چند دلچسپ تحقیقی سفر … نئے جانوروں کی تلاش

(مطبوعہ انصارالدین یوکے نومبرودسمبر2022ء)

(ناصر محمود پاشا)

پروفیسر محمد شریف خان صاحب

استاذی المحترم پروفیسر ڈاکٹر محمد شریف خان صاحب نے متعدد بین الاقوامی سائنسی اداروں کی مدد سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں پائے جانے والے بعض خطرناک لیکن نایاب جانوروں مثلاً سانپوں، چھپکلیوں اور مینڈکوں کی نئی اقسام کی تلاش میں غیرمعمولی تحقیقی کام کیا ہے۔ اس سرگردانی کے دوران بہت سے دلچسپ واقعات اُن کی ٹیم کو پیش آتے رہے جن کا احوال انہوں نے اپنے متعدد مضامین، کتب اور ملاقاتوں میں زبانی بھی بیان کیا ہے۔
ان دلچسپ واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صرف سائنسی تحقیق میں ہی نہیں بلکہ کسی بھی فرد کی زندگی میں بہترین نتائج کا حصول جن امور کا مرہونِ منّت ہوتا ہے اُن میں دیانتدارانہ محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مقصد حیات کے حصول کی خاطر پُرخلوص کوشش شامل ہیں۔ محترم خان صاحب کے بیان کردہ چند منتخب واقعات ذیل میں ہدیۂ قارئین ہیں:
محترم خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ سائنسی تحقیقی سفروں کے دوران عام طور پر ہم ہو ٹلوں میں کمرے کرائے پر لے کر ٹھہرتے تھے۔ یہ کمرہ ہمارا بیس کیمپ (Base Camp) بھی ہوتا اور پکڑے ہوئے جانوروں کو سائنسی طریق پر محفوظ رکھنے کے لیے سائنسی مواد (فارملین، پلاسٹک ٹریز، خاص قسم کے لفافوں اور پلاسٹک مرتبانوں) کا ذخیرہ بھی یہاں موجود ہو تا۔
قدرتی ماحول میں کچھ جانور دن کے وقت بلوں وغیرہ سے نکل کر کھاتے پیتے ہیں جنہیں Diurnal کہا جاتا ہے اور کچھ جانور رات کے اندھیرے میں متحرک ہوتے ہیں جو Nocturnal کہلاتے ہیں۔

ہمارے سفری بیگوں میں بیٹریاں اور بیٹری سیل بھی ہو تے۔ ہماری کو لیکشن ٹیم سہ پہر کے وقت اپنے سفر کا آغاز کر تی اور رات گئے واپس لو ٹتی تاکہ ہم دونوں قسموں کے جانوروں کو پکڑ سکیں۔ ٹیم کے ہر ممبر کی جیب میں ایک سیٹی (وسل) ہو تی، اگر رات کے وقت وہ پارٹی سے الگ ہوجاتا یا خطرہ محسوس کر تا تو سیٹی کے ذریعے باقی ٹیم کو اپنی لوکیشن سے مطلع کر تا۔
جنگل بیابان میں چلتے وقت چھڑی سے جھاڑیوں وغیرہ کو ہٹا کر ان کے نیچے دیکھتے جاتے، دوڑتے ہوئے جانور کو چھڑی کے وار یا بندوق سے زخمی کرتے اور پھر اس جانورکوپکڑکر جار میں محفوظ کرلیتے۔ رات کے اندھیرے میں ٹارچ لا ئٹ سے دیواروں، پُلوں، درختوں کے تنوں میں، دراڑوں اور درزوں میں چُھپی ہوئی چھپکلیوں وغیرہ کے لیے جائزہ لیتے رہتے۔ ان سفروں میں بے شمار رکاوٹیں بھی پیدا ہوتیں اور بہت دلچسپ واقعات بھی رونما ہوتے۔

squirrel- گلہری

1983ء میں پا کستان سا ئنس فا ؤنڈیشن نے پو ٹھوہار کے مینڈکوں، کِرلوں اور سانپوں کی اقسام کے مطالعہ کے لیے ریسرچ گرانٹ منظور کی۔ پو ٹھوہارکے دورے کے لیے ہمیں موسمِ گرما کی چھٹیوں کا انتظار تھا۔ اس سے دو سال پہلے WWF-Pakistan کی گرانٹ کے تحت ہم ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور ڈیرہ اسما عیل خان کے جا نوروں کا مطا لعہ کر چکے تھے۔
میری ٹیم میں میرے علاوہ تین طلبہ شامل تھے۔ اس سال موسمِ گرما کی چھٹیوں کے ساتھ ہی رمضان مبارک کا مہینہ شروع ہو گیا تھا اس لیے ہمارا رمضان کے بعد دو ہفتے کے لیے اپنے پراجیکٹ کو شروع کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔

spider مکڑی

اپنے باقاعدہ سفر کے آغاز سے چند دن قبل، رمضان المبارک کے دوران ہی ہم ربوہ سے سرگو دھا ایکسپریس کے ذریعے اپنے پرا جیکٹ کے سامان کی خریداری کے سلسلے میں لاہور پہنچے۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور کی ابتدا تھی۔ پو لیس کے خوف سے دن کے دوران ہوٹل اور ریستوران وغیرہ بندہو جا تے۔ دوپٹے اور نمازں پر زور تھا۔ اذان کے ساتھ ہی دکانوں پر تا لے پڑجاتے۔ آئے دن اخبارات میں روزہ خوروں، بے نمازوں کو قید اور پولیس کے ہاتھوں پٹائی کی خبرو ں نے ملک بھر میں خوف کی فضا طاری کررکھی تھی۔ عقب انار کلی میں scientific stores تھے جہاں سے ہمیں ان تمام پابندیوں کا لحاظ رکھتے ہوئے تین بجے سہ پہر تک خریداری مکمل کر نا تھی تاکہ وا پسی کے لیے چار بجے سرگودھا ایکسپریس پر سوار ہوسکیں۔ جیسے تیسے ہوا خریداری مکمل کر کے تین بجے اسٹیشن پر پہنچے۔ گاڑی چھو ٹنے میں ایک گھنٹہ تھا۔ بھوک پیاس سے برا حال تھا۔ ایک ساتھی نے بتایا کہ اسٹیشن کے عقب میں چھوٹے چھوٹے ہو ٹل ہیں جہاں سے کھانے پینے کی چیزیں مل جا تی ہیں۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے کیبنوں کے دروازوں پر بوریوں کے پردے پڑے تھے۔ اندر سے لو گوں کی باتیں کرنے، کھانے اور برتنوں کے ٹکرانے کا شور سنائی دے رہا تھا۔ اندر لمبے لمبے میزوں پر کئی لو گ کرسیوں پر بیٹھے کھانا کھارہے تھے۔ ایک میز خالی دیکھ کر ہم بھی وہاں بیٹھ گئے اور کھانے کا آرڈر دے دیا۔ حیرانی تھی کہ بیرے نے ہماری تعداد کے مطابق پیسے پہلے ہی وصول کرلیے تھے۔ بہرحال ابھی چار چھ لقمے لیے ہوں گے کہ دفعۃً ایک باوردی سپاہی بڑے جلال میں پردے سے نمودار ہوا اور للکارا: ’’روزہ خورو! بازو اوپر کرکے کھڑے ہوجاؤ۔‘‘ اس کے ساتھ ہی پانچ باوردی سپا ہیوں کا جتھا داخل ہوا۔ ہو ٹل والا اور اس کے کارندے چپ چاپ کھڑے مسکراتے ہوئے ہماری پریشانی کا تماشا دیکھتے رہے جیسے یہ ان کے لیے روز روز کا تماشا تھا۔ مگر اس آفت نا گہانی نے ہمارے جسموں میں کپکپی طاری کر دی تھی۔ بھوک پیاس سے پہلے ہی مرے جا رہے تھے، دل ہی دل میں سٹپٹائے کہ کیوں نہ بھوک پیاس برداشت کر لی۔
دوسپاہی آگے بڑھے۔ وہیں سے برتن پکڑا اور اس میں بوٹیوں سمیت سالن ڈالا۔ تیسرے نے دسترخوان میں پندرہ بیس گرم گرم روٹیاں لپیٹ کر بغل میں دبالیں۔ پھر ہمیں باہر نکل کر لائن میں کھڑا ہو نے کا حکم ہوا اور ریلوے اسٹیشن کی بغل میں قائم نو لکھا پو لیس سٹیشن میں چلنے کے لیے کہا گیا۔ اسی دوران ایک سپاہی میرے پاس آیا اور پوچھا: بزرگو! تساں کتھے جانا ایں؟ (تم نے کہاں جانا ہے؟)
’’ربوہ‘‘ میرا جواب تھا۔ وہ بولا: ’’اپنے ساتھیاں دے نال قطار وچوں نکل جاؤ، تواڈی گڈی آن والی اے۔‘‘ (اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس قطار میں سے نکل جاؤ، تمہاری گاڑی آنے والی ہے۔) چنانچہ اللہ کا شکر کرتے ہو ئے ہم ملزموں کی قطار میں سے ایسے الگ ہوئے جیسے مکھن سے بال۔ ہمارے قطار سے نکلتے ہی روزہ خوروں کی وہ قطار آہستہ آہستہ تحلیل ہوتی گئی اور سپاہیوں کی ٹولی ہماری حالتوں کی نقلیں اُتارتی، ہنستی، قہقہے لگاتی، گرم گرم کھانا اٹھائے نو لکھا پو لیس چوکی کی طرف مُڑگئی۔ ریلوے سٹیشن پر ہمارا وہ ساتھی جو سامان کی حفاظت میں بیٹھا کھانے کا انتظار کر رہا تھا، ہمارے لٹکے ہوئے چہرے دیکھ کر ساری کہانی سمجھ گیا۔
اس واقعہ کو ایک عرصہ گزر چلا ہے مگر جو خجالت اور اذیت ہمیں برداشت کرنے کو ملی مَیں ابھی تک اسے بھول نہیں پایا۔

پروفیسر محمد شریف خان صاحب

ہماری کو لیکشن ٹیم کی ہیئتِ کذائی کچھ ایسی تھی کہ چار پانچ لوگ اپنے ہا تھوں میں چھڑیاں، ایئر گن، سروں پر پی کیپس اور کندھوں سے سفری بیگ لٹکائے ہوئے جب مختلف شہروں اور دیہات کے بازاروں اور گلیوں میں سے گزرتے تو لوگ حیرت سے ہمیں دیکھتے۔ کبھی کبھار تو یہ عوامی ردّعمل ہمارے لیے پریشانی کا باعث بھی بن جاتا۔ ایک موقع پر ہم ربوہ سے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں کو لیکشن کا پروگرام بنا کر جب ربوہ سے راولپنڈی پہنچے اور وہاں بسوں کے اڈے پر آزاد کشمیر جانے والی بس کا انتظار کررہے تھے تو اچانک محکمہ وائلڈ لائف (Wild Life) کے کارندوں نے ہمیں روک لیا اور تھانے لے گئے۔ وہاں تفتیش شروع ہوئی:
سوال: اس بندوق کا لا ئسنس کہاں ہے؟
جواب: جی یہ تو ایئر گن ہے، جس کا لائسنس نہیں ہوتا۔
سوال: یہ اسلحہ آپ کیوں لیے پھررہے ہیں؟
جواب: ہم ریسرچ کے سلسلے میں کِرلے، سانپ وغیرہ پکڑتے ہیں۔ بعض دفعہ تیز رفتار جانوروں کو پکڑنے کے لیے شوٹ کرنا پڑتا ہے۔
سوال: آپ کے پاس جنگلی جانوروں کو مارنے کا اجازت نامہ ہے؟
جواب میں ہم نے سائنس فاؤنڈیشن کا خط دکھلا دیا تو اس طرح ہماری خلاصی شام گئے تک ہوگئی لیکن تب تک سب بسیں نکل چکی تھیں۔ چنانچہ ہمیں مجبو رًا ایک ہوٹل میں وہ رات گزار نا پڑی اور اگلے دن روانہ ہو نا پڑا۔

cockroach- لال بیگ

ایک بار تو حالات بہت ہی خراب ہوتے ہوتے بچے۔ ہم بلوچستان میں کولیکشن کر رہے تھے تو کو ئٹہ کے گردو نوا ح سے مطلوبہ جانور اکٹھے کرنے کے بعد جب ہم مستونگ پہنچے تو وہاں میرا رابطہ گورنمنٹ کالج میں میرے دوست پروفیسر مجید صاحب سے تھا۔جب انہیں پتہ چلا کہ مَیں ان کے علاقے میں آرہا ہوں تو انہوں نے ہمیں اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں!
موصوف وہاں زوالوجی کے پروفیسر اور ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ تھے۔ اُن کے پاس ہم کالج ہوسٹل میں تین چار دن ٹھہرے۔ مستونگ کا علاقہ سنگلاخ پہاڑی سلسلہ ہے جس کے دامن میں ندی نالوں کے علاوہ صحرائی علاقہ بھی ہے۔ ان ندی نالوں میں ( لٹریچر کے مطابق) ایک خاص قسم کا بلوچستانی مینڈک ریکارڈکیا گیا تھا جو شام ڈھلے اپنی پناہ گاہوں سے نکلتا ہے۔ اسی مینڈک کی تلاش میں ہم وہاں پہنچے تھے، لیکن تب تک دن ڈھل چکا تھا۔ میں نے اپنے تھکے ہوئے ساتھیوں کو ہوسٹل بھیج دیا اورخود اس مینڈک کی تلاش میں سرگردان رہا۔
شام کے جُھٹپٹے میں مَیں نے دو تین مینڈک پکڑلیے تو پھر مستونگ شہر میں کالج کے ہوسٹل کی طرف چل پڑا۔ چونکہ گہرا اندھیرا ہوچکا تھا اور مَیں ایک صحرائی علاقے میں سے گزر رہا تھا اس لیے راستہ بھول گیا۔ جب اچانک مجھے احساس ہوا کہ راستہ بھول گیا ہوں تو مستونگ شہر کی روشنیاں میرے چاروں طرف پھیل گئی تھیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میری منزل کس سمت میں ہے اور کتنے فاصلے پر ہے۔ پریشانی کے عالم میں کھڑا ہوکر سوچنے لگا۔ اسی تردّد میں تھا کہ کس طرف جاؤں کہ مَیں نے دُور سے کسی مشین کے چلنے کی گھرر گھرر کی سی آوازسنی۔ مَیں اُسی طرف چلتا چلا گیا تو مجھے اندھیرے میں ایک کھڑکی میں مدہم سی روشنی دکھائی دی لیکن ساتھ ہی میرے پاؤں پانی میں جاپڑے اور مَیں گرتا گرتا بچا۔ پھر مَیں اندھیرے میں ہی کھڑکی کی طرف بڑھا۔ یہ ایک چھوٹا سا کچا کمرہ تھا جس میں سے ٹیوب ویل کے چلنے کا شور آ رہا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ جیسے ہی مَیں دروازے میں داخل ہوا تو میں نے سامنے ایک داڑھی بردار نوجوان کو دیکھا جو مجھ پر بندوق تانے کھڑا تھا۔ وہ بلوچی لہجے میں اردو میں پکار رہا تھا: ٹھہرو! کون ہو تم؟
مَیں نے خطرہ بھانپ کر اُونچی آواز میں اُسے السلام علیکم کہا۔ اور کہا: مسلمان، مسلمان۔ساتھ ہی اپنا سامان نیچے رکھ کر دونوں ہاتھ اوپر اُ ٹھا دیے۔ پھر اُسے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ بھائی میں نے مستونگ جانا ہے اور راستہ بھول گیا ہوں۔ میرے جواب سے مطمئن ہو کر اُس نے بلوچی اردو میں مجھے ایک کو نے کی طرف اشارہ کر کے اپنا سامان وہاں رکھنے کو کہا۔
چھوٹے سے کمرے میں ایک طرف ٹیوب ویل کی مشین چل رہی تھی اور شور مچا رہی تھی۔دوسری طرف کمرے کے کچے فرش پر گھاس سے بنی ہوئی دو تین چٹائیاں بچھی تھیں۔ دو تین چوہیاں اِدھر اُدھر بھاگ پھر رہی تھیں۔میں نے خدا کا شکر ادا کیا، وضوکیا اور قبلے کی سمت دریافت کرکے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں۔ ابھی مَیں چٹائی پر لیٹنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ میرے میزبان نے کھانے کی پوٹلی کھولی اور مجھے بھی کھانے کی دعوت دی۔ سخت بھوکا تو تھا ہی۔ سوکھی روٹی کے ساتھ آلو کی بھُجیا تھی۔ ٹیوب ویل کے نمکین پانی سے کھا کرخوب مزا آیا۔ پھر چٹائی پر لیٹتے ہی شدید تھکاوٹ اور نیند کے غلبے سے بے ہوش ہوگیا۔
صبح سات آٹھ بجے آنکھ کھلی تو جسم کا انگ انگ درد کر رہا تھا۔ دو تین انگڑائیاں لے کر اُٹھ بیٹھا۔ وضوکیا، نماز پڑھی اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ ٹیوب ویل بند تھا، میرا رات کا ساتھی اپنا سامان سمیٹے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ مَیں نے بھی اپنا سامان سمیٹا۔ ہم نے مصافحہ کیا۔ اُس نے ٹیوب ویل کی کوٹھڑی کو تالا لگا یا۔ میرے پو چھنے پر اس نے اپنا نام میر خان جتوئی بتایا اور مجھے مستونگ میں میری منزل کی طرف انگلی کا اشارہ کرکے بتادیا۔ پھر سلام کہہ کروہ ساتھ والی پہاڑی کی طرف چل دیا اور مَیں مستونگ شہر کی طرف۔ مَیں ابھی کچھ ہی دُور چلا تھا کہ مجھے ایک ٹیلے کی اوٹ سے اپنے میزبان پروفیسر اوراپنی ٹیم کے ممبر ان ایک سپاہی کی معیت میں آتے ہوئے نظر آئے۔ اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی خوشی سے دُور سے ہی السلام علیکم کہا اور مجھ سے حال احوال دریافت کیا۔ مَیں نے مختصرًارات کی کہانی کہہ سنائی۔ پروفیسر صاحب نے ایک لمبا ٹھنڈا سانس لے کر اپنی بپتا یوں سنائی کہ ہم نے آپ کا رات گئے تک انتظار کیا اور پھر گھبراہٹ میں مَیں نے پولیس سٹیشن فون کیا تو مجھے ساری ٹیم کو لے کر تھانے آنے کے لیے کہا گیا۔ ہم وہاں پہنچے تو پہلے ہمارے بیان لیے گئے اور پھر اس شبہے میں کہ آپ کو آپ کی ٹیم نے قتل کر دیا ہے، ہم سب کو حوالات میں بند کر دیا گیا جہاں ہم نے رات گزاری۔ پھر صبح ہو تے ہی ہم ایک سپاہی کی سرکردگی میں آپ کی تلاش میں نکلے تھے۔ شکر ہے آپ بخیریت ہمیں مل گئے ورنہ پتہ نہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوتا۔
چنانچہ ہم واپس مستونگ تھانے میں پہنچے جہاں مَیں نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا اور اس ثبوت کے طور پر کہ ہم سرکاری ڈیوٹی پر ہیں سا ئنس فاؤنڈیشن کا خط اور اپنا شنا ختی کارڈ وغیرہ انہیں پیش کیا۔ اس طرح ہماری جان بخشی ہو ئی۔
تب تک ہمیں ربوہ سے نکلے تقریباً ایک ہفتہ ہو چلا تھا اور پھر مستونگ میں رات کی ناگہاں پریشانی نے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا کہ صرف ایک دن کو ئٹہ کے گردونواح میں کولیکشن کر کے واپس ربوہ چلا جائے۔اگرچہ کو ئٹہ کے نواحی پہاڑی علاقوں میں ہم دو دن کولیکشن کرچکے تھے۔ چنانچہ واپسی سے پہلے ہم نے کوئٹہ کے اردگرد ریگستانی اور نخلستانی علاقوں کو کولیکشن کے لیے منتخب کیا۔
بلوچستان اور سندھ میں پہاڑوں سے بارش یا برف کے پگھلنے سے پانی زیرزمین قدرتی ندی نالوں (جنہیں کاریز کہا جا تا ہے) کے ذریعے میدانی علاقوں میں بہنے لگتا ہے جہاں سے اسے نکال کر آبپاشی اورانسانی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ کاریز میں بہتے ہوئے پانی میں کائی کے لچھوں کے درمیان مختلف مچھلیاں اور مینڈک ہمیں ملے جن میں خاص طور پر ایک ایسا مینڈک بھی تھا جس کی ہمیں مستونگ میں تلاش تھی۔ وہ یہاں وافرتعداد میں موجود تھا۔ اس کے علاوہ پانی کے گرد گھاس میں مختلف اقسام کے کِرلے بھی ہمیں ملے۔ چنانچہ اگلے دو دنوں میں ہم نے مختلف ہیبیٹیٹ سے کو لیکشن کی۔

koi-fish

میدانی علاقوں میں مختلف اطراف سے آنے والی کاریزوں کا پانی جمع ہو کر جھیلیں بناتا ہے۔ ان جھیلوں کے اردگر خود رو درختوں اور جھاڑ پھونس پر نخلستانوں کے صحرائی جنگلی چرند پرند بسیرا کرتے اور پتوں اور پھلوں پر چرتے ہیں جبکہ نخلستانوں کے خوشگوار ماحول میں علاقائی صحرائی کِرلے اور سانپ رہتے ہیں اور آبی کیڑے مکوڑوں کا شکار کر تے ہیں۔ یہاں ہمیں کچھ ایسے جانوربھی ملے جو اس سے پہلے ہم نے ریکارڈ نہیں کیے تھے۔ بہرحال ہم دو دن ان صحرائی جانوروں کی تلاش میں سرگرداں رہنے کے بعد واپس ربوہ روانہ ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں