بلڈپریشر یعنی ہائپرٹینشن سے بچاؤ کے طریق نمبر 2 – جدید تحقیق کی روشنی میں

بلڈپریشر یعنی ہائپرٹینشن سے بچاؤ کے طریق نمبر 2 – جدید تحقیق کی روشنی میں
(شیخ فضل عمر)

٭ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کے بیس فیصد افراد ہائپرٹینشن یعنی ہائی بلڈ پریشر کی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے انہیں دل کے امراض کے علاوہ فالج کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔ تاہم ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ روز مرہ زندگی میں تبدیلی لاکر اس ہائی بلڈپریشر پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہاورڈ میڈیکل سکول کے ڈاکٹر جان فورمین نے اپنی ٹیم کے ساتھ گذشتہ 14برسوں میں ہائی بلڈ پریشر کے 83 ہزار افراد پر تحقیق کی ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ روزانہ تیس منٹ ورزش کرنے، نارمل وزن برقرار رکھنے، خوراک میں زیادہ پھل اور سبزیاں شامل کرنے، سرخ گوشت سے پرہیز کرنے اور ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر دوائیں استعمال نہ کرکے ہم ہائی بلڈ پریشر سے بچ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق طرز زندگی میں تبدیلی لانے سے ان افراد کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن کے خاندانوں میں یہ بیماریاں موروثی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر فورمین کا کہنا ہے کہ جن افراد نے اپنے معمولات تبدیل کئے ہیں، ان میں بلڈپریشر کا تناسب اسی فیصد تک کم ہوگیا ہے۔
٭ بعض ماہرین طبّ کا کہنا ہے کہ پچپن سال سے بڑی عمر کے لوگوں کو بلڈپریشر کو قابو میں رکھنے کے لئے دواؤں کا استعمال بہرحال کرنا چاہئے۔ وبائی امراض کی روک تھام کرنے والے پروفیسر میلکوم لا کا کہنا ہے کہ اِن دواؤں کے استعمال سے نہ صرف ہائی بلڈپریشر میں مبتلا افراد بلکہ نارمل بلڈپریشر والے لوگ بھی دل کی تکلیف سے نمایاں حد تک بچ سکتے ہیں۔ برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے لئے 147 جائزوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جن میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ افراد سے رابطہ کیا گیا تھا۔ اس تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بلڈپریشر کنٹرول کرنے والی زیادہ تر دواؤں سے ہارٹ اٹیک اور ہارٹ فیل ہونے جیسے مراحل کو ایک چوتھائی حد تک جبکہ دیگر امراض کے خطرات کو ایک تہائی تک کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تحقیق کرنے والے پروفیسر میلکوم لا اُس ’پولی پل‘ کے بھی خالق ہیں جو ماہرین کے خیال میں ہارٹ اٹیک اور دل کے دوسرے متعدد امراض میں کمی لانے کے لئے مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
لیکن دوسری طرف سٹروک ایسوسی ایشن کے جون مرفی کا کہنا ہے کہ دماغ کی شریان پھٹنے کی واحد وجہ ہائی بلڈپریشر ہوتا ہے اس لئے بلڈپریشر کو قابو میں رکھنے کے لئے ادویات کا استعمال ضرور کیا جانا چاہئے۔ تاہم چونکہ ان ادویات کے منفی اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں اس لئے یہ ادویات صرف انہی لوگوں کو تجویز کی جانی چاہئیں جو انتہائی خطرے سے دوچار ہوں۔ بلڈ پریشر ایسوسی ایشن کے مائیک رچ کا کہنا ہے کہ ’پرہیز بہرحال علاج سے بہتر ہے۔ اس لئے ہائی بلڈپریشر کو وزن کم کرکے، زیادہ پھل اور سبزیاں کھا کے، نیز کھانے میں نمک کی مقدار کم کرکے کنٹرول کیا جانا چاہئے۔
٭ سائنس ڈیلی کی ویب سائٹ پر اسرائیل کے ایک میڈیکل سینٹر میں کی گئی تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ ایک وائرس (CMV) کی انفیکشن میں مبتلا ہونے والے 60سے 99 فیصد افراد ہائیپرٹینشن یعنی ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اور اگر دل کی بیماری کے دوسرے عوامل بھی موجود ہوں تو یہ وائرس خون کی شریانوں کو سخت کرسکتا ہے اور خون میں انجماد کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 40 سال کی عمر تک بیشتر بالغ افراد پر یہ وائرس حملہ کردیتا ہے اگرچہ بہت سے واقعات میں اس کی کوئی علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔ کیونکہ جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ عام طور پر اُس وقت تک غیرفعال رہتا ہے جب تک جسمانی مدافعتی نظام کمزور نہیں پڑجاتا۔
چوہوں پر کئے جانے والے تجربات میں یہ معلوم ہوا ہے کہ اِس وائرس کی انفیکشن کے نتیجے میں چھ ہفتے کے اندر بلڈپریشر میں اضافہ ہوگیا تھا جبکہ جن چوہوں کو زیادہ کولیسٹرول والی خوراک دی گئی تھی ان میں سے 30فیصد میں بلڈپریشر بڑھنے کے ساتھ ساتھ شریانوں میں خون کے انجماد کی علامات بھی ظاہر ہوگئی تھیں۔ ایک اور تجزیے سے ماہرین کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وائرس سے متاثرہ چوہوں کے گردوں میں ایسی انفیکشن ہوئی جس سے ایسا مخصوص انزائم پیدا ہوا جو ہائی بلڈپریشر میں مبتلا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
٭ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ روزانہ پیدل چلنے اور سائیکل چلانے کی عادت عارضۂ قلب کو روکنے میں 65 فیصد تک مفید ثابت ہوتی ہے۔ 2ہزار 346 ؍افراد پر کی جانے والی اس تحقیق میں کار کے سفر، سائیکل چلانے ، پیدل چلنے، باغبانی کرنے اور دیگر روز مرہ کے کام کاج کے دورانیے کی شرح کا، نیز ماحول کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ ماہرین نے دیکھا کہ جسمانی سرگرمیوں پر مبنی امور عارضۂ قلب کو نمایاں طور پر کم کرتے ہوئے مجموعی صحت کو بھی بہتر بناتے ہیں، خاص طور پر بلڈپریشر، کولیسٹرول اور ذیابیطس کی شرح اور معدے کی بیماریاں بھی اس سے درست رہتی ہیں۔ ’’آرکائیوز انٹرنل‘‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کو پینی گارڈن لیرسن آف دی سکول آف پبلک میڈیسن اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولین نے مشترکہ طور پر مکمل کیا ہے۔
٭ ایک سائنسی تحقیق سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مختلف پھولوں اور پھلوں کی خوشبو ذہنی دباؤ کو نمایاں طور پر کم کرتی ہے۔ جرنل آف ایگریکلچرل اینڈ فوڈ کیمسٹری میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بعض اقسام کی خوشبو سونگھنے سے ذہنی دباؤ سے تعلق رکھنے والے مخصوص جین متحرک ہوجاتے ہیں اور خون کی کیمسٹری میں ایک مخصوص تبدیلی واقع ہوتی ہے جس سے ذہنی دباؤ کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
جاپانی سائنس دان اکیونا کامورا ور ان کی ٹیم کے ارکان کو اپنی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بعض خوشبو دار تیلوں کی مالش نہ صرف انسانی موڈ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے بلکہ جسمانی صحت کے لئے بھی مفید ثابت ہوتی ہے۔ ماہرین نے خوشبوؤں کے ذہنی دباؤ کی کیفیت پر اثرات کا جائزہ لینے بھی تجربات کئے تو معلوم ہوا کہ بعض خوشبوؤں کے سونگھنے سے خون کے خلیوں میں موجود اُن مخصوص مرکبات کی سطح تقریباً نارمل ہوگئی جو ذہنی دباؤ کی حالت میں بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح پھلوں میں لیموں، آم اور مالٹے کی خوشبو بھی ذہنی دباؤ کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں