ہمیشہ زندہ رہنے والا ذریعہ ابلاغ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 28جنوری 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍جون 2013ء کا شمارہ اخبار الفضل کی ’’صدسالہ خصوصی اشاعت‘‘ ہے۔ اس شمارے میں مکرم محمود احمد اشرف صاحب اپنے مشاہدات کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے گھر میں ایک ہی اخبار یعنی ’’الفضل‘‘ باقاعدگی سے پڑھا جاتا تھا۔ چنانچہ ناصر کاظمی کا ایک شعرمیرے ذہن میں الفضل کے حوالے سے کچھ یوں آرہا ہے کہ:

میں نے جب پڑھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام پڑھا تھا

ویسے الفضل سے میرا تعلق اس سے بھی پرانا ہے کیونکہ میری ولادت کا اعلان الفضل میں چھپا تھا۔ مَیں نے بہت بچپن سے ہی اپنے والدین کو دیکھا کہ وہ الفضل سے استفادے کے ساتھ ساتھ اس کے تقدّس کا بھی خیال رکھتے تھے۔ باقی اخبار ردّی میں بیچے جاتے تھے لیکن الفضل محفوظ رکھا جاتا تھا۔ حال اور مستقبل کی طرح الٰہی سلسلوں کا ماضی بھی ایک زندہ حقیقت ہوتا ہے۔ الفضل سلسلے کی تاریخ کا ایک بہترین اور بنیادی ماخذ ہے۔ دیگر اخبارات تو معاشرے کے منفی پہلوؤں کے عکاس نظر آتے ہیں۔ الفضل وہ واحد اخبار ہے جو معاشرے کے منفی پہلوؤں کی کبھی بھی بےمقصد تشہیر نہیں کرتا۔ سوائے اس کے کہ بعض حادثات انسان کے لیے سامانِ عبرت مہیا کرتے ہیں اور ایسے منفی پہلو انسان کی نفسیاتی اور روحانی صحت کو برقرار رکھتے ہیں۔ یا پھر خداتعالیٰ نے مظلوم کو آواز بلند کرنے کی جو اجازت دی ہے اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

محمود احمد اشرف صاحب

میرا پہلا مضمون الفضل میں ہی شائع ہوا تھا۔ جب بھی کوئی مضمون الفضل کو بھجوایا تو اس کی اشاعت کے انتظار میں بےتابی سے وقت گزرتا۔ روزانہ اخبار لپک کر اسی نیت سے اٹھاتے کہ اپنا نام سرورق پر دیکھیں۔ ایک بار بہت انتظار کیا مگر مضمون شائع نہ ہوا تو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب سے ملاقات ہوگئی۔

مسعود احمد دہلوی صاحب

اُن سے پوچھا کہ میرا مضمون ’سلوک‘ کی کس منزل پر ہے؟ میرے فقرے میں جس قدر تصوّف تھا وہی میرے تصوّف کی انتہا بھی تھی۔ ایک مختصر مگر حوصلہ افزا جواب ملا اور جلد ہی وہ مضمون شائع ہوگیا۔
الفضل کا میری زندگی میں کیا کردار ہے؟ اس سوال نے مجھے اپنی ذات کے محاسبہ کا عمدہ موقع فراہم کیا ہے۔اگر لاکھوں انسانوں کی طرح سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے مجھے بھی آج نفس لوّامہ حاصل ہوا ہے تو اس کے حصول میں الفضل نے بھی ایک کردار ادا کیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں