مکرم کیپٹن مرزا نعیم الدین صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 8مئی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شمارہ 2۔2010ء) میں محترم کیپٹن مرزا نعیم الدین صاحب شہید کا ذکرخیر مکرمہ امۃالودود طاہرہ صاحبہ اور مکرم مرزا عبدالحق صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔ شہید مرحوم کا ذکرخیر قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 8؍نومبر 2019ء کے کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شامل ہے جسے ویب سائٹ میں بھی سرچ کیا جاسکتا ہے۔ ذیل میں اضافی امور پیش ہیں:
محترم مرزا نعیم الدین صاحب فتح پور ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ دہشتگردوں کے حملے کے وقت محراب کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھے تھے کہ پیٹ میں گولی لگی۔ آپ نے گھر فون کیا لیکن اپنے زخمی ہونے کا نہیں بتایا۔ مسجد میں دوسرے لوگوں کو بچنے کے لئے ہدایات دیتے رہے۔ آپ نے ورثاء میں اہلیہ کے علاوہ پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے۔
آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ شادی کے وقت آپ ایک سپاہی تھے مگر آگے بڑھنے کی لگن تھی۔ اپنی تعلیم اور ملٹری کورسز جاری رکھے۔ اس سلسلے میں دو سال اٹلی میں بھی مقیم رہے۔ احمدیت کی وجہ سے مخالفت بھی تھی لیکن خلیفہ وقت کو خط لکھتے ہوئے ایمانداری اور محنت سے ترقی کرتے رہے۔ صبر و تحمل بہت تھا۔ سادہ طبیعت اور ہنس مکھ تھے۔ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ شہادت والے دن کی صبح بھی قرآن کریم کا ایک دَور مکمل کیا تھا۔ ہر بیٹی کی پیدائش پر الحمدللہ کہتے کہ اللہ کی رحمت آئی ہے۔ ہر بار اللہ تعالیٰ فوج میں ترقی سے نوازتا رہا۔ آپ نے بچوں سے دوستانہ تعلق رکھا اور انہیں اعلیٰ تعلیم دلوائی۔
وہ میری زندگی کا دوست اور بڑا ہی مہربان خاوند تھا۔ ساری زندگی میرا بہت خیال رکھااور ہمارے درمیان کبھی کوئی ناراضگی نہیں ہوئی۔ شہید مرحوم 1971ء اور کارگل کی جنگوں میں شامل ہوئے۔ شہادت کی بہت تمنّا تھی۔ شہادت والے دن خلافِ معمول خوش تھے۔ گھر سے نماز جمعہ کے لیے نکلے پھر واپس آئے اور مجھے خاص طور پر کہا کہ تمہیں خداحافظ کہنے آیا ہوں۔
شہید مرحوم کی بیٹی مکرمہ نزہت عامر صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرا بھائی عامر نعیم مسجد کے بیرونی گیٹ پر دو خدام کے ہمراہ ڈیوٹی دے رہا تھا۔ دیگر دونوں خدام تو شہید ہوگئے جبکہ عامر کے ایک گولی بازو کے آرپار ہوگئی اور دوسری کہنی کو چھوکر گزر گئی۔ پھر دہشتگرد نے اپنی گن عامر کے سینے کی طرف کردی لیکن میگزین کی گولیاں ختم ہوچکی تھیں۔ اس پر عامر نے زخمی ہونے کے باوجود دہشت گرد کو دھکا دے کر گرادیا تو دوسرے دہشت گرد نے عامر پر فائرنگ کی جس سے عامر کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے۔ زخمی ہونے کے باوجود عامر نے دلیری سے دو خدام کی مدد سے ہال کا گیٹ بند کیا جس سے اندر کے لوگ محفوظ ہوئے مگر فائرنگ اور گرینیڈز کی بارش سے دروازہ ٹوٹ گیا اور ہال کے اندر اتنی شہادتیں ہوئیں۔
شہید مرحوم نہایت ذہین تھے۔ میٹرک کے امتحان میں ضلع بھر میں اوّل آئے۔ تلاوتِ قرآن کریم روزانہ گھنٹہ بھر ترتیل کے ساتھ (جو بیگم سے سیکھی تھی) بآواز بلند کرتے۔ بچوں کو خلافت سے مضبوط تعلق کی تلقین کرتے۔ جلسہ یوکے اور دیگر اہم مواقع پر شادی شدہ بیٹیوں کو بھی مدعو کرتے اور گھر پر خاص طور پر کھانا تیار کرواتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں