محترم ڈاکٹر کریم اللہ زیروی صاحب

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جولائی و اگست، ستمبرواکتوبر 2023ء)

(مرتّب:بشارت الرحمن زیروی)

خاکسار کے بڑے بھائی ڈاکٹر کریم اﷲ زیروی صاحب 4؍ جنوری 2023ء کو واشنگٹن امریکہ میں وفات پا گئے۔ آپ گزشتہ کچھ عرصہ سے بیمار تھے اور Dialysis پر تھے۔ مسجد بیت الرحمٰن امریکہ میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور احمدیہ قبرستان کے قطعہ موصیان میں تدفین عمل میں آئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے خود نوشت حالاتِ زندگی دلچسپ انداز میں تحریر کیے ہیں جو کئی پہلوؤں سے سبق آموز بھی ہیں۔ ذیل کا مضمون اسی مضمون سے ماخوذ ہے۔

ڈاکٹر کریم اللہ زیروی صاحب

آپ رقمطراز ہیں کہ میری پیدائش 20؍ مئی 1940ء کو لاہور میں مکرم صوفی خدا بخش زیروی صاحب اور مکرمہ امۃالکریم زیروی بنت محترم بابوعبدالغنی صاحب انبالوی کے ہاں ہوئی۔ ہم مسجد احمدیہ دہلی دروازہ کے ساتھ کے مکانوں میں سے ایک مکان میں رہتے تھے۔ شاید دوسری میں ہی تھا کہ امی جان کے ساتھ انبالہ میں اپنے نانا جان کے ہاں رہنے چلا گیا جن کا درختوں کی چھال سے رنگ بنانے کا کارخانہ تھا۔ کارخانے کے ساتھ ہی ایک مکان میں رہائش تھی۔ وہاں بندر بہت کثرت سے ہوتے تھے۔ مَیں جب سکول سے آتا تو دیکھتا کہ امی گھر کے دروازہ میں کھڑی میرا انتظار کر رہی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی دُور سے کہتیں آہستہ آہستہ چلو کہیں بندر حملہ نہ کر دیں۔ جب تک مَیں دروازے تک نہ آ جاتا وہ کھڑی مجھے گائیڈ کرتی رہتیں۔ جب مَیں گھر کے اندر آجاتا تو گلے لگالیتیں اور دعائیں دیتیں۔
کچھ عرصے بعد میرے والدین سیالکوٹ آگئے اور کبوتراں والی مسجد کے پاس رہائش اختیار کرلی۔ یہاں پر مَیں نے سکول میں پڑھنے کے ساتھ قرآن کریم پڑھنا بھی سیکھا۔ میری دادی امام بی بی صاحبہ کی توجہ سے مَیں نے ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن کریم ختم کرلیا۔ مجھے قرآن کریم پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ مذاق میں بھی اگر کوئی قاعدہ چھپادیتا تو بھی مَیں ڈھونڈ کر لے آتا تھا۔
ایک سال کے بعد غالباً 1946ء میں ہم لاہور منتقل ہوگئے اور محمدنگر میں ایک احمدی کے مکان کے بالائی حصے میں رہائش اختیار کی۔ اس محلّے میں احمدی بکثرت تھے۔ تقسیم ہند کے اعلان پر حالات خراب ہوئے تو سکھ نیچے سے پتھر پھینکتے تھے تو امی اوپر سے گھر پر تیار کیے ہوئے مٹی کے گولے پھینکتی تھیں تاکہ وہ اُوپر نہ آجائیں۔ اباجان نے حضرت مصلح موعود ؓکی تحریک پر حفاظتِ مرکز کے لیے زندگی وقف کردی۔ وہ قادیان جانے کے لیے روزانہ صبح لاہور ریلوے اسٹیشن پر جاتے اور گاڑی میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے واپس آ جاتے۔ ایک دن بڑی کوشش سے جگہ مل گئی اور بڑی مشکل سے وہ قادیان پہنچ گئے۔ وہ ابتدائی 313درویشوں میں شامل تھے۔ وہ مستقل قادیان میں رہنا چاہتے تھے لیکن فیملی پاکستان میں ہونے کی وجہ سے حضورؓ نے واپس آنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ وہ پاکستان آکر سیالکوٹ میں واقع ملٹری پیراشوٹ فیکٹری میں حاضر ہوگئے جہاں سے اُن کی ٹرانسفر مری میں ہوگئی۔ ربوہ میں پہلا جلسہ سالانہ 15و16؍اپریل 1949ء کو منعقد ہوا تو اس میں شامل ہونے کے لیے ہم مری سے ربوہ آئے۔ ایک بیرک میں کلّر والی زمین پر چادر بچھا کر سونے کا انتظام کیا۔ جلسہ ریلوے اسٹیشن کے قریبی میدان میں ہوا تھا۔حضورؓ کے خطابات سنے۔

بشارت الرحمن زیروی صاحب، مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب، ڈاکٹر کریم اللہ زیروی صاحب، مولانا عطاءالکریم شاہد صاحب، حبیب الرحمٰن زیروی صاحب اور مولانا محمود احمد بنگالی صاحب

کچھ عرصے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر اباجان نے اپنی زندگی وقف کردی۔ حضورؓ نے وقف قبول فرمالیا تو اباجان فوج سے استعفیٰ دے کر ربوہ شفٹ ہوگئے۔ اسٹیشن کے سامنے کچی بیرکس تھیں جن میں کسیر بچھاکر ہم نے رہائش اختیار کی۔ پانچ چھ ماہ بعد کچھ کوارٹر بن گئے تو ہمیں دو کمروں والا ایک مکان مل گیا۔ نور ہسپتال کے ساتھ کچی اینٹوں سے مسجد مبارک بھی بن چکی تھی۔ ربوہ میں مَیں چوتھی کلاس میں مسجد سکول میں داخل ہوا۔ یہ مسجد سکول چوتھی کلاس تک تھا۔ ماسٹر مولا بخش صاحب انچارج تھے۔ پہلی سے تیسری جماعت تک لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ کلاسیں ہوتی تھیں۔ پانچویں کے لیے تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں جانا پڑتا تھا۔ ایک گاڑی ’ماڑی انڈس‘ رات ڈیڑھ بجے ربوہ سے گزرتی تھی جس میں ہم بہت سےبچے جو کہ مختلف کلاسوں میں پڑھتے تھے چنیوٹ چلے جاتے۔ 2بجے گاڑی چنیوٹ پہنچ جاتی۔ سکول8 بجے کھلتا تھا اور ریلوے سٹیشن سے تقریباً ڈیڑھ میل دُور تھا۔ ہم رات دوبجے سے صبح سات بجے تک پلیٹ فارم کے بینچوں پر سوجاتے اور صبح اٹھ کر ہاتھ منہ دھو کر پیدل سکول چلے جاتے۔ سکول ختم ہونے پر پیدل بس اڈے پر جاتے اور تانگہ لے کر ربوہ آیا کرتے۔ اباجان بھی کچھ عرصہ سکول میں پڑھانے کے لیے ڈیوٹی کے طور پر جاتے رہے۔
ایک رات مجھے اٹھنے میں دیر ہو گئی تو بھاگ کر گاڑی تو پکڑ لی لیکن جس دروازے سے چڑھا وہ اندر سے بند تھا۔ چنانچہ باہر ہی لٹکا رہا۔ جب گاڑی دریا کے پہلے پُل پر سے گزری تو سردی سے کانپ رہا تھا۔ دوسرے پُل سے پہلے گاڑی کے اندر کسی مسافر کو مجھ پر رحم آ گیا اور اس نے دروازے کی کھڑکی کھول کر مجھے کھینچ کر گاڑی کے اندر کرلیا۔
ایک سال بعد سکول ربوہ منتقل ہوگیا تو ششم کلاس اس میں پڑھی۔ خدا کے فضل سے مَیں ریاضی میں اچھا تھا اور آٹھویں جماعت میں وظیفہ کا امتحان دینے والوں میں شامل تھا۔ لیکن دوسرے مضامین میں کم نمبر آنے کی وجہ سے وظیفہ نہ مل سکا۔ نویں کلاس میں عربی یا ڈرائنگ میں سے ایک مضمون کا انتخاب کرنا ہوتا تھا۔ مَیں نے پہلے ڈرائنگ رکھی لیکن جلد ہی بدل کر عربی کا انتخاب کر لیا۔ میرا حساب بہت اچھا تھا جبکہ باقی مضامین عام سے تھے۔ انگریزی خصوصًا بہت کمزور تھی۔ حساب میں اتنا اچھا تھا کہ محترم ماسٹر عبدالرحمٰن صاحب نے کتاب ’مدینۃ الریاضی‘ تیار کی تو ماڈل مشقوں کو حل کرکے جواب تیار کرنے کا کام میرے ذمّہ لگایا۔ چنانچہ خاکسار نے تمام مشقیں حل کرکے دیں جو کتاب میں شامل ہوئیں۔
میٹرک کے امتحانات سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سکول میں تشریف لاکر میٹرک کا امتحان دینے والوں سے مصافحہ اور خطاب فرماتے تھے۔ جس سال میں نے امتحان دیا تو حضورؓ بیمار تھے اس لیے خود تشریف نہ لاسکے لیکن از راہ شفقت ہم طلبہ کو قصر خلافت میں بلا کر مصافحے کا شرف بخشا۔
1955ء میں شدید مالی تنگی کی وجہ سے حضرت مصلح موعودؑ نے کچھ واقفین زندگی کو فارغ کر دیا جن میں اباجان بھی شامل تھے۔ مَیں اُس وقت میٹرک میں تھا۔ والدہ اور دادی جان کے علاوہ ہم چھ بہن بھائی تھے جن کی رہائش اور کھانے کا سوال تھا نیز بچوں کی پڑھائی کا مسئلہ بھی۔ سخت پریشان کُن صورتحال تھی۔ اباجان ایک بار باہر کی ملازمت چھوڑ کر زندگی وقف کر کے ربوہ آنے کے بعد یہاں سے باہر جانے کا خیال بھی ان کے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ کئی رشتہ داروں (خصوصاً میرے ماموں ڈاکٹر عبدالمغنی صاحب مرحوم آف راولپنڈی، ڈاکٹر عبدالسمیع غنی مرحوم آف کراچی اور خالو ملک محمد مستقیم صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری) نے مشورہ دیا کہ اُن میں سے کسی کے پاس آ جائیں لیکن اباجان نہ مانے۔ حتیٰ کہ ایک روز امی جان نے بھی کہا کہ اگر کہیں ملازمت تلاش نہ کی تو کریم اللہ کی پڑھائی نہیں ہو سکے گی۔ اس پر ابا جان نے بڑے یقین کے ساتھ جواباً کہا کہ مَیں ربوہ میں رہ کر ہی خدمت دین کروں گا اور انشاء اللہ العزیز کریم اللہ کی اعلیٰ پڑھائی بھی ضرور ہو گی۔ چنانچہ چند ماہ بغیر ملازمت کے رہنے کے بعد ربوہ میں ہی اباجان کو دفتر خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں پہلے سے نصف تنخواہ پر ملازمت مل گئی۔
چند ماہ بعد جون 1955ء میں امی جان امۃالکریم صاحبہ اپنے والد محترم بابو عبدالغنی صاحب انبالوی کی تیمارداری کے لیے لودھراں چلی گئیں۔ جبکہ خاکسار میٹرک کا امتحان دے کر اپنے ماموں ڈاکٹر عبدالسمیع صاحب کے پاس کراچی چلا گیا۔ امی جان کو ابھی لودھراں گئے قریباً ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ وہ 23جولائی 1955ء کو ہیضہ سے بیمار رہ کر صرف 37سال کی عمر میں اچانک وفات پا گئیں۔ خاکسار اس وقت پندرہ سال کا جبکہ سب سے چھوٹا بھائی بشارت صرف ایک سال کا تھا۔ ابا جان کو بھی اور مجھے بھی امی جان کی وفات کی اطلاع اس وقت ملی جب ان کو دفنایا جاچکا تھا۔ اتنے بڑے صدمے کے بعد ابا جان نے بڑی ہمت سے کام لیا اور ہم بچوں کی نگرانی و پرورش بطور باپ کے ہی نہیں بلکہ بطور ماں کے بھی کی۔ آپ بہت دعاگو اور خیال رکھنے والے تھے۔ اولاد کو دین کا خادم بنانے کی خواہش کی۔ سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ تینوں بیٹیوں کی شادیاں ایم ایس سی تک تعلیم دلانے کے بعد بڑی توجہ اور اصرار سے واقفین زندگی سے کیں۔

صوفی خدابخش صاحب

1958ء میں حضرت مصلح موعودؑ نے وقف جدید کا اجراء فرمایا تو اباجان نے دوبارہ زندگی وقف کرنے کی درخواست کی۔ درخواست منظورہوئی اور ابا جان کی تقرری دفتر وقف جدید میں ہوگئی۔ آپ 1992ء یعنی ریٹائرمنٹ تک قریباً 35سال دفتر وقف جدید میں بطور انسپکٹر، نائب ناظم مال اور آڈیٹر کے طور پر خدمت کرتے رہے۔ بیس سال تک مجلس وقف جدید کے سیکرٹری بھی رہے۔ اس طرح قریباً 24سال تک آپ کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ساتھ کام کرنے کی توفیق ملی جس پر آپ ہمیشہ فخر کا اظہار کرتے تھے۔
اباجان بچپن سے ہی بہت دعا گو تھے۔ بچوں کو بھی ہمیشہ دعائیں کرنے کی تلقین کرتے۔ قبولیت دعا اور خصوصاً خلفاء کی دعاؤں کی قبولیت پر بہت یقین تھا۔ ہر مشکل کے وقت میں خلیفہ وقت کو فوراً دعا کے لیے لکھتے اور خود بھی دعا میں لگ جاتے۔ میرے بچپن میں کئی دفعہ ایسے ہوا کہ مجھے خط دیا اور کہا کہ اسی وقت (خواہ کتنی شام ہو چکی ہو اور اندھیرا ہو چکا ہو) حضرت مصلح موعودؓ کے دفتر کے باہر جو چھوٹا سا لیٹر بکس لٹکا ہوا ہے اس میں ڈال آؤ۔ گھر سے دفتر کافی دُور تھا اور اندھیرا ہونے کی وجہ سے میں کہتا کہ اس وقت تو دفتر بند ہو چکے ہیں۔ ڈاک بھی کل ہی نکلے گی اس لیے کل صبح خط ڈال دوں گا۔ تو کہتے کہ نہیں، خط ابھی ڈالنا ہے، جب خط حضور کے لیٹر بکس میں چلا جائے گا تو حضور کی دعا شروع ہو جائے گی۔
جب ہم سے فون پر بات کرتے تو اگر مَیں یہ کہتا کہ سب کے لیے دعا کریں تو کہتے کہ آؤ دعا کر لیں اور اکثر ٹیلی فون پر ہی دعا کرانی شروع کردیتے۔ آپ خداتعالیٰ کے فضل سے صاحب رؤیا و کشوف تھے اوراکثر پورے ہونے والے خوابوں کا بطور نعمتِ خداوندی ذکر کیا کرتے تھے۔
جب اباجان لودھراں سے بچے اپنے ساتھ ربوہ لے آئے اور مَیں بھی کراچی سے ربوہ آگیا تو اباجان کی بالکل معمولی تنخواہ میں چند ماہ کالج نہ جاسکا۔ لیکن پھر ایک معجزہ ہوا۔ چندسال قبل خاکسار کی دادی جان نے 100روپے دفتر خزانہ میں جمع کرائے تھے لیکن وہ غلطی سے کسی اَور کے نام میں جمع ہوگئے اور دفتر نے رقم دینے سے انکار کردیا۔ جب دفتر خزانہ میں اباجان کی تعیناتی ہوئی تو آپ نے بہت محنت کرکے اُس رقم کا سراغ لگالیا اور دفتر کی غلطی ثابت کردی۔ چنانچہ دفتر نے 100روپے ادا کردیے۔یہ رقم بطور داخلہ فیس ادا کر کے خاکسار تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں داخل ہو گیا اور اس طرح میری کالج کی پڑھائی شروع ہو گئی۔
مَیں نے F.Sc میڈیکل میں داخلہ لے تو لیا لیکن کتابیں خریدنے کی استطاعت نہ تھی۔ کالج سے کچھ نوٹس لے لیتا، کبھی عاریۃً کسی دوست سے کوئی کتاب مل جاتی تو رات کو لالٹین کی روشنی میں یا سڑک پر بجلی کے کھمبے کی روشنی میں پڑھائی کرتا۔ اس طرح F.Sc کے دو سال ٹوٹی پھوٹی پڑھائی کر کے گزارے۔ دادی جان ہماری دیکھ بھال کے لیے ہمارے پاس رہتی تھیں لیکن ایک سال بعد (1957ء میں) وہ بھی وفات پا گئیں تو بشارت کی دیکھ بھال کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ آخر کسی کے گھر میں چھوڑنے کاانتظام ہوگیا تو یہ پریشانی دُور ہوئی۔

صوفی خدابخش زیروی صاحب

بیرون ربوہ سے بعض اچھے کھاتے پیتے احمدی گھروں کے لڑکے بھی ربوہ کالج میں پڑھنے آتے تھے۔ اُن میں ایک مبشر شیخ بھی تھے جن کے والد کافی امیر اور بڑے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے اپنی فیملی ربوہ بھیج دی تھی تا کہ بچے اچھے ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ ان امیر لڑکوں کے پاس کافی رقم ہوتی تھی جبکہ میرے پاس ایک پیسہ بھی نہ ہوتا تھا۔ ہوٹل میں چائے پینا اور ابلے انڈے کھانا بہت عیاشی سمجھی جاتی تھی اور مبشر اکثر میرے لیے یہ خرید لیاکرتا۔ اس طرح ہماری خوب دوستی ہوگئی۔ F.Sc میں کتابیں نہ ہونے کی وجہ سے مَیں پڑھائی زیادہ نہیں کرسکا تھا۔ پھر کالج کی فیس بھی کچھ بقایا تھی اور امتحان میں داخلے کے لیے بھی فیس نہیں تھی۔ گھر میں تو کچھ بھی نہ تھا۔ ربوہ میں سب ہی غریب تھے۔ رقم کا کہیں سے انتظام نہ ہو سکا۔ پھر معجزہ یہ ہوا کہ اچانک پروفیسر صوفی بشارت الرحمٰن صاحب نے کالج میں مجھے بلایا اور کہا کہ تمہارے ابّا جان کسی زمانہ میں آرمی میں ملازم رہے ہیں، آرمی نے سابق ملازمین کے بچوں کے لیے سکالرشپ کا اعلان کیا تھا، تم اس کے لیے درخواست دو۔ چنانچہ فارم پُرکر کے دے دیا تو کچھ رقم یکمشت مل گئی اور اس طرح کالج کی فیس اور امتحان کی فیس کی ادائیگی کا انتظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو گیا۔ امتحان کے پرچے بہت مشکل تھے، کم از کم مجھے بہت مشکل لگے۔
کالج کے تقریبًا تمام طالب علم جلسہ سالانہ کے موقع پر ڈیوٹی دیتے تھے لیکن مَیں مختلف دینی کتب دفتر سے لے کر سٹال لگاکر بیچتا تھا۔ گن کر کتابیں لانا اور پھر ان کو کتابوں کی دکان بنا کر رکھنا اور پھر بعد میں سارا حساب کرکے رقم دفتر والوں کو دینا کافی کام ہوتا تھا۔ مجھے اس سے کافی رقم مل جاتی تھی جس سے کالج کی فیس ادا کرنے اور درسی کتب خریدنے میں سہولت ہوجاتی تھی۔
گھر میں سب بھائی بہنیں مل کر بشارت کو سنبھالتے تھے۔ جب وہ تین سال کا ہوا تو اُس کو سوکھے کی بیماری ہوگئی۔ گوشت بالکل ختم ہو گیا تھا اور ہڈیاں نظر آنے لگیں۔ کسی علاج سے فرق نہ پڑا تو کسی نے بتایا کہ ایک مکھی کو مار کر گڑ میں چھپا کر اس کو کھلاؤ۔ اس نسخے پر عمل کیا گیا تو واقعتاً بشارت آہستہ آہستہ نارمل صحت مند ہو گیا۔ جب وہ بیمار تھا تو کافی روتا تھا۔ مَیں اس کو گود میں اٹھاکر باہر بہلانے لے جاتا تھا۔ ایک دفعہ دسمبر کے مہینے میں جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں سے بھری ہوئی گاڑی دکھانے لے گیا تو ریلوے سٹیشن پر مَیں نے دیکھا کہ بشارت سردی کی وجہ سے کانپ رہا ہے۔ دراصل اس نے صرف ایک قیمص اور جانگیہ پہن رکھا تھا۔ میں جلدی سے بھاگ کر اس کو گھر لے آیا اور اسے گرمی پہنچائی تو ٹھیک ہوگیا۔ بشارت کا ان حالات میں پلنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔
F.Scکا نتیجہ نکلا تو پاس ہونے والوں میں میرا نام شامل نہیں تھا۔ مَیں منہ بنا کر واپس چل پڑاتو آدھے راستے میں خیال آیا کہ میرا رول نمبر آخری تھا، شاید پڑھنے والے کو غلطی لگی ہو۔ چنانچہ واپس گیا تو مجھے حیرانی ہوئی کہ میرا نام پاس ہونے والوں میں شامل تھا۔ بہرحال مَیں نے خوشی سے گھر جاکر بتایا کہ پاس ہو گیا ہوں اگرچہ میڈیکل میں داخلہ یقینی نہیں تھا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ پشاور میں میڈیکل کالج نیا شروع ہوا ہے وہاں کوشش کرو۔ لیکن میرے پاس تو پشاور جانے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔چنانچہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس سی کیمسٹری میں داخلہ کی کوشش کی۔ پندرہ بیس سیٹیں تھیں اور ایک سو سے زیادہ امیدوار تھے۔ اکثر سفارشیں لے کر آئے ہوئے تھے۔ کسی نے حیدرآباد سندھ کے میڈیکل کالج کے ایک احمدی پروفیسر کا بتایا تو ابا جان کے ایک واقف کار نے اپنے کسی دوست کے نام خط لکھ دیا تھا کہ ٹھہرانے کا انتظام کردیں۔ چنانچہ وہاں چلاگیا اور انہوں نے ٹھہرانے کا انتظام کر دیا۔ پھر میڈیکل کالج گیا اورداخلے کے لیے درخواست دی۔ لیکن وہاں سندھ کے طلبہ کو ترجیح دی جاتی تھی اگرچہ اُن کے نمبر کم ہی ہوں۔ چنانچہ مجھے داخلہ نہ ملا۔ پھر کسی نے پشاور میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے کسی کا پتہ دیا کہ وہاں چلا جاؤں تو وہ ٹھہرالیں گے۔ رات 9بجے پشاور پہنچا اور ٹانگہ لے کر ایڈریس پر پہنچا تو پتہ چلا کہ وہ جا چکے ہیں۔ سخت تھکاوٹ اور پریشانی میں اِدھر اُدھر سونے کے لیے جگہ ڈھونڈ رہا تھا کہ بہت بڑا ہجوم دیکھا۔ معلوم ہوا کہ قصہ خوانی بازار میں خان عبدالقیوم خان کا خطاب ہے۔ وہاں جا کر ایک دوکان کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ تقریر رات بارہ بجے ختم ہوئی تو لوگ گھروں کو چلے گئے۔ میرے پاس کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور نیند بھی سخت آئی ہوئی تھی۔ پھر ایک مسجد نظر آئی تو اس کے اندر جا کر سو گیا۔ ایک دو گھنٹے بعد کسی نے جگا کر مسجد سے نکال دیا کہ یہاں نہیں سو سکتے۔ آدھی نیند سے اٹھنے اور تھکاوٹ کی وجہ سے بہت بُرا حال تھا۔ ادھر ادھر گھومتا رہا کہ ایک پارک نظر آیا اور مَیں اس میں گھاس پر ہی سو گیا۔ صبح اٹھ کر مسجد احمدیہ کا پتہ پوچھ کر وہاں پہنچا تو مسجد بند تھی کہ ظہر کی نماز پر کھلے گی۔ انتظار کرتا رہا۔ ظہر کی نماز پر خداتعالیٰ کے فضل سے ایک لڑکا عبدالرحیم سیلونی مل گیا جو ربوہ پڑھنے گیا تھا اور میٹرک میں میرا کلاس فیلو تھا۔ اس نے بہت مدد کی اور میڈیکل کالج ساتھ جاکر درخواست جمع کروائی لیکن داخلہ نہ ملا۔ وہ کسی گلاس فیکٹری میں کام کرتا تھا اور اس کو سستی چیزیں ملتی تھیں۔ مَیں نے اس سے شیشے کا ایک جگ خریدا جو ہمارے گھر میں شیشے کا پہلا جگ تھا۔ واپس آنے پر ابّا جی سخت ناراض ہوئے کہ سارے سال کے لیے گندم خریدنے کے لیے جو رقم ملی تھی وہ تم نے خرچ کر دی ہے، داخلہ بھی نہیں ملا اور گندم بھی نہیں خریدی گئی۔
پڑھائی کے لیے دو ہی صورتیں باقی تھیں۔ پہلی یہ کہ فزکس /کیمسٹری میں B.Sc میں داخلہ لے لوں لیکن اس کے لیے ریاضی کا جاننا بہت ضروری تھا اور مَیں F.Sc میڈیکل کی وجہ سے ریاضی نہیں پڑھ سکا تھا۔ دوسری صورت میں بیالوجی میں B.Sc کرتا لیکن اس کے لیے لائلپور جانا پڑتا تھا جو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ چنانچہ مجھے تعلیم الاسلام کالج میں اس شرط پر داخلہ مل گیا کہ ریاضی سیکھ لوں گا۔ B.Sc کی پڑھائی کافی مشکل تھی خصوصاً فزکس جس میں ریاضی کا عمل دخل بہت تھا۔دراصل میرے پاس کتابیں بھی نہیں تھیں۔ گھر کی مالی حالت اتنی کمزورتھی کہ کھانے کو بھی بہت کم ملتا تھا۔ کالج میں سخت پڑھائی کے بعد سخت تھکا ہوا گھر آتا تو ایک سوکھی روٹی اور تھوڑا سا ٹھنڈا شوربا پیالے میں ملتا تھا۔ لیکن کالج میں امیر لڑکوں کے ساتھ چائے وغیرہ پی لیتا۔ اس دوستی کا فائدہ یہ ہوا کہ کھانے کو مل جاتا تھا لیکن نقصان یہ ہوا کہ پڑھائی کی بجائے گھومنے پھرنے کا شوق پڑگیا۔ بہرحال B.Sc پاس کرلی۔
ایک دن مکرم ماسٹر محمدابراہیم جمونی صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام سکول ربوہ نے بلایا اور کہا کہ ہمیں فوری طور پر گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کے ہائی سکول میں ریاضی کے ٹیچر کی ضرورت ہے۔ مَیں نے ہاں کر دی تو کہنے لگے کہ کل صبح ہی لاہور چلے جاؤ۔ گھٹیالیاں کے ایک ماسٹر صاحب لاہور سٹیشن سے لے جائیں گے۔ میرے پاس ایک بھی اچھا کپڑا پہننے کے لیے نہ تھا۔ پتہ لگا کہ ربوہ میں ایک درزی کے پاس سلے سلائے کپڑے ہوتے ہیں۔ مَیں نے اُس سے ایک پینٹ اور قمیض خریدی اور اگلی صبح لاہور سٹیشن پر پہنچ گیا۔ پھر گھٹیالیاں سے آئے ہوئے ماسٹر صاحب کے ساتھ بدوملہی تک ٹرین میں اور پھر ٹانگے کے ذریعہ گھٹیالیاں پہنچا۔ رات جماعت کے اُس مکان میں ٹھہرا جس میں ہیڈماسٹر صاحب کا قیام تھا۔ گھٹیالیاں سکول وہاں سے دو میل دُور تھا۔ صبح مکرم غلام حیدر صاحب ہیڈماسٹر نے انٹرویو لیا اور پھر ایک کلاس میرے سپرد کردی۔ گاؤں سے چھوٹے بچے اور لڑکے دھوتیاں باندھے آرہے تھے۔ سکول آکر وہ دھوتیاں اتار کر شلوار پہنتے اور کلاسوں میںآجاتے۔ مَیں نے پڑھانا شروع کر دیا تو ہیڈماسٹر صاحب نے باہر کھڑے ہوکر جائزہ لیا اور بعد میں خوشی اور تسلّی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے بطور سیکنڈ ہیڈماسٹر کے ملازمت دے دی۔ تنخواہ 100 روپے مقرر ہوئی۔
سکول کے ساتھ ایک چھوٹا سا ہال اور دو تین کمرے تھے۔ ایک کمرہ مجھے مل گیا۔ چند ماہ بعد گھٹیالیاں میں ایک ٹیچر نے اپنے گھر میں مجھے رہنے کے لیے کمرہ دے دیا تو وہاں چلا گیا۔ راستے میں فصلیں لگی ہوئی تھیں۔ ایک شام میں اُسی ٹیچر کے ساتھ سکول سے گھر جا رہا تھا تو فصلوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے انہوں نے چِلّاکر کہا چھلانگ لگاؤ سانپ ہے۔ دیکھا تو میرے پاؤں کے پاس ایک بڑا سانپ تھا۔ اگر میں چھلانگ نہ لگاتا تو پاؤں سانپ کے اوپر جا پڑتا۔
طلبہ کے پاس بہت پرانی اور بوسیدہ کتابیں تھیں۔ مَیں نے ہیڈماسٹر صاحب سے نئی کتابوں کے لیے کہا تو وہ کہنے لگے کہ اپنی تنخواہ سے خرچ کرلو ہمارے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ چنانچہ مَیں دو مہینوں کی تنخواہ اکٹھی کرکے لاہور جا کر کچھ کتابیں خرید کر لایا اور طلبہ کو کچھ منافع پر فروخت کردیں۔
ربوہ میں چھوٹے بہن بھائی تھے جن کے پاس اچھے کپڑے بھی نہ ہوتے تھے چنانچہ مَیں ہر ماہ 75فیصد رقم اباجان کو بھیج دیتا اور باقی رقم میں گزارہ کرتا۔
مَیں مزید پڑھنا چاہتا تھا لیکن کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ M.Sc.کر سکوں۔ کسی نے مشورہ دیا کہ اگر بی ایڈ کر لوں تو کسی اچھے سکول میں زیادہ تنخواہ پر ملازمت مل جائے گی۔ چنانچہ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں بی ایڈ میں داخلہ کے لیے درخواست دے دی۔ انٹرویو تین پروفیسرلے رہے تھے۔ ربوہ کے بارہ میں بھی سوال پوچھے گئے۔ امیدواروں کی تعداد دیکھ کر لگتا تھا کہ سفارش لازمی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر مجھے داخلہ مل گیا۔ تب گھٹیالیاں سکول میں استعفیٰ دے دیا۔ ایک سال کا کورس تھا جومکمل کرکے ربوہ آگیا اور نتیجے کے انتظار کرنے لگا۔
ایک دن بازار میں مبشر شیخ مل گیا جو B.Sc کر کے کراچی کے ایک بینک میں ملازم تھا۔ اس کو میرے حالات کا علم ہوا تو اُس نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر محترم قاضی محمد اسلم صاحب بطور وائس چانسلر کام کر رہے ہیں جو احمدی ہیں اُن سے ملو اور داخلہ کی کوشش کرو۔ کہنے لگا کہ میرے ساتھ کراچی چلو اور وہاں میرے گھر میں ہی رہنا۔ مَیں نے اباجان سے ذکر کیا اور کراچی جانے کے لیے کرائے کے لیے رقم مانگی تو وہ کہنے لگے کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ کرائے کے علاوہ کچھ زائد رقم بھی چاہیے تھی۔ کسی سے قرض بھی نہ ملا۔ یکدم مجھے خیال آیا کہ اپنی گھڑی فروخت کردوں یا کسی کے پاس گروی رکھ دوں۔ گھڑی مجھے بہت پسند تھی۔ کالج کے دنوں میں بڑی خواہش تھی کہ گھڑی ہو۔ میرے دوستوں کے پاس گھڑی تھی لیکن میرے پاس کبھی اتنے پیسے نہ ہوئے تھے کہ گھڑی خرید سکتا۔ جب گھٹیالیاں میں ملازمت ملی تو گھڑی خریدی۔ لیکن اُسے بیچنا یا گروی رکھنا چاہا تو کسی نے دلچسپی نہ دکھائی۔ آخر ایک واقف کار کرامت اﷲ ابن ولایت حسین شاہ صاحب (جو کہ مکرم ہدایت اﷲ ہادی صاحب ایڈیٹر احمدیہ گزٹ کینیڈا کے بھائی تھے) نے میری پریشانی دیکھ کر گھڑی گروی رکھ کر 50 روپے دے دیے۔ بعد میں رقم ادا کرکے گھڑی مَیں نے واپس لے لی۔
یونیورسٹی میں پڑھائی شروع ہونے سے بڑی تگ و دو کے بعد ایک سکول میں ریاضی کے ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ سکول دوپہر ایک بجے سے شروع ہوتا تھا اور بہت دُور تھا۔ بس میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ۔ کسی نے مشورہ دیا تو ایک دوسرے سکول میں صبح آٹھ بجے سے بارہ بجے دوپہر تک کی ملازمت کرلی۔ بی ایڈ ڈگری کی وجہ سے مجھے بیسیوں امیدواروں میں سے منتخب کرلیا گیا۔ اب دو نوکریاں کر رہا تھا صبح 7 بجے گھر سے نکلتا تھا اور رات آٹھ بجے گھر آتا تھا۔ خیر کچھ رقم جمع ہو گئی تو ایک دو اچھے کپڑوں کے جوڑے اور ایک کوٹ خرید لیا۔ اس سے بہت سہولت ہوگئی پہلی دفعہ کوٹ پہنا تھا وگرنہ سویٹر سے ہی گزارہ کرتا تھا۔ یونیورسٹی میں کلاسز شروع ہوگئیںتومَیں نے نوکریاں چھوڑ دیں ۔
M.Sc کے دوران میرا ایک بہت اچھا دوست بن گیا۔ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل ہوئی تو اس نے بتایا کہ PCSIR لیبارٹری میں کچھ آسامیاں ہیں۔ چنانچہ ہم اکٹھے گئے اوردرخواست دی۔ انٹرویو ہوئے اور دونوں کو ملازمت مل گئی۔ میں یونیورسٹی میں دوم آیا تھا۔ یہ لیب شہر سے بہت دُور ایک بڑا ریسرچ سینٹر تھا جس میں کئی ڈاکٹر مختلف فیلڈز میں ریسرچ کر رہے تھے۔ دو بسوں پر جا کر پھر ایک میل پیدل چل کر وہاں جانا پڑتا تھا۔ لیکن اچھی تنخواہ ملتی تھی۔ ایک چوتھائی اپنے لیے رکھ کر باقی اباجان کو بھیج دیتا تھا۔ پھر ہم دونوں دوستوں نے فیصلہ کیا کہ Ph.D کے لیے اپلائی کیا جائے۔ چنانچہ ہم دونوں نے کینیڈا اور امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں اپلائی کیا۔ مجھے کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ میرے دوست کو امریکہ کی ایک یورنیورسٹی میں داخلہ ملا۔ اس کو پیسوں کی کمی نہیں تھی اس لیے آسانی سے امریکہ کا ٹکٹ خرید کر وہ چلا گیا۔ مجھے کینیڈاجانے کے لیے رقم کا انتظام کرنا تھا۔ اسی کوشش میں لگا ہوا تھا کہ یونیورسٹی سے اچانک خط آیا کہ ہمیں افسوس ہے کہ تم نے امریکہ کی کسی یورنیوسٹی میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے، اب ہم تمہاری جگہ کسی اَور کو دے رہے ہیں۔ یہ خط پڑھ کر سخت پریشانی اور حیرانی ہوئی کیونکہ میں تو ٹکٹ کا انتظام کر رہا تھا اور میں نے کوئی ایسا خط نہیں لکھا تھا کہ مجھے امریکہ میں فیلوشپ مل گئی ہے اور میں نہیں آرہا۔ لیکن چند دن بعد ہوسٹل میں میرے ساتھ رہنے والے لڑکے کو وہاں سے سکالرشپ کی آفر آگئی تو معلوم ہوا کہ اس نے ان کو لکھا تھا کہ کریم اﷲ نہیں آرہا اور اس کی بجائے مجھے بلایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اسے آفر کر دی اور وہ وہاں پڑھنے کے لیے چلا گیا۔
پھر میں نے امریکہ میں دس بارہ یونیورسٹیز میں داخلہ کے لیے درخواستیں بھیجیں تو تقریباً ایک ماہ کے بعد ایک پروفیسر کا خط آیا کہ وہ مجھے اپنے ریسرچ پروگرام میں شامل کررہا ہے اور فارماکالوجی میں پی ایچ ڈی کرنی ہوگی۔ جبکہ میں نے تو کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں اپلائی کیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ فارماکالوجی کے پروفیسر کو ایک ایسے طالب علم کی ضرورت تھی جس کی بنیاد کیمسٹری ہو۔چنانچہ بسم اﷲ کرکے میں نے اس پیشکش کو قبول کر لیا اور فارماکالوجی کے متعلق میڈیکل کالج کے ایک احمدی ڈاکٹر اور اُن کے ایک شاگرد سے معلومات اور کتابیں لے کر پڑھیں۔ جب خط ملا کہ یونیورسٹی آف لوئی میں داخلہ ہو گیا ہے اور مجھے میڈیکل سکول میں پڑھائی اور ریسرچ کرنی ہو گی تو یہ فکر ہوئی کہ میری تنخواہ کے بغیر اباجان گھر کے روزمرہ اخراجات کیسے پورے کرسکیں گے۔ اسی فکر میں تھا تو کسی نے بتایا کہ اگر میں اپنی لیب سے معاہدہ کر لوں کہ پی ایچ ڈی کرکے واپس آجاؤں گا اور تین سال تک کام کروں گا تو امریکہ میں تین سال کی پڑھائی کے دوران مجھے ماہوار تنخواہ جاری رہے گی۔ چنانچہ مَیں نے معاہدہ کی درخواست کی۔ منظوری سیکرٹری خزانہ اسلام آباد نے دینی تھی جو اُس وقت محترم ایم ایم احمد صاحب تھے۔ مَیں نے تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سے درخواست کی کہ اُن کے نام تعارفی رقعہ تحریر کردیں۔ انہوں نے فرمایا کہ بس جا کر ان کو کہنا کہ تم میرے شاگرد ہو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ دوسرے یہ ہوا کہ ربوہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی بابا بوٹا صاحبؓ ہوتے تھے۔ بہت دعاگو تھے۔ انہوں نے خاکسار کو کہا کہ اسلام آباد مجھے بھی ساتھ لے جاؤ اور سیر کرواؤ تو تمہارا کام ہو جائے گا۔ چنانچہ مَیں ان کو ساتھ لے گیا اور خوب سیر کروائی اور خوب دعائیں بھی کروائیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے منظوری ہو گئی اور پانچ سال تک خاکسار کی تنخواہ امریکہ میں پڑھائی کے دوران اباجان کو گھر پر ملتی رہی۔
(باقی آئندہ شمارے میں۔ ان شاءاللہ)
======================================================
(قسط دوم)

امریکہ میں ہوسٹل میں قیام تھا۔ کھانا باہر ریسٹورنٹ میں جاکر کھانا پڑتا تھا۔ کافی پریشانی ہوئی۔ چار پانچ روز گزرے تو ایک انڈین سے ملاقات ہوئی۔ میرے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ تین ہندوستانی لڑکے ایک امریکن بڑھیا کے مکان میں دو کمرے کرائے پر لے کر رہ رہے ہیں۔ کھانا خود ہی پکاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا مَیں بھی ان کے ساتھ رہ سکتا ہوں، کرایہ اور کھانے کا خرچ شیئر کرلوں گا۔ کہنے لگا کہ دوسرے دو لڑکوں سے بات کرکے کل بتاؤں گا۔ اگلے روز اُس نے بتایا کہ مَیں اس شرط پر اُن کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ کھانا پکانے میں اُن کی مدد کروں۔ میں فوراً مان گیا اور اگلے روز ہی اُن کے ساتھ رہائش اختیار کرلی۔ آٹا گوندھ کر روٹی پکانا اور کبھی کبھار سالن تیار کرنا میرے ذمہ تھا۔ گھٹیالیاں سکول میں یہ کام کرچکا تھا اس لیے کچھ مشکل نہ لگا۔مِل جل کر کام ہوجاتے تھے۔
ایک روز پتہ چلا کہ انجینئرنگ کالج میں ایک پاکستانی ہے تو مَیں اُس سے بھی ملا۔ چند ماہ بعد انجینئرنگ کالج میں دو انڈین مسلمان بھی حیدرآباد دکن سے آگئے۔ انہوں نے ایک گھر کے دو کمرے کرایہ پر لیے تو مَیں بھی ان کے ساتھ شفٹ ہوگیا۔ صبح 8بجے سے ایک بجے تک کلاس ہوتی اور شام تک لیب میں ریسرچ کرنی ہوتی تھی۔ میری انگلش تو پہلے ہی کچھ اچھی نہ تھی۔ کسی نے یہ بتایا کہ ٹی وی دیکھو تو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی۔ شروع میں تو ٹیلیویژن پر بھی کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا بول رہے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد انگلش سمجھ میں آنے لگی اور کلاس میں لیکچرز بھی سمجھ میں آنے لگے۔ کلاس میں اکثر طلبہ تو نوٹس لیتے تھے لیکن کچھ ٹیپ ریکارڈر پر لیکچر ریکارڈ کرلیتے۔ ٹیپ ریکارڈرکافی مہنگے تھے۔ میرے ساتھ ایک جاپانی لڑکا بطور ریسرچ فیلو کام کر رہا تھا۔ وہ ایک بار جاپان گیا تو میری درخواست پر ایک بہت اچھا اور سستا ٹیپ ریکارڈر لے آیا۔
پہلی سہ ماہی کے امتحان میں اچھے نمبر آگئے لیکن ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ایک مضمون میں چند نمبروں سے گریڈ A ملنے سے رہ گیا تو مَیں نے اپنے کلاس فیلو کے پیپر کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا۔ دیکھا کہ دو سوالوں کے جواب میرے دوست کے جواب سے ملتے تھے لیکن اُس کو ان سوالوں کے نمبر دیے گئے تھے جبکہ مجھے زیرو نمبر دیے تھے۔ میں پروفیسر کے پاس دونوں پرچے لے کر گیا اور اس کو بتایا کہ میرے جواب ٹھیک تھے لیکن مجھے نمبر نہیں ملے، اگر مل جاتے تو مجھے گریڈ A مل جاتا۔ کہنے لگا میں نے جو نمبر دینے تھے وہ دے دیے ہیں۔ پھر وہ مجھے سختی سے ڈانٹنے لگا۔ بعد میں پتہ لگا کہ وہ انتہائی متعصّب ہے۔ اس زمانے میں کالے گورے میں بہت تعصّب پایا جاتا تھا۔ میڈیکل سکول میں 120کی کلاس میں ایک بھی کالا سٹوڈنٹ نہ تھا۔
اسی طرح ایک اَور واقعہ ہوا۔کیمسٹری کے پرچہ میں مَیں نے سلفونک کے پاکستان میں استعمال ہونے والے نام یعنی سلفیورک ایسڈ وغیرہ لکھے تو پروفیسر نے اس پر کاٹا لگاکر بہت سے نمبر کاٹ لیے اور نوٹ لکھا کہ اگر دوبارہ غلط سپیلنگ لکھے تو فیل کردوں گا۔ اسی طرح کے اَور بھی عجیب و غریب واقعات ہوتے رہے۔
میرے کلاس فیلوز کو پاکستان کے متعلق کوئی آئیڈیا نہیں تھا۔ کہتے تھے تم لوگ جنگل میں رہتے ہو۔ بہت غریب ہو۔ تم لوگوں نے چین سے دوستی کی ہے اور چین پاکستان کو کھا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ ۔
شروع میں یونیورسٹی میں صرف دو تین پاکستانی تھے۔ لیکن دوسرے ممالک کے بہت سے طلبہ تھے۔ بیرونی ممالک کے طلبہ کا ایک انچارج ہوتا تھا جو اکثر غیرملکی طلبہ کو مختلف فائونڈیشنز میں بھیج کر ان کا امریکن لوگوں سے تعارف کرواتا تھا۔ اکثر مجھے بھی بھیجتا تھا اور میری تلاوت کرنے کی ڈیوٹی بھی لگاتا تھا۔ غیرملکی طلبہ کو امریکی عوام سے ملانے اور ہردو کلچرز کا تعارف کرانے کے لیے ایک سکیم بھی جاری تھی جس میں ہر غیرملکی طالب علم کو ایک امریکن خاندان سے ملا دیا گیا تھا او ر کہا گیا تھا کہ امریکہ میں یہ آپ کا خاندان ہے۔ جو امریکن فیملی ہمارے لیے مختص ہوتی تھی وہ واقعۃً ہم سے ایسے ہی سلوک کرتے تھے جیسے ہم ان کے بچے ہیں ۔ اکثر بہت فاصلے سے اپنے گھر سے ڈرائیو کرکے آتے، ہمیں اپنے گھر لے جاتے، کھانے کھلاتے اور پھر ڈرائیوکرکے ہمیں واپس چھوڑ کر جاتے۔
کچھ عرصے بعد ہسپتال میں چار پانچ پاکستانی ڈاکٹر ڈیوٹی کے لیے آگئے۔ ان سب سے ہماری دوستی ہو گئی تھی۔ وہ اکثر پاکستانی کھانا کھانے کے لیے ہمارے گھر آجاتے تھے۔ میری بیوی اُن کے لیے ساگ بناتی تھی جو کہ ان کو بہت پسند آتا تھا۔ ان ڈاکٹروں میں ایک احمدی ڈاکٹر عابد علی بھی تھے۔ ہماری بیویاں بھی دوست بن گئیں اور اکثر آنا جانا رہتا۔
میرے پروفیسر کو ایک بڑی ریسرچ گرانٹ ملی جس کے لیے ایک نئے ریسرچ پراجیکٹ پر اس نے کام کرنا تھا۔ اس ریسرچ کے لیے اُس نے ایک ایم ایس سی اور ریسرچ کا تجربہ رکھنے والا ہائرکرنا تھا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے میرا ریسرچ کے سلسلے میں اس پر بہت اچھا اثر تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ پاکستان سے کسی ایم ایس سی ریسرچ کا تجربہ رکھنے والے اور ایک پروفیسر کا انتظام کردوں چنانچہ میں نے پاکستان میں اپنی لیب کے ڈائریکٹر اور ایک دوسرے ریسرچر کا نام تجویز کیا تو پروفیسر نے ان دونوں سے رابطہ کیا اور ان کی قابلیت اور تجربہ کو مدنظر رکھتے ہوئے آفر دے دی۔ جلد ہی وہ دونوں امریکہ آ گئے اور ہماری لیب میں ریسرچ کا کام کرنے لگے۔
1964ء میں مجھےUniversity of Louisville, Kentucky میں پی ایچ ڈی کے لیے Fulbright-hays award اور ٹریول گرانٹ سے نوازا گیا تھا۔ 1968ء میں اعزاز کے ساتھ مَیں نے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ پانچ سو طلبہ میں مَیں اکیلا پاکستانی تھا۔ پھر پاکستان واپس آکر پشاور کی کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ لیبارٹری میں سینئر ریسرچ آفیسر متعیّن ہوگیا۔ 1972ء میں مَیں شیراز (ایران) کی ایک یونیورسٹی سے منسلک ہوگیا جہاں اعلیٰ کارکردگی کے نتیجے میں بین الاقوامی کینسر ریسرچ ٹیکنالوجی ٹرانسفر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1978ء میں مَیں امریکہ آگیا اور یونیورسٹی آف لوئس ول میں بطور وزٹنگ سائنٹسٹ تقرری ہوئی۔ بعد ازاں کیلفورنیا اور ٹینیسی کی یونیورسٹیز میں بھی بطور ریسرچ سائنٹسٹ کام کرنے کا موقع ملا۔ 1982ء میں نیوجرسی میں یونیورسٹی آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری میں کینسر پر ریسرچ کی اور اسی موضوع پر تدریسی فرائض بھی سرانجام دیے۔ یہاں سے 1993ء میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ریٹائر ہوا۔ اس تعلیمی و تدریسی سفر کے دوران میرے 65 ریسرچ پیپرز شائع ہوئے۔
امریکہ میں میرے زمانۂ طالبعلمی کے دوران میں ہی سیاہ فام اور سفید فام کے درمیان تصادم کافی بڑھ چکا تھا۔ صدر جے ایف کینیڈی (J. F. Kenedy) کے بھائی بوبی کینیڈی (Boby Kenedy) جو کہ الیکشن لڑ رہے تھے کو کسی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اسی طرح سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھرکنگ کو بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جس پر سیاہ فام لوگوں نے امریکہ کے کئی شہروں میں گھروں کو آگ لگا کر جلا دیا۔
پوسٹ ڈاکٹری فیلو شپ کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے مَیں ایک زبان کا کورس بغیر فیس کے کرسکتا تھا۔ میں نے رشین زبان کا کورس کرلیا۔ اس سے قبل جرمن زبان کا کورس کرچکا تھا کیونکہ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے دو غیرملکی زبانیں سیکھنا لازمی تھا۔ ایک اردو اور دوسری جرمن میری غیرملکی زبانیں تھیں۔لیکن رشین اور جرمن زبانیں استعمال نہ کرپانے کی وجہ سے زیادہ تر بھول گیا۔
جب میں واپس کراچی آگیا تو میری ٹرانسفر پشاور میں کی جانے لگی۔ بڑی پریشانی ہوئی اور ٹرانسفر رکوانے کی کوشش کرنے لگا۔ انہی دنوں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کراچی تشریف لائے اور شیخ رحمت اﷲ صاحب امیر جماعت کراچی کے گھر میں ٹھہرے۔ نمازیں بھی وہاں ہوتی تھیں۔ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ اپنی ٹرانسفر رکوانے کی مَیں پوری کوشش کر چکا تھا لیکن ناکامی ہی ناکامی تھی۔ ایک روز مغرب عشاء کی نمازیں حضورکے پیچھے پڑھنے گیا تو خیال آیا کہ حضور سے اپنی صورت حال بیان کرکے دعا کی درخواست کروں۔ چنانچہ جب حضورؒ نمازیں پڑھا کر کمرے کی طرف جا رہے تھے تو مَیں بھی جلدی سے پیچھے چل پڑا۔ مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب حضورؒ کے پیچھے تھے۔ اُن سے میں نے کہا کہ میں نے حضور سے دعا کی درخواست کرنی ہے۔ حضورؒ شاید سن رہے تھے، رُک گئے۔ میں نے السلام علیکم کے بعد حضورؒ سے اپنی صورتحال بیان کی تو حضورؒ نے صرف یہ فرمایا: پشاور چلے جائو۔ بس اتنا کہہ کر حضور کمرے میں چلے گئے۔ چنانچہ مَیں دل کڑا کرکے پشاور جانے کا پروگرام بنانے لگا۔


میرے ساتھ دو اَور لوگوں کی کراچی سے پشاور ٹرانسفر کی گئی تھی اور وہ دونوں بھی پشاور جانا نہیں چاہتے تھے۔ دراصل پشاور لیب میں بہت کم پی ایچ ڈی تھے جبکہ لیب کافی بڑی تھی اور چیئرمین پشاور لیب کو بڑھانا چاہتا تھا۔ جب ہم تینوں نے پشاور جانے سے انکار کر دیا تو چیئرمین نے پیشکش کی کہ پشاور میں رہنے کے لیے بغیر کرایہ کے مکان دیا جائے گا۔ اور یہ بھی کہا کہ وہاں 3مکان ہیں ان میں سے ایک مکان بہت اچھا ہے جو سب سے پہلے جائے گا وہ مکان اس کو دے دیا جائے گا۔ میں نے سوچا جب پشاور جانا ہی ہے اور حضورؒ نے بھی فرما دیا ہے تو کیوں نہ پہلے چلا جائوں۔ اس طرح اچھا مکان رہنے کو مل جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔ لیکن ایک مکان پہلے ہی کرایہ پر لے چکا تھا۔ پتا چلا کہ کوئی اَور شخص مکان کرایہ کے لیے ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ یہ مکان لینے کے لیے تیار ہوگیا اور جو رقم میں نے بطور بیعانہ مالک مکان کو دی ہوئی تھی وہ اُس نے مجھے دے دی۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے نقصان سے بچ گیا۔ اسی طرح جو فرنیچر میں نے خریدا تھا وہ بھی چند دیگر احمدیوں نے مجھ سے خرید لیا۔ الحمدللہ
پشاور کی لیب میں جب حاضر ہوا تو مجھے کہا گیا کہ مجھے کیمسٹری سیکشن میں لیب اور دو اسسٹنٹ ایم ایس سی مل جائیں گے اور مَیں ریسرچ کا کام شروع کردوں اور ساتھ ہی مجھے فارماکالوجی سیکشن میں بھی کام کرنا ہوگا۔چنانچہ میں نے کیمسٹری لیب میں کام شروع کر دیا اور دوایم ایس سی لڑکیاں میرے ساتھ کام کرنے لگیں۔ اسی طرح فارماکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں انچارج سے ملا۔ وہ اچھی طرح پیش آیا اور بتایا کہ آج کل کیا ریسرچ ہو رہی ہے۔ لیکن دراصل وہاں کوئی تحقیق نہیں ہو رہی تھی نہ ہی کوئی گرانٹ ملتی تھی۔ ریسرچ کے لیے جو کیمیکل وغیرہ درکار تھے اُن کے لیے رقم نہیں تھی۔ جو معمولی کیمیکل موجود تھے، ان کو استعمال کرکے ہی تھوڑی بہت ریسرچ کی جا رہی تھی یا پھر پودوں پر ریسرچ ہو رہی تھی۔ ریسرچ کے لیے اِدھر اُدھر سے اُگنے والی جڑی بوٹیاں اکٹھی کی جاتی تھیں۔ میں بھی صرف پودوں پر ہی تھوڑا بہت کام کر رہا تھا۔ سارا دن چائے کے دور چلتے اور گپ بازی ہوتی تھی۔ ان حالات میں اکثر ریسرچ کرنے والے بہت افسردہ اور مایوس ہو گئے تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ریسرچ کے لیے سہولتیں نہیں تھیں بلکہ عملے کی تنخواہ بھی بہت تھوڑی تھی۔ مثلاً مجھے سات صد روپے ماہوار تنخواہ میں ٹیکس وغیرہ کاٹ کرپانچ صد روپے ملتے تھے اور ہمارے گھر کا کھانے پینے کا خرچہ اتنا تھا، مہینے کے آخری نصف ادھار پر کھانے کا سامان خریدا جاتا تھا۔ان حالات میں میری تمام پڑھائی بھی ضائع ہو رہی تھی۔ چنانچہ مَیں نے انتہائی پریشانی کے بعد بیرون ملک واپس جانے کی کوشش شروع کر دی اور مختلف جگہ اپلائی کرنے لگا۔
مَیں یونین کا بھی ممبر تھا۔ جب نئے الیکشن ہوئے تو میرے ووٹ زیادہ آئے۔ اس طرح میں ایسوسی ایشن کا صدر بنادیا گیا۔ ایسوسی ایشن کی میٹنگ ماہوار ہوتی تھی۔ لیکن حالات کی وجہ سےپشاور لیبارٹریز سے اسلام آباد یونیورسٹی جانے کی بھی ناکام کوشش کر چکا تھا۔ ہر طرف سے مایوسی نظر آ رہی تھی کہ پڑھنے کے لیے کی گئی سب محنت اور ٹریننگ ضائع جا رہی ہے۔
جب پی سی ایس آئی آر لیبارٹری پشاور میں کام کرتے ہوئے تین سال ہوگئے اور مشکل سے گزارہ ہوتا تھا۔ سخت بوریت تھی۔ وہاں میرے ساتھ ایک اَور شخص جس نے یوکے سے تعلیم حاصل کی تھی وہ انچارج تھا ۔ اس کو اسلام آباد میں ایک اچھی جاب مل گئی تو وہ وہاں چلا گیا۔ اسی طرح تین چار لوگوں کا ایک اور گروپ تھا جو کہ میڈیسن بناتا تھا۔ اس گروپ کے انچارج کو ایران میں پہلوی یونیورسٹی میں ایک سال کے لیے ملازمت مل گئی تو وہ وہاں چلا گیا۔ لیکن میرا روزمرّہ معمول وہی رہا کہ معمولی سا کام کرکے پھر باقی تمام وقت دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ میں مصروف رہنا اور چائے پینا۔لیبارٹری کی اس روٹین سے میری بوریت انتہا کی تھی۔ انہی دنوں ہمارے ادارے سے ایران جانے والے ڈاکٹر اکرام حسن نے اپنے سابقہ شعبے کے ایک پروفیسر کو خط لکھا کہ ایران میں اُن کے شعبے میں ایک اَور ریسرچ سائنٹسٹ کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارا ساتھی کسی وجہ سے وہاں جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر کوئی اور اس ملازمت میں دلچسپی رکھتا ہو تو درخواست دے دے۔ مَیں نے یہ سنتے ہی ایک دو روز میں اُس ملازمت کے لیے درخواست دے دی۔ دو تین ہفتے گزر گئے کوئی جواب نہ آیا۔ مایوسی ہونے لگی کہ پتہ نہیں میرا خط وہاں پہنچا بھی ہے کہ نہیں۔ اس پروفیسر تک میرے تعلیمی کوائف پہنچے کہ نہیں۔ دل کو تسلی دی کہ خدا تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ اگر یہ خط نہیں پہنچا تو اس میں بہتری ہوگی۔ اپنی سوچوں میں گم تھا کہ ایک دن اچانک شیراز سے پروفیسر کا خط آیا۔ ڈرتے ہوئے کانپتے ہاتھوں سے خط کھولا۔ دل میں یہی خیال تھا کہ جواب نفی میں ہو گا اور جاب نہیں ملی ہو گی۔ جب خط پڑھا تو دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا کہ پروفیسر کو میری تعلیمی کوائف اور ریسرچ پسند آئی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں اس کے ڈیپارٹمنٹ میں بطور ایسوسی ایٹ ریسرچ آفیسر کام کروں۔ پودوں پر ریسرچ کے علاوہ مجھے میڈیکل سکول کے طالب علموں کو فارماکالوجی کے لیکچر بھی دینے ہوں گے۔
بہرحال ان حالات میں پی سی ایس آئی آر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کے سوااور کوئی چارہ نہیں تھا۔ بہتر مستقبل بنانے کے لیے امریکہ میں جا کر ملازمت اور ریسرچ کرنا ہی ایک طریقہ بھی مجھے نظر آتا رہا تھا۔ چنانچہ میں نے امریکہ سے پاکستان آنے کے فوراً بعد امریکن ایمبسی میں امریکہ میں امیگرینٹ ویزے کے لیے درخواست دے دی تھی۔ خیال تھا کہ اگر امیگریشن ہو گئی تو یہ ملازمت چھوڑ کر دوبارہ امریکہ چلا جائوں گا۔
خلفائے کرام کی دُور رس نگاہ سے اللہ تعالیٰ نے میری بارہا راہنمائی فرمائی۔ اُن دنوں ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے ملاقات کی تو حضورؒ نے پوچھا کہ امریکہ میں تم ریسرچ کرتے رہے ہو اور اب یہاں بھی ریسرچ کررہے ہو کونسی ایسی چیز ہے جو کہ ریسرچ کے لیے ضروری ہے اور یہاں نہیں ملتی۔ میں نے حضور کو بتایا کہ جب کیمیکل بنائے جاتے ہیں تو ان کا کیمیکل تجزیہ کرنا ہوتا ہے کہ یہ کیمیکل ٹھیک بن گئے ہیں یا نہیں۔ کیمیکل کا تجزیہ کرنے کے لیے یہ کیمیکل پاکستان سے باہر بھیجے جاتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ مجھے تفصیل بھیجو کہ یہ کیمیکل چیک والی مشین کتنے کی ہے اور کہاں سے ملے گی۔ چنانچہ مَیں نے پشاور جاکر حضور کو اس مشین کی تفصیلات بھجوا دی تھیں۔
خدا کے فضل سے خاکسار کو چار خلفائے کرام یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے دوران مصافحہ کرنے جبکہ دو خلفائے کرام یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے معانقہ کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔


بہرحال پھر امریکہ آکر لمبا عرصہ یہاں اپنی فیلڈ میں کام کرنے کی توفیق ملی۔ اس دوران خداتعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں مجھے دینی خدمات کی توفیق بھی ملتی رہی۔ 1993ء سے 1999ء تک صدر انصار اﷲ امریکہ رہا جس کے دوران ’’رسالہ النحل‘‘ کے متعدد شمارے شائع کیے جن میں ڈاکٹر عبدالسلام نمبر بھی شامل ہے۔ 1998ء تا 2007ء نیشنل سیکرٹری تعلیم کی حیثیت میں خدمت کی توفیق ملی۔ اپنی مقامی جماعت کے علاوہ احمدیہ مسلم میڈیکل ایسوسی ایشن اور احمدیہ مسلم سائنٹسٹ ایسوسی ایشن میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس عاجز کی انگریزی تصنیف “Welcome to Ahmadiyyat” کو بہت پسند فرمایا اور دعاؤں سے نوازا۔ حضورانور کے ارشاد پر مَیں نے اپنی اس کتاب کے حقوق جماعت کو وقف کر دیے۔ 2004ء سے 2014ء تک مجلہ النور اور احمدیہ گزٹ کی ادارت کے فرائض ادا کرنے کی توفیق بھی پائی جن کے متعدد خاص ایڈیشن بھی شائع ہوئے ۔ 2010ء میں حضور ایدہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے جامعہ احمدیہ کینیڈا کے شاہد Viva امتحان بورڈ کا ممبر بھی مقرر فرمادیا۔ انگریزی رسالہ ’’دی مسلم سن رائز‘‘ کے ادارتی بورڈ کا رکن بھی رہا۔ چھ کتابیں بھی تصنیف کیں۔ 1985ء میں برطانیہ میں انٹرنیشنل جلسہ سالانہ شروع ہونے پر ہر سال اس میں شامل ہونے اور حضور انور سے ملاقات کے ساتھ ساتھ تصویر بنوانے کا اعزاز 2017ء تک ملتا رہا۔


……٭……٭……٭……
خاکسار (مضمون نگار) عرض کرتا ہے کہ میرا مشاہدہ یہی ہے کہ محترم ڈاکٹر کریم اللہ زیروی صاحب جلسہ سالانہ کے ایام سے بھرپور استفادہ کی کوشش کرنے اور تمام پروگراموں میں شامل ہونے کی کوشش کرتے۔ آخری سال جب آپ جلسہ سالانہ برطانیہ میں شامل ہونے کے لیے امریکہ سے آئے تو آپ کا قیام میرے ہاں تھا۔ جلسہ سالانہ کے آخری روز صبح کے وقت آپ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ فوری طور پر ایمبولینس منگوائی گئی اور ہسپتال میں داخل کروایا گیا لیکن جب وہاں کافی دیر تک ڈاکٹر معائنہ کے لیے نہ آئے تو آپ کہنے لگے کہ جلسہ سالانہ کا پروگرام شروع ہونے والا ہے اور اب میری طبیعت بھی کچھ بہتر ہے اس لیے مَیں تو عالمی بیعت اور اختتامی خطاب سے محروم نہیں ہونا چاہتا۔ چنانچہ آپ نے ڈاکٹر سے کہا کہ مَیں اپنی ذمہ داری پر ڈسچارج ہونا چاہتا ہوں۔ پھر اجازت ملنے پر آپ ہمارے ساتھ ہی حدیقۃالمہدی تشریف لائے، عالمی بیعت اور اختتامی خطاب میں شرکت کی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بعد میں طبیعت بھی مزید بہتر ہوگئی۔
آپ کو سالانہ جلسوں میں شمولیت کا ازحد شوق تھا۔ 2017ء میں امریکہ میں ڈاکٹروں نے آپ کو گردوں کی تکلیف کے بعد ڈائیلائسز پر جانے کا مشورہ دیا تھا۔ قبل ازیں آپ کی بیگم محترمہ امۃاللطیف زیروی صاحبہ 2009ء سے ڈائیلائسز پر تھیں۔ لیکن پھر ڈاکٹر نے آپ کی یہ درخواست مان لی کہ ڈائیلائسز جلسہ سالانہ UK میں شمولیت کے بعد یعنی اگست 2017 سے شروع کیے جائیں۔ چنانچہ آپ آخری بار 2017ء میں جلسہ سالانہ UK میں شامل ہوئے۔ امریکہ میں آپ کی رہائش نیوجرسی میں تھی لیکن جلسہ سالانہ امریکہ میں شمولیت کی غرض سے جلسہ سالانہ کے ایام میں اپنے ڈائیلائسز کو جلسہ سالانہ کے قریبی سنٹر میں منتقل کروا لیتے تھے۔ اس طرح آپ کو آخر تک جلسہ سالانہ امریکہ میں شمولیت کی توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتی رہی۔2001ء میں آپ اپنے بیٹے ناصر محمود زیروی کے ساتھ واشنگٹن میں مسجد بیت الرحمٰن کے قریب نئے مکان میں شفٹ ہوگئے۔ خاکسار ان کی عیادت کے لیے گیا تو آپ بہت خوش ہوئے۔ربوہ کی پرانی یادوں کے علاوہ اکثر لنڈن جلسہ میں شمولیت کی باتیں کرتے جب ہمارے اباجان بھی جلسہ سالانہ میں شمولیت کی غرض سے ربوہ سے لندن آیاکرتے تھے۔ آپ نے اپنی تحریر کردہ کتابیں بھی دستخط کر کے خاکسار کو تحفہ دیں۔
آپ نے بڑی ہمت اور جواں مردی سے اپنی بیماری کا مقابلہ کیا۔ اپنی اولاد کی دینی اور دنیوی ترقیات اور اپنے خاندان پر اللہ تعالیٰ کے افضال کا ذکراکثر کرتے تھے۔حضور انور کو دعا کے لیے خطوط لکھنے اور MTA کے پروگرام دیکھنے کے علاوہ حضور انور کے خطبات جمعہ سننے میں باقاعدہ تھے۔ جب حضور انور کی طرف سے دعائیہ خط کا جواب آتا تو کئی دن تک انتہائی خوشی اور مسرت کے ساتھ تذکرہ کرتے تھے۔ 4جنوری 2023 ء بروز بدھ صبح ناشتہ کرنے کے بعد اچانک طبیعت خراب ہوئی تو لیٹ گئے اور کچھ ہی دیر میں وفات ہوگئی۔ وفات کے وقت عمر 83سال تھی۔ خاکسار بھی امریکہ گیا اور 6جنوری بروز جمعہ کو مسجد بیت الرحمٰن میں نماز جنازہ میں شامل ہوا۔ ہماری بھابھی جان امۃاللطیف صاحبہ بھی جنازے میں شامل تھیں اور بذریعہ وٹس ایپ رشتہ داروں سے کافی دیر باتیں بھی کرتی رہیں اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوئیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمام انتظامات مکمل کر دیے۔ لیکن خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ گھر پہنچنے کے کچھ دیر بعد ان کی طبیعت خراب ہوئی اور کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی ان کی بھی 6 جنوری بروز جمعہ 78سال کی عمر میں وفات ہوگئی۔ انا للہ انا الیہ راجعون ۔ آپ بھی موصیہ تھیں۔ ہفتے کو مسجد بیت الرحمٰن میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور اگلے روز تدفین عمل میں آئی۔ آپ ملک سیف الرحمٰن صاحب کی بیٹی تھیں۔ قادیان میں پیدا ہوئیں۔ بڑا علمی ذوق رکھنے والی پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ ایم ایس سی کیا ہوا تھا۔ جماعتی خدمات کی بھی ان کو توفیق ملی۔ آپ کی والدہ مکرمہ امۃالرشید شوکت صاحبہ رسالہ مصباح ربوہ کی مدیر رہی ہیں۔ آپ نے تین بیٹے اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے ہیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 20 ؍جنوری 2023 ءکو اپنے خطبہ جمعہ میں دونوں مرحومین کا ذکرخیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ حضورانور نے یہ بھی فرمایا کہ امۃاللطیف صاحبہ کے بھائی ملک مجیب الرحمٰن صاحب اپنی بہن اور بہنوئی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بہت محبت کرنے والا جوڑا تھا۔ انہوں نے بہت مشقتیں برداشت کیں لیکن کبھی کسی چیز کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی۔ میں نے انہیں کبھی کسی کے بارے میں کوئی منفی گفتگو کرتے نہیں دیکھا۔ دونوں علم کے گہرے سمندر تھے۔ زندگی کے آخری لمحات تک ہر کسی کے ساتھ محبت کرنے والے، ان کی ضروریات کا خیال رکھنے اور بے پناہ پیار و محبت کرنے والے تھے۔ ماشاء اللہ بڑی بھرپور اور بہترین زندگی گزاری۔ اپنے معاشرہ اور ماحول میں دوسروں پر نہایت مثبت اثر ڈالنے والے اور اچھا اثر و رسوخ رکھنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں