مولوی کرم دین سکنہ بھیں ؔسے ایک ملاقات

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جنوری و فروری 2024ء)

عبدالرحمان شاکر صاحب

مولوی کرم دین صاحب سلسلہ احمدیہ کے مشہور مخالف موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم کے ایک معز زعلمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مزروعہ زمین بھی کافی تھی۔ علمی لحاظ سے بھی اپنے علاقہ میں ممتاز تھے اور علاقہ بھر میں ان کی خوب مانتا تھی۔ کوئی معمولی یا غیرمعروف آدمی نہ تھے۔
یہ وہی مولوی صاحب ہیں جن کو سیشن جج امرتسر مسٹر اے۔ ای ہیری (A.E.Herry) نے کہا تھا کہ ’’اب جبکہ آپ کا جھوٹ بالکل ظاہر ہو گیا ہے اور آپ کو مرزا صاحب نے کذّاب لکھا ہے تو کیا ہرج ہوا ؟‘‘
مولوی صاحب نے جواب دیا کہ جناب یہ جھوٹ نہیں ہوتا۔ اس کو پالیسی کہتے ہیں۔ اس قسم کا جھوٹ تو مسیح ناصری نے بھی بولا ہے اور پولوس نے بھی بولا ہے۔ جج نے کہا کہ ’’میں آپ سے یہ نہیں پوچھتا کہ کس کس نے جھوٹ بولا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ آپ نے جھوٹ بولا تھا کہ نہیں؟‘‘
مولوی صاحب نے کہا کہ جناب زیادہ سے زیادہ وہ مجھے کاذب کہہ سکتے تھے مگر مجھے کذّاب (بہت بڑا جھوٹا ) کہا گیا ہے۔
اس پر سیشن جج نے کہا کہ ’’اچھا آپ کے خیال میں چھوٹے اُلّو اور بڑے اُلّو میں کیا فرق ہوتا ہے؟‘‘ اس پر مولوی صاحب نادم ہو کر چپ ہوگئے اور جج نے ان کا جرمانہ پچاس روپے قائم رکھا تھا۔


حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ؎

دیکھو وہ بھیں کا شخص کرم دیں ہے جس کا نام
لڑنے میں جس نے نیند بھی اپنے پہ کی حرام
جس کی مدد کے واسطے لوگوں میں جوش تھا
جس کا ہر ایک دُشمنِ حق عیب پوش تھا
جس کا رفیق ہو گیا ہر ظالم و غوی
جس کی مدد کے واسطے آئے تھے مولوی
ان میں سے ایسے تھے کہ جو بڑھ بڑھ کے آتے تھے
اپنا بیاں لکھانے میں کرتب دکھاتے تھے
ہشیاری مستغیث بھی اپنی دکھاتا تھا
سو سو خلافِ واقعہ باتیں بناتا تھا
پر اپنے بدعمل کی سزا کو وہ پا گیا
ساتھ اس کے یہ کہ نام بھی کاذب رکھا گیا
کذّاب نام اس کا دفاتر میں رہ گیا
چالاکیوں کا فخر جو رکھتا تھا بہ گیا

1934-35ء میں عالی جناب ملک صاحب خاں نون صاحب احمدی چکوال میں SDO تھے اور راقم الحروف ملک صاحب کا سٹینو گرافر تھا۔ دورہ کرتے ہوئے ایک دن ہمارامقام ڈوہمن میں تھا جو جہلم چکوال روڈ پر ایک مشہور تھانہ ہے۔ وہاں سے ہم نے اگلے دن موضع بھیں میں جانا تھا۔
مجھے بڑا ہی شوق تھا کہ وہاں پر مولوی کرم دین سلسلہ احمدیہ کے مشہور معاند کو دیکھوں گا۔ 17؍فروری1935ء کا دن تھا۔ بارہ بجے دوپہر کوجب عدالتی کام ختم ہو گیا تو میں نے جناب ملک صاحب موصوف سے اجازت چاہی کہ ابھی بھیں چلاجائوں۔ وہ فرمانے لگے کہ مجھے یہ ڈر ہے کہ کرم دین تمہارے ساتھ وہاں پر کوئی شرارت نہ کرے۔ بہتر یہ ہے کہ تم ابھی نہ جائو صبح میرے ساتھ ہی چلنا۔ مگر میرے بے حد اصرار پر اجازت مل گئی (میرے ہمراہ برادرم مکرم ملک فتح محمد صاحب ساکن توچھ ضلع جہلم سابق کارکن تحریک جدید ربوہ )بھی تھے۔
دو بجے دوپہر کے قریب ہم دونوںموضع بھیں میں پہنچ گئے۔ پٹواری کو اپنی آمد سے اطلاع دے کر ہم مولوی صاحب کے مکان پر گئے۔ مکان بہت اچھا اور نیا ہی تھا۔ دروازہ پر جا کر میں نے دستک دی تو مولوی صاحب نے چوبارہ سے جھانکا اور کہا کہ کون ہے ؟ میں نے کہا کہ جناب مولوی صاحب نیچے تشریف لائیے۔ دو مہمان دُور سے آئے ہیں۔ مولوی صاحب نیچے آئے اور ہم کو سجی سجائی بیٹھک میں بٹھا دیا۔ میں نے اپنا اور ملک فتح محمد ؐ صاحب کا تعارف کرایا اور کہا کہ ہمارے لیے آپ کی شخصیت تاریخی ہے اس لیے آپ کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ مولوی صاحب بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ میں ذرا آپ کے لیے چائے تیار کرنے کے لیے کہہ آئوں۔ مگر میں نے ان کو روک دیااور کہا کہ ’’اگر حضرت نبی کریم ﷺکا زمانہ ہوتا اور آپ حضور ﷺ کے ماننے والے ہوتے اور ابو جہل آپ کی دعوت کرتا تو آپ اس وقت کیا کرتے؟افسوس ہے کہ ان حالات میں ہم آپ کی دعوت نہیں کھا سکتے۔ ‘‘
اس پر مولوی صاحب خاموش ہو گئے۔ کچھ وقفے کے بعد کہنے لگے کہ آپ کے سلسلہ سے تو میرے تعلقات بہت قدیمی ہیں۔ جناب مرزا صاحب تو میرے مہربان تھے۔ اس میں کیا ہرج ہے؟ کچھ طنز کچھ تعلق کی باتیں کرنے لگے۔ پھر پوچھنے لگے کہ ایس ڈی او صاحب کب آئیں گے؟ میں نے بتایا کہ کل صبح سویرے آئیں گے اور آپ سے مل کر خوش ہوں گے۔ اس پر پھر ایک دفعہ مولوی صاحب پر سکوت طاری ہوا۔
پھر مولوی صاحب اُٹھے اور ایک الماری سے جو کتب سے بھری ہوئی تھی ایک کتاب نکالی اور لاکر میرے ہاتھ میں تھما دی۔ اس کانام تھا ’’تازیانۂ عبرت معروف بہ متنبیٔ قادیاں قانونی شکنجہ میں‘‘۔ میں نے اس کی یونہی ورق گردانی کرکے کوٹ کی جیب میں ڈال لی۔ مولوی صاحب مجھے کہنے لگے کہ اس کی قیمت ڈیڑھ روپیہ ہے۔ میں نے فوراًجواب دیا کہ جناب عالی مہمانوں سے کون قیمت لیا کرتا ہے؟ میں قیمت ادا نہیں کروں گا۔
کچھ اور متفرق باتیں بھی ہوئیں جو اب چوبیس برس گزر جانے پر یاد نہیں اور ہم رخصت لے کر چلے آئے۔
پٹو ار خانے میں آکر ہم لیٹ گئے۔ کھانے میں ابھی دیر تھی۔ گاؤں کا میراثی پکارہا تھا۔ چند اور آدمی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ملک صاحب کی عدالت کا ایک اردلی جس کا نام فیروز خان تھا وہ بھی ہمارے بعد آگیا تھا۔ میں نے سردی کی و جہ سے اپنا کمبل اوڑھا ہوا تھا۔ میں نے میراثی سے پوچھا کہ بھئی تمہارے گاؤں میں جو مشہور مولوی کرم دین صاحب ہیں ان کی تو کچھ باتیں سناؤ۔ سنا ہے کہ وہ بہت بزرگ آدمی ہیں۔ وہ میراثی زیرِلب ہنسا اور کہنے لگا کہ واہ کیا کہنے ہیں ہمارے مولوی صاحب کے۔ مولوی صاحب کے متعلق یہ دو شعر آپ یاد رکھیں ؎

مولوی کرم دین بھیاں دا
نہ پتراں دا نہ دھیاں دا
نہ سُنیاں دا نہ شیعاں دا
صرف روپیے ویہاں۲۰ دا

اور ایک اور شخص جو وہیں بیٹھا تھا کہنے لگا کہ جناب ہمارے مولوی صاحب صرف جھوٹ بول لیا کرتے ہیں، نکاح پر نکاح پڑھ دیا کرتے ہیں…باقی رہی بزرگی تو وہ تو ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ (میں عبدالرحمٰن شاکر ؔخدا تعالیٰ کو حاضرو ناظر جان کر عرض کرتا ہوں کہ میراثی اور دوسرے شخص کے الفاظ بالکل یہی تھے۔ میں نے اپنے پاس سے اس میں کچھ نہیں ملایا۔ یہ بالکل سچ ہے۔ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو۔)
اس کے بعد وہ لوگ آپس میں کچھ لوکل واقعات بیان کرکے ہنستے رہے جن میں مولوی کرم دین صاحب کی ذات ہی ہدف تھی ، میں کچھ سمجھ نہ سکا۔
18؍ فروری 1935ء کی صبح کو جب ملک صاحب تشریف لائے تو ہنستے ہوئے مجھ سے فرمانے لگے کہ سناؤ زیارت ہوگئی؟ میں نے تمام حال عرض کیا اور کتاب بھی دکھائی۔ جس کا نام پڑھتے ہی ملک صاحب نے مجھے واپس کر دی اور خاموش ہو گئے۔ یہ کتاب جیسا کہ آگے چل کر عرض کروں گا سلسلہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔
اسی وقت پٹواری نے ملک صاحب سے عرض کیا کہ مولوی کرم دین صاحب آج تڑکے ہی گھوڑی پر سوار ہو کر چکوال کو چلے گئے ہیں۔
اس کے بعد ایک دن احاطہٗ عدالت میں مولوی کرم دین کو میں نے پہچان لیا اور گلہ کیا کہ اس دن آپ چکوال کو چلے آئے حالانکہ ملک صاحب بھی آپ کی زیارت کے خواہش مند تھے۔ مولوی صاحب کہنے لگے واہ جی واہ! حاکمِ وقت احمدی تھا یونہی دل میں آجاتا اورمجھے قید کرسکتا تھا یا تا برخاستِ عدالت ہی بٹھا چھوڑتا! میں پہلے ہی کھسک آیا تھا۔
پھر مجھے کہنے لگے وہ ڈیڑھ ۸عہ روپیہ کتاب کی قیمت ادا کرو۔ میں نے مذاقاً کہا آؤ ملک صاحب کے سامنے چل کر ادا کردیتا ہوں ( اس پر مولوی صاحب بھی ہنسنے لگے اور میں بھی ہنستا رہا۔)
اب اس کتاب نے کیا کام دیا۔ اس کی داستان بھی سنیے :
مئی 1935ء میں جناب ملک صاحب بطورِ ڈپٹی کمشنر مظفرگڑھ تبدیل ہوگئے اور بندہ وہاں سے فارغ ہو کر قادیان آگیا اور صدرانجمن احمدیہ کی ملازمت میں منسلک ہوگیا۔ 1936ء میں نظارت تعلیم و تربیت میں کام کرتا تھا۔ مَیں نے یکم جنوری 1937ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ناظر تعلیم و تربیت کی خدمت میں ایک سکیم پیش کی کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیدائش پر سو سال گذر چکا ہے لہٰذا حضور علیہ السلام کی صد سالہ جوبلی منائی جائے حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ ابھی تو حضرت اقدسؑ کی پیدائش کی صحیح تاریخ کی بھی تعین نہیں ہوئی۔ اس سکیم پر غور کیا جائے گا اور خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ تم نے ادھر توجہ دلائی ہے۔ ساتھ ہی مجھے فرمایا کہ حکیم غلام حسن صاحب لائبریرین سے کہہ دوں کہ حضرت اقدسؑ کی پیدائش سے متعلق ضروری حوالے اور کتب وغیرہ پیش کریں۔
آخر کار حضرت میاں صاحب نے حضرت اقدسؑ کی صحیح تاریخ پیدائش متعین کردی جو 13 ؍فروری 1835ء ہے۔
صد سالہ جوبلی کی سکیم پر بھی غور ہوا اور وہ ترمیم ہو کر پچیس سال خلافت جوبلی میں تبدیل ہوئی۔
میرے تجویز کردہ پروگرام میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام مقدمات کی اصل مسل کی نقول یا حضورؑ کے اصل بیان بطور ریکارڈ محفوظ کر لیے جائیں۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے یہ اہم کام محترم قریشی ضیاء الدین احمد صاحب ایڈووکیٹ کے سپرد کیا جو انہوں نے بڑے احسن طریق پر اور محنت اور محبت سے سر انجام دیا۔ مگر مقدمہ انکم ٹیکس کی مسل کہیں سے بھی دستیاب نہ ہو سکی کیونکہ عرصہ ہوا وہ محکمہ والوں نے غیرضروری سمجھ کر تلف کردی ہوئی تھی ۔
جس وقت قریشی صاحب موصوف یہ بات حضرت میاں صاحب کی خدمت میں عرض کررہے تھے کہ وہ مسل تلف ہو چکی ہے۔ میں حضرت میاں صاحب کی خدمت میں دفتر کی ڈاک پیش کررہا تھا۔ میں نے جو یہ سنا کہ انکم ٹیکس والے مقدمہ کی مسل نہیں ملتی تو میں نے عرض کیا کہ وہ مسل مولوی کرم دین نے اپنی ایک کتاب تازیانۂ عبرت میں نقل کی ہوئی ہے۔ حضرت میاں صاحب فرمانے لگے۔ جائو ابھی لاؤ۔ کتاب لائی گئی۔ دیکھا تو وہی چیز جس کی قریشی صاحب کو اس قدر تلاش تھی بجنسہٖ اس میں موجود تھی اور ہماری گم شدہ کڑی مل گئی۔
قریشی صاحب نے وہ کتاب مجھ سے لے لی تاکہ اصل بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفہ اول ؓ کا نقل کر سکیں۔ کافی عرصہ تک وہ کتاب قریشی صاحب کے پاس ہی رہی۔ جب تقسیم ملکی کے وقت ہم بورڈنگ ہاؤس میں قید تھے تو اس وقت میں نے وہ کتاب ان سے لے لی جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے اور جو چاہے دیکھ سکتا ہے۔
کچھ عرصہ بعد چکوال میں ( غالباً 1938-41ء میں ) مسٹر کے۔ سی چوہدری ICS لاہور کے ایک قابل ہندو نوجوان SDOمقرر ہوئے۔ ان کی اہلیہ میڈیکل کالج لاہور کے ایک پروفیسر کی بیٹی تھی۔ دونوں میاں بیوی سرکاری دورہ پر ڈوہمن گئے۔ گرمیوں کے دن تھے رات کو سرکاری ڈاک بنگلہ کے لان میں سوئے ہوئے تھے کہ کسی نے مسٹر چوہدری کو پستول سے ہلاک کردیا۔ تھانہ ڈوہمن چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ لوگ بھاگے آئے مگر قاتلوں کا کوئی نشان نہ ملا۔ ڈوہمن کے ارد گرد تمام Broken Land ہے یعنی زمین کٹی پھٹی ہے، بڑی آسانی سے انسان وہاں چھپ سکتا ہے۔ پولیس نے ہر چند کوشش کی مگر قاتلوں کا سراغ اس وقت نہ ہی لگا۔ تقریباً دو سال کے بعد پولیس نے سراغ نکالا کہ قاتلوں میں سے ایک تو مولوی کرم دین صاحب ساکن بھیں کا بیٹا جس کا نام منظور احمد تھا اور دوسرا عبدالعزیزآف چکوال ہے مگر وہ روپوش ہو کر بنوں سے پرے قبائلی علاقہ میں رہائش پذیر تھے۔ ایک دن وہ دونوں اپنے کسی مقصد کے لیے بنوں شہر میں آئے تو پولیس نے ان کو چیلنج کیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں دیکھ کر پولیس پر گولی چلادی مگر جوابی فائرنگ سے وہیں بازار میں ہی ڈھیر ہو کر رہ گئے۔ یوں مولوی کرم دین کا گھرانہ تباہ و بربا دہوا۔
(غالباً) 1944ء میں مولوی کرم دین صاحب حافظ آباد میں مقیم تھے۔ آنکھوں کی بینائی تقریباً جا چکی تھی۔ رات کو جو کہیں اُٹھے تو منڈیر سے لڑکھڑا کر نیچے گرے اور زخمی ہو کر آیت کریمہ اِنَّ اِلَیْنَا اِیَابَھُمْ۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ کے مطابق اپنی گستاخیوں اور بد اعمالیوں کی جوابدہی کے لیے حاضرِ حضور ہوگئے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں