعرے لگتے رہے پتھراؤ بھی کرتے رہے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ جب تک وہ گیٹ توڑ کر اندر نہیں آتے آپ نے کوئی جوابی کارروائی نہیں کرنی۔ پھر وہ سٹیج آئی جب انہوں نے گیٹ توڑا اور ہجوم اندر گھسا تو اُس وقت پھر اندر سے لڑکوں نے فائر کیا اور اس میں کچھ نقصان بھی ہوا اُن کا۔خیر وہ ہجوم تو منتشر ہو گیا لیکن ہمارے امیر صاحب گرفتار ہوکر جیل چلے گئے۔ اُن کی گرفتاری کے بعد پھر حضرت مرزا ناصراحمد صاحبؒ نے کچھ کام ذمہ لگائے۔ مثلاًسب سے بڑی ذمہ داری یہ تھی کہ انٹیلی جنس رپورٹ شیئر کریں۔ آپ نے فرمایا کہ مختلف علاقوں میں اپنے لڑکوں کو بھیجیں اور یہ معلوم کریں کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں، عام لوگوں کی عمومی رائے کیا ہے، مولویوں کا کیا کہنا ہے یا دوسرا کوئی بھی طبقہ ہے وہ احمدیوں یا مارشل لاء کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ تو ہم یہ معلومات اکٹھی کرتے اور میں ہر دوسرے دن اس کی چھوٹی سی مختصر رپور ٹ لکھ کر حضرت مرزا ناصراحمد صاحبؒ کو رتن باغ میں پیش کر دیتا تھا۔
جس دن حضرت مرزا ناصراحمد صاحبؒ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ گرفتار ہوئے اُس دن عین مغرب کے وقت ایک نوجوان نے موٹرسائیکل پر ہمارے ہاسٹل میں آکر بڑی گھبراہٹ میں صرف اتنا کہا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت مرزا ناصراحمد صاحبؒ گرفتا ر ہوگئے ہیں اور آپ کی تلاشی ہونی ہے۔ یہ کہہ کر وہ فوراً چلا گیا کیونکہ عین مغر ب کے وقت کرفیو لگ جایا کرتاتھا۔ یہ ایسا گھبراہٹ کا عالم تھا کہ کچھ وقت کے لیے ہم سکتے میں آگئے۔ خیر ہم جو احمدی لڑکے وہاں تھے مشورہ کرنے لگے اور کافی دیرگزرنے کے بعد خیال آیا کہ اب یہ دیکھ لیں کہ ہم میں سے کسی کے پاس کوئی قابل اعتراض چیز تو نہیں ہے۔
ہمارا جن غیراحمدیوں سے دوستی کا گہرا تعلق تھا اُن میں ایک پٹھا ن لڑکا بھی تھا۔ فسادات شروع ہوئے اور بعض احمد ی دوست شہید ہوئے تھے۔ ایک شہادت کا واقعہ بڑا ہی دردناک تھا ایک سکول ٹیچر تھے اُن کو باغبان پورہ میں پکڑ کر جلتے تندور میں ڈالا گیا تھا۔ بہت ہی دردناک واقعہ تھا۔ اُس وقت میرے دوست ہمدردی سے میرے پاس آئے۔ اُن میں سردار عبدالرب نشتر کا بیٹا اجمل نشتر بھی تھا۔ یہ سب بہت اصرار کرنے لگے کہ خطرہ ٹلنے تک ہوسٹل سے چلے جاؤ۔ آخر مجھے کہنا پڑا کہ ہمارے امام کا حکم ہے کہ اپنے مقام کو نہیں چھوڑنا اس لیے کچھ بھی ہوجائے ہم نے کہیں نہیں جانا۔ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ لیکن پٹھان لڑکا کہنے لگا کہ اگر فرض کریں کہ کوئی شرارتاً آتا ہے تو تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ مَیں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ تو وہ پٹھان اپنے انداز میں بڑا غصے ہوا کہ بڑے بہادر بنے پھرتے ہو اور تمہارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ پھر جاکر اپنے کمرے سے ایک خنجر اُٹھاکر لے آیا۔ کہنے لگا کہ یہ تو رکھ لو اپنے پاس۔ خیر میں نے وہ لے کر اپنے بکسے میں رکھ لیا تو اُس کے دو دن یا تین دن بعد یہ تلاشی والی بات ہوگئی۔ تو یہ خیال ہوا کہ ہمارے پاس تو ایک خنجر ہے لیکن چونکہ اُس وقت کرفیو لگ چکا تھا ہم اُس کو کہیں باہر نہیں لے جا سکتے تھے اور کسی اَور احمدی لڑکے کے کمرے میں بھیجنا وہ اتنا مناسب بھی نہیں تھا۔بہرحال نماز سب میرے کمرے میں ہی پڑھتے تھے تو فجر کے وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ دیکھا تو ایک پولیس انسپکٹر صاحب تھے۔ ایک میجر صاحب تھے۔ خاصی تعداد میں اُن کے ساتھ پولیس کی نفری کی تھی۔ لیکن بڑی شرافت کے ساتھ وہ پیش آئے اور کہا کہ ہمیں حکم ملا ہے کہ آپ کی تلاشی لیں۔ ہم نے کہا آجائیں۔ خیر انہوں نے تلاشی لی۔ ایک سٹوڈنٹ کے پاس کیا ہوتا ہے؟ کچھ کتابیں، کچھ کپڑے۔ مختلف چیزیں انہوں نے دیکھیں اور بکس کھول کر اُس میں سے کپڑے اُٹھانے شروع کیے۔ اس میں سب سے نیچے و ہ خنجر پڑا ہوا تھا اور اُس کا ایک کونہ دکھائی بھی دینے لگا۔ اُس کے اُوپر ایک آدھ کپڑا اَور پڑا ہواتھا۔ سامنے میز پر جو لڑیچر پڑا تھا اُس میں ایک میمورنڈم تھا جو جماعت احمدیہ نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے شیخ بشیر احمد صاحب کے ذریعے پیش کیا تھا۔ میں نے اُن کو کہا کہ یہ آپ دیکھیں کہ یہ میمورنڈم ہے جو جماعت احمدیہ نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کیا اور ہمارے خلاف غلط پر پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ چودھری ظفراللہ خان نے پاکستان کا کیس خراب کیا ہے۔ اس پر اُن کی توجہ اُدھر ہو گئی۔ میں نے وہ میمورنڈم اُٹھا کر اُن کو دیا تو بات چیت چل پڑی۔ مَیں نے کھول کر دکھایا کہ یہ ہم احمدیوں کا کیس ہے۔ اُس میں بڑا پیارا انداز تھا جو عظیم قیادت کی علامت تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؒ نے سارے احتیاطی پہلو اختیار کیے تھے۔ ایک تو اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور قرآن کی رُو سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود کو مسلمان اور دوسرے کو غیر مسلم قرار دے۔ اس بحث کے بعد پھر حضرت صاحب نے فرمایا کہ اگر کوئی جماعت احمدیہ کو مسلمان نہیں بھی سمجھتے تو پھر گورداسپور ضلع میں آبادی کی اکثریت مسلمان نہیں رہتی۔ لیکن یہ اتنا نازک معاملہ ہے کہ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر ہمیں مسلمان نہیں بھی سمجھا جاتا تو بھی ہمارا ووٹ مسلم لیگ کے ساتھ ہے اور ہم پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ تو یہ بات بائونڈری کمیشن کے سامنے بڑے زور دار طریق سے پیش کی گئی تھی۔ تو یہ میں نے اُن کو بتایا تو بڑے وہ حیران ہوگئے۔ کہنے لگے اچھا! یہ مولوی آپ کے خلاف اتنا جھوٹ بولتے ہیں۔ پھر اُن کا رویہ بالکل بدل گیا اور اُس وقت انہوں نے معذرت بھی چاہی اور کہا کہ ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پھر مَیں کمرے سے باہر نکلا تو سب احمدی دوست بڑے حیران ہوئے۔ وہ سب یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ تو گرفتا ر ہوگیا۔

حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ

حضرت مرز ا شریف احمد صاحبؓ اور حضرت مرز ا ناصراحمد صاحبؒ کو جیل میں ساری اطلاعات پہنچا کرتی تھیں۔ ہماری تلاشی اور اُس واقعہ کی بھی اطلاع اُن کو مل چکی تھی۔ تو جس دن حضرت مرزا ناصراحمد صاحبؒ رہا ہو کر آئے تو مَیں رتن باغ میں حاضر ہوا تو ہنس پڑے اور بہت ہی پیارے انداز میں فرمایا: اچھا آپ کے پاس بھی وہی چیز تھی جو ہمارے پاس تھی تو آپ کو کیوں چھوڑ دیا انہوں نے؟ پھر کہنے لگے آپ کو یہ بات سمجھ آئی ہے کہ کیوں آپ بچ گئے؟ میں نے کہا نہیں سمجھ آئی۔ فرمایا: آپ کو دُعا کا موقع مل گیا تھا، آپ کو پتہ لگ گیا تھا کہ آپ کے پاس وہ خنجر ہے اور ایک رات آپ کو دُعا کرنے کا موقع مل گیا۔ کچھ بھی ہوا آپ نے کسی نہ کسی رنگ میں دُعا کی ہوگی۔ ہمارے پاس جو خنجر تھا اُس کو ہم خنجر سمجھتے ہی نہیں تھے وہ تو ایک ornamentتھا اور جس وقت وہ اُن کے ہاتھ میں آگیا تو اُس وقت ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے پاس یہ چیز ہے اس لیے ہمیں دُعا کا موقع نہیں ملا۔

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خلافت کے بعد پہلا دورہ جو سندھ کی زمینوں کا فرمایا، اس میں حیدرآباد تشریف لائے تھے اور ہم حضور کا استقبال کرنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر گئے۔ حیدر آباد کے دوستوں میں سے صرف چند ایک کے پاس گاڑیاں تھیں، میرے پاس ایک پرانی گاڑی تھی لیکن دوسروں کے مقابلے میں نسبتاً اچھی تھی تو سب نے فیصلہ کیا کہ حضور میری گاڑی میں بیٹھیں گے۔ چنانچہ حضورؒ اور بیگم صاحبہ میری گاڑی میں بیٹھے۔ مَیں نے گاڑی ڈرائیو کی حالانکہ میں بہت اچھا ڈرائیور نہیں تھا۔ حضورؒ کے ٹھہرنے کا انتظام ہم نے ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس میں کیا تھا۔میں اس وقت وہاں ڈپٹی چیف انجینئر یا صرف سول انجینئر تھا، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھا۔ وہاں ایک بریگیڈیئر صاحب جنرل مینیجر تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمارے امام آرہے ہیں میں چاہتا ہوں ان کو یہاں ٹھہرایا جائے۔ شریف آدمی تھا، جانتا بھی تھا کہ امام جماعت کا کیا مقام ہے، ایک اہم شخصیت ہیں۔ کہنے لگا ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ ایک شرط ہے کہ گیسٹ ہاؤس میں کوئی اَور نہیں ٹھہرے گا اس دن۔ کہنے لگا بالکل ٹھیک ہے۔ چنانچہ اس نے باہتمام اس دن پورا گیسٹ ہاؤس ہمارے ڈسپوزل پر دے دیا۔ پھر جب مہمان آنے شروع ہوئے۔ کراچی سے، سندھ کی اسٹیٹس سے اور گیسٹ ہاؤس پورا بھر گیا۔ بہرحال حضورؒنے وہاں کچھ دیر آرام کیا، ناشتہ کیا اور اس کے بعد اسٹیٹس کے سفر پر روانہ ہوئے اور ہم بھی حضور کو اسکارٹ کرتے ساتھ گئے۔ غالباً ناصر آباد اسٹیٹ میں ہم نے حضورکو پہنچایا جہاں جماعت نے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ کھانے کے بعد حضوراندر تشریف لے گئے توجو ساتھ گئے تھے، ہم نے رقعہ اندر بھیجا کہ اگر حضورکی اجازت ہو تو ہم واپس چلے جائیں۔ تو تھوڑی دیر کے بعد ہم کیا دیکھتے ہیں حضورخود ہی باہر تشریف لائے۔ تھوڑی دیر اس لیے ہوگئی تھی کہ حضورلیٹ گئے تھے۔ حضوراٹھے دوبارہ کپڑے بدلے یعنی شیروانی اور پگڑی دوبارہ پہنی اور پھر باہر تشریف لائے اور ہمیں اجازت دے دی۔
1974ء میں ہم اسلام آباد میں حضورؒ کی قیام گاہ پر آیاکر تے تھے۔ یہ کوٹھی جو ہمارے کرنل قاضی صاحب ہیں ان کے والد کی تھی اور نئی بنی تھی۔ قریب اَور کوٹھیاں کوئی نہیں تھیں۔ ایک اکیلی کوٹھی تھی جس کے اردگرد کافی جگہ خالی تھی۔ اس لحاظ سے مناسب تھی کہ خدام یا گورنمنٹ نے جو انتظام کیا تھا پولیس کا اسکارٹ کا، وہ وہاں خیمے وغیرہ لگائیں۔ حضورؒ بھی اس کھلے ماحول کو پسند کرتے تھے۔ تو ہم بھی شام کو وہاں جایا کرتے تھے، جب حضور باہر سے تشریف لاتے تو بعض اوقات تھوڑی دیر وہاں تشریف رکھتے، کوئی بات وغیرہ کرلیتے، بعض اوقات تھکے ہوئے ہوتے تو اُوپر تشریف لے جاتے۔ آخری دن جب حضور اسمبلی سے تشریف لائے اور کسی کے علم میں نہیں تھا کہ آج حضور کا کیا پروگرام ہے۔ حضورؒنے آتے ہی فرمایا: سامان گاڑیوں میں رکھوائیں۔ اور آدھے پونے گھنٹے میں روانہ ہوگئے۔ وہ جو اس وقت حضور کے ساتھ ڈیوٹی پر پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ تھے، بڑے شریف لوگ تھے، وہ حضورؒ کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے تو انہوں نے درخواست کی کہ حضور ایک گروپ فوٹو ہو جائے۔ حضورؒنے فرمایا اچھا ٹھیک ہے لیکن میں اپنے کیمرے سے لوں گا، حضوراوپر تشریف لے گئے اور اپنا کیمرہ لے کر آئے اور پہلے حضورنے اپنا کیمرہ استعمال کیا۔ وہ خاصا Complicated قسم کا کیمرہ تھا۔ حضورؒنے فرمایا میرے علم کے مطابق یہ کیمرہ اس وقت best کیمرہ ہے لیکن اس کو ہینڈل کرنے کے لیے احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر اس کو صحیح طریق پر ہینڈل کیا جائے تو اس کا رزلٹ سو فیصد Correct ہو تا ہے۔ حضورنے کچھ تصویریں لیں اور غالباً خدام میں سے کسی نے کہا تواُن کے ساتھ بھی ان کا گروپ فوٹو ہوا۔
اصل میں وہ پروگرام بڑا ٹائٹ ہوتا تھا اور اگلے روز پھر جانا ہوتا تھا اس لیے حضور زیادہ وقت اگلے دن کی تیاری کرتے رہتے تھے۔ اور ہم لوگ بھی زیادہ اندر نہیں گھستے تھے۔ مولوی ابوالعطاء صاحب، مولوی دوست محمد شاہد صاحب اورحضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ یہ سب حوالے تلاش کررہے ہوتے تھے۔ بعض اوقات بعض کتابیں منگوانی پڑتی تھیں اور اس کے لیے بڑی بھاگ دوڑ کرنی پڑتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک آدھ کتاب کوئی ایسی تھی جو نہیں مل رہی تھی تو پشاور کی لائبریریوں سے بھی آدمی بھیج کر پتہ کروانا پڑا۔بہت زیادہ وقت اس میں صرف ہوا کرتا تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ایک بار بھوربن تشریف لائے تھے۔ یہاں Forrest والوں کا گیسٹ ہاؤس تھا۔ وہاں حضور کا قیام تھا۔ غالباً ایک مہینے کا قیام تھا۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ میں بنوں میں تھا۔ وہاں سے مَیں آیا تھا اور مَیں نے فوکسی گاڑی خریدی تھی ماڈرن موٹرزسے۔ گاڑی لے کر سیدھا مَیں بھوربن چلا گیا۔ چوہدری احمد جان صاحب سے راستے میں ذکر کیا تو وہ بھی ساتھ ہوگئے۔ وہاں پہنچے نماز کا وقت تھا۔ حضور تشریف لائے۔ ظہر کی نماز پڑھائی تو میں نے عرض کیا کہ حضور میں چند منٹ چاہتا ہوں۔ حضور نے فرمایا بیٹھیں کھانا کھائیں۔ حضورؒ نے گھر جا کر اندر سے کھانا بھجوایا۔ سٹاف کے ساتھ کھانا کھایا۔ پھر حضورنے بلا لیا ملاقات کے لئے۔ مَیں نے عرض کی کہ حضورمیں نے گاڑی آج ہی لی ہے حضورسے دعا کروانی ہے۔ حضوراٹھے۔ وہاں سے گاڑی کافی دُور کھڑی تھی۔ تشریف لائے اور گاڑی کے پاس کھڑے ہو کر حضورنے ہاتھ اٹھا کر دعا کروائی۔ اور مجھے کہنے لگے کہ آپ آج ہی دو بکروں کا صدقہ کر دیں۔ وہ تو جا کر میں نے کر دیے۔ وہ گاڑی اس کے بعد میرے پاس کوئی11 سال رہی اور ہم اس پر اکثر ربوہ جلسہ سالانہ جایا کرتے تھے مگر اس میں کبھی کوئی خرابی نہیں ہوئی۔ جب ہماری ضرورت کے لیے وہ کم پڑ گئی تو ہم نے اس کو کافی منافع پر بیچا۔
جب ربوہ میں جلسہ سالانہ شروع ہوا۔ غالباً یہ دوسرے جلسے کا موقع تھا۔ مَیں انجینئرنگ کالج میں تھا ۔ ہماری بھی ڈیوٹیاں لگی تھیں۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ ناظم استقبال تھے اور مجھے نائب ناظم بنایا گیا۔ پھر وہ تین چار پانچ دن جلسے کے جو تھے ہمیں ان کے بہت ہی قریب رہنے کا موقع ملا۔ رات بھی ہم کسی ٹینٹ میں اکٹھے ہوتے تھے اور بڑی ہی پیاری مجلس ہوتی تھی۔ اس وقت جو ایک تاثر تھا ہمارا وہ یہ تھا کہ میاں صاحب بہت ہی دلچسپ شخصیت ہیں۔ ان کے ساتھ آدمی بور نہیں ہوتا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ لوگ آتے رہے پورا دن۔ رات بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ بہت کم سونے کا موقع ملا۔ پھر جب جلسہ ختم ہوا اور لوگ رخصت ہونے لگے تو ریلوے اسٹیشن پر خاصا رش ہوگیا تو میاں صاحب نے مائیک لیا اور ہدایت دینے لگے کہ اطمینان سے سوار ہوں۔ اُس وقت تک گاڑی نہیں چلے گی جب تک سب دوست بیٹھ نہ جائیں اور سارا سامان لوڈ نہ ہوجائے۔ جب دوست سوار ہوگئے اُس وقت حضرت میاں صاحب نے کچھ یوں الوداعی الفاظ کہے: اب ہم مسیح موعودؑ کے مہمانوں کو خدا حافظ کہتے ہیں۔ لیکن یہ فقرہ کہتے ہی آپ رو پڑے۔ اور آگے بات نہیں کہہ سکے اور مائیک مجھے پکڑا دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس وقت سے ہی اُن کے وجود میں جماعت کے لیے جو محبت اور پیار تھا وہ کتنا شدید تھا۔

حضرت مرزا طاہر احمد صاحب جب خلیفہ بنے اس وقت میری پوسٹنگ کوہاٹ میں تھی جہاں اسٹیٹ سیمنٹ کا ایک پلانٹ لگ رہا تھا۔ جب حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ اسلام آباد میں بیمار تھے تو مجھے کسی کام سے گورنمنٹ نے رومانیہ بجھوانے کا فیصلہ کیا۔ مَیں نے اسلام آباد کی بیت الفضل میں نماز پڑھی۔ جیسے ہی باہر نکلا تو حضرت مرزا طاہر احمد صاحب بھی باہر نکل آئے اور بہت ہی شفقت سے میرا ہاتھ پکڑ کر حضور کی بیماری کے حالات بتانے لگے۔ جب پتہ لگا کہ میں رومانیہ جارہا ہوں تو کہنے لگے کہ رومانیہ میں ایک عرصہ تک ترکو ںکی حکومت رہی ہے وہاں کچھ نہ کچھ مسلمانوں کے نشانات ہوں گے۔ تو آپ وہاں پر اس بات کا جائزہ لیں کہ وہاں کچھ امکان ہے ہمارا لٹریچر پہنچنے کا، کسی مبلغ کو بھیجنے کا۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ یہ کہہ کر میں لاہور چلا گیا اور اگلی صبح خبر ملی کہ حضورؒ فوت ہوگئے ہیں۔ چنانچہ میں فوراً ربوہ گیا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی بیعت کی اور اگلے دن پھر میں سفر پرروانہ ہوگیا۔ رومانیہ پہنچ کر حضورؒ کے حکم کے مطابق جتنی بھی کوشش سے پتہ لگا سکاپرانی مساجد میں گیا اور میری کوشش تھی کہ میری ان لوگوں سے ملاقات ہو۔ اس وقت کیونکہ وہاں کمیونسٹ نظام تھاچاؤشیسکوکا دور تھا اور بڑی سختی تھی۔ پہلے تو جب ہم جاتے کسی مسجد میں تو دروازہ بند ہوتا اور اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ مَیں دروازے کے قریب کھڑا ہو کر انہیں السلام علیکم کہتا تھا، اس سے انہیں پتہ چل جاتا تھا یہ مسلمان ہے تو جو بھی ڈیوٹی پر ہوتا تھا بعض خواتین ہوتی تھیں جو دروازہ کھولتی تھیں۔ پھر میں مولوی صاحب کا پوچھتا تھا ملاقات کے لیے۔ بہت کم ایسے ہوتے تھے جن کو انگریزی آتی تھی لیکن میرے ساتھ کچھ Interpreter ہوتے تھے وہ کام کرتے تھے تو صورتحال یہ تھی کہ ان کے پاس قرآن کریم تھا لیکن اس کا ترجمہ کوئی نہیں تھا۔ رومانین زبان میں بھی ترجمہ نہیں تھا صرف عربی متن تھا اور وہ کہتے تھے کہ ترجمہ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور کوئی باہر سے لٹریچرنہیں منگواسکتے اور صرف ہم بعض آیات اور احادیث سنا کر اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ مسلمان ترکوں میں سے آئے ہو ئے تھے۔ ان کے متعلق تاثر یہ تھا کہ وہ مسلمان تو ہیں اور سور نہیں کھاتے لیکن شراب کے متعلق احتیاط نہیں کرتے اور ان کا خیال یہ تھا کہ شاید اسلام میں شراب جائز بھی ہے۔ بلکہ اس پر ایک دفعہ میری بحث بھی ہوئی۔ یہاں پر اُن کے ایک سفیر تھے۔ انہوں نے کھانے پر بلایا اور میز پر وائن رکھی۔ ہم نے کہا کہ ہم تو یہ نہیں پیتے۔ کہنے لگے کہ ہمارے ملک میں تو بہت سے مسلمان وائن پیتے ہیں۔ بہرحال رومانیہ سے واپس آ کر میںنے حضورؒ کو سارے حالات عرض کئے تو حضورؒ کو تھوڑی سی مایوسی ہوئی کہ اس ملک میں اتنی پابندیاں ہیں کہ لٹریچر بھی نہیں جاسکتا۔پھر چاؤشیسکو کے بعد اللہ تعالیٰ نے حالات بدل دیے، رستے کھل گئے۔ ہمارے مبلغ پہنچے اور کافی رومانین لوگ ہجرت کرکے جرمنی آئے اور بیعتیں بھی ہوئیں۔ اب رومانیہ کے احمدیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔
جب میں حیدر آباد گیا تو وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دور میں ایک دن مجھے ایک چٹھی ملی کہ حضورؒ نے مجھے قاضی مقرر کیا ہے۔ پہلے قاضی شہر پھر قاضی ضلع۔ اس وقت میری عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ حیدر آباد کی بڑی بڑی جماعتیں ہیں، خاص طور پر یہ جو ہماری اسٹیٹس ہیں، ان کے مقدمے بھی ہوتے تھے۔ لیکن بہرحال اللہ نے فضل کیا۔ اس کے بعد پھر مجھے قائدضلع خدام الاحمدیہ حیدرآباد کی حیثیت سے صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کے وقت میں کام کرنے کا موقع ملا۔ جب حضرت مرزا طاہر احمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ بنے، پھر مجھے قائد علاقہ کے طور پر مقرر کیا گیا۔ پھر میں کوہاٹ بنوں میں رہا وہاں میری کوئی خاص ذمہ داری نہ تھی۔
راولپنڈی میں ہم1974ء میں آئے۔ پنڈی آنے کا واقعہ ایمان افروز بھی ہے۔ مَیں بنوں میں شوگر مل کا جنرل مینیجر تھا اور علاقے میں وسیع تعلقات تھے۔ چھوٹے زمینداروں اور کاشتکاروں کو چونکہ مَیں ہیPayments کرتا تھا، وہ جاہل لوگ سمجھتے تھے کہ یہ مالک ہے اور اپنی جیب سے پیسے دے رہا ہے۔ تو ایک منصوبہ یہ بنایا کہ اس کو اغوا کیا جائے، بڑے پیسے ملیں گے۔ لیکن اس کی اطلاع ہمیں مل گئی۔ جب 74 ء کے فسادات شروع ہوئے تو بنوں مولویوں کا گڑھ بن گیا۔ خاصے جلسے جلوس ہوتے رہے۔ ایک مولوی صاحب بڑے Active تھے۔ وہ ہمارے خلاف تقریریں بھی کرتے تھے تاہم بدزبان نہیں تھے۔ اور عموماً رات 11 بجے کے بعد مجھے فون کرتے تھے اور کہتے کہ جی کوئی خدمت ہے تو مجھے بتائیں، ہم آپ کی ہر خدمت کرنے کو تیار ہیں۔ یعنی کسی حفاظت کی ضرورت ہے تو میں حاضر ہوں۔ تو مَیں بھی اس کو کہتا کہ مولوی تم اپنا کام کئے جاؤ، ہمارا اللہ محافظ ہے۔
وہاں پر احمدی تو چند ایک تھے۔ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہیدکے صاحبزادگان سرائے نورنگ میں رہتے تھے۔ ان کی اپنی زمینیں تھیں اور ان کا خاصا وسیع کام تھا کئی ملازم تھے زمینداری تھی۔ ایک ہماری شوگر مل تھی۔ ایک دن مجھے ڈپٹی کمشنر کا رات دیر گئے فون آیا اور کہنے لگے کہ ہمیں انٹیلی جینس رپورٹ ملی ہے کہ آج یہاں کی بڑی مسجدوں میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ کل تین چار بسیں بھر کر مختلف علاقوں سے آپ کے پاس لائیں گے اور آکر آپ کو مسلمان بنائیں گے تو مَیں ہنس پڑا۔ مَیں نے کہا جی ہم تو کلمہ پڑھ لیں گے، کلمہ ہم پڑھتے ہیں۔ تو اس نے کہا نہیں بات یہ نہیں ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ اس کی بیک گراؤنڈ میں کوئی شرارت ہے، ان کے ارادے کچھ اَور ہیں …۔ اس پر مَیں نے کہا جی بات یہ ہے کہ Law and order is your headache اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان کی حفاظت کی توفیق ہمیں خدا دے گا۔ تو وہ بات سمجھ گیااور کہنے لگا We are fully prepared ، آپ اگر باہر نکل کر دیکھیں تو میں نے پہلے ہی کافی تعداد میں پولیس سکواڈ بھجوا دیے ہیں جو کہ آپ کے گھر کے باہر موجود ہیں۔ لیکن میری ایک درخواست ہے کہ ایک بدمزگی کو اور کسی bad incident کو avoid کرنے کے لیے اگر آپ آج رات بچوں کو لے کر نکل جائیں، ایک دو ہفتے کے لیے مری چلے جائیں تو بات ٹھنڈی ہوجائے گی، پھر واپس آجانا۔ میں نے کہا دیکھیں بات یہ ہے کہ ہمارے آقاﷺ کو بھی ہجرت کرنی پڑی تھی اور ایسے ہی حالات میں کرنی پڑی تھی، تو اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی مدد مل سکتی ہے law and order میں تو ہم اس کو Matter of Prestige نہیں بنائیں گے۔ اس پر اُسے تسلی ہوئی اور کہنے لگا کہ مَیں ابھی سکواڈ بجھوا رہا ہوں۔ چنانچہ اس نے ایک پوری بس Scouts کی بھجوا دی اور میں اپنی فیکٹری کے کچھ بندوں کو ایک گاڑی میں لے آیا، ایک گاڑی میری ذاتی تھی۔ چنانچہ دو سکواڈ کی گاڑیاں اور دو ہماری گاڑیاں رات دو اڑھائی بجے خاموشی سے نکل آئے۔ میرے والدین اور فیملی ساتھ تھی۔ بچوں کے چند کپڑوں کے علاوہ کوئی سامان ہم نے گھر کا نہیں لیا۔ خیال یہی تھا کہ شاید چند دن کے لیے جارہے ہیں۔ اس خیال میں ہم روانہ ہوئے۔ میانوالی پہنچے تو ہم نے سکواڈ واپس کردی کیونکہ آگے لوگ ہمیں نہیں جانتے تھے۔ وہاں ریت کے ٹیلے پر بیٹھ کر ہم نے یہ مشورہ کیا کہ اب جائیں کہاں؟ میں نے مشورہ دیا کہ پنڈی چلتے ہیں جہاں کمپنی کا ایک گیسٹ ہاؤس تھا۔ ہماری امی نے کہا نہیں، بات یہ ہے کہ ہمیں کچھ اندازہ نہیں ہے کہ کتنا ٹھہرنا پڑے گا اس لیے ہم اپنے گاؤں چلتے ہیں۔ ہمارا اٹک کے پاس چھوٹا سا گاؤں ہے تو خیر ہم وہاں چلے گئے۔ وہ اتنا چھوٹا گاؤں ہے کہ نہ وہاں ان دنوں بجلی تھی نہ کوئی پانی کا انتظام تھا۔
اگلے دن مَیں نے اپنے آفس میں رپورٹ دے دی تو اُس وقت جو چیئرمین تھا اُس نے سخت مخالفت کی اور مجھے ٹیلی گرام بھیجا کہ تم نے غلط کام کیا ہے جو بغیر اجازت ہیڈکوارٹرچھوڑا ہے، فوراً واپس جاؤ۔ ہمارے ایک ڈائریکٹر مسٹر خلجی تھے وہ اَڑ گئے اور کہا کہ وہ وہاں محفوظ تصور نہیں کرتا تو کیوں واپس جائے۔ میں نے چیئرمین کو بتایا کہ میں اپنی مرضی سے نہیں آیا ہوں، وہاں کی لوکل ایڈمنسٹریشن نے کہا ہے اس لیے آپ اُن سے بات کریں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ واپس آجائے تو مَیں تیار ہوں۔ اس پر اُس نے کمشنر سے پوچھا تو اُس نے کہا کہ ابھی واپس نہیں آنا، ابھی یہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ تو بہرحال میں پھر وہیں کچھ عرصہ رہا۔
اس کے بعد چیئرمین نے کسی نہ کسی طرح مجھے پھانسنے کی بڑی کوشش کی۔ یہاں تک ایک بورڈ میٹنگ میں اُس نے کہہ دیا کہ دیکھیں یہ قادیانی تو ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں۔ تو جو ہمارا ڈائریکٹر تھا اُس نے کہا: قادیانی ہے تو ہماری انجینئرنگ کے ساتھ کیا واسطہ۔یہ اپنا کام بہت اچھے طریق سے کررہا ہے۔ تو وہ کہنے لگا: اچھا معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی قادیانیوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔اس پر انہوں نے کہا کہ آج تک تو نہیں تھا لیکن آج سے میں بھی قادیانی ہوں، ٹھیک ہے۔ اور جو تم نے کرنا ہے کر لو۔ اور اس کے بعد دونوں کی آپس میں بڑی سخت چپقلش رہی، یہاں تک کہ گالم گلوچ بھی ہوتی رہی۔ خیر تھوڑے عرصے کے بعد ہمارے ادارے PIDCکی انتظامیہ کی تقسیم ہوئی اور اُس کی دو علیحدہ کارپوریشنیں بن گئیں۔ ایک نئی ’’منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن‘‘ بن گئی اور اُس کے چیئرمین وہی ڈائریکٹر یعنی مسٹر خلجی بن گئے۔ اُن کی پہلی ڈیمانڈ یہ تھی کہ سٹاف کی جو تقسیم ہوگی اُس میں پہلا آدمی فضل الرحمن ہوگا جو میرے ساتھ ہوگا۔ بہرحال چند دنوں میں آرڈر ہوگئے۔ لیکن ایمان افروز بات یہ ہے کہ اُس چیئرمین کا حشر یہ ہوا کہ وہ ملازمت سے معزول کر دیا گیا۔ اُس پر مارشل لاء کے دَور میں کیس بنا اور انتہائی ذلّت سے اُس کو جانا پڑا۔ جس دفتر میں وہ چیئرمین تھا اُس دفتر میں مارشل لاء کے دوران ایک کرنل صاحب آ کر بیٹھتے تھے۔ اور جو اس کے ہی سیکرٹری کا دفتر تھا وہاں چھ چھ آٹھ آٹھ گھنٹے آ کر وہ انتظار کرتا تھا، کبھی بلاتے کبھی نہیں بلاتے۔ پس یہ جو خداوندتعالیٰ کی غیرت ہے اپنے مامور کے لیے وہ بڑی زبردست ہے۔

حضرت مرزا مسرور احمد صاحب جب ناظر اعلیٰ تھے تو میں اُن کے پاس حاضر ہوتا تھا۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ آپ کی ناظر اعلیٰ کی حیثیت سے بڑی گہری نظر ہوتی تھی اور بڑے درست فیصلے ہوتے تھے۔ ہمارے مدعو کرنے پر حضور دو تین مرتبہ تشریف بھی لائے اور ایک بار ہمارے جلسہ کو بھیaddressکیا تھا۔ آپ کی طرف سے جب مجھے یہ احکام ملے کہ امارت کا چارج لے لیں تو میں بڑا پریشان ہوا۔سچی بات یہ ہے کہ ”it was a shock”تو پہلا کام میں نے یہ کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں میں نے فوری طور پر فیکس کیا کہ حضور میں کیسے کام کروں گا مجھے نہ تو کوئی تجربہ ہے اور دوسرا میں ویسے بڑا کمزور سا آدمی ہوں۔اگلے دن حضورؒ کا بذریعہ فیکس جواب آیا کہ آپ کے متعلق جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ بہرحال درست ہے، آپ اللہ پر توکّل کرکے کام شروع کردیں، میں دُعا کروں گا اللہ تعالیٰ فضل کرے۔ تو پھر دیکھیں وہ گاڑی چل رہی ہے ابھی تک۔ یہ خلافت کی برکتیں ہیں ورنہ سچی بات کہتا ہوں کہ میرے اندر کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ میں اس ذمہ داری کو اُٹھانے کے قابل ہوتا۔ پھر اگلے دن مَیں ربوہ گیا اور ناظر صاحب اعلیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہاں پر بھی مَیں نے یہی کچھ کہا کہ مجھے تو تجربہ نہیں ہے۔ تو فرمانے لگے کہ یہ تو خلیفہ وقت کا فیصلہ ہے۔ مَیں نے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے، سرآنکھوں پر، جب حکم ہو گیا ہے تو کرنا تو پڑے گا ہی۔ فرمانے لگے کہ یہ فیصلہ آپ کے متعلق بڑا مشورہ کرکے کیا گیا ہے۔ چونکہ حضورؒ نے جب پوچھا کہ کس کو مقرر کریں تو جو مشور ہ دیا گیا تو اُس میں نائب امراء کے نام تھے اور میں اُس وقت ایک غیرمعروف شخص تھا۔ تو اس ملاقات میں ناظر صاحب اعلیٰ مجھے فرمانے لگے کہ حضور سے بات ہوئی ہے تو حضورؒ نے فرمایا کہ وہ قائد ضلع بھی رہا ہے، قائد علاقہ بھی رہا ہے اور وہ غالباً حضور کے ذہن میں اس لیے موجود تھا کہ حضورؒ خود صدر خدام الاحمدیہ تھے۔ دوروں پر بھی آئے تھے، ہمارے اجتماع میں بھی آئے تھے۔

پھر وہ نظارہ نہیں بھولتا جب خلافت کا انتخاب ہوا۔ نماز مغرب اور عشاء ادا کیں تو اتفاق کی بات ہے کہ پچھلی، آخری تین چار صفوں میں میرے ساتھ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب تھے۔ ظاہر ہے اس وقت تو سب کے دل ایسے تھے کہ اُدھر حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ کا جنازہ پڑا تھا اِدھر یہ پتہ تھا کہ اب چند گھنٹے کے بعد انتخاب ہونا ہے تو خلافت کے لیے دعائیں کررہے تھے لیکن اس وقت کوئی نام ذہن میں نہیں تھا۔ تو غالباً پہلی رکعت کے سجدے میں گئے تو میں دعا کرنے لگا تو میری زبان پر آیا کہ اے اللہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کی حفاظت فرما۔ اس پر مجھے احساس ہوا کہ شاید اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہی ہے۔ اور بہر حال وہ تقدیر پھر ظاہر ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد جب خلافت کا انتخاب ہوا تو حضور دورانِ انتخاب مکمل خاموشی سے سر نیچا کر کے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب انتخاب ہو چکا تو اس کے بعد بیعت ہوئی۔ پھر حضور نے شفقت فرمائی، معانقہ کیا اور دو تین دفعہ میرا نام لے کر مخاطب کیا۔ اس کے بعد بھی اللہ کے فضل سے مجھے ملاقاتوں کا موقع ملتا رہتا ہے لیکن اب وہ مقام بدل گیا ہے۔ اب وہ امام ہیں تو ان کے سامنے بات بھی نہیں نکلتی، کئی دفعہ مَیں جاتا ہوں، ذہن میں کچھ چیزیں ہوتی ہیں کہ یہ بھی کہوں گا مگر بات نہیں ہوتی۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا ایک عجیب نظام ہے خلافت کا، جس کو دنیا پہچان نہیں سکتی، سمجھ نہیں سکتی۔ یہ ایک عجیب روحانی نظام ہے۔

(آئندہ شمارہ میں جاری ہے۔ ان شاء اللہ)

====================================

(قسط دوم)
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جولائی و اگست 2022ء)

مرتبہ: فرخ سلطان محمود

محترم فضل الرحمن خان صاحب کی پیدائش 26؍دسمبر 1929ء کو ضلع اٹک کے گائوں چونترہ میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام عبدالغفور صاحب اور والدہ کا نام فردوس بی بی تھا۔ آپ سے بڑی تین بہنیں تھیںجن میں سے ایک بچپن میں فوت ہوگئی۔ آپ کے دادا مولوی شرف دین صاحب 1890ء کے قریب چونترہ سے کوہاٹ چلے گئے اور وہاں بطور پٹواری ملازم ہو گئے۔ پھر انگریز حکومت کے ماتحت وہ کوہاٹ سے پاڑہ چنار کرم ایجنسی چلے گئے اور وہاں عرضی نویسی اور حکمت کا کام شروع کر دیا۔ آپ نے وہاں ایک مسجد بھی تعمیر کروائی جس میں امامت بھی کرتے۔
مولوی شرف دین صاحب نے 1894ء میں سورج اور چاند گرہن کا نشان اپنی برہنہ آنکھوں سے دیکھا ہوا تھا اور اس وجہ سے آپ کی آنکھ کو کسی حد تک نقصان بھی پہنچا تھا۔ حضرت احمدنور صاحبؓ اپنے وطن افغانستان جاتے ہوئے پاڑہ چنار میں واقع آپ کی مسجد میں ہی قیام کرتے اور ان کے ذریعے جب آپ کو احمدیت کا پیغام ملا تو سعید روح ہونے کی وجہ سے آپ کے دل نے اسے فورًا قبول کرلیا۔ اگرچہ آپ نے بیعت اُس وقت تو نہیں کی لیکن احمدیت کی طرف میلان کی وجہ سے آپ کو اپنی ہی مسجد سے خود دستبردار ہونا پڑا۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ کئی سال کے بعد جب آپ کے بیٹے محترم مولوی عبدالغفور صاحب نے 1924ء میں پہلے خط کے ذریعے اور پھر ایک سال بعد قادیان جاکر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی تو یہ سارے مراحل اپنے والد کی اجازت اور خوشنودی کے ساتھ طے کیے۔ اُس وقت مولوی عبدالغفور صاحب کی شادی ایک مقامی امام مسجد کی بیٹی سے ہوچکی تھی اور ایک بیٹی بھی تھی۔ چنانچہ ابتدا میں انہوں نے اپنے والد کی ہدایت پر اپنی بیعت کو بیوی سے پوشیدہ رکھا۔ لیکن اگلے ہی سال اُن کی اہلیہ نے خود خواہش کرکے قادیان کا سفر اختیار کیا اور وہاں جاکر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کرلی۔ بیعت کے بعد مولوی عبدالغفور صاحب نے خداتعالیٰ کے بے شمار قبولیتِ دعا کے معجزے دیکھے جن سے نہ صرف اُن کا ایمان مضبوط ہوا بلکہ ظاہری زندگی میں بھی آسودگی اور عزت عطا ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ اور بعض دیگر بزرگوں کی دعاؤں کی قبولیت کے نشانات کو وہ اپنی ساری زندگی بیان کرتے رہے۔ محترم مولوی شرف دین صاحب نے 1936ء میں بیعت کی سعادت پائی جبکہ 1942ء میں 112برس کی عمر میں وہ وفات پاگئے۔
محترم فضل الرحمن صاحب نے 1938ء میں قریباً نو سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ قادیان کا پہلا سفر کیا۔ اس بابرکت سفر کی یادیں آپ کے ذہن میںآخری عمر تک تازہ تھیں۔ آپ بیان کیا کرتے تھے کہ اُس وقت مجھے یہ تو علم تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ وفات پاچکے ہیں لیکن مَیں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو زندہ سمجھتا تھا۔ قادیان پہنچ کر پتہ چلا کہ اب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا دَور ہے۔ قادیان میں ہماراقیام پشاور کی جماعت کے ساتھ تھا۔ دارالمسیح کے قریب رہائشگاہ واقع تھی۔ فرش پر پرالی بچھی ہوتی تھی اور اس پر بستر بچھا کر سویا کرتے تھے۔ صبح چائے پینے بازار جاتے تھے۔ بعض دکانیں بڑی اچھی بنی ہوئی تھیںجو دودھ، چائے اور مٹھائی وغیرہ کی ہوتی تھیں۔ وہاں جو ایک عجیب چیز دیکھی وہ یہ کہ دکان کے اندر بڑا لمبا میز پڑا ہوا ہے اور اس کے اوپر کھانے پینے کی چیزیں چُنی ہوئی ہیں؛ کیک، پیسٹریاں، بسکٹ وغیرہ۔ آپ نے جو چیز کھانی ہے وہاں سے لیں اور اپنی میز پر بیٹھ کر کھائیں۔ پھر باہر جاتے وقت دروازے کے پاس بیٹھے مالک کو خود بتادیں کہ کیا کھایا ہے۔ وہ حساب کر کے آپ کو رقم بتا دے گا۔ مجھے یہ بڑی عجیب چیز لگی کہ کوئی نہیں چیک کر رہا۔ ایک آدمی جھوٹ بول کے زیادہ کھاجائے اور کم بتائے اور اپنے پیسے بچا لے۔ لیکن وہاں یہ چیز عام تھی کہ یقین تھا کہ کوئی دھوکابازی نہیں کرے گا۔ بعد میں یہ نظارہ کہیں نظر نہیں آیا۔
ہم وہاں اباجان کے ساتھ بہشتی مقبرہ میں جاتے رہے۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تو مَیں نے بھی مصا فحہ کیا اور نذرانہ پیش کیا۔ ایک بزرگ خاتون کے ہمراہ جاکر حضرت اماں جانؓ سے بھی ملاقات کی۔ چند دیگر بزرگ شخصیات سے بھی ملاقات کی۔ ایک صبح دس گیارہ بجے ہم حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ سے ملنے گئے تو پتہ چلا کہ مولوی صاحب مسجد مبارک میں نفل پڑھ رہے ہیں۔ ہم وہاں چلے گئے۔ وہ اُس چھوٹے سے کمرے میں نماز پڑھ رہے تھے جہاں حضرت مسیح موعودؑ کو سرخ روشنائی کا نشان ملا تھا۔ ہم جا کر پیچھے انتظار میں بیٹھ گئے۔ حضرت مولوی صاحبؓ التحیات پر بیٹھے تھے اور تھوڑی اونچی آواز میں جو پڑھ رہے تھے وہ ہم پیچھے بیٹھ کر سن سکتے تھے۔ کئی دفعہ درود پڑھا۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن کی وجہ سے میں بیٹھے بیٹھے تھک گیا۔ بہرحال ہم بیٹھے رہے۔ جب مولوی صاحب نے سلام پھیرا تو اُن سے مصافحہ کیا۔ اباجان نے کچھ سوالات پوچھے اور انہوں نے جواب دیے۔ ایک سوال یہ تھا کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے کوئی نشان دیکھاہے؟ فرمانے لگے کہ ایک دن حضرت مسیح موعودؑجب صبح مسجد میںتشریف لائے تو بتایا کہ آج کوئی نشان ظاہر ہو گا۔ ہم سارا دن اس انتظار میں رہے کہ کیا بات ہوتی ہے تو شام کے وقت ہم نے دیکھا کہ ایک روشن گولہ غالباً مشرق سے نمودار ہوا اور بڑی تیزی سے بڑھا اور ہماری آنکھوں کے سامنے سے گز ر کر مغرب میں کہیں دُور جاگرا۔ معلوم ایسے ہوا کہ کہیں گرا ہے لیکن جب آدمی بھگائے اور تلاش کیا تو جہاں ہمیں لگا تھا کہ گرا ہے وہاں کے لوگ کہتے ہم نے دیکھا ہے وہ آگے گرا ہے، وہاں جب آدمی پہنچے تو پھر پتہ لگا کہ وہاں نہیں گرا بہت آگے گرا ہے۔ اصل میں وہ گرا کہیں بھی نہیں تھا لیکن معلوم یہی ہوتا تھا کہ آگے گرا ہے۔ (اس پیشگوئی کی تفصیل تتمّہ حقیقۃ الوحی پرانا ایڈیشن صفحہ 81۔82 پر درج ہے۔)
حضرت مولوی سرور شاہ صاحبؓ سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ صبح کے وقت سورۂ فاتحہ پڑھا کرو اس کے بعد درود شریف اور دیگر مسنون دعائیں پڑھو اور گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے ماتھے پر ’’یا عزیز‘‘ لکھ لیا کرو، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم پر کسی شخص کا رعب نہیں پڑے گا۔ اگر کسی حاکم کے سامنے بھی پیش ہونا پڑے تو تم مرعوب نہیں ہو گے۔ وہ بتانے لگے کہ وہ خود بھی یہ وظیفہ کرتے ہیں اور ساری زندگی اس کی برکت مشاہدہ کی ہے۔
حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت میاں شریف احمد صاحبؓ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ماشاء اللہ دونوں بھائی بہت خوبصورت اور وجیہ تھے۔ دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ بہت بزرگ شخصیات ہیں۔
حضرت مفتی محمدصادق صاحب ؓسے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے لمبا چوغا پہنا ہوا تھا اور ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اُن سے بعد میں ربوہ میں بھی ملاقات رہی۔ ہم جب کبھی راستے میں ان سے ملاقات کرتے تو سلام کرتے اور دعا کے لیے کہتے۔ اُن کا طریقِ کار یہ تھا کہ جب کوئی دعا کے لیے کہتا تو وہیں کھڑے ہو جاتے کہ اچھا بھائی دعا کرلیتے ہیں۔ اور جب دعا کے لیے وہ ہاتھ اٹھاتے تو اِدھر اُدھر سے گزرنے والے بھی دعا میں شامل ہوجاتے۔
1939ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خلافت کو 25سال ہو گئے تھے تو سلور جوبلی کا جلسہ ہوا جو تین کی بجائے چار دن کا تھا اور چوتھے دن انتظام یہ تھا کہ تمام جماعتیں اپنی اپنی رہائشگاہوں سے باقاعدہ جلوس بنا کر روانہ ہوں گی۔ ہمارے امیر حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری تھے جن کی قیادت میں ہم حضرت مسیح موعودؑکے اشعار پڑھتے ہوئے اور بینرز اٹھائے ہوئے چلے جن پر ’’جماعتہائے احمدیہ صوبہ سرحد‘‘ لکھا تھا۔ پھر جلسہ گاہ میں وہ بینرز زمین میں نصب کرکے ان کے پاس بیٹھ گئے۔ حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ نے اس موقع پر چند ہفتے قبل تحریک کی تھی کہ چونکہ یہ خوشی کا موقع ہے اس لیے جماعت کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنا چاہیے۔ غالباً تین لاکھ روپے اکٹھے ہوئے تھے اور اس رقم کی تھیلی حضرت چودھری صاحبؓ نے سٹیج پر حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کی اور حضورؓ نے اس کو قبول فرمایا۔ پھر حضور اقدس نے خطاب فرمایا تو اس میں ساری رقم تقسیم کر دی اور بتایا کہ اتنی رقم دعوت و تبلیغ کی نظارت کولٹریچر شائع کروانے کے لیے، اتنی فلاں مسجد بنانے کے لیے، اتنی جامعہ احمدیہ کے طالبعلموں کی تعلیم کے لیے جائے گی وغیرہ۔ پھر اس موقع پر پہلی مرتبہ لوائے احمدیت بھی لہرایا گیا جسے حضورؓ کی تحریک پر حضرت مسیح موعودؑکے صحابہ اور صحابیات نے خود روئی بیج کر، کات کر اور رنگ دے کر تیار کیا تھا۔ یہ لوائے احمدیت اب بھی محفوظ ہے۔
……………………………

مکرم فضل الرحمن صاحب کو بہت بچپن میں ہی آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی خواب میں زیارت ہوئی اور یہ واضح خواب آپ کو آخری عمر تک بخوبی یاد تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پاڑہ چنار(کرم ایجنسی) سے حاصل کی اورمڈل ورنیکولرکا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ اس کے بعد آپ کے والد کی تبدیلی رزمک ہو گئی جہاں فیملی نہیں رہ سکتی تھی۔ چنانچہ باقی فیملی کو چونترہ بھیج دیا گیا جبکہ آپ راولپنڈی چلے گئے اور کرسچین مشن ہائی سکول سے نویں جماعت پاس کی۔ پھر آپ کے والد کی تبدیلی پشاور ہوگئی تو انہوں نے ساری فیملی کووہاں بلوا لیا۔ چونکہ آپ بہت ذہین طالب علم تھے اس لیے مشن سکول راولپنڈی نے آپ کو میٹرک اپنے سکول سے کرنے کی صورت میں تعلیمی اخراجات کی پیشکش بھی کی لیکن آپ نے اپنے والد کی خواہش کو ترجیح دی اور پشاور چلے آئے اور 1947ء میں اسلامیہ ہائی سکول پشاور سے میٹرک اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ ابتدا سے ہی آپ تمام مضامین میں بہت لائق تھے لیکن ریاضی میں ہمیشہ سوفیصد نمبر لیتے تھے۔ ایک امتحان میں ریاضی کے استاد نے آپ کے پرچے میں ایک سوال کو غلط قرار دیا تو آپ نے استاد کو بتایا کہ استاد نے اس سوال کو ہی غلط سمجھا ہے۔ جب استاد کو اپنی غلطی کی سمجھ آگئی تو انہوں نے آپ کے نمبر سوفیصد کردیے اور دوسرے طلبہ جن کو اس سوال کے نمبر دیے جاچکے تھے، اُن سے پرچے واپس لے کر اُن کے نمبر کم کردیے۔ بہرحال آپ نے اسلامیہ کالج پشاور سےF.Sc. کرکے پنجاب کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں داخل لیا اور 1954ء میں بی ایس سی میکینیکل اور سول انجینئرنگ کے امتحانات پاس کر کے میدانِ عمل میں قدم رکھا۔ آپ نے ابتدائی ملازمت تھل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور پھر پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC) میں کی۔ یہ ملازمت قائدآباد اور پھر حیدرآباد سندھ میں تقریباً 13سال جاری رہی۔ 1967ء میں بنوں شوگر مل میں آپ نے پہلے بطور مینیجر اور پھربطور جنرل مینیجر سات سال تک کام کیا۔ 1974ء کے ہنگامی حالات میں بنوں سے آدھی رات کو اپنی فیملی کے ساتھ آپ کو سرکاری احکامات کے تحت ہجرت کرنا پڑی۔ اس کے بعد آپ پانچ سال کے لیے پاکستان مِنرل ڈیویلپمنٹ کارپو ریشن کے جنرل مینیجر تعینات رہے۔ پھر ’سٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن‘ کے تحت ’کوہاٹ سیمنٹ فیکٹری‘ میں مینیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے 5سال خدمات سر انجام دیں۔ 1984ء سے پرائیویٹ فیکٹو گروپ(FECTO)کے ساتھ تقریباً سولہ سال کام کیا اور سنگجانی سیمنٹ فیکٹری کے پراجیکٹ ڈائریکٹر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اسی آرگنائزیشن کے ساتھ بطور ایڈوائزر منسلک رہے۔ آپ تمام زندگی اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے اوراپنی امانت، دیانت اور شرافت کی وجہ سے مشہور رہے۔
محترم فضل الرحمن صاحب کی شادی محترمہ گوہر سلطانہ صاحبہ بنت ڈاکٹر محمد زبیر صاحب سے 9دسمبر 1961ء کوہوئی۔ ڈاکٹر صاحب آپ کے چچازاد تھے اور پاڑہ چنار میں رہتے تھے۔ وہ بھی بہت شریف النفس،غریب پرور اوربہت دعا گو انسان تھے۔ کئی لوگوں کے وظیفے لگائے ہوئے تھے جو اُن کی وفات کے بعد گھر والوں کے علم میں آئے۔
مکرمہ گوہر سلطانہ صاحبہ نے 7؍اکتوبر2021ء کو 79 سال کی عمر میں لندن میں وفات پائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کی نمازجنازہ حاضر اسلام آباد (یوکے) میں پڑھائی۔ بعدازاں جنازہ ربوہ لایا گیا جہاں بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ مرحومہ انتہائی نیک، دعاگو، دیندار، نماز روزہ کی پابند، قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والی اور خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے والی بزرگ خاتون تھیں۔ آپ کے شوہر جب امیر ضلع راولپنڈی تھے تو آپ نے ہمہ وقت اُن کی ہر معاملے میں خدمت اور سپورٹ کی۔ اپنے حلقہ میں لجنہ کی سیکرٹری خدمت خلق کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ گھر میں کام کرنے والے ملازمین کا بہت خیال رکھا کرتی تھیں۔ 2005ء میں جب پاکستان میں زلزلہ آیا تو لجنہ ممبرات کے ساتھ ملٹری ہسپتال جاکر مریضوں کی تیمارداری اور خدمت کرتی رہیں۔ بہت باہمّت خاتون تھیں۔ کینسر کی مریضہ تھیں لیکن آخری وقت تک بہت ہمّت اور حوصلے سے اس کا مقابلہ کیا۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ آپ سے محترم فضل الرحمن خان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدد پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے بھی نوازا۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم عطاء القدوس صاحب آجکل نائب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ اور ریجنل امیر اسلام آباد (یوکے) کے طور پر اور ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب بحیثیت صدر جماعت ریجائنا (کینیڈا) خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔

مکرم عطاءالقدوس صاحب

محترم فضل الرحمن خان صاحب کا اپنے تمام عزیزوں کے ساتھ بہت محبت کا تعلق تھا۔ آپ کی شخصیت میں ایک ایسی کشش تھی کہ تمام افرادِخاندان آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور آپ کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے تھے۔ آپ بڑی فراست سے ان کو مشورے دیتے تھے۔ اپنے والدین کا بے حد احترام اور اطاعت کرتے تھے۔ آپ کے والد نے 96سال کی عمر میں وفات پائی اور آپ کو اُن کی خدمت کا بے انتہا موقع ملا۔ دفتر سے آکر سیدھے اُن کے پاس جاتے اور اکثر کھانا بھی ان کے پاس بیٹھ کر کھاتے۔ اپنے بچوں کو ہمیشہ تاکید کرتے کہ دادا جان کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دینا۔ اسی طرح اپنے ساس سسر کی بھی بہت عزت کرتے۔ آپ کی ساس اور سسر دونوں کا جنازہ آپ کے گھر سے اٹھااور اس کا سارا انتظام آپ نے خود کروایا۔
آپ گھر میں ہمیشہ ذکرِالٰہی اور دینی باتیں کرنا پسند کرتے تھے۔ جب بھی موقع ملتا تو تربیت کی کوئی نہ کوئی بات ایسے احسن رنگ میں بیان کرتے کہ سننے والے پر بہت اثر ہوتا۔ TV پر لغوپروگرام نہ خود دیکھتے نہ گھر میں کسی کو دیکھنے کی اجازت ہوتی۔ البتہ اچھے پروگرام اور کھیل کے میچ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے۔ اپنے بچوں کو ہر دنیاوی سہولت پہنچانے کی کوشش کرتے لیکن کسی بھی چیز کا بے جا استعمال نہیں کرنے دیتے تھے۔ بہت مہمان نواز تھے۔ اگر اچانک کوئی مہمان آجاتا اور گھر پر کوئی خاص چیز مہیا نہ ہوتی تو بازار سے منگوا لیتے۔ مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ آپ کو دوسروں کی تکلیف کا بھی بہت احساس رہتا تھا۔ آپ جب فیکٹو سیمنٹ میں کام کرتے تھے تو بیرونِ ملک سے کئی دفعہ انجینئر آتے تھے۔ اُن میں جرمنی کے ایک انجینئر John Boie بھی تھے جن کی دونوں ٹانگیں دوسری جنگِ عظیم میں ضائع ہو گئی تھیںاور وہ نقلی ٹانگیں استعمال کرتے تھے۔ یہ صاحب ہوٹل پرل کانٹی نینٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور روزانہ صبح آپ کے ساتھ ہی گاڑی میں فیکٹری جاتے تھے۔ ایک دن آپ کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ رات کا کھانا نہیں کھاتے اور صرف چائے پی لیتے ہیں۔ وجہ پوچھنے پر کہنے لگے کہ شام کو جب وہ ہوٹل پہنچتے ہیں تو ابھی کھانے کا وقت نہیں ہوتااور چونکہ وہ تھکے ہوئے ہوتے ہیں تو ٹانگیں اتار کر لیٹ جاتے ہیں۔ اس کے بعد کھانے کے وقت دوبارہ ہمت نہیں ہوتی کہ دوبارہ ٹانگیں لگا کر کھانے کے لیے جائیں۔ آپ کو اس بات سے بہت تکلیف ہوئی اور اس دن سے آپJohn Boie کو روزانہ اپنے گھر لے آتے اور کھانا کھلاکر بھیجتے۔ ان کے جرمنی جانے کے بعد بھی آپ نے اُن سے تعلق رکھا اور ہر سال گرمیوں کے موسم میں انہیں آموں کا تحفہ بھجواتے رہے۔
آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ لیکن آپ کا پسندیدہ موضوع ہمیشہ اسلام احمدیت ہی رہا۔ آپ خداداد ذہنی فراست کے مالک تھے۔ معاملے کی تہ تک فوراً پہنچ جاتے تھے۔ کبھی گھبراتے نہیں تھے۔ کوئی بھی مشکل وقت آیا تو دعا کا سہارالیا اور سب کو تسلی دی۔ وقت کے بہت پابند تھے۔ جمعہ کی نماز کے لیے تیاری تو صبح سے ہی شروع کر دیتے۔ بزرگوں کے ساتھ محبت کا تعلق رکھتے۔ راولپنڈی کی جماعت کے عمررسیدہ بزرگ محترم عبدالغفار ڈار صاحب نماز کے لیے سائیکل پر مسجد آتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ سائیکل سے گر گئے اور کچھ چوٹیں بھی آئیں۔ اس پر آپ نے کہا کہ آئندہ وہ سائیکل پر نہ آئیں بلکہ مَیں اُن کے لیے گاڑی اور خادم بھجوائوں گا۔
آخری دس پندرہ سالوں میں آپ کی صحت اچھی نہیں تھی۔ اس عرصے میں آپ کو شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے عارضے ہو گئے تھے۔ لیکن آپ کی بیماری آپ کے کاموں میں کبھی حارج نہیں ہوئی۔ آخری دو تین سال سے ٹانگوں میں کمزوری کی وجہ سے زیادہ چل پھر نہیں سکتے تھے اس لیے جب گھر سے باہر جاتے تو کئی دفعہ وہیل چیئر استعمال کرتے۔ ہر سال گرمیوں میں اپنے بچوں کے پاس یورپ جاتے اور تین چار ماہ گزارتے۔ لندن آنے اور واپسی کے وقت ہمیشہ خلیفہ وقت سے اجازت لیتے۔ آخری بیماری سے پہلے بھی اجازت لینے گئے تھے تو خلافِ معمول حضور نے فرمایاکہ خان صاحب! ابھی یہیں رہیں۔ چنانچہ آپ لندن میں ٹھہر گئے۔ صحت دن بدن کمزوری کی طرف مائل تھی۔ وفات سے تین چار دن پہلے سانس کی تکلیف کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوئے۔ 29؍اکتوبر 2012ء کی دوپہر آپ کو دل کا دورہ ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2؍ نومبر2012ء کو مسجد بیت الفتوح لندن میں خطبہ جمعہ کے دوران اپنے اس فدائی اور جانثار کی صفات حسنہ اور خوبیوں کا تفصیل سے ذکر فرمایا۔

حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضورانور نے فرمایا کہ محترم فضل الرحمن خان صاحب امیر ضلع راولپنڈی کی 29؍اکتوبر2012 ء کو مختصر علالت کے بعد 83؍سال کی عمر میں وفات ہوگئی ہے۔ یہ ان دنوں یہیں تھے۔ جلسے پر آئے تھے۔اُ س کے بعد پھر ان کو میں نے کہا کہ کچھ دیر رُک جائیں۔ بیماری تو ان کی کافی لمبا عرصہ سے چل رہی تھی لیکن ماشاء اللہ ذہن بالکل الرٹ(Alert) تھا اور بڑی ہمت سے انہوں نے امارت کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ (پھر مرحوم کے حالات زندگی بیان کرنے کے بعد حضورانور نے فرمایا:) خلافت اور نظام جماعت سے والہانہ عشق تھا۔ ہر محفل میں آپ کی گفتگو کا محور جماعتی واقعات، صحابہ حضرت مسیح موعود کی زندگی کے واقعات اور خلفائے احمدیت ہوتے تھے۔ ہمیشہ خلافت کی اطاعت اور خلیفہ وقت سے مضبوط تعلق کی تاکید اپنی اولاد کو بھی کرتے رہے۔ انتہائی دعا گو انسان تھے۔ بچے کہتے ہیں کہ روزانہ صبح گھر سے نکلنے سے پہلے سب کو بٹھا کر دعا کروایا کرتے تھے اور پچھلے دنوں جب یہ ہسپتال میں رہے ہیں تو وہاں بھی غنودگی کی حالت سے جب بھی باہر آتے تھے تو پھر بچوں کو یہی کہتے تھے کہ اب ہاتھ اٹھا کے دعا کر لو۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔ ان کی بڑی ہمشیرہ وفات پاگئی تھیں تو ان کے بچے چھوٹے تھے۔ ان کی پرورش انہوں نے کی بلکہ ان کی بچیوں میں سے ایک بچی کو دو دفعہ بڑا صدمہ ہوا تو اس کا بڑا خیال رکھا۔ اس بچی کو دو دفعہ بیوگی کو دیکھنا پڑا اور دونوں دفعہ شہداء کی بیوہ بنی۔
قائم مقام امیر راولپنڈی مبارک احمد صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت کا رکن خواہ چھوٹا ہے یا بڑا، مرد ہے یا عورت، آپ کی شفقت بے پایاں سے ذاتی طور پر فیضیاب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ انہی خداداد صلاحیتوں کا نتیجہ تھا کہ آپ کے دور ِامارت میں جو نومبر1998 ء سے شروع ہوا جماعت راولپنڈی نے اموال و نفوس کے لحاظ سے ہر شعبے میں نمایاں ترقی کی اور راولپنڈی کا شمار ملک کی جو اچھی جماعتیں ہیںان میں ہونے لگا۔ مجموعی طور پر آپ کی جماعتی خدمات کا عرصہ نصف صدی کے عرصہ میں پھیلا ہوا ہے۔ متعدد مرکزی کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ آپ کے دورِامارت میں تاریخ احمدیت راولپنڈی کی تدوین اور اشاعت کا کام ہوا۔ اس کے لئے آپ کو بڑھاپے اور مختلف عوارض کے باوجود کئی کئی روز مسلسل گھنٹوں بیٹھنا پڑا اور اس تاریخی دستاویزکو لفظ بہ لفظ پڑھا، سنا اور پھر اس کی منظوری دی۔ اسی طرح صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر جماعت احمدیہ راولپنڈی کو ایک دیدہ زیب اور منفرد خلافت جوبلی سووینئر شائع کرنے کی توفیق ملی۔ اس کا تمام تر سہرابھی آپ کے سر ہے کیونکہ آپ نے اس اہم کام میں ذاتی دلچسپی لی اور مضمون نگار حضرات کو ذاتی طور پر فون کر کے مضامین لکھوائے۔
حضورانور نے فرمایا کہ 1998ء میں خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو جماعت راولپنڈی کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ اس سے قبل آپ کو تقریباً ساڑھے چار سال تک نائب امیر کے طور پر بھی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ اس وقت مَیں ناظر اعلیٰ ہوتا تھا اور یہ میرے علم میں تھا کہ انہوں نے قائد خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے کام کیا ہے جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع صدر خدام الاحمدیہ ہوتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مجھے لکھا کہ امیر ضلع کے لیے کوئی نام تجویز کرو۔ زیادہ نام تو اس وقت میرے سامنے نہیں تھے تو میں نے انہی کا نام بھیجا تھا جس کو فوری طور پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے منظور فرمایا اور فرمایا کہ ہاں میں ان کو جانتا ہوں، یہ انتظامی لحاظ سے بھی بڑے اچھے کام کرنے والے ہیں اور ویسے بھی اخلاص و وفا کے لحاظ سے بڑے اچھے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ کام سنبھالیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے پھر خوب کام سنبھالا۔ زندگی کے آخری دن تک مفوضہ ذمہ داریوں کو انتہائی احسن رنگ میں نبھایا ہے اور خلافت کے فدائی اور جانثار وجود تھے اور اشاروں پر چلنا جانتے تھے۔اس کو ایک سعادت سمجھتے تھے اور صرف جماعتی کاموں میں نہیں بلکہ میں نے ذاتی معاملات میں بھی دیکھا ہے۔ جلسے پر جب یہاں آئے تھے تو میں نے ان کو کہا کہ کچھ عرصہ یہاں رہ جائیں لیکن ان کی اہلیہ کے چہرے کے تاثرات سے مجھے لگا کہ یہ یہاں رہنا نہیں چاہتیں لیکن انہوں نے بڑی بشاشت سے کہا کہ جب تک آپ کہیں گے ان شاء اللہ ہم رہیں گے اور شاید یہیں ان کی وفات ہونی تھی اور جنازہ پڑھانا تھا اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا۔
ڈاکٹر نوری صاحب سے ان کا بڑا تعلق تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کا میرے ساتھ تعلق مختلف حیثیتوں سے تھا۔ قریبی دوست بھی تھے اور ڈاکٹر کی حیثیت سے بھی۔ اور مَیں نے ان کے نائب امیر کے طور پر بھی ان کے ساتھ کام کیا، کہتے ہیں ہر لحاظ سے میں نے ان کو دیکھا۔ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ خدا تعالیٰ سے بہت ڈرنے والے، ہر قسم کے حالا ت میں ہمیشہ اسی پر توکّل رکھنے والے، خلافت سے آپ کا کامل وفا، پیار اور اطاعت کا تعلق تھا۔ جب بھی خلیفہ وقت کا ذکر ہوتا تو آپ کی آواز بھرّا جاتی اور آنکھوں میں آنسو رواں ہو جاتے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف جماعت کی خدمت تھا۔ ان کو بہت سی بیماریاں لاحق تھیں اور وھیل چیئر استعمال کرتے تھے لیکن اس کے باوجود دینی خدمت کے لیے بہت محنت کیا کرتے تھے۔ کبھی شکوہ نہ کرتے تھے اور کبھی ماتھے پر بل نہ لاتے تھے۔ غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مستحق طلبہ کا خیال رکھتے تھے۔ عزیز رشتہ داروں، مختلف پریشان حال اور مالی بحران سے متاثرہ خاندانوں کی مدد اور رہنمائی کیا کرتے تھے۔
قائد خدام الاحمدیہ ضلع راولپنڈی لکھتے ہیں کہ محترم امیر صاحب ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ آپ انتہائی ملنسار، غریب پرور، ہمیشہ راضی بقضا رہنے والے، خلافت سے دلی محبت رکھنے والے، صابر و شاکر بزرگ انسان تھے۔ دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کی حقیقی تصویر تھے۔ ان کی شفقت اور محبت ایک باپ سے بڑھ کر تھی (اور یہ رویہ ہے جو ہر جگہ ہر امیر اور ہر صدرکا خدام الاحمدیہ کے نظام کے ساتھ اور باقی نظاموں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے اور ہر قائد کا نوجوانوں کے ساتھ، قائدین اور صدران کو یہی رویہ رکھنا چاہیے۔)یہ لکھتے ہیں کہ خاکسار کو بھی ایک بیٹے کی طرح ان کے زیرسایہ جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔
حضورانور نے فرمایا کہ یہ سب خوبیاں جو ان کی بیان ہورہی ہیں ان میں میں نے دیکھا ہے کہیں بھی کوئی مبالغہ نہیں بلکہ شاید کوئی کمی رہ گئی ہو۔ قائد صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امیر صاحب کو قیادت اور امارت کی قائدانہ صلاحیتوں سے خوب نوازا تھا۔ آپ کو ہر عہدیدار اور کارکن سے اس کی اہلیت اور قابلیت اور طاقت کے مطابق کام لینے کا سلیقہ اور ڈھنگ آتا تھا اور ہر عہدیدار بلکہ جماعت کا ہر فردآپ کے ہر حکم اور ارشاد کی تعمیل بجاکر خوشی محسوس کرتا اور اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا تھا۔ خدام الاحمدیہ سے ان کی شفقت بھی ایک باپ سے بڑھ کر تھی۔ خاکسار کو یہ کہنے میں کوئی وہم نہیں کہ خدام الاحمدیہ راولپنڈی نے پچھلے دس سالوں میں جو غیرمعمولی ترقی اور مضبوطی حاصل کی ہے اس میں محترم امیر صاحب کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ احباب جماعت سے محبت اور ان کی تکلیف کا بہت زیادہ خیال فرماتے تھے۔ 28 مئی کے بعد امیر صاحب نے خدام الاحمدیہ راولپنڈی کے ذمہ کافی کام لگائے جن میں کنسٹرکشن اور سیکیورٹی کے کام بھی شامل تھے۔ ان امور میں بہت زیادہ اخراجات بھی ہوئے لیکن کبھی امیر صاحب نے اس کی پروا نہ کی۔ ایک موقع پر ایک احمدی عہدیدار نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ روپیہ بہت خرچ ہورہا ہے جس پر امیر صاحب نے کہا کہ ایک احمدی کی جان کے مقابل پر لاکھوں روپیہ بھی کوئی معنے نہیں رکھتا۔ اگر کسی احمدی کی جان چلی جائے تو ہم خلیفۂ وقت کو کیا جواب دیں گے کہ چند لاکھ روپے کی خاطر ہم نے یہ انتظام نہیں کیا تھا۔
راولپنڈی شہر کے حالات کی خرابی کے بعد جب وہاں کی مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہیں ملی تو حلقوں میں جمعہ پڑھایا جانے لگا۔ اس بات کا اُن کو بہت شدت کے ساتھ احساس تھا کہ جماعت کے ساتھ رابطہ نہیں ہورہا۔ جماعت ایک جگہ جمع ہو جاتی ہے تو امیر جماعت کو بہرحال ہدایات دینے اور ان کی رہنمائی کرنے، اور ان کی باتیں سننے سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن وہاں تو دفتر تک میں بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی، ہر چیز سیل (Seal) کردی گئی تھی۔ قائد خدام الاحمدیہ کہتے ہیں کہ خاکسار کو ہدایت تھی کہ اس صورتحال میں اُن کو مختلف حلقوں میں ہونے والے جمعہ کے لیے لے جایا کروں تاکہ لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم رہے۔ لیکن مَیں کوشش کرتا تھا کہ ایسی جگہ نہ لے کر جاؤں جہاں سیڑھیاں چڑھنی پڑیں کیونکہ ان کو گھٹنوں کی تکلیف تھی۔ لیکن ایک بار انہوں نے خود ہی کہا کہ بیت الحمد مری روڈ کا پروگرام بنائیں۔ اس پر مَیں نے عرض کی کہ امیر صاحب وہاں تو بہت سیڑھیاں ہیں اور آپ کو بہت تکلیف ہوگی۔ لیکن آپ نے کہا کہ نہیں، کچھ نہیں ہوتا، دوستوں سے ملے بہت وقت ہو گیا ہے۔
مرکزی عہدیداروں کا بھی بہت احترام تھا۔ یہ بھی امراء کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ مرکزی عہدیداروں کو عزت و احترام دیں۔ گو ان کا مطالبہ کوئی نہیں اور کسی مرکزی عہدیدار کے دل میں خیال آنانہیں چاہیے کہ مجھے عزت و احترام ملے۔ لیکن جماعتوں کا، افراد کا، جماعتی عہدیداروں کا، امراء وغیرہ کا کام ہے کہ اس بات کا خیال رکھا کریں۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ صدر صاحب خدام الاحمدیہ پنڈی آئے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا کہ میں نے ملاقات کرنی ہے۔ صدر صاحب نے کہا کہ میں آجاؤں گا مجھے وقت بتادیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں، آپ نہیں آئیں گے۔ آپ وہیں رہیں جہاں ٹھہرے ہوئے ہیں، میں آپ کو ملنے کے لیے خود آئوں گا۔
پھر جب یہاں آئے ہیں تو پنڈی جماعت کی بڑی فکر تھی۔ مستقل رابطہ قائد صاحب سے رکھا ہوا تھا اور ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ (اخبار الفضل یکم جنوری2013ء)
حضورانور نے نمازِ جمعہ کے بعد آپ کا حاضر جنازہ پڑھایا۔ بعدازاں شفقت سے آپ کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور سلام کر کے رخصت کیا۔ اگلے دن حضورانور نے تمام فیملی کو شرفِ ملاقات بخشا، تدفین کی تفصیلات پوچھیں اور نصائح فرما کے رخصت کیا۔ حضرت بیگم صاحبہ نے آپ کی اہلیہ سے تعزیت کی اور تسلی دی۔ بعدازاں جنازہ بذریعہ جہاز راولپنڈی پاکستان اور پھر بذریعہ ایمبولنس ربوہ لے جایا گیا اور بہشتی مقبرہ دارالفضل کے قطعہ بزرگان میں تدفین عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں