کوٹلی (کشمیر) اور اُس کے ملحقات میں احمدیت کا نفوذ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 22؍اپریل 2024ء)

کشمیر کا ایک خوبصورت قصبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ25؍جنوری2014ء میں مکرم محمد ریحان ندھیری صاحب کے قلم سے کوٹلی (کشمیر) کے علاقے میں احمدیت کے نفوذ سے متعلق ایک تاریخی مضمون شامل اشاعت ہے جسے ’’تاریخ احمدیت کشمیر‘‘ از مکرم محمد اسداللہ قریشی صاحب مربی سلسلہ کی مدد سے قلمبند کیا گیا ہے۔
کوٹلی شہر کو چاروں طرف سے بلندوبالا پہاڑوں نے ایک قلعے کی صورت میں ڈھکا ہوا ہے۔ پہلے یہ ضلع میرپور کی ایک تحصیل تھی مگر اب ضلع کی حیثیت رکھتا ہے۔
کوٹلی 1947ء سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں جماعت احمدیہ کا مرکز بھی ہے۔
کوٹلی کے ابتدائی احمدی حاجی امیر عالم صاحب اور کرم دین صاحب کھوکھر ہیں۔ 1914ء میں یہاں حضرت مولوی محبوب عالم صاحبؓ اور مولوی اللہ دتہ صاحب ساکن سوناگلی (پونچھ) تشریف لائے جن کے ذریعے عام لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔ بعدازاں حضرت مولوی محبوب عالم صاحبؓ کبھی کبھی یہاں تشریف لاتے رہے لیکن شدید مخالفت کی جاتی اور عوام النّاس کو کہا جاتا کہ وہ آپؓ کی بات نہ سنیں۔ مگر ان حالات میں مکرم کرم دین کھوکھر صاحب مخالفت کی پروا کیے بغیر حضرت مولوی صاحبؓ کو اپنے ہاں ٹھہرایا کرتے۔ 1922ء میں آریوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے اور شدھی بنانے کی تحریک کے ایام میں حاجی امیر عالم صاحب نے کوٹلی میں جلسہ عام کا انعقاد کیا جس کے لیے ایک احمدی مربی مکرم عبدالحق صاحب ودیارتھی تشریف لائے اور جلسہ میں آریوں کے اعتراضات کے مدلّل جوابات دیے۔ اس کے نتیجے میں عوام پر اچھا اثر پڑا جبکہ حاجی امیر عالم صاحب نے (جو کہ پہلے سے احمدیت سے متاثر تھے) امیرغیرمبائعین لاہور کی بیعت کرلی۔ لیکن بعدازاں ایک رؤیا کی بنا پر کرم دین کھوکھر صاحب اور حاجی امیر عالم صاحب نے قادیان جاکر 1926ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی جس کے بعد ان کے عزیز و اقارب بھی جو کہ حضرت مولوی محبوب عالم صاحبؓ کی بزرگی اور عبادت گزاری سے متاثر تھے، احمدی ہوگئے۔
حاجی امیر عالم صاحب کے احمدیت قبول کرنے اور پھر دعوت الی اللہ شروع کرنے پر شدید مخالفت کا آغاز ہوگیا۔ آپ چونکہ اہل سنت کے ہاں معزز تھے جبکہ کرم دین صاحب اہل حدیث کے معزز فرد تھے چنانچہ ہر دو فرقوں نے مل کر احمدیت کی شدید مخالفت کی اور کوٹلی میں بڑے بڑے مخالف علماء بلاکر مباحثات و مناظرات منعقد کروائے۔ ان مباحثوں کے نتیجے میں ہر دو احمدی بزرگان کے مدلّل جوابات سے احمدیت کی سچائی زیادہ نکھر کر سامنے آئی اور خدا کے فضل سے بکثرت بیعتیں ہونے لگیں۔
کوٹلی میں جب احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو انہوں نے ایک جامع مسجد بلیّاہ محلہ میں تعمیر کروائی۔ بعدازاں یہاں مربیان اور معلّمین بھی بھیجے جانے لگے۔ پہلے معلّم مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب مقرر ہوئے۔ اُن کے بعد مکرم سید عزیز احمد شاہ صاحب مربی تعینات ہوئے۔
مخالفین کی طرف سے ہونے والی شدید مخالفت اور اشتعال انگیزی کے اثرات کو دُور کرنے کے لیے جماعت احمدیہ کوٹلی نے 1963ء میں ایک جلسہ عام کے انعقاد کا اعلان کیا۔ اس پر مخالفین نے بڑا شور مچایا اور تھانے میں جا کر دھمکیاں دیں کہ اگر یہ جلسہ یہاں کیا گیا تو پھر خونریزی ہوجائے گی۔ اس پر حکومت نے بھی جلسہ کو ملتوی کرنے کا مشورہ دیا لیکن احمدیوں نے یہ مشورہ نہ مانا۔ جلسے میں شرکت کے لیے مرکز احمدیت ربوہ سے بھی چند بزرگان وہاں تشریف لے گئے جن میں حضرت قاضی محمد نذیر صاحب اور حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب بھی شامل تھے۔ جمعہ کے وقت جلسے کی کامیابی کے لیے دعائیں کی جارہی تھیں کہ مکرم مولانا اسداللہ قریشی صاحب نے یہ کشفی نظارہ دیکھا کہ ہم جلسہ گاہ کی طرف جارہے ہیں اور ہمارے امیر قافلہ محترم قاضی محمد نذیر صاحب چلتے چلتے سڑک پر ہی سجدے میں گرگئے ہیں۔ اس کشف کی تعبیر یہ کی گئی کہ ایک کامیاب جلسہ منعقد ہوگا۔ چنانچہ خدائی منشاء کے تحت عین وقت پر جلسہ کی اجازت حکومت سے مل گئی۔ الحمدللہ کہ اس جلسہ میں ملحقہ دیہات سے بھی عوام کی کثیر تعداد شامل ہوئی۔ علمائے سلسلہ کی تقاریر سے ان لوگوں کی غلط فہمیاں دُورہو گئیں اور اس کے بعد علاقہ بھر میں توقع سے بڑھ کر لوگ احمدیت کی آغوش میں آنے لگے۔
کوٹلی کے ابتدائی احمدی مکرم حاجی امیر عالم صاحب کا اصل وطن سلطان پور کنڈی (بارہ مولا کشمیر) تھا۔ آپ کے والد کا نام میاں کرم دین تھا۔ آپ اپنی قبول احمدیت کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ 1918ء میں راولپنڈی میں مولوی عبدالحق ودیارتھی اور پنڈت رامچندر دہلوی کا مناظرہ ہوا۔ جس سے میرے قلب پر احمدیوں کی قوت گویائی اور خدمت دین کا گہرا اثر پڑا۔ بعدازاں ہمارے قصبہ کوٹلی میں آریہ لیکچرار متواتر آکر اسلام پر شدید اعتراضات کرتے رہے۔اس پر مَیں نے احباب سے مشورہ کرکے لاہور کا رُخ کیا اور مولوی محمد علی صاحب امیر غیرمبائعین اور دیگر علماء سے مل کر امداد طلب کی جس پر مولوی عبدالحق صاحب کوٹلی بھیجے گئے۔ انہوں نے آریہ اعتراضات کا خوب ردّ کیا اور اسلام کی تائید میں لیکچر دیے۔ اس کے بعد میں نے دعا شروع کردی کہ اے اللہ! جس مرزا صاحب کے پیرو اسلام کی اس طرح خدمت کرتے ہیں اُس کے بارے میں میری راہنمائی فرما۔ کیا وہ جھوٹا ہو سکتا ہے؟ 1924ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے بارے میں بڑی واضح طور پر بذریعہ خواب راہنمائی فرمائی۔ پھر بعض اَور بھی خوابیں دیکھیں تو جاکر مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ مگر بعد میں کچھ تحقیق کی تو قادیان جاکر حضرت خلیفۃ المسیح کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جب سفر کرکے میرپور پہنچا تو وہاں قیام کے دوران ایک ایمان افروز خواب دیکھا جس سے میرا دل یقین سے بھرگیا کہ مَیں نے جو بیعت کا خط لکھا ہے وہ مقبول ہوا اور میں اب سچی جماعت میں شامل ہو گیا ہوں۔ چنانچہ قادیان جاکر بیعت کرلی۔
محترم حاجی صاحب نے باقی زندگی حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی ہدایت کے مطابق خدمت دین اور خدمت خلق میں گزار دی۔ چنانچہ جب فرقان بٹا لین بنی تو مع اپنے تین بیٹوں کے اس میں شامل ہوئے۔
کوٹلی کے ابتدائی احمدیوں میں مکرم کرم دین کھوکھر صاحب بھی شامل تھے۔ آپ اہل حدیث سے تعلق رکھتے تھے۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ حضرت مولوی محبوب عالم صاحبؓ کی لوگ جب مخالفت کرتے تو آپ اُن کو اپنے گھر لے جاتے اور خاطرداری کرتے۔ پھر حاجی امیرعالم صاحب سے متاثر ہوکر اُن کے ساتھ 1926ء میں قادیان جا کر بیعت بھی کرلی۔ پھر شدید مخالفت میں ثابت قدم رہے۔ اُس دَور میں ہندوؤں نے محض مخالفت کی بِنا پر دو ہندوؤں کے قتل کیس میں بھی ملوث کردیا جن کا آپ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی وہ کوٹلی میں قتل ہوئے تھے۔ یہ وہ دَور تھا جب ہندوؤں کی حکومت تھی۔ وکلاء اور جج بھی وہی ہوا کرتے تھے اس لیے مقدمہ سنگین نوعیت اختیار کرگیا۔ ان حالات میں بھی دعائیں کرتے رہے اور کسی قسم کی گھبراہٹ نہ دکھائی۔ بالآخر ایک عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو باعزت بری کرکے مخالفین کو نامراد کیا۔
٭…ضلع کوٹلی سے پندرہ میل کے فاصلے پر ایک شہر تتہ پانی واقع ہے جسے سہراگالہ بھی کہتے ہیں۔ یہاں ملک بہادر صاحب ولد ملک غریب خان نے اُس دَور میں احمدیت قبول کی تھی جب لیکھرام کی ہلاکت کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی تھی۔ پھر ملک بہادر صاحب آسٹریلیا چلے گئے اور و ہیں مقیم رہے۔
٭…تتہ پانی کے قریب برلبِ سڑک واقع ایک گاؤں رام باڑی ہے جس سے دو میل دُور ایک اَور گاؤں بھابھڑا ہے۔ دونوں دیہات کے لوگ باہم رشتہ دار ہیں۔ اوائل میں ہی حضرت محبوب عالم صاحبؓ یہاں تشریف لے گئے تھے اور اُن کی تبلیغ کے نتیجے میں چودھری سردار صاحب، چودھری فتح محمد صاحب اور چودھری جمعہ صاحب اور ان کے خاندان احمدی ہوگئے۔ چودھری سردا ر صاحب نے بیعت سے پہلے ایمان افروز خواب بھی دیکھا تھا۔ رام باڑی کی جماعت کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ 1961ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے یہاں کی احمدیہ مسجد کی بنیاد رکھی اور دعا کروائی۔ بھابھڑا کی جماعت کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ ضلع کوٹلی کے پہلے دو واقفین زندگی مکرم محمد شفیع صاحب اور مکرم محمد صادق احمد آفتاب صاحب کا تعلق یہاں سے ہے۔
٭…چرناڑی میں حضرت مولوی محبوب عالم صاحبؓ کے زیرِاثر چودھری منگو صاحب ولد رُستم، اُن کے بھائی چودھری مہر بخش صاحب، چودھری بھگا صاحب اور مولوی غلام محمد صاحب احمدی ہوئے۔بعد میں رفتہ رفتہ دیگر گھرانے بھی احمدی ہوتے گئے۔ یہاں کے ایک احمدی چودھری سواری صاحب ولد قمیہ کو قبول احمدیت کے نتیجے میں شدید بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک شادی کے موقع پر جن برتنوں میں انہوں نے کھانا کھایا ایک مخالف نے ان کو توڑ ڈالا۔ انہوں نے صبر کیا اور دعائیں جاری رکھیں۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُس شخص کا گھر جل کر تباہ ہو گیا جس نے اُن کے برتن توڑ ڈالے تھے۔ انہی دنوں میں انہوں نے کچھ خوابیں بھی دیکھیں جن سے ان کا ایمان اَور بڑھ گیا۔
٭…کوٹلی سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر واقع گاؤں برموچ کی آبادی پانچ چھ سو کے قریب ہے۔ راج محمد صاحب یہاں کے اوّلین احمدی ہیں جو پہلے برہمن ہندوتھے۔ اُن کا بیان ہے کہ جب مجھے مولوی محمد منیر صاحب کے ذریعہ تو حید کا پیغام ملا تو مَیں نے دل سے عقیدۂ توحید کو قبول کرلیا کیونکہ میرے والد صاحب بھی بُت پرست نہیں تھے بلکہ دل سے بُت پرستی کے خلاف تھے اور کبھی کبھی کلمۂ توحید بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ بلکہ مجھے بھی انہوں نے کلمۂ توحید پڑھا دیا تھا۔
٭…حضرت قاضی فیروزالدین صاحبؓ ندھیری کے اوّلین احمدی تھے اور دوسرے حضرت قاضی بہادر علی صاحبؓ تھے۔ ہر دو بزرگان نے حضرت مولوی محبوب عالم صاحبؓ کے ساتھ قادیان جا کر حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ پھر ان تینوں بزرگان کی دعوت الی اللہ سے ندھیری میں چودھری جمال دین صاحب، چودھری نور محمد فقیرو صاحب، عبدالعزیز ولد اللہ دتہ صاحب اور چودھری کرم دین صاحب ولد راج دین نے احمدیت قبول کی۔
٭…ندھیری سے تقریباً 2کلومیٹر کے فاصلے پر گوئی واقع ہے جہاں پہلے چودھری اللہ دتہ صاحب اور مولوی اللہ دتہ صاحب نے بذریعہ تحریر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی تھی۔ پھر چودھری گدی صاحب اور ان کے بیٹے چودھری بقا محمد صاحب عرف بھگا سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ ان کی اولاد سے بہت سے بعد میں مخلص خدام دین پیدا ہوئے۔ 1947ء میں مخالفین نے گوئی کے احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے محفوظ رکھا۔ 1953ء میں بھی کئی ناکام سازشیں ہوئیں مگر ان کے نتیجے میں متعدد بیعتیں ہوئیں۔
٭…ضلع کوٹلی میں ایک جماعت گلہاڑکالونی کے نام سے موسوم ہے۔
٭…ایک گاؤں بھڑالی ہے جہاں پر زیرتعمیر احمدیہ مسجد کو 2008ء میں مخالفین نے شہید کردیا تھا۔
٭…ایک نئی جماعت سہنی بھی ہے جو کہ پہلے گوئی کے ساتھ منسلک تھی۔ یہاں محترم محمد شفیع صاحب بطور معلم وقف جدید خدمت بجالا رہے ہیں ۔
٭…اس کے علاوہ ایک مقام سنیارہ ہے جہاں احمدی تو موجود ہیں لیکن باقاعدہ جماعت قائم نہیں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں