CT سکین کے کثرت استعمال سے کینسر کا خطرہ – جدید تحقیق کی روشنی میں

CT سکین کے کثرت استعمال سے کینسر کے خطرات – جدید تحقیق کی روشنی میں
(اطہر ملک)

جدید ایجادات کے غیرمعمولی فوائد کے ساتھ ساتھ ان کے نقصانات سے آنکھیں بند کرنا عقلمندی نہیں ہوسکتی- ان میں سے ایکس ریز اور
CT سکین بہت اہم ہیں- اس حوالہ سے ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:
امریکن کالج آف آرڈیولوجی کے بورڈ آف چانسلرز کے سربراہ ڈاکٹر ارل وان مور نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردارکیا ہے کہ جدید طبی دَور کی اہم ایجاد CT سکین کے کثرت استعمال سے لاکھوں بالغ افراد اور بالخصوص بچوں میں کینسر کے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین کے مطابق CT سکین کے ذریعے Super X-rays جسم میں داخل ہوتی ہیں اور اِن کا شمار خطرناک قسم کی تابکاری شعاعوں میں کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال امریکہ میں 6 کروڑ 20 لاکھ CT سکین کئے گئے تھے جبکہ 1980ء میں ان کی تعداد 30 لاکھ تھی۔ گزشتہ سال CT سکین کروانے والوں میں صرف بچوں کی تعداد چالیس لاکھ سے زیادہ تھی۔ جائزے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جتنے بھی تشخیصی ٹیسٹ CTسکین کے ذریعے کئے جاتے ہیں، اُن میں سے ایک تہائی غیرضروری ہوتے ہیں۔ جبکہ الٹراساؤنڈ اور MRI بھی تشخیصی سکینگ کے طریق ہیں لیکن یہ CT سکین کے مقابلے میں اس لئے زیادہ محفوظ سمجھے گئے ہیں کہ ان میں تابکاری شعاعیں استعمال نہیں کی جاتیں۔ البتہ CT کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی مدد سے فوری طور پر نسبتاً کم قیمت میں اور کسی تکلیف کے بغیر جسم کے متأثرہ حصوں کی 3 Dimensional تصاویر حاصل کی جاسکتی ہیں اور ان تصاویر کی روشنی میں سرجری کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ CT سکین کے نتیجے میں تابکاری شعاعوں کی مقدار کا انحصار مشین کی قسم کے علاوہ مریض کی جسامت پر بھی ہوتا ہے کیونکہ فربہ لوگوں کو دبلے افراد کے مقابلے میں شعاعوں کی زیادہ مقدار دی جاتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ناگزیر صورت میں ایک دو بار CTسکین کروایا جاسکتا ہے تاہم ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مریض مختلف ڈاکٹروں سے اپنا علاج کرواتے ہیں اور کسی ڈاکٹر کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کسی مریض کے اس سے پہلے کتنے CT سکین ہوچکے ہیں۔ ریڈیولوجی کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ انہوں نے تیس سالہ ایسے مریض بھی دیکھے ہیں جن کی 18 سے زیادہ مرتبہ CT سکین ہوچکی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں