مکرم چودھری شوکت حیات صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جنوری 2012ء میں شامل اشاعت درج ذیل شہید احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم چودھری شوکت حیات صاحب تھیم 1920ء میں حضرت چودھری محمد حیات خان صاحبؓ ریٹائرڈ انسپکٹر پولیس کے ہاں حافظ آباد میں پیدا ہوئے۔تعلیم حافظ آباد اور قادیان میں حاصل کی۔ پھر پولیس میں ملازمت اختیار کی۔ یکم جون 1974ء کو حافظ آباد شہر میں ہنگامہ زور پکڑ گیا اور اسی اثنا میں خبر ملی کہ شرپسندوں نے آپ کے بچوں کی سٹیشنری کی دکان لُوٹ لی ہے اور بقیہ سامان کو آگ لگادی گئی ہے۔ آپ بچوں سمیت جائے وقوعہ پر پہنچے تو دیکھا کہ شرپسند لُوٹ مار کرکے جا چکے ہیں اور آگ پر پولیس نے قابو پالیا ہے۔ آپ اپنی دکان کے سامنے چوبارہ پر بیٹھ گئے۔ آپ کا ایک بیٹا شفقت حیات بھی آپ کے ساتھ تھا۔ اتنے میں ایک ہجوم گزرا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ آپ نے جلوس کی قیادت کرنے والوں کو کہا کہ کچھ حیا کرو، جن کی تم توہین کر رہے ہو انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ اس پر شرپسندوں کی آتشِ غضب اَور بھی شعلہ زن ہوئی اور قریب سے گزرنے والی ریلوے لائن سے پتھر اٹھا اٹھا کر وہ آپ کو مارنے لگے۔ آپ کا بیٹا اُن کے ہی پھینکے ہوئے پتھر جواباً انہیں مارنے لگا اور کچھ دیر ان کو مزید پیش قدمی نہ کرنے دی۔ اسی اثنا میں شرپسندوں کو کسی نے کہا کہ مکان کے پچھواڑے سے حملہ کرو۔ چنانچہ وہ پیچھے سے حملہ آور ہوئے۔ پہلے آپ کے بیٹے شفقت حیات صاحب کو پتھروں سے شدید زخمی کیا۔اُن کے جسم پر چالیس کے قریب زخم آئے اور وہ تقریباً ایک مہینہ مسلسل علاج کے بعد صحت یاب ہوئے۔ لیکن شوکت حیات صاحب کووہ ظالم گھسیٹ کر نیچے لے گئے اور پتھر مار مار کر لہولہان کردیا۔ اتنے میں پولیس بھی آگئی اور شرپسند موقع سے بھاگ گئے۔ ابھی آپ میں زندگی کی رمق باقی تھی۔ چنانچہ فوراً آپ کو ایک عزیز مکرم حق نواز صاحب نے اپنی گاڑی میں ڈال کر لاہور کا قصد کیا لیکن آپ زخموں کی تاب نہ لاسکے اور راستے میں ہی شہید ہوگئے۔ آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے چھوڑے۔ آپ کی اہلیہ نے فروری 1990ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں