پاکستان میں اینٹی احمدیہ تحریک (فسادات 1974ء) کے دوران میں احمدیہ مسلم مشن انگلستان کی کارگزاری

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جولائی و اگست 2023ء)

بشیر احمد رفیق خان صاحب

1974ء میں پاکستان میں جناب ذوالفقار علی بھٹو بر سر اقتدار تھے۔ چند سال قبل 1970ء کے انتخابات میں جماعت احمدیہ نے پیپلز پارٹی کی مدد کی تھی کیونکہ اس پارٹی کے منشور میں یہ درج تھا کہ اُن کے نزدیک مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور کسی حکومت کو اس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ جبکہ دوسری تمام پارٹیوں نے جماعت احمدیہ کی مخالفت کی تھی بلکہ وہ جماعت کی بقا تک کے بھی مخالف تھے۔جماعت احمدیہ چونکہ کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ کلیتاً ایک الٰہی جماعت ہے۔ اس جماعت نے کبھی بھی بحیثیت جماعت سیاست میں حصہ نہیں لیا سوائے اس کے کہ کبھی مسلمانوں کے مفاد کا کوئی مسئلہ پیش آجائے تو جماعت احمدیہ کھل کر مسلمانوں کے مفاد کے لیے میدان میں اترتی رہی ہے اور عملاً مسلمانوں کے عمومی مفادات کی محافظ رہی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو

1974ء میں پاکستا ن کے مذہبی گروہوں نے اور کٹر علماء نے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے پیش نظر جماعت احمدیہ کے خلاف ایک منظم سازش تیار کی۔ اس سازش کا آغاز یوں ہوا کہ 22؍مئی1974ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء کا ایک گروہ براستہ ربوہ، چناب ایکسپریس کے ذریعے راولپنڈی روانہ ہوا۔ جب گاڑی ربوہ اسٹیشن پر پہنچی تو ان طلباء میں سے کچھ گاڑی سے باہر نکل آئے اور جماعت احمدیہ کے خلاف غلیظ اور گندے انداز میں نعرہ بازی کی اوربعض احمدی خواتین کی بے حرمتی کرنے کی بھی کوشش کی او ر یہ کہہ کر واپس گاڑی میں سوار ہوگئے کہ فلاں تاریخ کو واپسی پر ہم ربوہ ریلوے اسٹیشن پر احمدیوں کو پھر سبق سکھائیں گے۔
چنانچہ واپسی پر یہ طلباء دوبارہ ربوہ اسٹیشن پر پہنچے اور نہایت غلیظ انداز میں ہلڑبازی اور جماعت کے خلاف فساد پھیلانے والی شکل میں نعرہ بازی شروع کر دی۔ نتیجۃً اسٹیشن پر موجود احمدیوں اور ان فسادی طلباء میں تصادم کی صورت پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں دونوں گروہوں کو چوٹیں آئیں۔ لیکن چونکہ سازش پہلے سے تیار تھی اس لیے جب ان طلباء کی ٹرین فیصل آباد پہنچی تو وہاں اسٹیشن پر پہلے سے شامیانے نصب تھے جس میں متعصب علماء جماعت کے خلاف تقاریر کر رہے تھے کہ احمدیوں نے مسلمان طلباء کو مارا ہے اور زخمی کیا ہے جس کا بدلہ لینا ہم پر فرض ہے۔ اس کے بعد ملک بھر میں احمدیوں کے خلاف بدترین فسادات شروع کروادیے گئے۔ اس کے تفصیلی حالات تو تاریخ احمدیت میں شامل ہیں۔ میرا مقصد تاریخ میں جانا نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں انگلستان میں جو کام ہوا ہے اس کا مختصر ذکر کرنا ہے۔


اس واقعہ کے دن شام کو حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ اور خاکسار کھانا کھا رہے تھے کہ ایک دوست کا فون آیا کہ ان کو نیروبی سے کسی دوست نے فون پر بتایا ہے کہ ربوہ اسٹیشن پر فساد ہوا ہے۔ ابھی میں نے یہ فون سنا ہی تھا کہ دوسرا فون کراچی سے آیا۔ وہاں سے عبد الرحیم بیگ صاحب نے بتایا کہ تمام احمدی جماعتوں کو اطلاع دی جائے کہ ربوہ اسٹیشن پر پیش آنے والے اصل واقعات کیا ہیں جو انہیں مرکز ربوہ سے بتائے گئے تھے اور ساتھ ہی انہوں نے حضورؒ (خلیفۃ المسیح الثالثؒ) کا ارشاد بھی دیا کہ ان اصل واقعات کو دنیا بھرکے احمدی مشنوں تک پہنچا دیا جائے۔چنانچہ انہو ں نے مجھے اصل واقعات بتائے۔ اس دوران چودھری صاحب بھی تشریف فرما تھے۔میں نے واقعات لکھ کر انہیں بھی دکھائے اور تمام جماعتوں کو فون پر بھی بتادیے۔

مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب

میری خوش قسمتی تھی کہ ان دنوں جناب عبد الوھاب بن آدم صاحب بطور نائب امام میرے ساتھ کام کر رہے تھے، انہوں نے نہایت مستعدی سے کام کرنا شروع کر دیا۔ ان کے ساتھ مکرم منیرالدین شمس صاحب بھی تھے۔ان دونوں صاحبان نے اس تمام مُہم کے دوران جو جماعت احمدیہ انگلستان نے لندن سے چلائی، نہایت اعلیٰ رنگ میں میرا ساتھ دیا۔ بعض اوقات رات گئے مجھے جماعت کے بارے میں اہم پیغامات ملتے ، میں اُسی وقت وھاب صاحب کو اٹھاتا اور ان پیغامات کو آگے پہنچانے میں ان کی مدد طلب کرتا۔ بشاشت کے ساتھ اُن کے کام کرنے اور مخلصانہ تعاون کے لیے میں شکریہ کے الفاظ نہیں پا رہا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزاء دے۔آمین۔

انگلستان کے مبلغین کا گروپ فوٹو (1972ء)

چند دن تک ہم نے انتظار کیا لیکن پاکستان میں فسادات بڑھتے چلے گئے۔ حضرت چوہدری صاحبؓ نے ایک دن مجھ سے کہا کہ حضرت صاحبؒ سے اس بات کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرو کہ اگر ہمیں انگلستان سے مناسب کارروائی کرنے کی اجازت مل جائے تو ہم اس سلسلے میں کچھ کارروائی کریں۔ حضورؒ کا فرمان آیا کہ تم جو بھی مناسب سمجھو کرو اور چونکہ ربوہ میں رابطے کے ذرائع بھی کافی حد تک منقطع ہیں اس لیے ایسا انتظام کرو کہ لندن سے ہمارا رابطہ پختہ رہے۔ اگلے دن خاکسار نے مجلس عاملہ کی میٹنگ بلا کر حضورؒ کی ہدایات سے سب کو آگاہ کیا۔مجلس عاملہ نے اس سلسلہ میں ضروری فیصلے کیے۔چنانچہ خاکسار نے مکرم عبداللطیف خان صاحب صدر جماعت ہنسلو کو یہ کام سپرد کیا جنہوں نے نہایت اعلیٰ رنگ میں یہ شعبہ مجلس عاملہ کی مدد سے سنبھال لیا۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ۔ چنانچہ ربوہ سے ہمارا رابطہ ہمہ وقت جاری رہا۔اس سلسلے میں جن دوستوں نے خصوصی خدمت کی توفیق پائی ان میں مکرم عبداللطیف خان صاحب، مکرم حمیداللہ صاحب، مکرم چودھری رشید احمد صاحب مرحوم اور مکرم مرزا عبدالرشید صاحب شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنے فضلوں کی بارش نازل فرمائے۔ آمین۔
حضرت چوہدری صاحب ؓنے فیصلہ کیا کہ احمدیوں پر پاکستان میں ہونے والے مظالم کے صحیح واقعات برطانوی پریس کے نوٹس میںلانے کے لیے پریس کانفرنس کے ذریعہ جاری کیے جائیں اورخاکسار کو اس پریس کانفرنس کے انعقاد کا ارشاد فرمایا۔ خاکسار نے مجلس عاملہ انگلستان کے مختلف افراد کو اس سلسلے میں مختلف ڈیوٹیاں سپرد کر دیںاور6؍جون1974ء کو پریس کانفرنس کے انعقاد کی تیاری شروع کر دی۔ برطانیہ کے تمام بڑے بڑے اخبارات کو دعوت نامے جاری کیے گئے اور برطانیہ میں اخبارات کے ہیڈکوارٹر فلیٹ سٹریٹ میں ایک چرچ ہال کرایہ پر لے کر وہاں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔اس پریس کانفرنس کو حضرت چودھری صاحبؓ نے اور خاکسار نے خطاب کیا۔ حضرت چوہدری صاحبؓ نے تفصیل سے احمدیوں پر پاکستان میں کیے جانے والے مظالم کے حالات بیان کیے۔پریس کے سوالات کے جوابات دئے اور پریس کے ذریعہ برطانیہ کی حکومت سے اپیل کی کہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم پر حکومتِ پاکستان سے احتجاج کرے۔
یہ پریس کانفرنس بےحد کامیاب رہی اور اگلے دن اکثر بڑے اخبارات میں اس کی تفصیل شائع ہوگئی۔ پریس کانفرنس میں پاکستانی سفارت خانے کے نمائندگان بھی موجود تھے اور پاکستانی اخبارات کے نمائندے بھی آئے ہوئے تھے۔ اس کانفرنس کی خبر ریڈیو اور ٹی وی پر بھی نشر ہوئی اور اس کا بہت اثر ہوا۔
پریس کانفرنس کے دو دن بعد پاکستانی سفارت خانے کے ایک کونسلر نے مجھے ایمبیسی آ کر ملنے کی دعوت دی۔ خاکسار حاضر ہوا تو انہوں نے اس پریس کانفرنس کے انعقاد پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔وغیرہ وغیرہ۔ خاکسار نے ادب سے عرض کیا کہ عجیب بات ہے کہ ہمیں آپ مار پیٹ سہنے کے بعد فریاد تک کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ انگلستان میں بسنے والے ہزاروں احمدیوں کے رشتہ دار پاکستان میں ہیں۔ انہیں ان پر کیے جانے والے مظالم کی اطلاع ملتی ہے تو وہ ہمیں فون کرتے ہیں اور اپنی تشویش پر اظہار کرنے کے علاوہ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم احتجاج کریں۔ کیا ہم احتجاج بھی نہ کریں! یہ کہاں کا انصاف ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ برطانوی اخبارات میں چلائی جانے والی مہم (campaign)فوری بند کر دیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ پاکستان میں مظالم بند کروادیں تو ہم نہ صرف اپنی campaign بند کروا دیں گے بلکہ حکومت پاکستان کی مدح سرائی میں بھی بخل سے کام نہیں لیں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ وہاں ہورہا ہے وہ پاکستان کی نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔

حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

میں نے واپس آکر حضرت چوہدری صاحبؓ کو اس ملاقات کی تمام رُوداد سنائی تو آپؓ نے فرمایا کہ مَیں اس کونسلر کے والد صاحب کو جانتا ہوں جو نہایت شریف انسان تھے اور خود یہ کونسلر بھی اپنی ذات میں شریف انسان ہیں لیکن حکومت کے ملازم بھی ہیں، اس لیے وہ اپنا فرض پورا کر رہے ہیں۔ وگرنہ بذات خود وہ ہرگز جماعت احمدیہ کے مخالف نہیں ہیں۔ اس دوران میاں ممتاز دولتانہ صاحب سفیر پاکستان کا رویہ بھی جماعت احمدیہ سے دوستانہ تھا۔
انگلستان میں بسنے والے ہزاروں احمدیوں نے اپنے MPs کو خطوط لکھے اور یہ سلسلہ لمبے عرصہ تک جاری رہاجس کے نتیجہ میں برٹش ممبران پارلیمنٹ کا ایک بڑا طبقہ جماعت پر کیے جانے والے مظالم کی خبروں سے متاثر ہوا اور انہوں نے ہم سے روابط شروع کر دیے۔ان میں جنابTom Cox MPسر فہرست تھے۔ یہ قریباً ہر ہفتہ میں ایک بار خاکسار سے مل کر حالات دریافت کیا کرتے تھے اور جو اُن سے ممکن ہوتا تھا ہماری مدد کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزا دے۔ انMPsنے بھی حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالے رکھااور خطوط کے ذریعہ حکومت پاکستان سے احمدیوں پر مظالم بند کروانے کی درخواست کرتے رہتے۔ بالآخر ان میں چھ MPsنے ہاؤس آف کامنز میں ایک Early Day Motionکے ذریعے احمدیوں پر پاکستان میں کیے جانے والے مظالم کی تلافی کے لیے حکومت برطانیہ کو کارروائی کرنے کی درخواست کی جس کا بعد میں خاطرخواہ اثر ہوا ۔فالحمدللہ
پریس میں ہماری چلائی جانے والیcampaignہر لحاظ سے بےحد کامیاب رہی جس کی تفصیل تاریخ احمدیت کا شامل ہے۔ بعد میں خاکسار نے 330صفحات پر مشتمل ایک کتاب From The World Pressمرتب کر کے اس میں اکثر اُن اخبارات کے تراشے شائع کیے جنہوں نے اس بارہ میں لکھا تھا۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اور اب نایاب ہے۔
1974ء میں جن احباب نے خصوصی خدمت کی توفیق پائی اور جن کے لیے میرا دل دعاؤں سے لبریز ہے ۔ یہ سب کچھ حضرت چوہدری صاحبؓ کی غیرمعمولی توجہ، دعاؤں اور محنت کا نتیجہ ہے۔خود میری تربیت کے سلسلے میںجو کردار حضرت چوہدری صاحبؓ نے ادا کیا ہے اس کے لیے میرا دل ہر وقت ان کے لیے دعاؤں سے معمور رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ حضرت چودھری صاحبؓ کو اگلے جہان میں اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قرب نصیب فرمائے جن دونوں کے یہ اس جہان میں عاشق صادق تھے۔آمین
1974ء کا طوفا ن گزر گیا۔بے شمار احمدیوں کی املاک لُوٹی اور جلائی گئیں۔ درجنوں شہید ہوئے۔ ہزاروں کی ملازمتیں ختم ہوئیں۔ آج کئی سال بعد جب مَیں نظر دوڑاتا ہوں تو ایک عجیب منظر نظر آتا ہے۔ شہداء کو تو شہادت کی نعمت میسر آ گئی۔ اس سے بڑھ کر وہ اللہ سے مانگ بھی کیا سکتے تھے! جن احمدیوں کی املاک لُوٹیں گئیں انہیں اللہ تعالیٰ نے اس سے ہزاروں گنا بڑھ کر معاوضہ عطا کیا۔ آج دنیا بھر میں ان مظالم کے نتیجہ میں ملک چھوڑ کر ہجرت کرنے والے لاکھوں احمدی آباد ہیں اور اپنے چھوڑے جانے والے ملک سے لاکھوں گنا بڑھ کر مال و متاع اور آسائش انہیں حاصل ہے۔ان کے بچوں نے مغرب کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے جس کا پاکستان میں رہ کر یہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے اور ان کی ہجرت کے نتیجے میں انگلستان، جرمنی ، آسٹریلیا، امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے متعدد ممالک میں بفضلہ تعالیٰ مضبوط جماعتیں قائم ہو گئیں۔ فالحمد للہ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں